موت کی تیاری

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2013

تحریر: شہزاد سلیم
ترجمہ: صدیق بخاری

یہ بات ہر خاص و عام پہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہمیں ایک دن مرناہے اور اس دنیاکوہمیشہ کے لیے چھوڑ جانا ہے۔موت کے سرد اور بے حس ہاتھوں نے آج تک نہ کسی کو بخشا ہے نہ بخشے گا۔بچہ بوڑھا ، بیمار صحتمند، امیر غریب سب اس کا شکار بننے والے ہیں۔ کسی کو کوئی استثناحاصل نہیں۔اگر موت اتنی ہی ناگزیر ہے اور اس سے کسی کو کوئی مفر نہیں اور ہر کوئی، کہیں بھی اور کسی بھی وقت اس کاشکار ہونے والاہے تو پھر عقل مندی کاتقاضا یہی ہے کہ اس کے لیے ہر وقت تیار رہا جائے لیکن صرف اس احساس کا ہوناکہ ہمیں مرنا ہے ،موت کی تیاری کے لیے کافی نہیں۔اس کے لیے کچھ ایسے عملی اقدامات کی ضرورت ہے کہ جن کے بعد نہ صرف ہمیں یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ ہم اپنے مالک کو ہنسی خوشی مل سکیں گے بلکہ یہ اطمینا ن بھی حاصل ہو جائے کہ ہم اپنے لواحقین کوکسی پریشانی میں مبتلا کرکے نہیں جائیں گے۔موت کی تیار ی کے لیے سب سے اولین کام اپنی زندگی کوگناہوں سے پاک کرناہے اور اگر کبھی گناہ کی نجاست ہمیں آلودہ کردے تو فوراً توبہ سے ایک بار پھرروح کوپاکیزہ و مطہر بنانا ہے ۔تقویٰ ، تزکیہ اورتطہیرکا یہ رویہ تو مومن کے لیے زندگی بھر ہر لمحے درکار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی کام ہیں جو اسکی توجہ کے متقاضی ہیں ان میں چند ایک کی نشاندہی ہم یہاں کیے دیتے ہیں باقی رہی تفصیل تو وہ ہر شخص کے حالات کے مطابق یقینا جدا جدا ہو گی۔

۱۔ موت کی تیاری کرنے والے ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دولت اورسرمایے کے بارے میں ایک وصیت ہر وقت تیار رکھے۔ یہ وصیت کرتے وقت یہ بات خصوصاً ملحوظ خاطر رہے کہ شرعی ورثا کا حق مجروح نہ ہونے پائے۔اس وصیت میں بیویوں کا خاص خیال رکھاجائے کہ خاوند کی موت کے بعد ان کے گزارے کا کیا ہو گا۔اس طرح اگر اولاد میں سے کوئی بیٹا یا بیٹی کسی خاص وجہ کی بنا پر خاص استحقاق رکھتا ہے تو اس کے اس استحقاق کو واضح کر دیا جائے۔

۲۔ دولت ،زمین جائیداد اور روپے پیسے کی طرح ایک شخص کی ملکیت میں اس کی ذہنی کاوشیں بھی ہو سکتی ہیں جیسے کتابیں ، ویب سائٹس ، رسالے اور ان کا ڈیکلیریشن وغیرہ، خصوصاً جب کہ یہ چیزیں مالی منفعت کا بھی باعث ہوں۔ان کے بارے میں وصیت میں واضح کر دیا جائے کہ جانے والے کے بعد کون ان کاوارث ہو گا۔

۳۔ ہر انسان کے ذمے کچھ ایسی مالی ذمہ داریاں یامعاملات بھی ہو سکتے ہیں جو صرف اسی کے علم میں ہوں۔جیسے کہ کسی سے ادھار لیا ہوا ہے یا کوئی رقوم واجب الوصول ہیں یاکسی ا ور چیز کا لین دین ہے اس کو بھی واضح طور پر لکھ رکھا جائے اور کسی کے ذمہ لگا دیا جائے کہ جو آپ کے بعد ان معاملات کو ذمہ داری سے نبٹا دے ۔

۴۔ اسی طرح ہرانسان کی تحویل میں ضروری کاغذات بھی ہوسکتے ہیں جیسے لائسنس، معاہد ہ جات ، چیک بکس ، رجسٹریاں وغیرہ ان سب کاغذات کی فہرست بھی مرتب کر رکھی جائے اور وصیت میں واضح کر دیا جائے کہ کون ان سب کا وارث یا ذمہ دار ہو گا۔

۵۔ اگر کوئی فرد بعد از مرگ اپنے اعضا وقف کرنا چاہتاہے تو اس کو بھی وصیت میں لکھ دیاجائے۔

۶۔ اسی طرح کسی کی تحویل میں خاندانی نشانیاں،یادگاریں،تمغہ جات اعزازات، ،شجرہ جات ، یا آرٹ و فن کے نمونے بھی ہو سکتے ہیں ۔ وہ آپ کی موت کے بعد اگلی نسل کو کس طرح منتقل ہوں گے وہ بھی لکھ دیا جائے ۔

۷۔ ہر مسلمان کو اپنے جسم کی صفائی کے بارے میں بھی حساس رہنا چاہیے کیونکہ مرتے ہی آپ کا جسم دوسروں کے حوالے ہوگاجو اسکو نہلا ئیں گے ،کفن پہنائیں گے اور قبر تک پہنچائیں گے ۔ اگر آپ نے اپنے جسم کو اسلامی طریقے پر صاف ستھر ا نہیں رکھا ہواہو گا تو نہلانے والوں کوکوفت ہو گی اور وہ آپ کے بارے میں غلط رائے لوگوں تک پہنچائیں گے۔

یہ وہ چند باتیں تھیں جن کی ہم نے نشاندہی کر دی ۔ اس فہرست میں ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اضافہ یا کمی کر سکتاہے اوروصیت میں بھی جب تک زندہ ہے ترمیم و اضا فہ کر سکتا ہے بلکہ وصیت پہ ہر سال نظر ثانی کرتے ہی رہناچاہیے کہ حالات ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔

٭٭٭