ایک عورت ہی عزتوں کی محافظ اور پاسدار ہوتی ہے مشرقی عورت کی زندگی کی حقیقی لفظی تصویر
وہ ایک شادی کی تقریب میں شریک تھی ،اور بزرگوں کی ساتھ بیٹھی تھی کہ اب اس کا شمار بھی بزرگوں میں ہوتا تھا۔اسٹیج سے قریب تھی اس لئے سب کی باتیں بھی سْن پا رہی تھی۔ دلھن کی ماں اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی دیکھو عزت رکھ لینا ۔یہ جملہ نہ جانے کیسے اْسے ماضی میں لے گیا آج کل وہ زیادہ تر اپنا ماضی یاد کرتی تھی اور چھوٹی چھوٹی باتیں ایک لمحے میں اْس ساری کہانی کو دْھرا دیتی تھیں ،کیونکہ اب وہ اْس عمر میں آگئی تھی جہاں ماضی ہر لمحے تاک میں رہتا ہے کہ کب کیا یاد دلا دے۔اْسے یاد آیا کہ جب و ہ تھوڑی سی با شعور ہوئی تو بڑوں کی عزت کرنے کا درس ملا ،بھا ئیوں، بڑی بہنوں اور ماں باپ کی حکم بر داری کا سلیقہ سکھایا گیا۔جب تھوڑا اور وقت گزرا تو اساتذہ اور قرآنِ کریم پڑھانے والی اْستانی کی عزت اور تکریم کا نمبر آیا۔جب ان دونوں مرحلوں کی عزت رکھ چکی تو تیسرا مرحلہ آیا جو بے حد ذمے داریوں سے اٹا پڑا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب وہ دوسرے گھر کو سدھار رہی تھی اور ماں باپ کے ایک بہت بڑے فرض کو اْن کے سر سے اْتار رہی تھی۔اْس وقت ماں باپ نے اپنی عزت رکھنے کو کہا ۔بھائی بھاوج نے اپنی عزت رکھنے کی التجا کی اور اْس نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔وہ ان سب کی عزتوں کی لاج رکھتی سسرال پہنچ گئی۔وہاں قدم رکھا تو سب سے پہلے ساس نے اپنی عزت رکھنے کو کہا پھر شوہر نے اسے اپنی عزت کا امین بنایا اور وہ گھر میں موجود جیٹھ جٹھانی اور سسر کی عزت بھی رکھنے لگی۔اتنی ساری عزتیں رکھنے کے بوجھ میں اْس کی اپنی ہستی کدھر گئی اسے پتہ ہی نہ چلا۔وہ اپنی ہستی وارتی رہی۔کبھی شوہر کی عزت رکھتی تو اپنا آپ کہیں دفن ہو جاتا۔کبھی سسرال والوں کی عزت رکھتی اور اپنی شخصیت کے سارے دروازے بند کر دیتی۔کہ عزت بس اْن ہی لوگوں کی تھی اور اس کا پاس بھی بس وہ ہی رکھ سکتی تھی۔ وہ اپنی خواہشات کو روند کر اپنے جذبات کو سلا کر ،اپنی ہستی کو مٹا کر ہر بات میں ہر قدم پر ان کی عزت کی محافظ بنی رہی۔ وقت تیزی سے گزرا، پتا ہی نہ چلا کتنے سال گزر گئے۔ اور اب یہ جملے اْس نے شوہر کے ساتھ ساتھ بیٹوں اور بیٹیوں سے بھی سننے شروع کر دئے کہ ،ہماری عزت رکھئے گا ،وہ حیران پریشان اتنی ساری عزتوں کی محافظ بنی اپنی زندگی گزار رہی تھی۔
وقت کا پہیہ اس تیزی سے گھوما کہ اب وہ اْس عمر میں آگئی تھی جہاں اب اْسے اپنے کسی جذبے ،کسی خواہش سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اب وہ مزید رشتے نبھا رہی تھی۔ وہ نانی بھی تھی اوردادی بھی۔ یہ رشتے اس طرف بھی اشارہ تھا کہ زندگی کا سفر مکمل ہواچاہتا ہے۔
