سوال، جواب

مصنف : حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اگست 2022

معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے وہبی ہونے کامطلب نہیں سمجھا گیا اسی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوا ہے نیز آیات الہیٰ کے مشاہدے سے حق کی جستجو کرنا اور فلسفیانہ قیاس آرائیوں سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنا ایک دوسرے کا ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے۔یہ چیز بھی سائل کے لیے غلط فہمی کی موجب ہوئی ہے۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام وحی آنے سے پہلے جو علم رکھتے تھے اس کی نوعیت عام انسانوں سے مختلف نہ ہوتی تھی۔ ان کے پاس نزول وحی سے پہلے کوئی ایسا ذریعہ علم نہ ہوتا تھا جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہ ہو۔چناچہ فرمایا: مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ ( الشوری ۔ 52) ’’تم کچھ نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی (الضحٰی7:) ’’اور اللہ نے تم کو نا واقفِ راہ پایا، پھر تمہیں راستہ بتایا۔‘‘
اس کے ساتھ قرآن ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نبوت سے پہلے علم و معرفت کے انہی عام ذرائع سے،جو دوسرے انسانوں کو بھی حاصل ہیں، ایمان بالغیب کی منزل طے کرچکے ہوتے تھے۔ وحی آکر جو کرتی تھی وہ بس یہ تھا کہ پہلے جن حقیقتوں پر ان کا دل گواہی دیتا تھا، اب انہی کے متعلق وحی یقینی اور قطعی شہادت دے دیتی تھی کہ وہ حق ہیں، اور انہی صداقتوں کا عینی مشاہدہ کرادیا جاتا تھا تاکہ وہ پورے وثوق سے دنیا کے سامنے ان کی گواہی دے سکیں۔ یہ مضمون سورۃ ہود میں بار بار بہ تکرار بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ پہلے نبی کریمﷺ کے متعلق فرمایا:۔
اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَیَتْلُوْہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ وَمِن قَبْلِہِ کِتٰبُ مُوْسٰی إَمَامًا وَرَحْمَۃً ( ہود: 17)پھرکیا وہ شخص جو پہلے اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر تھا۔ (یعنی عقلی و فطری ہدایت پر) اس کے بعد خدا کی طرف سے ایک گواہ بھی اس کے پاس آ گیا (یعنی قرآن)۔ اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی رہنما اور رحمت کے طور پر موجود تھی(کیا وہ اس صداقت کے بارے میں شک کرسکتا ہے؟)پھر اس کے بعد یہی مضمون رکوع۳ میں حضرت نوح ؑ کی زبان سے ادا ہوتا ہے:
یٰـقَوْمِ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیَ وَآتَانِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ اَنُلْزِمُکُمُوْہَا وَاَنْتُمْ لَہَا کَارِہُوْنَ(ہود:28)
اے میری قوم کے لوگوں! غور تو کرو، اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر تھا، اور اس کے بعد اس نے اپنی طرف سے مجھ کو رحمت(وحی و نبوت) سے بھی نوازا، اور وہ چیز تم کو نظر نہیں آتی، تو اب کیا ہم زبردستی اسے تمہارے سرچپک دیں ؟ پھر اسی مضمون کو چھٹے رکوع میں حضرت صالح ؑ اور آٹھویں رکوع میں حضرت شعیب ؑ دہراتے ہیں۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وحی کے ذریعہ سے حقیقت کا براہ راست علم پانے سے پہلے انبیاء علیہم السلام مشاہدے اور غورو فکر کی فطری قابلیتوں کو صحیح طریقے پر استعمال کرکے (جسے اوپر کی آیات میں بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ سے تعبیر کیا گیا ہے) توحید و معاد کی حقیقتوں تک پہنچ جاتے تھے۔ اور ان کی یہ رسائی وہبی نہیں بلکہ کسبی ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ انہیں علم وحی عطا کرتا تھا، اور یہ چیز کسبی نہیں بلکہ وہبی ہوتی تھی۔
یہ مشاہدہ آثار اور غورو فکر، اور عقل عام (Common Sense) کا استعمال ان قیاس آرائیوں اور اس خرص و تخمین (Speculation) سے بالکل ایک مختلف چیز ہے جس کا ارتکاب فلاسفہ کیا کرتے ہیں۔یہ تو وہ چیز ہے جس پر قرآن مجید ہر انسان کو خود آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بار بار اس سے کہتا ہے کہ آنکھیں کھول کر خدا کی قدرت کے آثار کو دیکھو اور ان سے صحیح نتیجہ اخذ کرو۔سائل نے اپنے سوال میں جس آیت کی تفسیر کے متعلق اپنے شک کا اظہار کیا ہے خود اسی کے ماقبل و مابعد کا مضمون اگر وہ پڑھیں تو دیکھیں گے کہ وہاں بھی مقصود کلام یہی بتانا ہے کہ آیات الٰہی کے مشاہدے سے ایک غیر متعصب طالب حق کس طرح حقیقت تک پہنچ جاتا ہے۔(ترجمان القرآن جلد۲۵۔ عدد ۱، ۲ ،۳ ،۴)

