فرشتوں کے قیدی

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : ناول

شمارہ : نومبر 2004

( قسط اول)

شر اور خیر کی ازلی دشمنی’ دور جدید کی مادیت پرستی سے اکتا کر ماضی کی ساد ہ زند گی کی طرف پلٹنے کی تمنا اور فطر ت میں ودیعت انسانی جذبوں کی شکست و ریخت کی تحیرخیز داستاں۔

            اس کے بہت سارے نام تھے’لیکن جس نام سے اس نے تین سال کی قید کاٹی تھی وہ تھا ایڈ گربل۔ قید کے دوران اس نے مستقبل کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔ سب سے بڑا فیصلہ یہ کیا کہ اب وہ کبھی بھی کسی کی ماتحتی میں کام نہیں کرے گا ۔

            جیل سے رہائی کے دن اسے لینے کے لئے اس کے ساتھی مقررہ وقت پر پہنچے تھے ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے ولف سے پوچھا : ‘‘تیاری مکمل ہے ؟’’

             ‘‘ہرچیز مکمل ہے بل!’’اور چندلمحوں بعد ولف نے خود ہی تفصیل بتانی شروع کر دی :‘‘ بنک آف کیرل سے لوٹی ہوئی رقم سے سب مشین سے لے کر اعشاریہ چار پانچ کے پستول تک ’تمام سپیئر پارٹس اور دھماکہ خیز مواد ضروری بارود اور سامان سب تیار ہے۔فصل کی کاشت کے لئے بھی تما م سامان کھاد اور بیج سمیت مکمل ہے ۔اس مقصد کے لیے ایک ماہر کی بھی خدمات لی گئی ہیں ۔ہمیں بس میامی پہنچ کر اپناسامان لوڈ کروانا ہے اور فیری پر اپنی سیٹیں سنبھالنی ہیں !’’

            ‘‘سامان کی بکنگ کے وقت چیکنگ کے سلسلے میں کیا کِیا گیا ہے ۔؟’’بل نے سپاٹ لہجے میں پوچھا ۔‘‘سامان کی پیکنگ بڑے ماہرانہ انداز میں کی گئی ہے ۔تمام قابلِ اعتراض چیزوں کو مختلف بے ضرر اشیا کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔اس لئے چیکنگ کے دوران کسی بدمزگی کا بظاہر کوئی احتمال نہیں ۔اس کے با وجود وہاں پر موجود سیکورٹی آفیسرز سے بات ہو چکی ہے ۔’’‘‘فیری کے عملے اور مسافروں کے بارے میں کیا خبر ہے ؟’’بل مکمل تفصیلات حاصل کرنے پر تلا ہوا تھا ۔‘‘فیری پر سینتیس ٹور سٹوں کے علاوہ دس افراد پر مشتمل ایک فلم یونٹ بھی ساتھ ہے ۔عملے کے افراد دس ہیں ۔دو سیکورٹی گارڈ اس کے علاوہ ہیں ۔تمام ٹورسٹ ہمارے لئے اجنبی ہیں۔ ’’

            ‘‘بہت اچھا ۔’’بل نے اطمینان کا اظہار کیا ۔منصوبے کی باقی تفصیلات اسے معلوم تھیں ۔بس ایک آخری خبر اسے یہ درکار تھی کہ پولیس نے اپنا کوئی جاسوس اس کی رہائی کے بعد میامی روانہ کیا ہے یا نہیں؟ اسے یقین تھا کہ اس نے جس صبرو تحمل اور چالاکی سے سزا کاٹی ہے ’ اس سے پولیس والوں کے دل میں یہ شک ختم ہو گیا ہوگا کہ وہ دوبارہ جرائم کی زندگی میں جانا چاہتا ہے۔ اس نے مستقبل کی منصوبہ بندی اس خفیہ اندازمیں کی تھی کہ جیل حکام یہی سمجھتے رہے کہ وہ پادری ایڈم سمتھ سے بائبل کی تعلیم حاصل کر رہا ہے ’ لیکن وہ اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ ایڈم سمتھ دراصل اس کا سب سے بااعتماد ساتھی ایڈم ولف ہے ’ اور وہ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اس کے ساتھ ایک زبردست منصوبہ تشکیل دینے میں مصروف رہتا ہے ۔لیکن اس سب کے با وجو د انہوں نے ہر طرح سے تسلی کی تھی اور اب وہ مطمئن تھے کہ ان کا تعاقب نہیں کیا جائے گا ۔

