Unitجواب:پوری نماز ایک اکائی u ہے۔ رکعتوں کوالگ الگ کرکے ایک رکعت کودرست اور دوسری رکعت کونادرست قرار دینا صحیح نہیں۔ یا توپوری نماز صحیح ہوگی یا پوری فاسد ہوگی۔ اگر کسی غلطی کی وجہ سے امام صاحب کی نماز فاسد ہوگئی اور انہیں دہرانی پڑی تو تمام مقتدیوں کوبھی نماز دہرانا ہوگی۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس رکعت میں غلطی تھی ، اس میں شریک نہیں تھا، اس لیے ان کی صحیح رکعت میں ایک اوررکعت شامل کرکے میری نماز درست ہوگئی۔ اس بنا پر ان صاحب کی نماز نہیں ہوئی۔ انہیں اس کی قضا کرلینی چاہیے۔
()
جواب: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے طریقہ نماز سے متعلق جواحادیث مروی ہیں ، ان میں سے بعض میں یہ صراحت موجود نہیں ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد آپ ہاتھ باندھ لیتے تھے البتہ بعض میں اس کاذکر ہے۔ احناف ، شوافع اورحنابلہ نے موخر الذکر احادیث کے پیش نظر ہاتھ باندھنے کوسنت قرار دیا ہے، جبکہ امام مالک کے نزدیک وہ احادیث قابلِ ترجیح ہیں جن میں ہاتھ باندھنے کا تذکرہ نہیں ہے۔
موطا امام مالک میں مذکور بعض احادیث میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے۔ مثلاً حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں:کَانَ النَّاسْ یْومَرْونَ اَن یَّضَعَ الرَّجْلْ الیَدَ الیْمنٰی عَلَی ذِرَاعِہِ الیْسرَیٰ فِی الصَّلاَۃِ (حدیث نمبر ۷۰۸)’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نمازمیں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھے۔‘‘اس حدیث کی بنا پر امام مالک ہاتھ باندھنے کو’مندوب‘ کہتے ہیں ، لیکن وہ اسے سنت نہیں قراردیتے۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ، عبدالرحمن الجزیری ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۲۴ھ : ۲۲۷۱)
علامہ ابن رشد مالکی نے اپنی تصنیف ’بدایۃ المجتہد ‘میں امام مالک کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ ہاتھ باندھنا افعال نمازمیں سے نہیں ہے ، بلکہ وہ استعانت کے قبیل سے ہے۔ اسی لیے امام مالک نے نفل میں اس کی اجازت دی ہے ، فرض میں نہیں۔‘‘ (بدایۃ المجتہد ، دارالباز ، مکۃ المکرمۃ : ۱۳۷۱)علامہ ابن عبد البر مالکی نے بیان کیا ہے کہ ’’امام مالک زندگی کے آخری لمحے تک ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے رہے۔‘‘ (فقہ السنۃ ، السید سابق، دارالفکر ، بیروت :۱۲۳۱)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنے کا کیا حکم ہے ؟ فقہاء ثلاثہ اسے مسنون کہتے ہیں ، جبکہ امام مالک مندوب قرار دیتے ہیں۔
جواب: سطورِ بالا میں جواشکال ظاہر کیا گیا ہے وہ نقلی اورعقلی دونوں اعتبار سے غلط ہے۔ حضرت معاذؓ بن جبل سے جوحدیث مروی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں:کْنتْ رِدفَ رَسْولِ اللہِ صَلیّٰ اللہِ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَلَی حِمَارِ (مسلم :۴۸)’’میں ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عربی زبان میں ’حمار‘ اس جانور کوکہا جاتا ہے جسے ہمارے یہاں’ گدھا‘ کہا جاتا ہے۔کسی کتاب کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ضرور ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ کس زمانے اورکس جگہ سے متعلق ہے ؟ زمان ومکان کی تبدیلی سے معانی میں بھی فرق آجاتا ہے۔ مثا ل کے طورپر ہمارے یہاں ’اْلّو‘ کونحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے ، لیکن یورپی ممالک میں اسے ’عقل ودانش‘ کی نشانی سمجھا گیا ہے۔ اسی طرح گدھا ہمارے یہاں بے وقوفی کی علامت ہے، جب کہ عرب میں اسے صبر واستقامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے : فلان اصبر من حمار فی الحروب (فلاں شخص جنگوں میں گدھے سے زیادہ ثابت قدمی کا مظاہر ہ کرتا ہے ) خلافتِ بنی امیہ کے آخری حکم ران کا نام مروان بن محمدتھا۔ اس کے زمانے میں بہت زیادہ بغاوتیں ہوئیں ، جن کا اس نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا تھا ، اسی لیے اس کا لقب ’الحمار‘ ہوگیا تھا اوراسے ’مروان الحمار‘ کہا جاتا تھا۔
علامہ ابن القیم نے اپنی تصنیف ’زاد المعاد فی ہدی خیر العباد‘ میں ان جانوروں کی تفصیل بیان کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں تھے۔ ان میں فرس (گھوڑا ) ناقۃ (اونٹنی ) جمل (اونٹ) بغل (خچر) شاۃ (بکری) اورحمار(گدھا) کا ذکر ہے۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، ابن القیم الجوزیۃ ، تحقیق : شعیب الارنووط ،عبدالقادر الارنووط، موسسہ الرسالۃبیروت، ۱:۱۹۹۸،۱۲۹۔۱۲۸) احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں گدھے کوبھی سواری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مختلف روایتوں میں حضرت سعدبن معاذ، حضرت
انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اورحضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کے گدھے پر سوار ہونے کا ذکر ہے۔ بعض روایات میں ایک گدھے پر دو افراد کے سوار ہونے کی صراحت ہے۔ مثلاً ایک روایت میں حضرت ابوذر غفاریؓ بھی ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گدھے پر سوار ہونیکی صراحت کرتے ہیں۔ ( ابوداود: ۴۰۰۲)سائل موصوف کوان کے سفر حج اور سعودی عرب میں ڈیڑھ ماہ قیام کے دوران کہیں گدھا نظر نہیں آیا ، اس کو انہوں نے اس چیز کی دلیل بنا لیا کہ سعودی عرب میں گدھا پایا ہی نہیں جاتا۔ اگر بکریوں ، دنبوں اوراونٹوں کی قربانی نہ ہوتی تویہ جانوربھی شہری علاقوں میں نظر نہ آتے۔ پھرکیا یہ چیز دلیل بن سکتی ہے کہ یہ جانور سعودی عرب میں نہیں پائے جاتے۔
کتاب میں لفظ ’ گدھا‘ کا استعمال انگریزی الفاظ ASSیا DONKEYکا ترجمہ کرکے نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ یہ عربی لفظ ’حمار‘ کا ترجمہ ہے۔ عربی زبان میں خچر کے لیے’ بغل‘ اور گدھے کے لیے ’حمار‘ کا لفظ آتاہے۔عہدِ نبوی میں یہ دونوں جانور پائے جاتے تھے اوردونوں سواری کے لیے مستعمل تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خچر پر بھی سواری کی ہے اورگدھے پر بھی۔ اس سے آپ کی بے ادبی کا پہلو نہیں نکلتا۔ کوئی چیز ہمارے عرف میں ناپسندیدہ ہو توضرور ی نہیں کہ دوسری جگہوں پر بھی اسے ناپسند یدہ سمجھا جاتا ہو۔
جواب: قرآن کریم میں ہے :اِنَّ الصَّلٰوۃ کَانَت عَلَی المْومِنِینَ کِتٰبًا مَوقْوتَا (النساء: ۱۰۳)’’نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان پر نمازیں ان کے اوقات میں فرض کی گئی ہیں۔ کسی نماز کو اس کا وقت شروع ہونے سے پہلے نہیں پڑھا جاسکتا اوراگر اس کے وقت میں اسے ادا نہیں کیا جائے گا تووہ قضا ہوجائے گی۔یہ بات درست ہے کہ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ بغیر کسی عذر کے حضر میں دونمازیں جمع کی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر سفر کے، ظہر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں۔ اس موقع پر آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی اکٹھی پڑھی تھیں۔‘‘ ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعیدسے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے فرمایا : آپ چاہتے تھے کہ میری امت میں سے کوئی شخص مشقت میں نہ پڑے۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین ، باب الجمع بین الصلوٰتین فی الحضر ) صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ’سفر ‘کی جگہ ’بارش‘ کا لفظ ہے۔اس حدیث سے حضر میں جمع بین الصلوٰتین پر استدلال کرتے وقت یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ حضرت ابن عباسؓ نے صرف ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کی روایت کی ہے۔پوری حیاتِ طیبہ میں کسی اور موقع پر آپ سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ خود اس حدیث کے راوی حضرت ابن عباس سے ثابت نہیں ہے کہ وہ حضر میں جمع بین الصلوٰۃ کرتے تھے۔البتہ حضرت ابن عباس نے کم از کم ایک بار مدینہ میں رہتے ہوئے مغرب اورعشاء کی نمازوں کو جمع کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک موقع پر کسی شدید ضرورت کے تحت ایسا کیا تھا ،ورنہ آپ نمازوں کو ان کے اوقات پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے۔
جواب:نکاح ایک معاہدہ ہے جب تک اسے شعوری طور پر ختم نہ کیا جائے وہ ختم نہ ہوگا۔ طلاق کے ذریعے اس معاہدہ کوختم کیا جاتاہے۔ قرآن کریم میں ہے :بِیَدِہِ عْقدَۃْ النِّکَاحِ (البقرۃ: ۲۳۷) ’’ اس (مرد) کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے۔‘‘
بیوی کے لمبے عرصے تک شوہر سے علیحدہٰ رہنے یا اس کے اپنے شوہر کوبرا بھلا کہنے سے طلاق نہیں ہوجاتی۔ اس پر تمام فقہا کا اتفاق ہے۔
جواب : احادیث میں پانی پینے کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی شخص برتن میں سانس نہ لے ، بلکہ سانس لیتے وقت اْسے منہ سے ہٹادے ، ایک سانس میں نہ پیے، بلکہ دو یا اس سے زائد گھونٹ میں پیے اورکھڑے ہوکر نہ پیے، بلکہ پیتے وقت بیٹھ جائے۔ پانی بیٹھ کر پیا جائے یا کھڑے ہوکر بھی پیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں۔حضرت انس اور حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے (مسلم۲۰۲۴) حضرت ابوہریرہ توآپ کے حوالے سے یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بھول سے کھڑے ہوکر پی لے تو اسے قے کر دینی چاہیے۔ (مسلم:)حضرت علی نے ایک مرتبہ وضو کیا ، پھر بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیا اور فرمایا : میں نے نبی کریم کواس طرح پانی پیتے دیکھا ہے۔(بخاری:۵۶۱۶)حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج الوداع کے موقع پر زمزم کھڑے ہوکر پیا ( بخاری : ۱۶۳۷،مسلم:۲۰۲۷)حضرت عمر وبن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کوکھڑے ہوکر اوربیٹھ کر دونوں حالتوں میں پانی پیتے دیکھا ہے۔‘‘ (ترمذی:۱۸۸۳)صحابہ کرام میں سے حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن زبیر، اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے کھڑے ہوکر پانی پینا ثابت ہے۔ (موطا امام مالک:۳۹۳۴تا ۳۹۳۸)مذکورہ بالا احادیث میں جواختلاف پایا جاتا ہے اسے علما نے تین طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کھڑے ہوکر پینے کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث راجح ہیں۔ بعض کے نزدیک ممانعت والی احادیث منسوخ ہیں۔ تیسرا طریقہ تطبیق کا ہے ، یعنی ممانعت والی احاد یث میں کراہتِ تنزیہی کا بیان ہے ، یعنی کھڑے ہوکر پینا پسندیدہ نہیں ہے ، اس کے برعکس مضمون کی احادیث جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ علامہ نووی نے لکھا ہے :