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

آپ کا مطلب غالباً یہ ہے کہ ہر قوم صرف اسی دعوت پر ایمان لانے کی مکلف ہونی چاہئے جو اس کی اپنی زبان میں دی گئی ہو۔ دوسری کسی زبان میں آئی ہوئی دعوت، اگرچہ وہ حق ہو، اگر چہ وہ من جانب اللہ ہو، اگرچہ وہ ترجموں، تفسیروں، تشریحوں اور عملی نمونوں کے ذریعہ سے آپ تک پہنچ جائے پھر بھی وہ واجب الاتباع نہ ہونی چاہئے کیونکہ وہ آپ کی زبان میں نہیں بھیجی گئی ہے۔ اگر یہی آپ کا مطلب ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو مذکورہ بالا آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے سے پیدا ہوگئی ہے۔ آیت کا مقصد دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب کسی قوم میں کوئی رسول بھیجا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ رسول خاص اسی قوم کے لیے ہو یا تمام دنیا کے لیے، بہر حال اس نے اپنے اولین مخاطب لوگوں کو ان کی اپنی زبان ہی میں خطاب کیا ہے تاکہ وہ اس کی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان کو یہ حجت پیش کرنے کا موقع نہ ملے کہ ’’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کے لیے لازماً الگ ایک مستقل نبی ہی آنا چاہئے جو اس کو اس کی اپنی زبان ہی میں خطاب کرے۔اور نہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایک قوم کو دوسری قوم کے اہل ایمان اس کی اپنی زبان میں قابل فہم طریقہ سے خدائی تعلیم پہنچادیں، تب بھی وہ محض اس بنا پر اسے رد کردینے میں حق بجانب ہو کہ نبی خود براہ راست خدا کی کتاب اس کی زبان میں لے کر نہیں آیا ہے۔ یہ بات نہ اس آیت میں کہی گئی ہے اور نہ اس کے الفاظ میں ایسی کوئی گنجائش ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے۔آخر کون سی معقول وجہ اس بات کے لیے پیش کی جاسکتی ہے کہ جس شخص کو قرآن کی تعلیم کا لب لباب اس کی مادری زبان میں واضح طور پر پہنچ گیا ہو وہ اس پر ایمان لانے میں حق بجانب ہو؟
عربی قرآن تو صرف عربوں کے لیے ہونا  چاہیے

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

آپ کے جن سکھ دوست نے یہ اعتراض کیا ہے وہ اگر اپنے تخیل کو تھوڑی حرکت اور دیتے تو اس سے بڑھ کر وہ یہ سوال بھی کرسکتے تھے کہ قرآن کا ایک ایک نسخہ براہ راست ایک ایک انسان کے پاس خدا نے کیوں نہ بھیجا؟ کیونکہ جب وہ قادر مطلق ہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔دراصل یہ لوگ اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں فرمایا ہے جس سے دنیا کے اس انتظام کو بدلنے کی ضرورت پیش آئے جو اپنی فطری رفتار پر چل رہا ہے۔ انسانوں میں زبا ن کا اختلاف اور اس بناپر نوع انسانی میں چھوٹے اور بڑے حلقے بن جانا ایک فطری چیز ہے۔ جو خوداللہ تعالیٰ ہی کی مشیت کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس میں بے شمار مصلحتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرنا چاہتا وہ اگر قادر مطلق ہے تو اس ساتھ وہ حکیم بھی ہے،اس کی سلطنت کا نظا م اٹل قوانین پر چل رہا ہےانہیں قوانین کے تحت قوموں کی زبانوں اور ان کی روایات میں تنوع نمودار ہوتا ہے اگر اس پرانٹو کی قسم کی کوئی زبان اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کی جاتی تب بھی وہ نہ تو قوموں کی مادری زبان بن سکتی تھی نہ اس کے ادب سے قلو ب متاثر ہو سکتے تھے، اور نہ لوگ اس کی ادبی نزاکتوں کو محسوس (Appreciate) کر سکتے تھے، الا یہ کہ قوموں کی مادری زبانوں کو اللہ تعالیٰ فوق الفطری سے مٹادیتا ہے  اور فوق الفطرت طریقے ہی سے اس اسپرانٹو کو زبردستی تمام قوموں کی زبان بنادیتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک کام اس کے دوسرے کام کو مٹانے کے لیے نہیں ہوتا،اس وجہ سے انسانی زبان کے سابق فطری نظام کو برقرار رکھتے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا کام انجام دیا ہے۔
یہ اعتراض کہ عربی میں قرآن شریف صرف عربوں کے لیے مفید ہوسکتا تھاہے، اسی صورت میں صحیح ہوسکتا ہےجب کہ اللہ نے صرف اپنی کتاب نازل کی ہوتی۔لیکن امر واقعہ یہ کہ اللہ نے اپنی کتاب کے ساتھ رہنما بھی پیدا کیا۔ اس رہنما نے پہلے انسانوں کی ایک قوم کو جس کی زبان میں کتاب نازل ہوئی تھی، خطاب فرمایا اور اس قوم کو تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس نظام کے سانچے میں ڈھال دیا جو کتاب کے منشاء کے مطابق تھا۔ پھر اس قوم کے سپرد یہ خدمت کی کہ وہ دنیا کی دوسری قوموں کو نبی کی قائم مقام بن کر اسی طرح خطاب کرے اور اسی طرح تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے جس میں پہلے وہ خود ڈھالی گئی تھی۔ پھر جو جو قومیں اس طر یقے سے اس اثر کو قبول کرتی جائیں وہ دوسری قوموں کے لیے یہی خدمت انجام دیں۔ یہ اس تعلیم کو عام کرنے کی فطری راہ تھی اور دنیا میں جس تحریک نے بھی عالمگیر دعوت کا کام انجام دیا ہے، خواہ وہ خدا پرستانہ ہو یا کسی دوسری نوعیت کی، بہر حال اس نے فطرتاً یہی راہ اختیار کی ہے۔اگر یہ اصول تسلیم کرلیا جائے کہ کوئی کتاب صرف اسی قوم کے لیے مفید ہے جس کی زبان میں یہ لکھی گئی ہو تو پھر دنیا کی علمی تاریخ کو غلط تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر تو انسانی تصنیفات کو بھی زبانوں کے لحاظ سے قوموں کے لیے مخصوص کردینا ہوگا اور ترجمہ اور بین الاقوامی تبلیغ کے تمام دوسرے ذرائع کے فائدے سے انکار کردینا ہوگا۔ حالانکہ یہی چیزیں ہیں جن کے بل پر بڑی بڑی تحریکوں کی دعوت اور بڑی بڑی انقلابی شخصیتوں کے پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلتے رہے ہیں۔ پھر محمدﷺ کی پیش کردہ کتاب ہی نے کیا قصور کیا ہے کہ محض عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اسے عرب قوم کے لیے مخصوص اور محدود کردیا جائے۔اگر کوئی شخص اس چیز سے مطمئن نہ ہو اور برابر اپنے اس اصرار پر قائم رہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اسی طرح اللہ کو کام کرنا چاہئے تھا تو اسے اپنی رائے پر جمے رہنے کا اختیار حاصل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسے ایسے سوالات کو سدراہ بنا کر اگر ایک شخص ایک کتاب یا ایک پیغام سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا تو نقصان کس کا ہے؟ یہ رویہ طالبان حق و صداقت کا نہیں ہوتا۔ وہ تو جگہ جگہ ٹوہ لگاتے پھرتے ہیں کہ سچائی کی روشنی کہاں ہے اور کہاں سے ملتی ہے۔ اگر آدمی دنیا کی ہر کتاب، ہر پیغام اور ہر تعلیم کے مقابلہ میں دل و دماغ پر کسی نہ کسی قسم کا قفل چڑھالے تو پھر وہ ایک قدم بھی زندگی کی سیدھی راہ پر نہیں چل سکتا۔(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال۶۴ھ، جولائی، اکتوبر۴۴ء 