٭٭٭

             اولینا لمبے روٹ پر چلنے والی معروف فیری تھی میامی تا ولنگٹن اس کا روٹ تھا ۔سمندری سفر کے وہ شائقین جو ہوائی جہاز اور بذریعہ سڑک سفر نا پسند کرتے ہیں ’ اسی طرح کے چھوٹے سمندری جہاز کے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ایک ماہ قبل اس پر ٹورسٹ اپنی سیٹ محفوظ کرا سکتے ہیں اور اس فیری کی سیٹیں ایک ہفتہ قبل بک ہو چکی تھیں ۔

             اولینا میں عملے کے علاوہ ستر مسافروں کی گنجائش تھی ’ لیکن جب فیری میامی سے روانہ ہوئی تو اس پر صرف باون افراد سوار تھے ۔عملے کے لوگوں کے لئے یہ بات پریشانی کا باعث تھی کی ان کی بکنگ میں تو ستر افراد کے نام درج تھے ’ مگر فیری پر مقررہ وقت کے اندر صرف باون افراد سوار ہوئے ۔

             انتظار فیری کے ضابطے میں شامل نہیں تھا ’ اس لیے سفر شروع ہو چکا تھا ۔ ایڈ گر بل اور اس کے پانچ ساتھی ’ البتہ ضرور جانتے تھے کہ فیری میں مقررہ وقت پر باقی کے مسافر کیوں نہیں پہنچے ۔انہوں نے فرضی ناموں سے اٹھارہ ناموں کی بکنگ خود کرائی تھی ۔وہ زیادہ لوگوں کو اس‘‘ بد قسمت ’’فیری میں سفر کی اجازت نہیں دینا چاہتے تھے۔

٭٭٭

             فلپ ٹرنٹ جب فیری پر سوارہوا تو عادت سے مجبور ہو کر اس نے ایک کھوج لگا تی نظر سے اردگرد کا جائزہ لیا اور اس کی نگاہیں ایک حبشی کے چہرے پر جا ٹھہریں ۔یہ چہرہ اسے خاصا مشکوک لگا تھا ’مگر اس نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا اور اس عہد کو ذہن میں تازہ کیا کہ وہ کسی جھگڑے میں ٹانگ نہیں اڑائے گا اور چھٹیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہوگا ۔اس نے اپنے لئے ایک لگژری کیبن محفوظ کروایاتھا ۔ڈیوٹی پر متعین اہلکار نے اسے بڑی خوش اخلاقی سے کیبن کی چابی پیش کی اور وہ اپنا مختصر سامان اٹھائے کیبن کی طرف چل پڑا ۔

             پچھلے دو ماہ بھا گ دوڑ ’ مار دھاڑ اور چالاک مجرموں کے ساتھ پنجہ آزمائی میں کچھ اس مصروفیت سے گزرے کہ وہ اپنے اعصاب کو آرام دینے پر مجبور ہو گیا تھا ۔اس دوران فلپ نے قتل کے دو مجرموں اور سمگلروں کا ایک منظم گروہ کامیابی سے پکڑا تھا ۔ اس فتح کے بعد وہ ایک پر کیف ہفتہ بالکل سکون سے گزارنا چاہتا تھا ۔اس فیری کے متعلق اس کے ایک دوست نے بتایا تھا کہ اس میں ایک فلم یونٹ بھی جارہا ہے جس کی مصروفیت اس کے لئے بڑی دلچسپی کا باعث ہو گی ۔

             فلپ اپنے کیبن کی طرف یہ سوچتے ہوئے جارہاتھا کہ اگر فلم یونٹ والے اس کے ہمسائے ہوئے تو سفر کا مزہ واقعی دوبالا ہو جائے گا ۔