’’ممانعت اور جواز دونوں طرح کی روایتیں صحیح ہیں۔ ان میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ جن احادیث سے ممانعت کا ثبوت ملتا ہے ، انہیں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے اوریہ سمجھا جائے کہ آپ کا کھڑے ہوکر پانی پینا اثباتِ جواز کے لیے ہے۔‘‘ حافظ ابن حجرنے بھی اسی رائے کوترجیح دی ہے۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، دارالمعرفۃ،بیروت،لبنان)
اس موضوع پر مولانا سید جلال الدین عمری نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے ممانعت اورجوازدونوں پر دلالت کرنے والی احادیث نقل کی ہیں ، ان کی توجیہ کے سلسلے میں علماء کی آرا ذکر کی ہیں۔ آخر میں لکھا ہے : ’’اصل بات یہ ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے میں جلد بازی اورعجلت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ متانت اورشائستگی سے ہٹا ہوا ہے۔ اس میں بعض اوقات دوسروں کا حق مارنے کا جذبہ بھی کام کرتا ہے۔ یہ سب باتیں ناپسندیدہ ہیں۔ کھڑے کھڑے کھانا پینا طبی نقطہ نظر سے بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات اس کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے مشک یا چھاگل اوپر ٹنکی ہوتی ہو، یا نل کسی اونچی جگہ نصب ہواوران سے براہِ راست پانی پینا پڑے۔ اسی طرح کبھی جگہ کی کمی ہوتی ہے یا بیٹھنے کا معقول انتظام نہیں ہوتا۔ کبھی وقت کی کمی ہوتی ہے اورآدمی کھڑے کھڑے کھاپی کر جلد فارغ ہوناچاہتا ہے اوربھی اسباب اس کے ہوسکتے ہیں۔ اسلام نے ان سب باتوں کی رعایت کرتے ہوئے اس معاملے میں سختی نہیں کی ہے ، گنجائش رکھی ہے۔‘‘
جواب: ہر مسلمان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جوچیزیں فرض کی گئی ہیں ان میں سے ایک حج ہے۔ حج ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ صاحبِ استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ مصارفِ سفر برداشت کرسکے اوراتنا مال چھوڑ کر جائے جواس کی واپسی تک اس کے زیر کفالتِ افراد کی ضرور یا ت کے لیے کافی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَلِلہِ عَلیَ النَّاسِ حِجّْ البَیتِ مَنِ استَطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلًا (آل عمران:۹۷)
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جواس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔‘‘اگر کسی شخص نے حج پر قدرت کے باوجود حج نہیں کیا ، یہاں تک کہ وہ سفر سے معذور ہوگیا ، یا اس کا انتقال ہوگیا توحج بدل کے طور پر دوسرا شخص اس کی طرف سے حج کرسکتا ہے۔ایک عورت خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئی اوراس نے سوال کیا : میری ماں نے حج کرنے نذر مانی تھی ، لیکن وہ حج نہ کرسکی ،یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا ، کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا :ہاں اس کی طرف سے حج کرلو۔ ( بخاری: ۱۸۵۲، مسلم :۱۱۴۹)
لیکن اگر کسی شخص پر حج فرض ہو اوروہ اس کی ادائیگی پر قادر بھی ہو ، اس کے باوجود وہ خود حج نہ کرے ، بلکہ اپنی جگہ کسی اور کوبھیج دے تواس صاحبِ استطاعت شخص کا حج ادا نہ ہوگا اوروہ گنہ گار ہوگا