ہم كيا كريں

مصنف : يمين الدين احمد

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپريل 2024

اصلاح و دعوت

ہم كيا كريں

يمين الدين احمد

موجودہ حکمران اور موجودہ نظام دونوں اس قابل نہیں ہیں کہ خیر پر مبنی کسی بھی تبدیلی کا باعث بن سکیں۔ اور نہ ہی یہ حکمران اور نظام ایک دن، ہفتے، سال میں تبدیل ہونے والے ہیں۔ البتہ چہرے بدلتے رہیں گے لیکن کوئی بھی تبدیلی آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ یہ جملہ پوری گارنٹی کے ساتھ ہے، چاہے تو نوٹ کر لیجیے۔اب ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور حکمرانوں اور نظام کو کوستے رہیں اور اس بات کا انتظار کریں کہ اوپر جب کچھ بدل جائے گا تو نیچے بھی بدل ہی جائے گا۔ کیونکہ اس طرح تبدیلی تیز ہوتی ہے۔یا ہم براہ راست اوپر جا کر غیر حکیمانہ طریقے سے سر ٹکرائیں جس کا کوئی نتیجہ نکلتا ہوا کم از کم مجھے نظر نہیں آتا بلکہ الٹا اس جذباتیت کے نتیجے میں سخت نقصان کا اندیشہ ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے "سرکل آف کنٹرول" سے شروع کرتے ہوئے "سرکل آف انفلوئنس" بڑھاتے جائیں اور لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتے جائیں کہ آپ کم از کم اپنی زندگی کے 100 فیصد ذمہ دار ہیں، لہٰذا اس ذمہ داری کو سمجھیں اور اپنے عمل اور کردار کو درست کریں، اپنے اخلاقی معیار اور کردار کو بلند کریں۔ ایسے گھرانے، ادارے اور کمیونٹیز بنانے پر کام کریں جن کا اثر و نفوذ معاشرے میں بڑھتا چلا جائے۔

اگر آپ کو وژن کی کلیرٹی ہو اور آپ یہ بات جانتے ہوں کہ کسی بھی معاشرے میں یا قوم میں تبدیلی کا سفر کئی عشروں بلکہ صدیوں پر محیط ہوسکتا ہے تو آپ اپنی ہی زندگی میں نتائج دیکھنے کے لیے بے چین نہیں ہوتے بلکہ آپ طویل مدتی اسٹریٹجی پر کام کرتے ہیں، جس کے نتائج ممکن ہے کہ دو نسلوں کے بعد آئیں لیکن آپ اپنے حصے کا کام غیر جذباتی طریقے سے کر جاتے ہیں۔ اس کے لیے "صبر" بمعنی Perseverance کی ضرورت ہوگی جو کہ ہمارے اندر ناپید ہے۔ ہم ایک بے صبری قوم بلکہ ہجوم بن گئے ہیں، ہمیں فورا" نتائج چاہیے ہوتے ہیں، ہم پروسیس سے زیادہ نتیجے پر فوکس کرنے والے لوگ ہیں۔سمجھانے کے لیے مثالیں تو بہت ہیں لیکن تاریخ سے ایک مثال لیتے ہیں۔

ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد 1608ء میں ہوئی اور بطور ٹریڈنگ کمپنی ہوئی جو مصالحہ جات، ٹیکسٹائل، ادویات، اور بعد میں چائے اور افیون کا کاروبار کرتی تھی۔ اس کے تین مرکزی بانیان (Founders) تھے۔ لندن کا لارڈ میئر اور ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر اسٹیفن سوم، لندن ہی سے تعلق رکھنے والا سیاستدان اور بڑا تاجر تھامس اسمتھ، اور لکھاری اور تاجر رچرڈ ہیکلوئٹ۔ ان کے ساتھ کچھ اور برطانوی انفلوئنسرز بھی شامل تھے۔ یہ ایک ٹریڈنگ کمپنی کے طور پہ ہی چارٹرڈ ہوئی تھی لیکن 1634ء میں انہوں نے ہندوستان کو "گولڈن ہند" (سونے کی چڑیا) قرار دیا اور کمپنی اپنے تاجرانہ مقاصد کے ساتھ ساتھ ہندوستان پر حکومت کرنے کا وژن بھی کرافٹ کرنا شروع ہوگئی۔ انہیں یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ یہ ایک بہت بڑا وژن ہے جو چند سالوں میں حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اس کے لیے اپنی ٹریڈنگ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ تاکہ ہماری معیشت مضبوط ہو، ہمیں معاشرے میں اثر و نفوذ بھی بڑھانا ہوگا یہاں تک کہ ہندوستان کی اشرافیہ، کاروباری طبقے اور اہل اقتدار کو بھی اپنے وژن میں آلہ کار بنانا ہوگا۔ اس کے لیے پہلے ان کو کمزور کرنا اور ان پر اپنی مضبوطی کی دھاک بٹھانا ضروری ہے۔انہیں اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ "گولڈن ہند" یعنی سونے کی چڑیا کو مکمل طور پر اپنے زیر اثر کرنے اور اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لیے ہندوستانی معاشرے میں ہمیں مختلف سطحوں پر کام کرنا ہوگا۔ تعلیم، معیشت، صنعت، طب، کلچر، زبان، عام افراد کی ذہن سازی، حکمرانوں کے ساتھ تعلقات، صنعت و حرفت میں یورپ خصوصا" برطانیہ کی مضبوط بنیادوں کا مقامی لوگوں پر سکہ بٹھانے اور دیگر ڈومینز میں کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں ہندوستان کے لوگوں کو یہ باور کروانا ہوگا کہ کمپنی کے لوگ، کمپنی کا نظام، کمپنی کی ایڈمنسٹریشن کی صلاحیت، ان کے برطانوی رائل فیملی سے تعلقات، برطانیہ کے لوگوں کی علوم و فنون میں جدید مہارت، ان کی صنعتی ترقی، ان کی مصنوعات، ان کی زبان، ان کی قابلیت، غرضیکہ ہر ہر چیز ہندوستان سے بہت اچھی ہے۔اور یہ سارا کام گہری سوچ بچار اور مستقل مزاجی کے ساتھ برتی جانے والی حکمت عملی کے بغیر نہیں ہوسکے گا۔ ان کی پہلی نسل کو یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ سب کچھ ان کی زندگی میں ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی انہیں اس بات کی جلدی تھی۔ لہٰذا انہوں نے اپنے وژن کو جذباتی بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے نسل در نسل منتقل کیا۔ ان کے وژن کی تکمیل اٹھارویں صدی کے درمیان میں ہوئی جب آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر صاحب بھی تخت سے اتار کر میانمار جلا وطن کیے گئے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 200 سال لگائے اور ان کی 8 سے 10 نسلیں اس وژن کے لیے کھپ گئیں۔ یہاں تک کہ 1860ء کی دہائی میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ "سلطنت برطانیہ کا سورج دنیا میں کبھی غروب نہیں ہوتا۔"ان 200 سالوں میں انہوں نے کئی اور علاقوں اور خطوں کو اپنی عالمی سلطنت کے وژن کا حصہ بنا لیا تھا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم اپنی قوم اور امت کو دوبارہ اپنی عظمت رفتہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ کام ہماری زندگی میں تو نہیں ہونے والا۔ تو کیا ہم اپنی آٹھ دس نہ سہی، دو تین نسلیں کھپانے کے لیے تیار ہیں؟اگر ہاں تو کیا ہمارے پاس ان لوگوں کی ذہن سازی، اوصاف اور صلاحیتوں کو بنانے، سنوارنے اور نکھارنے کا کوئی نظم، کوئی فریم ورک موجود ہے؟دوسری بات یہ کہ یہ کام سطحی جذباتیت کے ساتھ بھی نہیں ہونے والا۔ تیسری بات یہ کہ یہ ایک چو مکھی بلکہ اٹھ مکھی جدوجہد ہے جس میں ہر ڈومین میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہوگی۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ہر دور کے اپنے ٹولز یا ہتھیار ہوتے ہیں تو اس دور کے بھی کچھ ٹولز اور ہتھیار ہیں جنہیں جاننا، سیکھنا اور برتنا آنا ضروری ہے۔ تاکہ آپ مستقبل کی اس تصویر کو سامنے رکھ کر، اپنے آج کو بہترین اسباب کے ساتھ برت سکیں۔پانچویں اور سب سے اہم بات یہ جاننا اور اس بات کو اپنی نسلوں میں منتقل کرنا ضروری ہے کہ "ہمارا وژن کیا ہے؟" اور "ہمیں یہ کیوں کرنا ہے؟"چھٹی بات کہ اس وژن پر کام کرنے لے لیے ہمارے کردار کے اندر کن صفات کا ہونا لازمی ہے؟ اور انٹیگرٹی ان اوصاف میں بنیادی اہمیت کی حامل صفت ہے۔ اگر ہم یہ نہیں سمجھ رہے اور ہماری زندگیاں اس طرح سے ڈیزائن نہیں ہورہی ہیں تو یقین کیجیے ہم صرف ایک احتجاجی اور بائیکاٹی قوم بن کر ہی جئیں گے اور عشروں سے ہم یہی تو کررہے ہیں، جو کہ کسی قوم کی شدید ترین کمزوری (جرم ضعیفی) کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ تو جن لوگوں کو یہ بات سمجھ آتی ہے تو ان کو اپنے اوپر اور اپنی اگلی نسلوں کی زندگیوں کو درست سمت اور درست فریم ورک کے ساتھ ڈیزائن کرنا آنا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر پوسٹس میرے وژن کا صرف 5 فیصد ہے۔ باقی 95 فیصد میں عملی طور پر اس وژن کو سامنے رکھتے ہوئے افراد، خاندان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ادارے بنوانے کے کاموں میں مصروف رہتا ہوں۔ آج کل ادارہ جاتی سطح پر زیادہ کام کررہا ہوں۔برسوں بیت گئے، میری زندگی میں کوئی چھٹی نہیں ہے کیونکہ "ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔"اور سچ یہ ہے کہ ہم بحیثیت امت اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں، میں پورے یقین کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس چھٹی کرنے کا کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا ہماری ویسے ہی چھٹی کروا چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتجاج، مظاہرے، جذباتی نعرے بازی مجھے کبھی بھی انسپائر نہیں کرسکی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی ساری زندگیوں میں بلکہ اس کے بعد کے انتہائی مشکل ادوار میں بھی مجھے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

