اس کہانی کو آدھی صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ کہانی ستاون اٹھاون برس پرانی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد بچل میمن بزنس گارڈن کراچی میں صبح سویرے واک کرنے آتے تھے۔ دبلے پتلے، درمیانے قد کے جسٹس محمد بچل ہاتھ میں واکنگ اسٹک لیے، کبھی سرجھکا کر اور کبھی سر اٹھاکر واک کرتے تھے۔ اکثر سوچ میں ڈوبے رہتے تھے۔ کبھی آنکھ اٹھاکر کسی کی طرف نہیں دیکھتے تھے۔ بزنس گارڈن کے دو چار چکر کاٹنے کے بعد وہ چلے جاتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنے دو دوستوں قادر داد درانی اور رشید احمد شاہ بخاری کے ہمراہ میٹرک کی تیاری کرنے صبح برنس گارڈن میں پڑھنے جاتا تھا۔ ان دنوں یہ کراچی کا کلچر تھا۔ امتحانوں کے موسم میں طلباء اور طالبات اپنے اپنے گھروں کے قریب گارڈنز میں پڑھنے جاتے تھے۔ بڑے بوڑھے، مرد اور عورتیں بھی گارڈنز میں واک کرنے آتے تھے۔برنس روڈ، گاڑی کھاتہ، پاکستان چوک، اور میکلوڈ روڈ کے رہنے والے پڑھنے اور واک کرنے کے لیے برنس گارڈن آتے تھے۔ ایک روز ہم تینوں دوست قادر داد درانی، رشید احمد شاہ بخاری اور میں پڑھنے میں مشغول تھے کہ جسٹس محمد بچل میمن ہمارے قریب سے گزرے۔ وہ پہلی بار ہمارے قریب سے نہیں گزرے تھے۔ کئی بار وہ ہمارے قریب سے گزر چکے تھے۔ اس روز وہ جب ہمارے قریب سے گزرے ،قادر داد درانی نے انہیں سلام کیا۔ وہ سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ سرجھکائے آگے بڑھ گئے۔ چند قدم آگے جانے کے بعد وہ رک گئے۔ پلٹ کر ہمارے پاس آئے۔ ہم تعظیماً اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ جسٹس محمد بچل نے پوچھا۔ ‘‘مجھے سلام کس نے کیا تھا؟’’ہم لوگ گھبرا گئے۔ انہوں نے دوبارہ پوچھا ‘‘مجھے سلام کس نے کیا تھا؟’’
قادر داد درانی نے کہا۔ ‘‘سر میں نے۔’’جسٹس محمد بچل نے پوچھا۔ ‘‘لیکن کیوں؟’’درانی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ‘‘سر ہم تینوں آپ کو جانتے ہیں۔’’‘‘مگر میں تم تینوں کو نہیں جانتا۔’’ جسٹس محمد بچل میمن نے کہا۔ ‘‘پھر کبھی مجھ سے سلام دعا مت کرنا۔’’ہم تینوں دوست ہکا بکا رہ گئے۔ تب ہمیں اپنے بڑے بوڑھوں اور بزرگوں سے پتہ چلا کہ جسٹس محمد بچل میمن سلام دعا کے بعد شروع ہونے والی راہ رسم کسی کو بڑھانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک نظر نہ آنے والا حصار انہوں نے کھینچ رکھا تھا۔ اس حصار کو پھلانگ کر ان کے قریب آنے کی ہمت کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ حتی کہ ان کی اپنی اولاد اور قریبی رشتہ دار بھی ان دیکھے حصار کو پار نہیں کرسکتے تھے۔عجیب و غریب قصے کہانیاں مشہور تھیں جسٹس محمد بچل میمن کے بارے میں۔ ایسا لگتا تھا وہ جیسے دیو مالائی کردار تھے۔ وہ اپنے ذاتی کام خود کرتے تھے۔ پیچیدہ اور انتہائی غور طلب مقدموں کے فائل گھر لے آتے تھے۔ ایسے کسی کیس کا رات گئے تک مطالعہ کرتے ہوئے انہیں اگر چائے کی طلب ہوتی تھی تو اٹھ کر اپنی چائے خود بنالیتے تھے۔ باورچی، نوکر یا گھر کے کسی فرد کو تکلیف نہیں دیتے تھے۔ پیچیدہ مقدموں کی تہہ تک پہنچنے کی سعی میں اس قدر محو رہتے تھے کہ گھر کے کسی فرد کو ان کے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اگر غلطی سے گھر کا کوئی فرد اندر آجائے تو پہلے سے لکھی ہوئی پرچی ان کے ہاتھ میں تھما دیتے تھے جس پر لکھا ہوتا تھا۔ Leave me alone‘‘۔ مجھے تنہا چھوڑ دیجیے۔’’
