آج کل مسلم غیر مسلم روابط کی کثرت کی وجہ سے یہ مسئلہ بکثرت پوچھا جاتا ہے کہ کیا غیر مسلموں کو سلام کیا جاسکتا ہے اور وہ سلام کریں تو جواب دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ بعض جگہوں پر دیکھنے میں آیا ہے کہ غیر مسلم حضرات مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر سلام کرتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ مسلمان خوش ہوں گے کہ اس نے ہمارا طریقہ اختیار کیا لیکن اسے آگے سے ایک عجیب سی خاموشی یا کھلے منہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض احادیث میں غیر مسلموں کو سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن ان احادیث کو درست تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کیا سلام اس امت کی خصوصیت ہے:
سب سے پہلے تو اس سوال پر غور ضروری ہے کہ آیا سلام اس امت کے ساتھ خاص ہے یا اللہ کی طرف پوری نسلِ انسانی کے لئے ایک تحیہ ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک صحیح حدیث میں ہے آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے پاس بھیجا اور کہا کہ دیکھو تم کیا کہتے ہو وہ کیا کہتے ہیں، وہی تمہارا تمہاری نسل کا تحیہ (wish کرنے کا طریقہ) ہوگا، آدم علیہ السلام فرشتوں کے پاس گئے تو ان کی زبان سے نکلا السلام علیکم اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ، حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ یہ تمہارا اور تمہاری ذریت یعنی تمہاری نسل کا تحیہ ہے۔ اس کی تشریح میں بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں ذریت سے مراد صرف مسلمان ہیں۔لیکن اول تو یہ بات اس حدیث کے سیاق اور ظاہری الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی ، دوسرے اس بات کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں کہ گذشتہ انبیا اور ان کے پیرو کاروں کے ہاں سلام کا کوئی تصور نہیں تھا، بلکہ اس کے برعکس صحیح بخاری کی ایک روایت جس میں موسی اور خضر کا واقعہ بیان ہوا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ موسی علیہ السلام جب حضرت خضر کے پاس پہنچے تو انہوں نے سلام کیا ، اس پر حضرت خضر کو حیرت ہوئی اور کہا ’’وانَّی بارضک السلام‘‘ اس سرزمین میں سلام کہاں سے آگیا۔ اس سے معلوم ہواکہ اس زمانے میں جو لوگ اسلامی تعلیم سے ناواقف تھے وہ تو سلام نہیں کرتے تھے لیکن موسی اور خضر جیسے لوگ سلام سے واقف بھی تھے اور کرتے بھی تھے۔ قرآن نے جگہ جگہ انبیا علیہم السلام پر سلام کا ذکر کیا ہے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اہلِ جنت کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : تحِیتْہْم یَومَ یَلقَونَہ سَلَام۔
اصل میں بعض حضرات کو بعض روایات سے شبہ ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت ابوذر غفاری کی ایک روایت صحیح مسلم وغیرہ میں ہے ، جس میں انہوں نے اپنے اسلام لانے کا تفصیلی واقعہ بیان کیاہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ان کی رسول اللہ سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو عرض کیا ’’السلام علیک یا رسول اللہ‘‘ اس کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں ’’فکنت اول من حیاہ بتحیۃ الاسلام‘‘ (صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ: باب من فضائل ابی ذر)۔ لیکن اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہورہا کہ پچھلی شریعتوں میں سلام کا کوئی تصور نہیں تھا، اس سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے ہاں یہ سنت متروک ہوچکی تھی، اور یہ بات اپنی جگہ درست ہے ، جیسا کہ اسی باب میں آگے آرہا ہے کہ عربوں کے ہاں اس کی جگہ انعم صباحا وغیرہ دیگر الفاظ نے لے لی تھی۔ سنت ابراہیمی کے بعض کام زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں باقی تھے، لیکن بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے سلام والی سنت بہت حد تک متروک ہوچکی تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آسمانی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے مدعی یہود وغیرہ کے ہاں بھی یہ سنت متروک ہوچکی ہو۔بہرحال اس بات کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں کہ سلام اس امت کے ساتھ خاص ہے۔
اسی طرح بعض حضرات نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سے بھی استدلال کیا ہے (فتح الباری ۱۱/ ۴) جس میں رسول اللہ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے: ’’جعل اللہ السلام تحیۃ لامتنا ومانا لاہل ذمتنا‘‘ یعنی اللہ تعالی نے سلام کو ہماری امت کے لئے تحیہ اور ہمارے ذمیوں کے لئے اطمینان دلانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ لیکن اس سے بھی سابقہ شریعتوں میں سلام کی نفی لازم نہیں آتی ، بلکہ اس کے برعکس اس غیر مسلموں کو سلام کرنے کا جواز ثابت ہورہا ہے، چنانچہ حضرت ابو امامہ کی یہی رائے تھی، اور یہ حدیث ایک یہودی کے سلام کے موقع پر حضرت ابوامامہ نے سنائی۔
غیر مسلموں کو ابتدا سلام کاحکم :
غیر مسلموں کو سلام کرنے سے متعلق دو مسئلے ہیں۔پہلامسئلہ تویہ ہے کہ ذمیوں کوابتدا سلام کرنا جائز ہے یانہیں۔ تواس میں کئی اقوال ہیں، بعض نے اس کو جائز قراردیاہے اوربعض نے ناجائز۔ جنہوں نے غیر مسلم کو ابتدا سلام کرنے سے منع کیا ہے انہوں نے حضرت ابو ہریر کی ایک حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں رسول اللہ نے فرمایا کہ یہود ونصاری سے سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔ جنہوں نے انہیں ابتدا سلام کرنے کو جائز قرار دیا ہے انہوں نے ایک تو استدلال کیا حضرت اسامہ کی حدیث سے ، جس میں یہ ہے کہ رسول اللہ کا گزر ایک ایسے مجمع سے ہوا جس میں مسلمان ، مشرک اور اہلِ کتاب سب موجود تھے تو رسول اللہ نے انہیں سلام کیا۔ لیکن اس کے بارے میں دوسری رائے والے حضرات یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں اصل مقصود مسلمانوں کو سلام کرنا تھا، غیر مسلموں کو ضمناً ہوگیا۔ نیز جائز کہنے والے حضرات نے استدلال کیا ہے افشو السلام (سلام پھیلانے) کے بارے میں حدیثوں کے عموم سے، یعنی ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام کی عادت کو پھیلانا چاہئے، ان حدیثوں میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی امتیاز نہیں کیا گیا۔ حضرت سفیان بن عیینہ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے جواز بیان کرتے ہوئے سورہ ممتحنہ کی اس آیت سے استدلال کیا (تفسیر قرطبی ، سورۃ مریم ، قولہ تعالی : قال سلام علیک الخ) :
لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروہم وتقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین
اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال نہیں کیا اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور انصاف کرو، یقیناً اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو غیر مسلم برسرِ پیکار نہ ہو اس کے ساتھ حسنِ سلوک جائز ہے۔ اور سلام بھی حسنِ سلوک کی ایک شکل ہے۔ سلام کے مفہوم میں ضروری نہیں کہ آخرت ہی کی سلامتی اور مغفرت ہو، بلکہ سلام کے مفہوم میں دنیا وی تکالیف سے تحفظ ، ہدایت نصیب ہونا وغیرہ بھی داخل ہیں، اور ظاہر ہے ان چیزوں کی غیر مسلم کے لئے دعا میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جواز کے حق میں یہ بات کی کہی جاسکتی ہے کہ اس باب کی پہلی حدیث میں آیا کہ جب آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سلام کیا تو اس کے بارے میں حضرت آدم کو اللہ تعالی کی طرف سے کہا گیا فانہا تحیتک وتحیۃ ذریتک یہ تمہارا اور تمہاری ذریت کا تحیہ ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ سلام بنیادی طور پر تمام اولادِ آدم کے لئے ہے ، یہ محض اسلامی نہیں بلکہ انسانی تحیہ ہے۔ اس حدیث کے عموم کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اصل اس میں جواز ہے۔ کیونکہ یہاں نسلِ انسانی کا تذکرہ عموم کے ساتھ بغیر کسی تقیید کے ہوا ہے۔
جہاں تک تعلق ہے حضرت ابو ہریرہ کی اس حدیث کا ، جس میں یہود و نصاری سے سلام میں پہل کرنے سے منع کیا گیا ہے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کو سارے یہود ونصاری کے بارے میں قرار دینا درست نہیں ، بلکہ اس کا تعلق مخصوص صورتِ حال سے ہے۔ جیسا کہ اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ انہیں تنگ راستے پر چلنے پر مجبور کرو۔ اب ظاہر ہے کہ یہ کوئی بھی نہیں کہتا ہے کہ ہرحالت میں یہود ونصاری کے ساتھ راستے میں یہ سلوک کرنا ضروری ہے، نہ اس بات کے کہیں قرائن ملتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے ساتھ ایسا کیا جاتا تھا، اگر انہیں تنگ راستہ دینا عمومی حکم ہوتا تو مدینے میں یہود رہتے تھے ان کے ساتھ اس برتاؤ کا کہیں تذکرہ ملنا چاہئے تھا معلوم ہوا یہ حکم کسی مخصوص صورتِ حال سے تعلق رکھتا ہے۔ اس حکم کو خاص تناظر اور شریعت کے عام قواعد کی روشنی دیکھنا ہوگا۔ یہ حکم تمام کفار کے بارے میں نہیں ، بلکہ تمام ذمیوں کے بارے میں بھی نہیں ہے صرف خاص قسم کے لوگوں کے بارے میں ہے جو قرآن کی اصطلاح کے مطابق ’’صغار‘‘ کی اصطلاح میں وہ آتے ہیں اس کی تفصیل تو ایک مستقل موضوع ہے تاہم آج کل ہمیں مسلم یا غیر مسلم ممالک میں جن غیر مسلموں سے عموماً واسطہ پڑتا ہے وہ اس قرآنی اصطلاح کے تحت داخل نہیں ہیں۔ جس طرح حدیث کے تنگ راستوں والے حصے کی طرح اس کا یہ دوسرا حصہ بھی اس خاص صورتِ حال سے متعلق ہے، عام غیر مسلموں کے بارے میں نہیں ہے۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ آج کل عموماً غیر مسلموں کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت عقدِ ذمہ والی نہیں ہوتی۔ خواہ وہ مسلمان ملکوں کے غیر مسلم ہوں یا غیر مسلم اکثریت والے ان ملکوں کے جن میں مسلمان بھی آباد ہیں۔ آج کے یہ غیر مسلم جب ذمی نہیں تو صغار کا حکمِ قرآنی بھی ان کے بارے میں متوجہ نہیں ہوتا جو اس حدیث کا پہلا حصہ ہے۔لہذا یہ سوال بڑا اہم ہوجاتا ہے کہ کیا حدیث کا یہ دوسرا حصہ ان غیر مسلم معاہدین کے بارے میں ہوگا؟
امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے ایک بات یہ فرمائی ہے کہ جن حدیثوں سے غیرمسلموں کو سلام کا جو از ثابت ہوتا ہے یہ منسوخ ہیں۔یہ حدیثیں اس زمانے کی ہیں جب ان سے قتال کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ جب قتال کا حکم نازل ہوا تو انہیں سلام کی اجازت منسوخ ہوگئی (شرح معانی الآثار ، کتاب الکراہیہ : باب السلام علی اہل الکفر)۔ امام طحاوی کی اس بات کو اگر لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہئے کہ سلام کی ممانعت انہیں کفار کے لئے ہیں جن سے ہمیں قتال کا حکم ہے ، یعنی جو محارب یعنی بر سرِ پیکار ہیں ، غیر محارب کو سلام کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔اس کے علاوہ امام طحاوی نے حضرت ابو بصرہ غفاری کی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں کل کو (تمہیں ساتھ لیکر) یہودیوں کے ہاں جاؤں گا، جب وہاں پہنچو تو سلام میں پہل نہ کرنا اور اگر وہ سلام کریں تو صرف ’’وعلیکم‘‘ کہہ دینا۔ لیکن یہ حدیث بھی عمومی ممانعت پر دلالت نہیں کرتی۔ عین ممکن ہے کہ کسی وقتی مصلحت کے تحت حضور نے یہ ہدایت ارشاد فرمائی ہو۔ مثلاً آں حضرت یہودیوں کو کوئی وارننگ دینا چاہ رہے ہوں، جیسا کہ بنو نضیر وغیرہ کے ساتھ ہوا۔ ایسی حالت میں پہلے سلامتی کی بات کرنا وہ بھی نبی کریم کی موجودگی میں پھر اس طرح کی وارننگ دینا آں حضرت نے مناسب نہیں سمجھا ہوگا۔ بہر حال تمام غیر مسلموں کو سلام کرنے کے عدمِ جواز کی کوئی دلیل میری ناقص نظر میں اب تک نہیں آسکی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
آج کل یہ مسئلہ اس لئے زیادہ اہم ہے کہ دنیا بہت سکڑ گئی ہے اور روابط بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ جن میں غیر مسلموں کیساتھ روابط بھی شامل ہیں۔ غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کی بڑی بڑی تعدادیں آباد ہیں۔ ایسے ماحول میں بحیثیت مجموعی ہم سب کے ساتھ ایک جیسا معاملہ کرتے ہوئے افشوا السلام (سلام پھیلانا) کے حکم پر عمل کریں تو بظاہر اس میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارے اندر اگر دوسروں کے کلچرکی چیزیں رواج پارہی ہوں تو ہم اسے بجا طور پر ناپسندیدہ جانتے ہیں۔ سلام کرنا اسلامی تہذیب کا اہم حصہ ہے ، اگر ہمارا طریقہ دیارِ غیر میں یا غیر مسلموں میں رواج پارہا ہو تو بظاہر تو یہ ہمارے لئے خوشی کی بات ہونی چاہئے۔
حاصل یہ کہ غیر مسلموں کو سلام میں پہل کرنے کے جواز اور عدمِ جواز دونوں کے حق میں دلائل موجود ہیں۔ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق موقع محل سے ہے۔ اگر موقع کا تقاضا یہ ہو کہ سلام کرلینا چاہئے ، مثلاً اس سے کوئی ضروری کام ہے اور سلام نہ کرنے کی صورت میں اس کے برا منانے کا خطرہ ہے ، وہ کام وغیرہ میں تمہارا ساتھی ہے ، اس کا حقِ صحبت ادا کرنے کے لئے سلام کیا جارہے ، وہ پڑوسی ہے ، اس کے پڑوسی ہونے کا حق ادا کرنے کے لئے سلام کیا جارہاہے ، وہ تمہارا ہم سفر ہے اس لئے اسے سلام کررہے ہو، غرضیکہ جہاں اسے سلام کرنے کا کوئی صحیح داعیہ اور باعث موجود ہو وہاں سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ سلف میں سے کئی حضرات سے اہلِ ذمہ کو سلام کرنا منقول ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ سفر میں ایک دہقان (غیر مسلم زمیندار) تھا ، آپ نے اسے سلام کیا ، پوچھا گیا کہ کیا انہیں سلام میں پہل کرنا مکروہ نہیں ہے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ یہ بات تو ہے ، لیکن صحبت کا بھی حق ہوتا ہے۔ حضرت ابو امامہ جب اپنے گھر جارہے ہوتے تو راستے میں بڑا چھوٹا ، مسلم غیرمسلم جو بھی ملتا اسے سلام کرتے ہوئے جاتے۔ آپ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ ہمیں افشوالسلام (سلام کی اشاعت) کا حکم دیا گیاہے۔ امام اوزاعی سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تم سلام کرتے ہو تم سے پہلے نیک لوگوں نے سلام کیا ہے اور نہیں کرتے تو تم سے پہلے نیک لوگ سلام نہ کرنے والے بھی گزرے ہیں (تفسیر قرطبی)۔