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

ختم نبوت
سوال: میرے ایک دوست ہیں جو مجھ سے بحث کیا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے ایک رشتہ دار جو مرزائی ہیں ان کو اپنی جماعت کی دعوت دیتے ہیں مگر وہ میرے دوست ان کے سوال کا جواب پوری طرح نہیں دے سکتے۔انہوں نے مجھ سے ذکر کیا۔ میں خود تو جواب نہ دے سکا۔ البتہ میں نے ایک صاحب علم سے اس کا جواب پوچھا۔ مگر کوئی ایسا جواب نہ ملا جس سے کہ میری اپنی ہی تسلی ہوجاتی۔ اس لیے اب آپ سے پوچھتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مرزائی حضرات لفظ ’’خاتم‘‘ کے معنی نفی کمال کے لیتے ہیں نفی جنس کے نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خاتم کا لفظ کہیں بھی نفی جنس کے ساتھ استعمال نہیں ہوا اگر ہوا ہو تو مثال کے طور پر بتایا جائے۔ ان کا چیلنج ہے کہ جو شخص عربی لغت میں خاتم کے معنی نفی جنس کے دکھادے اس کو انعام ملے گا۔ نفی کمال کی دو مثالیں وہ یہ دیتے ہیں کہ مثلاً کسی کو خاتم الاولیاء کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولایت اس پر ختم ہوگئی، بلکہ حقیقی مطلب یہ ہوتا ہے کہ ولایت کا کمال اس پر ختم ہوا۔ اقبال کے اس فقرے کو بھی وہ نظیر میں پیش کرتے ہیں:آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاں آباد میں اس کے بعد کوئی شاعر پیدا نہیں ہوا، بلکہ یہ ہے کہ وہ جہاں آباد کا آخری باکمال شاعر تھا۔اسی قاعدے پر وہ خاتم النبیین کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ نبی کریمﷺ پر کمالات نبوت ختم ہوگئے نہ یہ کہ خود نبوت ہی ختم ہوگئی۔

