دين داري كا معيار

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپريل 2023

اصلاح و دعوت

دينداري كا معيار

فہد حارث

ضروری نہیں کہ جس شخص کی لمبی داڑھی اور ٹخنے برہنہ ہوں وہ حقیقی زندگی میں متقی و دیندار بھی ہو۔ داڑھی اور پائنچے اونچے رکھنا دین کی متقاضات میں سے فقط ایک ظاہری نوعیت کا پہلو ہے۔ پس اس پہلو کو بنیاد بنا کر کسی کی دینداری ماپنا یا اس کے سبب دین کے پیروکاروں پر طعن کرنا نہایت سطحی عمل ہے۔ اولا تو کسی انسان کو ضرورت ہی نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی دینداری ماپتا پھرے کہ خود شریعت میں یہ عمل ناپسندیدہ و غیر مطلوب ہے۔ ثانیا اگر کسی دینی و دنیاوی ضرورت و عذر کے تحت اس کی ضرورت پیش آ بھی جاتی ہے تو بہت مناسب ہوگا کہ دو باتوں کو مد نظر رکھا جائے۔۔۔ پہلا یہ کہ کیا وہ شخص ارکان اسلام کا پابند اور ان پر عمل پیرا ہے، دوئم یہ کہ اسکے خلق خدا سے باہمی معاملات کس نوعیت کے ہیں۔ کیونکہ ارکان اسلام کی غرض و غایت عبودیت و بندگی کے بعد تزکیہ ہے اور تزکیہ اس بات کو موکد کرتا ہے کہ انسان صرف خود کے ساتھ ہی نہیں بلکہ خود سے ربط میں آنے والی ہر مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ آپ لمبی لمبی نمازیں پڑھتے ہیں، تہجد کا ناغہ نہیں کرتے، ہر سال عمرہ و حج پر جاتے ہیں لیکن ساتھ منکرات و فحاشی میں بھی مبتلا ہیں، حقوق العباد میں بدتر ہیں تو اسکا واضح مطلب ہے کہ آپکی عبادات آپکا تزکیہ ہی نہیں کررہیں اور آپکی طرف سے ان کی ادائیگی محض "مذہبی رسومات" سے زیادہ کچھ نہیں۔ آپ روز رات میں ایک چوتھائی قرآن ختم کرتے ہوں لیکن ساتھ ہی غیبت، ٹوہ، تجسس، برے ناموں سے پکارنا اور ایک دوسرے پر عیب لگانے جیسی سئیات کے مرتکب ہورہے ہوں تو پھر آپکا قرآن پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی طوطے کا رٹے رٹائے جملے بغیر سمجھے ادا کرنا۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ علم بغیر عمل بیکار ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض معاملات کی حد تک یہ مقولہ آج ہمارے معاشرے کے ایک معتدبہ گروہ پر صادق آتا ہے۔

سنن ترمذی میں سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مسلم وہ ہے جو داڑھی رکھے، ٹخنے برہنہ چھوڑے، مخارج و تجوید سے قرآن پڑھے وغیرہ وغیرہ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم ہونے کو باہمی معاشرتی رویوں سے منسلک کیا جبکہ یاد رکھیے کہ اسی روایت میں آگے مومن اسکو قرار دیا گیا ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال کو محفوظ سمجھیں۔ اب ذرا ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنے آس پاس دیکھیں، صرف فیس بک والز ہی جا کر چیک کریں کہ یہاں کون مسلم ہے جس کی زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ بچا ہو۔ شاید 100 میں سے کوئی 1 ہی مسلمان ڈھونڈ پائیں ہم۔ البتہ آپکو یہاں 100 میں سے 70 لوگ شاید داڑھی والے مل جائیں گے۔

ہمارے بنیادی مسئلوں میں سے ایک مسئلہ "دھڑلے سے" بغیر کسی احتیاط کے "کچھ بھی" کہہ دینا ہے۔ ہم بد احتیاطی پر مبنی گفتگو کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ دفتر اعمال میں ایک ایک چیز لکھی جارہی ہے۔ اپنے ہمخیال، اپنے ہم نظریات لوگوں سے تو سب ہی حسن اخلاق روا رکھتے ہیں، اصل امتحان تو تب ہے جب کسی سے بدیہی اختلاف رکھنے کے باوجود آپ اس کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کریں۔ یہ عمل تقوی کے قطعی منافی اور اخلاق کے نچلے ترین درجے کا غماز ہے کہ اپنے مخالفین کے ساتھ آپکا تعامل اخلاق طور پر پست ہو۔ آپ ہر وقت ان کی ٹوہ میں رہتے ہوں، ان کو نیچا دکھانے کو ان پر سرعام پھبتیاں کستے ہو یا پھر ان کے نام بگاڑ کر پکارتے ہو، ایسا کرتے ہوئے آپ عالم، حافظ، محدث، سائنسدان، فقیہ، انجینئر، ڈاکٹر سب ہوسکتے ہیں لیکن متقی ونیک ہرگز نہیں ہوسکتے۔