تاہم یہ طے شدہ ہے کہ مسلمان کو سلام کرنا مستحب اور اس کا حق ہے۔ غیر مسلم کو سلام کرنا زیادہ سے زیادہ جائز ہوگا۔
غیر مسلم کوسلام کا جواب دینے کاطریقہ :
دوسرامسئلہ یہ ہے کہ اگروہ ابتداً سلام کرلیں توجواب دینے کاکیاحکم ہے تواس میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض حضرات نے کہاکہ ان کے جواب میں علیکم السام کہناچاہئے ، یاصرف علیکم کہناچاہئے اور اس میں نیت یہ ہونی چاہئے کہ تم پرموت ہو۔ بعض نے کہاالسلام علیکم اوربعض کے نزدیک علاکم السلام کہناچاہئے۔ لیکن یہ باتیں کلی طور پر درست معلوم نہیں ہوتیں۔ اگرچہ حدیث میں اس کاذکر ہے کہ تم علیکم کہولیکن یہاں حدیث میں بات ان لوگوں کی ہورہی ہے جوالسلام علیکم کہنے کے بجائے السام علیکم (تم پر موت ہو)کہتے تھے توانہیں تواسطرحکاجواب دیناقاعدے کے مطابق درست معلوم ہوتاہے، لیکن جس نے واقعتاً السلام علیکم کہاہے اس کو صراحتاً یا کنا یتاًبد دعا دینا یا براکلمہ کہنا کہ تجھ پرموت ہو درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ بہرحال وہ ذمی یا معاہد ہے ،حربی نہیں ہے اورجب تک اس نے ہم پر زیادتی نہیں کی توہمیں بھی اس پرزیادتی کرنے کاحق حاصل نہیں ہے۔باقی ان حدیثوں میں جوبات ہورہی ہے وہ ان لوگوں کے بارے میں ہورہی ہے جو سلام کرتے ہی نہیں تھے بلکہ السلام علیکم کی بجائے السام علیکم کہتے تھے۔ اب اگرکوئی ہمیں سلام کرتاہے اورہمیں اندازہ ہے کہ وہ ہمیں سلام کرنے کے بجائے السام علیکم کہہ رہاہے پھرتویہ بات متعین ہے جوحدیث میں آئی کہ تم جواب میں کہوعلیکم کہ جوچیزتم نے ہم پربھیجی وہی تم پر۔ لیکن اگر وہ س طرح کی بات نہیں کرتا، نہ اس کا کوئی اشارہ ہے ، بلکہ تقریباً یقین ہے کہ السلام علیکم ہی کہتاہے ،ہمیں یقین ہے کہ اس نے سلام ہی کیا ہے تو اس کے بارے میں راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ جواب دینے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا کہ غیر مسلم کو ابتدا سلام کرنے کا اگر کوئی داعی اور محرک موجود ہو تو جائز ہے ، جب ابتدا جائز ہے تو جواب دینا تو بطریقِ اولی جائز ہوگا، اور جس طرح اس سے کوئی کام وابستہ ہونا یا اس کے کسی حق کی ادائیگی داعیہ اور محرک بن سکتا ہے اسی طرح اس کا ازخود سلام کرنے میں پہل کرنا بھی داعیہ اور محرک بن سکتا ہے۔حضرت ابن عباس وغیرہ بعض سلف سے منقول ہے کہ انہوں نے قرآنی آیت واذا حْیّیتْم بِتَحِیَّۃٍ فَحْیّوا بِاَحسَنَ مِنہا اَو رْدّْوہا میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کو شامل کیا ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ کی مخلوق میں سے جو بھی تمہیں سلام کرے تم اس کا جواب دو ، اگرچہ وہ مجوسی ہو، پھر تائید میں انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ بعض نے کہا کہ اچھا جواب دینے سے مراد مسلمان کو جواب دینا ہے اور ردّوھا یعنی اتنا جواب لوٹادو سے غیر مسلم کو جواب دینا ہے، تاہم بعض حضرات نے آیت کو صرف مسلمانوں کیساتھ مخصوص کیا ہے(تفسیر طبری)۔ واللہ تعالی ا