آپ کا عندیہ نامہ مورخہ۳ مارچ ۵۰ء مجھے یہاں یکم اپریل کو ملا۔ جواب میں مزید تاخیر اس لیے ہوئی کہ میرے پاس خط لکھنے کا کاغذ نہ تھا امید ہے کہ میری مجبوری کو پیش نظر رکھ کر تاخیر جواب سے درگزر فرمائیں گے۔
قرآن مجید کی کسی آیت کے متعلق اگر کوئی سوال پیدا ہو تو سب سے پہلے خود قرآن ہی سے اس کا مفہوم معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے بعد تحقیق کرنا چاہئے کہ کوئی حدیث صحیح بھی اس کی توضیح کرتی ہے یا نہیں۔ اگر ان دونوں ذرائع سے کوئی جواب نہ ملے (جس کا امکان بہت ہی کم ہے) تو البتہ کسی دوسرے ذریعہ کی طرف رجوع کرنا درست ہو سکتا ہے۔
ختم نبوت کا ذکر سورۃ احزاب میں آیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ عرب میں منہ بولے بیٹے کو بالکل بیٹے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ وہ حقیقی بیٹے کی طرح میراث پاتا تھا۔ منہ بولے باپ کی بیوی اور بیٹیوں سے اسی طرح خلا ملا رکھتا تھا جس طرح ماں بیٹے اور بھائی بہنوں میں ہوا کرتا ہے اور متبٰنی بن جانے کے بعد وہ ساری حرمتیں اس کے اور منہ بولے باپ کے درمیان قائم ہوجاتی تھیں جو نسبی رشتے کی بنا پر قائم ہوا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس رسم کو توڑنا چاہتا تھا۔ اس نے پہلے حکم دیا کہ ’’منہ سے کسی کو بیٹا کہہ دینے سے کوئی شخص حقیقی بیٹا نہیں ہوجاتا۔‘‘ (سورۃ احزاب، آیت ۴۔۵) لیکن دلوں میں صدیوں کے رواج کی وجہ سے حرمت کا جو تخیل بیٹھا ہوا تھا وہ آسانی سے نہیں نکل سکتا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اس رسم کو عملاً توڑ دیا جائے۔ اتفاق سے اسی زمانہ میں یہ واقعہ پیش آگیا کہ حضرت زیدؓ نے (جو نبی کریمﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے) حضرت زینب کو (جو ان کے نکاح میں تھیں) طلاق دے دی۔ نبی کریم ﷺ نے محسوس فرمایا کہ یہ موقع ہے اس سخت قسم کی جاہلی رسم کو توڑنے کا، جب تک آپ خود اپنے متبٰنی کی مطلقہ بیوی سے نکاح نہ کریں گے متبٰنی کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھنے کا جاہلی تخیل نہ مٹ سکے گا۔ لیکن آپ یہ بھی جانتے تھے کہ مدینہ کے منافقین اور اطراف مدینہ کے یہود اور مکہ کے کفار اس فعل پر ایک طوفان عظیم برپا کردیں گے اور آپ کو بد نام کرنے اور اسلام کو رسوا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ اس لیے آپ عملی اقدام کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود ہچکچا رہے تھے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا اور آپ نے حضرت زینبؓ کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ اس پر جیسا کہ اندیشہ تھا اعتراضات اور بہتان طرازی اور افترا پردازی کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور خود مسلمان عوام کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ انہی اعتراضات اور وسوسوں کو دور کرنے کے لیے سورۃ احزاب کے پانچویں رکوع کی (آیات۳۷۔۴۰ )نازل ہوئیں۔ان آیات میں پہلے تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ نکاح ہمارے حکم سے ہوا ہے اور اس لیے ہوا ہے کہ مومنوں کے لیے اپنے متبٰنی لڑکوں کی بیوہ اور مطلقہ بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ایک نبی کا یہ کام نہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے میں وہ کسی کے خوف سے ہچکچائے۔ اسکے بعد اس بحث کو ختم اس بات پر فرماتا ہے کہ:’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘
اس موقع پر یہ فقرہ جو ارشاد فرمایا گیا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معترضین کے جواب میں تین دلائل دینا چاہتا ہے:
اول یہ کہ نکاح بجائے خود قابل اعتراض نہیں ہے، کیونکہ جس شخص کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا گیا ہے وہ محمدﷺ کا واقعی بیٹا نہ تھا اور آپ اس کے حقیقی باپ نہ تھے۔
دوسرے، اگر تم کو یہ شبہ ہو کہ نکاح جائز ہی سہی مگر اس کا کرنا کیا ضرو ر ی تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ محمدﷺ کے لیے اس جائز کام کو کرنا فی الواقع ضروری تھا کیونکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور رسول کو لازم ہے کہ وہ خدا کے قانون کو عملاً جاری کرے اور جو چیزیں بے جا رسوم کے طور پر حرام کردی گئی ہیں ان کی حرمت توڑ دے۔
تیسرے، یہ کام اس لیے اور بھی ضروری تھا کہ محمدﷺ محض نبی ہی نہیں بلکہ آخری نبی ہیں۔ اگر اب آپ کے ہاتھوں یہ جاہلانہ رسم نہ ٹوٹی تو پھر قیامت تک نہ ٹوٹ سکے گی۔ آپ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے کہ جو کسرآپ سے چھوٹ جائے اسے وہ آکر پورا کردے۔
اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ اس سلسلہ بیان میں ختم کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ اگر اسے نفی کمال کے معنی میں لیا جائے تو یہاں یہ لفظ بالکل ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ موقع و محل صاف تقاضا کررہا ہے کہ یہاں اس کے معنی سلسلہ نبوت کے قطعی انقطاع ہی کے ہونے چاہئیں اس سیاق و سباق میں یہ کہنے کا آخر مطلب ہی کیا ہو سکتا ہے۔ کہ محمدﷺ نے یہ شادی اس لیے کی ہے کہ نبوت کے کمالات ان پر ختم ہو چکے ہیں۔ یہ بات کہی گئی ہوتی تو معترضین فوراً پلٹ کر کہتے کہ خوب ہے یہ کمال نبوت جو ایک عورت سے شادی کرنے کا تقاضا کرتا ہے!
اس کے بعد حدیث کو دیکھیے۔ نبی کریم ﷺ نے خود ختم نبوت کی جو تشریح فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’میری اور انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک محل تھا جس کی عمارت بہت حسین بنادی گئی تھی مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ اب وہ جگہ میں نے آکر بھر دی ہے اور عمارت مکمل ہوگئی ہے۔‘‘یہ بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے۔ آپ کو مشکوۃ باب فضائل سیدالمرسلین میں مل جائے گی۔ اس تشریح کی رو سے نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔ آخری اینٹ کی جگہ بھی بھر چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی نئی اینٹ آکر کہاں لگے گی؟ عمارت کے اندر یا اس کے باہر؟
اس کے بعد لغت کی طرف آیئے۔عربی زبان کی کسی مستند لغت کو اٹھا کر لفظ ختم کے معنی دیکھ لیجیے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جو تاویل میں نے اوپر قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان کی ہے، عربی زبان بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ ختم کے اصل معنی مہرلگانے، بند کرنے اور کسی چیز کا سلسلہ منقطع کر دینے کے ہیں۔ ختم الاناء کے معنی ہیں’’برتن کا منہ بند کردیا۔‘‘ختم العمل کے معنی ہیں ’’کام پورا کرکے اس سے فارغ ہوگیا‘‘۔ختم الکتاب کے معنی ہیں خط پورا کرکے اس پر مہر لگادی۔ خود قرآن میں منکرین حق کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ختم اللہ علٰی قلوبھم۔ ’’خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘یعنی ان کے دل قبول حق کے لیے بند کردیے گئے ہیں، نہ ایمان ان کے اندر جا سکتا ہے، نہ کفر ان میں سے نکل سکتا ہے۔ پس حضور اکرمﷺ کو خاتم النبیین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کا سلسلہ مکمل کرکے آپ کو اس پر مہر کے طور پر نصب کردیا ہے۔ اب اس سلسلہ میں کوئی نیا نبی داخل نہیں ہو سکتا۔(نیو سنٹرل جیل ملتان۶؍اپریل۵۰ء)