اْسے خیال آیا کہ ہوش سنبھالنے سے اب تک وہ کسی نہ کسی صورت سب کی عزتیں رکھتی آئی ہے خود ختم ہو گئی تو کیا ہوا۔اْس کے جذبات اور خواہشات کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تو کیا ہوا ؟ اْس کی کسی تکلیف کا کسی نے احساس نہ کیا تو کیا ہوا ؟ اْس نے تو اپنا فرض نبھایا سب کی عزتیں رکھ لیں۔اور اب بھی رکھ رہی ہے۔بس شاید یہ ہی ایک عورت کی کامیابی ہے کہ خود کو فنا کر کے سب کی عزتیں رکھ لے۔ اندر کہیں اْس کے شعور میں اْسے عورت ہونے پر بڑا فخر محسوس ہوا کہ ایک عورت ہی عزتوں کی محافظ اور پاسدار ہے شاید۔
نکاح کا شور اْسے واپس تقریب میں کھینچ لایا۔اْس نے سوچا کہ آج ایک عورت عزتیں رکھنے جا رہی ہے ،اْس نے دل سے دعا کی کہ وہ اپنے خاندان اور سسرال کی عزت رکھ سکے ۔اپنی ذمے داریاں سمجھ کر ،سب کی چاہتیں سمیٹ کر ، سب کا دل اپنی مٹھی میں لے کر اور جس گھر جا رہی ہے اس کی عزتیں سنبھال کر کہ یہ اعزاز صرف عورت کا ہے کہ وہ عزتوں کی امین ہے ۔ عورت ہی میں وہ طاقت ہے کہ وہ سب کی عزتیں رکھ لیتی ہے خود با عزت رہ کر ۔اب وہ اپنے عورت ہونے پر بہت نازاں تھی اور اللہ کی شکر گزار۔کیونکہ جب اْس نے اپنے ماضی میں جھانکا تو اْسے لگا وہ ایک کامیاب عورت ہے جس نے سب کا مان رکھا خود کو فنا کر کے۔اور اسے اپنے اندر کہیں بہت فخر محسوس ہوا کہ وہ اْن عورتوں میں سے ہے جو اپنے ساتھ ساتھ سب کا بھرم رکھتی ہیں۔عورت نام ہی ہے فنا کا ، ایثار کا ،صبر و تحمْل کا ، قر با نی کا اور شاید تمام اْن جذبوں کا جو اپنی نفی کر کے سب کو جمع کر دیتے ہیں۔عورت نام ہے فخر کا ، غرور کا ، کامیابی کا اگر وہ واقعئی اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر لے اور اپنے منصب کو سمجھ لے تو۔اْس کی پوتی نے اْسے چونکا دیا۔دادی آپ کا کھانا ۔اْس نے پلیٹ اْس کے سامنے رکھی ،نیپکِن اس کے کپڑوں پر ڈالا اور یہ کہتی ہوئی چلی گئی ‘‘ دادی جان میں بھی اپنا کھانا لے کر آرہی ہوں آپ کے پاس ،مما نے کہا ہے کہ میں آپ کے پاس بیٹھ کر کھانا کھاؤں تاکہ آپ کو پریشانی نہ ہو۔وہ اپنا کھانا لینے چلی گئی۔اْس کا دل اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگیا ، کہ اْس نے اپنی ناچیز بندی کی عزت رکھ لی اور اسے اتنی محبتیں عطا کیں۔ اْس نے دل ہی دل میں دعا کی کہ میرے مالک آخرت میں میری عزت رکھ لینا اور آخرت میں سرخرو کر دینا۔اس نے کہا مالک اب میں اولاد کے ہاتھوں میں ہوں اور میری عزت تیرے ہاتھ ہے۔تقریب ختم ہوئی اور وہ بیٹا ،بہو اور پوتا پوتی کے درمیان بڑی عافیت سے کار کی طرف جا رہی تھی ،بیحد مسرور اور شاداں ۔
٭٭٭