             اسے اپنا کیبن پسند آیا ۔جگہ اگر چہ تنگ تھی ’ لیکن سہولت کی ہر چیز مو جو د تھی ۔وہ بیڈ پر لیٹا کیبن کی چیزوں کو ایک نظر دیکھ کر آنے والے خوشگوار سفر کے تخیل میں غرق تھا کہ اسے نسوانی قہقہے سنائی دیئے۔لگتا تھا کہ اس کی تمنا بر آئی ہے ۔وہ کیبن سے باہر آیا تو اسے سامنے دو لڑکیاں قہقہے بکھیرتی نظر آئیں ۔

            فلپ کے ذہن میں فوراً یہی آیا کہ وہ ماڈل گرلز ہیں ۔ ان کے پیچھے آنے والے افراد نے جو سامان اٹھا رکھا تھا وہ اس کے دل کی تمنا بھر لانے کے لئے کافی تھا ۔

            واقعی فلم یونٹ والے اس کے ہمسائے بننے والے تھے۔ اس کے چہرے پر مسکرا ہٹ دو ڑ گئی ۔

٭٭٭

             یہ اولینا کے سفر کا تیسرا دن تھا ۔ فیری کے عرشے پر خوبصورت بار میں اکثر مسافر اپنے پسندیدہ مشروب سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ سب سے آخری میز پر ایک شخص تنہا بیٹھا تھا ۔اب تک کسی مسافر سے اس کی دوستی ہوئی تھی اور نہ کوئی شخص اس کے ہمراہ آیا تھا ۔اس کے طور طریقوں سے صاف محسوس ہوتا تھا کہ وہ محض وقت گزاری کی خاطر یہ سفر کر رہا ہے ۔

             وہ اس فیری کا واحد ایشیائی باشندہ تھا ۔تیس سال کی عمر کے اس نوجوان کی دوہری شہریت تھی ۔بلال پاکستان میں پیدا ہوا اور میٹرک کی تعلیم کراچی میں حاصل کی ۔اس کے بعد امریکہ چلا آیا ۔یہاں اس کے والد کے دوست مقیم تھے ۔ان کی مدد سے اس نے یونیورسٹی سے ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اسے امریکہ کی شہریت بھی مل گئی ۔اسے بڑی اچھی ملازمت بھی دستیاب ہو گئی تو اس کے ابو کے دوست انکل وسیم نے اسے اپنی بیٹی ثمر سے شادی کرنے کے لئے کہا ’ مگر بلال اپنے محسن کی یہ خواہش پوری نہیں کر سکا تھا ۔

             ثمر کی شخصیت اسے کبھی پسند نہیں آئی تھی ۔وہ امریکی ماحول میں ڈھل چکی تھی جبکہ بلال امریکی معاشرے میں رہتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ازدواجی زندگی کا سکون کسی گھریلو پاکستا نی لڑکی ہی کی رفاقت میں میسر آسکتا ہے ۔اس نے جب انکل وسیم سے اپنی اس پرابلم کا ذکر کیا تو ان کا رویہ غیر متوقع طور پر تبدیل ہو گیا ۔بلال کے کانوں میں اب بھی وہ زہریلے اور بے رحم جملے گونج رہے تھے....

             ‘‘دیکھو بلال ’ میری تم پر انوسٹمنٹ کا واحد مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ تم ثمر کے شایان شان شوہر بن سکو گے ’ اگر تمہیں یہ منظور نہیں تو میرے لئے تم کوڑے کا ڈھیر ہو جسے میں فوراً ڈسٹ بن میں پھینکنا پسند کروں گا ۔’’

             بلال ان کی یہ بات سن کر آپے سے باہر نہیں ہوا تھا ’ اور اس نے بڑے تحمل سے انہیں اس فیصلے کے مضر پہلوؤں سے آگاہ کرنا چاہا تھا ’ مگر انکل وسیم کا المیہ یہ تھا کہ وہ بلال کے متعلق یہ گمان کر ہی نہیں سکتے تھے کہ اس قدر احسانا ت کے بعد وہ ان کی کسی بات سے انکار بھی کر سکتا ہے ۔ان کے نزدیک بلال ان کا لگایا ہوا پودا تھا ’ جس کے ساتھ وہ ہر سلوک روا رکھنے کا حق رکھتے تھے ۔