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

ختم نبوت کے خلاف قادیانیوں کی ایک اور دلیل
سوال: ’’تفہیم القرآن‘‘ (سورہ آل عمران صفحہ ۲۶۸، ع۔۹)، آیت وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ …الخ کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ نمبر ۶۹ یوں درج کیا ہے کہ ’’یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ حضرت محمدؐ سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی امت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن نہ قرآن میں، نہ حدیث میں، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمدؐ سے ایسا عہد لیا گیا ہو، یا آپؐ نے اپنی امت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو‘‘۔اس عبارت کا مطالعہ کرنے کے بعد دل میں یہ بات آئی کہ بے شک محمد ﷺ نے تو نہیں فرمایا، لیکن خود قرآن مجید میں سورہ احزاب میں اس میثاق کا ذکر یوں آتا ہے:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ…الخ
یہاں لفظ ’’مِنْکَ‘‘ کے ذریعے نبیﷺ سے خطاب ہے۔ میثاق وہی ہے جس کا ذکر سورہ آل عمران میں ہوچکا ہے۔ ہر دو سورتوں یعنی آل عمران اور الاحزاب کی مذکورہ بالا آیات میں میثاق کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی میثاق جو دوسرے انبیا سے لیا گیا تھا، محمد رسول اللہ ﷺ سے بھی لیا گیا ہے۔
دراصل یہ سوال احمدیوں کی ایک کتاب پڑھنے سے پیدا ہوا ہے جس میں ان دونوں سورتوں کی محولہ بالا آیات کی تفسیر ایک دوسرے کی مدد سے کی گئی ہے اور لفظ ’’منک‘‘ پر بڑی بحث درج ہے۔

 