جسٹس محمد بچل میمن میکلوڈ روڈ پر واقع سرکاری کوٹھی میں رہتے تھے۔ ان کے ہمسائے میں سینئر سرکاری افسروں کی کوٹھیاں تھیں۔ وہ بھی ان دیکھا حصار پار کر کے ان کے ساتھ راہ و رسم بڑھا نہیں سکتے تھے۔ جسٹس محمد بچل تو عزیز و اقارب کو بھی یہ حصار پھلانگنے نہیں دیتے تھے۔ حتی کہ اپنے فیملی ڈاکٹر کو بھی فاصلے پر رکھتے تھے۔ وہ کٹھور اور سخت گیر طبیعت کے مالک نہیں تھے۔ بڑے ہی نفیس، سادہ لوح اور شریف النفس تھے۔ ان کا فلسفہ تھا کہ ایک جج کو معاشرے میں راہ و رسم بڑھانے اور دوستیاں کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ کون جانے کب کوئی مجرم کے طور پر اس کے سامنے آجائے۔ تب ذاتی تعلقات انصاف کی راہ میں آڑے آجاتے ہیں۔ لہٰذا وہ نہ کسی کی دعوت قبول کرتے تھے اور نہ ہی کسی کو اپنے ہاں مدعو کرتے تھے۔ جلسے جلوسوں میں نہیں جاتے تھے۔ تقریریں نہیں کرتے تھے۔ سرکاری تقریبات میں بھی شاذ و نادر جاتے تھے۔ بہت کم بولتے تھے۔ مقصد کی بات کرنے کے بعد ایک اضافی لفظ منہ سے نہیں نکالتے تھے۔
میں آپ کو آدھی صدی سے زیادہ پرانا قصہ سنا رہا ہوں۔ جسٹس محمد بچل میمن کی سرکاری کوٹھی میکلوڈ روڈ پر واقع تھی۔ تب بھائی لوگوں نے میکلوڈ روڈ کا نام بدل کر آئی آئی چندریگر روڈ نہیں رکھا تھا۔ کراچی کی سب سے خوبصورت شاپنگ اسٹریٹ کا نام الفنسٹن اسٹریٹ برقرار تھا۔ بھائی لوگوں نے الفنسٹن اسٹریٹ کا نام بدل کر نیا نام زیب النساء اسٹریٹ نہیں رکھا تھا۔ مجھے آج تک پتہ نہیں ہے کہ زیب النسا کون تھیں اور تحریک پاکستان میں انہوں نے کیا کارنامہ سر انجام دیا تھا۔ مشہور تھا کہ قتل کے مقدمہ کا فیصلہ سنانے کے بعد جسٹس محمد بچل میمن کئی روز تک خاموش ہوجاتے تھے۔ رات رات بھر جاگتے رہتے تھے۔ سوچ میں ڈوبے رہتے تھے۔ دیر تک سجدے میں پڑے رہتے تھے۔ کبھی ایسے بھی ہوتا تھا کہ وہ کسی کو بتائے بغیر آدھی رات کے وقت گھر سے باہر نکل جاتے تھے۔ایک مرتبہ وہ آدھی رات کے قریب گھر سے باہر نکل گئے سوچ میں ڈوبے ہوئے، سرجھکائے وہ میکلوڈ روڈ سے ہوتے ہوئے پاکستان چوک پہنچ گئے۔ پولیس کے دوچار سپاہی گشت پر تھے۔ انہوں نے جسٹس محمد بچل سے پوچھا۔ ‘‘آدھی رات کے وقت کہاں ٹہلتے پھر رہے ہیں۔ کون ہیں آپ؟’’جسٹس محمد بچل نے ان کی طرف دیکھا تک نہیں۔ وہ سرجھکائے آگے بڑھ گئے۔ سپاہیوں نے پہلے کبھی جسٹس محمد بچل کو دیکھا نہیں تھا۔ ان کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ جس شخص کو انہوں نے آرام باغ پولیس اسٹیشن کے لاک اپ میں بند کردیا تھا وہ جسٹس محمد بچل تھے۔ جسٹس محمد بچل میمن سوچ میں ڈوبے ہوئے، سرجھکائے لاک اپ کے ایک کونے میں بیٹھے رہے۔ صبح دیر سے جب ایس ایچ او تھانے پہنچے تب جسٹس محمد بچل کو لاک اپ میں دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے وہ جسٹس کے پیروں پر گر پڑے۔ ناک رگڑ رگڑ کر معافی مانگی۔ کھڑے کھڑے سپاہیوں کو معطل کردیا۔ اس کے بعد جسٹس محمد بچل کو جیپ میں بٹھا کر ان کو گھر تک چھوڑنے آئے۔ وہاں پر بھی انہوں نے ہاتھ جوڑ کر جسٹس سے معافی مانگی۔ جسٹس محمد بچل نے ایس ایچ او سے کہا۔ ‘‘سپاہیوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ان کی معطلی کے آرڈر کینسل کردینا۔
٭٭٭