محض ایک کلمہ

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپريل 2024

اصلاح و دعوت

محض ایک کلمہ

ابو يحيی

’’پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجیے کہ جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اسے کچھ نیکی کماؤں۔‘‘، جواب ملے گا: ’’ہر گز نہیں! یہ محض ایک کلمہ ہے جو یہ کہہ رہا ہے۔‘‘ ، (المومنون 99 : 23)

حسرت و یاس کا یہ جملہ موت کے بعد کی دنیا کو دیکھ کر ایک منکر حق کی زبان سے نکلے گا۔ مگر اسے زبان سے نکلا ہوا ایک ’’کلمہ‘‘ کہہ کر رد کردیا جائے گا۔ کم و بیش یہی مکالمہ روزِ حشر ہوگا جب مجرم اللہ کے حضور پیش ہوکر کہیں گے کہ ہمیں دوبارہ دنیا میں لوٹا دیا جائے کہ ہم نیک عمل کریں، (السجدہ 12 : 32) ، مگر ان کی یہ بات یا ’’کلمہ‘‘ رد کردیا جائے گا۔

اس طرح کی آیات پڑھ کر ایک بندہ مومن تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کہیں قیامت کے دن اس کے زبان سے نکلے ہوئے کلمہ ’’لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘ کو بھی کہیں اسی طرح رد نہ کردیا جائے۔ اس کا انجام بھی وہی نہ ہو جو منافقین کے کلمہ شہادت کا ہوا تھا:

’’یہ منافقین جب تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بلا شبہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ ۔ ۔ اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک تم اس کے رسول ہو ۔ ۔ ۔ اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین بالکل جھوٹے ہیں۔‘‘

بندہ مومن یہ سوچ کر لرز اٹھتا ہے کہ کہیں قیامت کے دن اسے یہ نہ کہہ دیا جائے کہ تمھارا ایمان ایک نسلی گروہ کا ایمان تھا۔ تم اپنی قوم کے لیے جیے اور اسی کے لیے مرے۔ تمھارا ایمان ایک فرقہ کا ایمان تھا۔ تم اسی کے لیے جیے اور اسی کے لیے مرے۔ تمھارا ایمان مفادات کا ایمان تھا۔ تم اپنے مفادات کے لیے جیے اور انہی کے لیے مرے۔ تمھارا ایمان تعصبات کا ایمان تھا۔ تم اپنے تعصبات کے لیے جیے اور انہی کے لیے مرے۔ تم نے ساری زندگی سچائی کو اپنی قوم، اپنے فرقے، اپنے مفاد اور اپنے تعصب کی عینک سے دیکھا۔

میرا کلام تمھارے پاس آیا۔ مگر تم نے اسے اپنی ہی عینک سے دیکھا۔ میرا حبیب تمھارے پاس رہا۔ تم نے اسے بھی اپنی ہی عینک سے دیکھا۔ پھر میرے غلام تمھارے پاس آتے رہے۔ وہ تمھیں سمجھاتے رہے۔ ایمان و اخلاق کی دعوت دیتے رہے۔ عمل صالح کی طرف بلاتے رہے۔مگر تم ہر واضح سچائی کو دیکھنے کے لیے بھی اندھے بنے رہے۔ جو چیز تمھاری خواہشات کے خلاف ہوتی، تم اسے اٹھا کر اپنے پیٹھ کے پیچھے پھینکتے رہے۔ جو چیز تمھارے تعصبات کے خلاف ہوتی تم بلا سوچے سمجھے اس کے خلاف ہوگئے۔ تم دنیا کا سودا خریدنے چار دکانوں پر جاتے تھے مگر جنت کا سودا تمھیں اتنا سستا لگا کہ جہاں پیدا ہوگئے، جہاں پہلے بیٹھ گئے اس سے ہٹ کر ہر دوسری بات سننے سے انکار کردیا۔ یہ تمھارا ایمان تھا؟تمھارا اخلاق یہ تھا کہ تم جھوٹ بولتے رہے اور اسے پھیلاتے رہے۔ تم ہر بربریت کو اگر اور مگر کی ڈھال فراہم کرکے مجرموں کو بچاتے رہے۔ تم الزام و بہتان کی بھٹی پر نفرت کی دیگیں پکاتے رہے۔ تم میرے بہترین بندوں کے دشمن بن گئے۔ تم نے کتنوں کو مار ڈالا اور کتنوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ کتنوں کو جھٹلایا اور کتنوں کے خلاف جھوٹی مہم چلا کر انہیں بدنام کیا۔تم حیا کی باتیں کرتے تھے، مگر ذاتی زندگی میں ہر بے حیائی کے مرتکب ہوتے تھے۔ تم جنت کی باتیں کرتے تھے۔ مگر تم نے دولت کے ڈھیر اس دنیا کے لیے جمع کر رکھے تھے۔ تم دوسروں پر اسلام نافذ کرتے رہے، مگر تمھاری اپنی روح ایمان کی ہر حرارت سے محروم رہی۔ تم لوگوں میں روتے رہے اور دوسروں کو رلاتے رہے۔ مگر تمھاری تنہائی آنسوؤں سے خالی اور زبان گالیوں سے عبارت تھی۔ تم تقریروں میں اسلاف کی باتیں کرتے تھے، مگر اسلاف کے تحمل اور رواداری کی تمھیں ہوا بھی نہیں لگی۔ جاؤ آج تمھارا ایمان مردود ہے۔ جاؤ تمھارا کلمہ شہادت رد کیا جاتا ہے۔

کیسا عجیب ہوگا وہ وقت جب بڑے بڑے ’’مومنوں‘‘ کا ایمان رد کردیا جائے گا۔