آیت وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ (الاحزاب:۱) سے قادیانی حضرات جو استدلال کرتے ہیں، وہ اگر مبنی بر اخلاص ہے تو ان کی جہالت پر استدلال کرتا ہے اور اگر قصداً دھوکہ دینے کی نیت سے ہے تو یہ ان کی ضلالت پر دلیل ہے۔وہ ایک مضمون تو سورہ آل عمران کی آیت وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ سے لیتے ہیں جس میں انبیاء اور ان کی امتوں سے کسی آنے والے نبی کی پیروی کا عہد لیا گیا ہے، اور دوسرا مضمون سورۃ احزاب کی مذکورہ بالا آیت سے لیتے ہیں جس میں دوسرے انبیاء کے ساتھ نبیﷺ سے بھی ایک عہد لیے جانے کا ذکر ہے۔ پھر دونوں کو جوڑ کر اس سے یہ تیسرا مضمون خود بنا ڈالتے ہیں کہ نبیﷺ سے بھی کسی آنے والے نبی پر ایمان لانے اور اس کی تائید و نصرت کرنے کا عہد لیا گیا تھا۔ حالاں کہ جس آیت میں آنے والے نبی پر ایمان لانے کے میثاق کا ذکر ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ عہد ہم نے محمدؐ سے بھی لیا ہے اور جس آیت میں محمدؐ سے ایک عہد لیے جانے کا ذکر ہے، اس میں کوئی تصریح اس امر کی نہیں ہے کہ یہ عہد کسی آنے والے نبی کی پیروی کا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ان دو مختلف مضمونوں کو جوڑ کر ایک تیسرا مضمون جو قرآن مجید میں کہیں نہ تھا، کس دلیل سے پیدا کرلیا؟
اس کے لیے اگر ہوسکتی تھی تو تین دلیلیں ہوسکتی تھیں:
یا تو نبیﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کرکے اعلان فرمایا ہوتا کہ ’’لوگو! اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ عہد لیا ہے کہ میرے بعد جو نبی آئے، اس پر میں ایمان لاؤں اور اس کی تائیدونصرت کروں، لہٰذا میرے متبع ہونے کی حیثیت سے تم بھی اس کا عہد کرو‘‘… مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کے پورے ذخیرے میں اس مضمون کا کہیں نام و نشان تک نہیں، بلکہ الٹی بکثرت روایات ایسی موجود ہیں جن سے یہ مضمون نکلتا ہے کہ حضور ؐ پر سلسلہ نبوت ختم ہوگیا اور آپؐ کے بعد اب کوئی نبی پیدا ہونے والا نہیں ہے۔ کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ نبیﷺ سے ایک ایسا اہم میثاق لیاگیاہوتا اور آپؐ نے اسے یوں نظر انداز کردیا ہوتا، اور الٹی ایسی باتیں فرمائی ہوتیں جن سے حجت پکڑ کر آپ ﷺ کی امت کا سواد اعظم خدا کے کسی فرستادہ نبی پر ایمان لانے سے محروم رہ جاتا۔
دوسری دلیل اس مضمون کو پیدا کرنے کے لیے یہ ہوسکتی تھی کہ قرآن مجید میں انبیا اور ان کی امتوں سے بس ایک ہی میثاق لیے جانے کا ذکر ہوتا، یعنی یہ کہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لانا۔ اس کے سوا کسی اور میثاق کا پورے قرآن مجید میں کہیں ذکر ہی نہ ہوتا۔ اس صورت میں یہ استدلال کیا جاسکتا تھا کہ سورہ احزاب والی آیت میثاق میں بھی لا محالہ یہی میثاق مراد ہوگا … لیکن اس دلیل کے لیے بھی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ایک نہیں بلکہ متعدد میثاقوں کا ذکر آیا ہے مثلاً سورہ بقرہ رکوع ۱۰ میں بنی اسرائیل سے اللہ کی بندگی اور والدین سے حسن سلوک اور آپس کی خوں ریزی سے پرہیز وغیرہ کا میثاق لیا جاتا ہے۔ سورہ آل عمران رکوع ۱۹ میں تمام اہل کتاب سے اس بات کا میثاق لیا جاتا ہے کہ خدا کی جو کتاب تمہارے حوالے کی گئی ہے، اس کی تعلیمات کو چھپاؤ گے نہیں بلکہ اس کی اشاعت عام کرو گے۔ سورہ اعراف رکوع ۲۱ میں بنی اسرائیل سے عہد لیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے نام پر حق کے سوا کوئی بات نہ کہیں گے، اور اللہ کی دی ہوئی کتاب کو مضبوط ہاتھوں سے تھامیں گے اور اس کی تعلیمات کو یاد رکھیں گے۔ سورہ مائدہ رکوع میں محمد عربی ﷺ کے پیروؤں کو ایک میثاق یاد دلایا جاتا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اور وہ یہ ہے کہ ’’تم اللہ سے سمع و طاعت کا عہد کرچکے ہو‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر سورہ احزاب والی آیت میں میثاق کے مضمون کی تصریح کے بغیر مجرد میثاق کا ذکر آیا تھا تو اس خلا کو ان بہت سے میثاقوں میں سے کسی ایک سے بھرنے کی بجائے بالخصوص سورہ آل عمران رکوع ۹ والے میثاق ہی سے کیوں بھرا جائے؟ اس ترجیح کے لیے خود ایک دلیل درکار ہے جو کہیں موجود نہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ دونوں جگہ چوں کہ نبیوں سے میثاق لینے کا ذکر ہے، اس لیے ایک آیت کی تشریح دوسری آیت سے کرلی گئی تو میں عرض کروں گا کہ دوسرے جتنے میثاق بھی انبیا کی امتوں سے لیے گئے ہیں، وہ براہ راست کسی امت سے نہیں لیے گئے بلکہ انبیا کے واسطے ہی سے لیے گئے ہیں اور آخر قرآن مجید میں بصیرت رکھنے والا کون شخص اس بات سے نا واقف ہے کہ ہر نبی سے کتاب اللہ کو مضبوط تھامنے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔
تیسری دلیل یہ ہوسکتی تھی کہ سورہ احزاب کا سیاق و سباق یہ بتا رہا ہوتا کہ یہاں میثاق سے مراد آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل ہی برعکس ہے۔ سیاق و سباق تو الٹا اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ یہاں یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے۔ سورہ احزاب شروع ہی اس فقرے سے ہوتی ہے کہ : ’’اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں سے نہ دبو، اور جو وحی تمہارا رب بھیجتا ہے، اسی کے مطابق عمل کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو‘‘۔ اس کے بعد یہ حکم سنایا جاتا ہے کہ جاہلیت کے زمانے سے متبنیٰ بنانے کا جو طریقہ چلا آرہا ہے، اس کو اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام اوہام اور رسموں کو توڑ ڈالو۔ اس کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ غیر خونی رشتوں میں سے بڑھ کر ایک ہی رشتہ ایسا ہے جو خونی رشتوں سے بڑھ کر حرمت والاہے ، اور وہ ہے نبی اور مومنین کا رشتہ، جس کی بنا پر نبی کی بیویاں ان کی ماؤں کی طرح ان پر حرام ہیں، ورنہ باقی تمام معاملات میں رحمی اور خونی رشتے ہی اللہ کی کتاب کی رو سے حرمت اور استحقاق وراثت کے لیے اولیٰ وانسب ہیں۔ یہ احکام فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نبیﷺ کو وہ میثاق یاد دلاتا ہے جو اس نے تمام انبیا سے ہمیشہ کیا ہے اور ان کی طرح آپ ﷺ سے بھی لیا ہے۔ اب ہر معقول آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس سلسلہ کلام میں آخرکس مناسبت سے ایک آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق یاد دلایا جاسکتا تھا؟ یہاں تو اگر یاد دلایا جاسکتا تھا تو وہی میثاق یاد دلایا جاسکتا تھا جو خدا کی کتاب کو مضبوط تھامنے اور اس کے احکام کو یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے اور دنیا میں ان کا اظہار کرنے کے لیے تمام انبیا علیہم السلام سے لیا گیا ہے۔ پھر آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو صاف صاف حکم دیتا ہے کہ آپ خود اپنے متبنیٰ زیدؓ، بن حارثہ کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرکے جاہلیت کے اس وہم کو توڑ دیں جس کی بنا پر لوگ منہ بولے بیٹے کو بالکل صلبی بیٹے کی طرح سمجھتے ہیں اور جب کفار و منافقین اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو علی الترتیب تین جواب دیتا ہے:
(۱) اول تو محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں کہ اس کی مطلقہ بیوی ان پر حرام ہوتی۔
(۲) اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ وہ ان کے لیے حلال تھی بھی تو اس سے نکاح کرنا کیا ضروری تھا تو یہ اس لیے ضروری تھا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں جس کا کام یہی ہے کہ جس چیز کو اللہ مٹانا چاہتا ہے،اسے خود آگے بڑھ کر مٹائے۔
(۳) اور مزید برآں ان کو ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ محض رسول ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم النبیین ہیں، اگر وہ جاہلیت کی ان رسموں کو مٹا کر نہ جائیں گے تو پھر کوئی ایسا نبی آنے والا نہیں ہے جو انہیں مٹائے۔
اس مضمون لاحق کو اگر کوئی شخص سابق کے ساتھ ملا کر پڑھے تو وہ چین کے ساتھ یہ کہہ دے گا کہ اس سیاق و سباق میں جو میثاق نبیﷺ کو یاد دلایا گیا ہے، اس سے مراد اور جو میثاق بھی ہو، بہرحال کسی آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق ہر گز نہیں ہوسکتا۔دیکھ لیجیے، آیت زیر بحث سے قادیانوں کے بیان کردہ معنی لینے کے لیے یہی تین دلیلیں ہوسکتی تھیں اور یہاں ان میں سے ہر دلیلان کےمدعا کے لیے غیر مفید، بلکہ الٹی ان کے خلاف ہے۔اب اگر ان کے پاس کوئی چوتھی دلیل ہو تو وہ ان سے دریافت کیجیے اور ان تینوں دلیلوں کا جواب بھی ان سے لیجیے۔ ورنہ یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں کہ اس آیت سے جو معنی انہوں نے لیے ہیں، وہ یا تو جہالت کی بنا پر نکالے ہیں، یا پھر خدا سے بے خوف ہوکر خلق خدا کو گمراہ کرنے کے لیے نکالے ہیں۔ بہرحال ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر مرزا صاحب نبی تھے تو آخر کیا معاملہ ہے کہ ابھی ان کے صحابہ کا دور بھی ختم نہیں ہوا ہے اور ان کی ساری امت اس وقت تابعین اور تبع تابعین پر مشتمل ہے۔ پھر بھی حال یہ ہے کہ کتاب اللہ سے ان کی امت میں علی الاعلان ایسے غلط استدلال کیے جاتے ہیں اور پوری امت میں ایک بھی اس جہالت یا ناخدا ترسی کے خلاف بلند نہیںہوتی۔(ترجمان القرآن۔ رمضان  ،  شوال ۱۳۷۱ھ ، جون، جولائی ۱۹۵۲ء  )

