یہ بادِ صبا کون چلاتا ہے ، مِرا رب
گْلشن میں کلی کون کِھلاتا ہے ، مِرا رب
مکھی کو بھلا شہد بنانے کا سلیقہ
تم خود ہی کہو کون سِکھاتا ہے ، مِرا رب
برساتا ہے بادل کو بھلا کون زمیں پر
گْل بْوٹے کہو کون اْگاتا ہے ، مِرا رب
خوشحال کو خوشحال کِیا کس نے بتاؤ
غمگین کا غم کون مِٹاتا ہے ، مِرا رب
مانا! وہ سما سکتا نہیں ارض و سما میں
پر ٹْوٹے ہوئے دل میں سماتا ہے مِرا رب
اِک پردہء شب کون گراتا ہے سرِ شام
سْورج کا دِیا کون جلاتا ہے ، مِرا رب
صحرا کو مزیّن وہ بناتا ہے جبل سے
گْلشن کو بھی پھولوں سے سجاتا ہے ، مِرا رب
خود کھانے سے پینے سے مبرا و منزہ
گو سب کو کِھلاتا ہے ، پِلاتا ہے ، مِرا رب
ہے کون جو حاکم ہے ، بلا شرکتِ غیرے
یہ نظمِ جہاں کون چلاتا ہے ، مِرا رب
ستّار ہے ، عاصی کو وہ رْسوا نہیں کرتا
بندے کے معائب کو چْھپاتا ہے مِرا رب
ولیوں سے کبھی خالی نہیں رہتی ہے دنیا
اِک جائے تو دْوجے کو بٹھاتا ہے مِرا رب
آخر میں کسی اور سے فریاد کروں کیوں
جب رازق و وہّاب ہے ، داتا ہے مِرا رب