جدید دنیا کے نظام کا ایک احمقانہ ثمر یہ بھی ہے کہ اس نے جمہور کے حق کے طور پہ ہمیں احتجاجی مظاہرے کرنے کی اجازت دیکر ایک پیارا سا میٹھا سا لولی پاپ دیا ہوا ہے اور ہم اس لولی پوپ کے نشے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے ذریعے مجھے ایک اندرونی اطمینان سا مل جاتا ہے کہ میں نے بھی کچھ تو کر ہی لیا ہے۔ لیکن جب قوموں میں زندگی کی رمق ہوتی ہے، ان کا شعور حقیقت میں زندہ ہوتا ہے تو وہ بہت گہرائی میں جا کر کام کرتے ہیں اور ہم یہ بات جانتے ہیں کہ یہ ایک طویل المدتی، شاید چار پانچ نسلوں کا گیم ہے اور پھر ہم اسی طرح اپنے اسباب اور حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔

پچھلے 75 سالوں میں ہم کم از کم تین نسلیں کھپا چکے ہیں لیکن ہم ابھی بھی ویسے ہی چل رہے ہیں، چاہے پاکستان ہو، ہندوستان ہو یا فلسطین ہو۔ "اگر آپ وہی کر رہے ہیں جو آپ پہلے بھی کررہے تھے تو آپ کو وہی نتائج ملیں گے جو پہلے مل رہے تھے۔"

جبکہ جن کے پاس اپنی قوموں کے لیے وژن مع حکمت عملی تھے، وہ ان ہی 75 سالوں میں کہیں سے کہیں پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے ہمیں نہ صرف کچل کے رکھ دیا ہے بلکہ ہر طرف سے ہمارے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے باندھ دیئے ہیں کہ ہم چوں بھی نہ کرسکیں۔

اقبال نے کہا تھا:

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ--محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک

محکوم کا دل مُردہ و افسردہ و نومید--آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طرب ناک

آزاد کی دولت دلِ روشن، نفسِ گرم--محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک

محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروّت--ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش--وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجۂ افلاک

آزاد ہو کر سوچیے۔ گہرائی میں جا کر سوچیے۔ آپ کا دائرہ اثر جہاں تک ہے، کم از کم وہاں پر کام کیجیے۔ جاگیے اور جگائیے کیونکہ جاگتے ہوئے کو جگانا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن رمضان المبارک کا مہینہ اس کے لیے بہترین مہینہ ہے۔