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

 نبی کے معصوم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرشتوں کی طرح اس سے بھی خطا کا امکان سلب کر لیا گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ نبی اول تو دانستہ نافرمانی نہیں کرتا اور اگر اس سے غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو اللہ اس کو اس غلطی پر قائم نہیں رہنے دیتا۔پھر یہ بات بھی لائق غور ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جو نافرمانی سرزد ہوئی تھی وہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے سے پہلے کی ہے اور قبل نبوت کسی نبی کو وہ عصمت حاصل نہیں ہوتی جو نبی ہونے کے بعد ہوا کرتی ہے۔نبی ہونے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ایک بہت بڑا گناہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا۔ چنانچہ جب فرعون نے ان کو اس فعل پر ملامت کی تو انہوں نے بھرے دربار میں اس بات کا اقرار کیا کہَ فَعَلْتُہَا اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّالِّیْنَ (الشعرء۔20) یعنی یہ فعل مجھ سے اس وقت سرزد ہوا تھا جب راہ ہدایت مجھ پر کھلی نہ تھی۔
مختصراً یہ بات اصولی طور پر سمجھ لیجیے کہ نبی کی معصومیت فرشتے کی سی معصومیت نہیں ہے کہ اسے خطا اور غلطی اور گناہ کی قدرت ہی حاصل نہ ہو۔ بلکہ وہ اس معنی میں ہے کہ نبوت کے ذمہ دارانہ منصب پر سرفراز
 کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ بطور خاص اس کی نگرانی و حفاظت کرتا ہے،اور اسے غلطیوں سے بچاتا ہے، اور اگر کوئی چھوٹی موٹی لغزش اس سے سرزد ہوجاتی ہے تو وحی کے ذریعہ سے فوراً اس کی اصلاح کردیتا ہے تاکہ اس کی غلطی ایک پوری امت کی گمراہی کی موجب نہ بن جائے۔(ترجمان القرآن۔ رجب ، شوال ۶۳ھ؍ جولائی، اکتوبر۴۴ء)

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

شریعت میں مسجد کے لیے کوئی خاص طرز تعمیر مقرر نہیں ہے، اس لیے کسی خاص طرز پر مسجد بنانا نہ فرض ہے نہ ممنوع۔ صاحب مضمون کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ جس طور پر حضورﷺ نے مسجد نبوی ابتداء ً تعمیر فرمائی تھی، تمام مساجد ہمیشہ کے لیے اسی طرز پر تعمیر ہونی چاہییں۔ مختلف مسلمان ملکوں میں مساجد کی تعمیر کے لیے ہمیشہ سے مختلف ڈیزائن اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں جس قاعدے کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مسجد کی شکل عام عمارت سے اتنی مختلف ہو اور اپنے ملک یا علاقے میں ایسی جانی پہچانی ہو کہ اس علاقے یا ملک کا ہر شخص دور سے اس کو دیکھ کر یہ جان لے کہ یہ مسجد ہے اور اسے نماز کے وقت مسجد تلاش کرنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے۔ اسی قاعدے کے مطابق دنیا کے مختلف ملکوں میں مسجد کا ایک خاص طرزِ تعمیر ہوتا ہے اور اس کے لیے ایسی نمایاں علامات رکھی جاتی ہیں جو ان ملکوں میں مسجد کی امتیازی علامات ہونے کی حیثیت سے معروف ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی مساجد کا بالعموم ایک طرزِ تعمیر رائج ہے۔ اس کو بدل کر بالکل ایک نرالا طرز تعمیر رائج کرنا اور اس کے لیے مسجد نبوی کے ابتدائی طرز سے استدلال کرنا خواہ مخواہ کی اپچ
 ہے۔رہا منبر، تو یہ ثابت ہے کہ نبیﷺ نے خود مسجد نبوی میں لکڑی کا منبر بنوایا تھا تاکہ خطبہ دیتے وقت بڑے مجمع میں خطیب سب لوگوں کو نظر آسکے۔
محراب مسجدوں میں تین مصلحتوں سے رکھی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ آگے چونکہ صرف امام کھڑا ہوتا ہے اس لیے تھوڑی سی جگہ اس کے لیے زائد بنادی جاتی ہے تاکہ محض ایک آدمی کے لیے پوری ایک صف کی جگہ خالی نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ محراب کی وجہ سے امام کی آواز پیچھے کی صفوں تک پہنچنے میں سہولت ہوتی ہے۔ تیسری مصلحت یہ ہے کہ محراب بھی مسجد کی امتیازی علامات میں سے ہے۔ کسی عمارت کو آپ پشت کی طرف سے بھی دیکھیں تو اس میں محراب آگے نکلی دیکھ کر فوراً پہچان جائیں گے کہ یہ مسجد ہے۔ یہی مصلحت مسجد پر مینار وغیرہ بنانے کی بھی ہے۔

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)