خوشونت سنگھ ایک بڑے رائٹر ہیں۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی لکھنے پڑھنے میں لگائی ہے۔وہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نویس تسلیم کئے جاتے ہیں۔اب وہ زندگی کے آخری ایام میں ہیں۔ ان کی عمر 97 سال ہوچکی ہے لیکن اس عمر میں بھی وہ ہر ہفتہ دو مضامین لکھتے رہے۔پچھلے کچھ دنوں سے انھوں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے اور اب وہ موت کا انتظارکر رہے ہیں۔ان کا یہ قول بہت مشہور ہوا۔ ‘‘میں نہیں جانتا کہ بے کار کس طرح بیٹھا جا تا ہے’’۔
علامہ ابن تیمیہ (1328-1263) ایک عظیم اسلامی اسکالر اور مفکر گزرے ہیں۔ انھیں کئی کئی بار جیل میں ڈالا گیا۔ آپ نے جیل کے اندر کئی کتابیں لکھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔آپ کے‘ طلب علم’ کا حال یہ تھا کہ آپ دن رات پڑھتے رہتے تھے اور جب کوئی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تو بہت سوچتے تھے اور جب اس سے بھی کام نہیں چلتا تو جنگل کی طرف نکل جاتے اور دعاکرتے تھے ‘‘یامعلم ابراہیم علمنی’’ اے ابراہیم کو علم سکھا نے والے مجھے بھی علم سکھا۔ابن تیمیہ کی تقریباً ایک ہزار کتابیں ہیں جو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔انھیں بجا طور پر شیخ الاسلام کہا جا تاہے۔
مولانا وحید الدین خان بہت بوڑھے ہوچکے ہیں ،لیکن آج بھی وہ نہایت پابندی کے ساتھ ہر سنڈے کو اپنے اسپریچوئل کلاس سے گھنٹوں خطاب کرتے ہیں۔ وہ اس عمر میں بھی پورا ‘ الرسالہ’ خود سے لکھتے ہیں۔ تذکیر القران کے نام سے ان کی تفسیر بھی شائع ہوچکی ہے، اس کے علاوہ ان کی سینکڑوں کتابیں ہیں۔دعوہ ورک میں ان کے کنٹریبوشن کو نظر انداز کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔ان کا ‘بڑھاپا’ ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
بلا شبہ کسی قوم کے لئے یہی لوگ غنیمت ہوتے ہیں ، جو نہیں جانتے کہ کس طرح بیکار بیٹھا جا تا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر کوئی قوم ناز کر سکتی ہے ،اور یہی وہ لوگ ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے باعث ترغیب ہیں۔