             چنانچہ انہوں نے اسے احسان فراموش قرار دے کر اپنے گھر سے اسی رات نکل جانے کا حکم دیا ۔رات کے دو بجے بلال یہ کہتے ہوئے رخصت ہوا کہ میں آپ کی ‘‘انوسٹمنٹ ’ ’ کی ایک ایک پائی مع سود لوٹا دوں گا ۔

             بلال نے اپنی زبان کی لاج رکھی تھی ۔اس کی تنخواہ اچھی تھی ۔لیکن اس کے ساتھ اس نے پارٹ ٹائم کام شروع کر دیا تھا اور ایک سال کے اندر اندر انکل وسیم کی ساری انوسٹمنٹ مع سود انہیں واپس کر ڈالی تھی ۔

             انکل وسیم یہ سوچ کر اس سے ماہانہ اقساط لیتے رہے کہ بلال تھک ہار کر ان کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا ’ لیکن جب انہیں اس کی توقع نہ رہی تو وہ بلال کو بالواسطہ نقصان پہنچانے کے در پے ہو گئے ۔اس پر بلال نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا ۔

             ایک دن اس نے کراچی اپنے ماں باپ کو اطلاع دی کہ وہ اگلی فلائٹ سے پاکستان آرہا ہے ۔جب وہ کرا چی ائیر پورٹ پر پہنچا تو گھر کے کسی فرد کو وہاں نہ پا کر سخت حیرت زدہ ہوا ۔اس نے فون پر واضح طور پر بتایا تھا کہ وہ یہاں شادی کرے گا اور حالات موافق ہوئے تو اپنے وطن ہی میں رہے گا ۔اس لیے اسے توقع تھی کہ اس کے گھرکے تمام افراد اسے لینے ایئر پورٹ پر موجود ہوں گے...مگر اسے سخت مایوسی ہوئی تھی ۔

             وہ دل میں پیدا ہونے والی مختلف بدگمانیوں اور اندیشوں سے لڑتا ہوا ٹیکسی میں سوار گھر کی طرف روانہ ہوا ۔راستے میں پولیس کے ناکوں نے ٹیکسی کئی جگہ روکی اور اسے ہر دفعہ پولیس کی خدمت میں کوئی نہ کوئی تحفہ دینا پڑا ۔رات کے دو بجے جب اپنے گھر پہنچا تو ایک دوسری غیر متوقع خبر ایک خوفناک حقیقت کا روپ دھارے اس کے استقبال کے لئے موجود تھی ۔

             اس کا گھر دشمن کی مفتوحہ چوکی کا منظر پیش کر رہا تھا ۔دروازہ بالکل تباہ ہو چکا تھا اور خار دار تار لگا کر اندر جانے کا راستہ روک دیا گیا تھا ۔

             بلال کو کراچی کے فسادات کو علم تو تھا ’ لیکن وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فسادات کی آگ اسی کے پورے گھر کو بھسم کر چکی ہے ۔اس نے بے بسی سے پڑوسیوں کے گھر کی طرف دیکھا ’ لیکن اسے یوں معلوم ہوا کہ وہ شہرِ خموشاں میں کھڑا ہے ۔کسی طرف زندگی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے ۔

             اس نے ہمت کی اور برابر والے مکان کی گھنٹی پر انگلی جما دی ۔تھوڑی دیر بعد مکان کی بالکونی سے ایک سایہ نظر آیا ۔چند لمحوں بعد یہ سایہ بھی غائب ہو گیا ۔ مزید انتظار کے بعد دروازہ کھولے بغیر کسی نے اس کا نام پوچھا :‘‘میں بلال ہوں ۔امریکہ سے آیا ہوں ’’ ‘‘ٹیکسی والے کو فارغ کر دو بیٹے ۔’’بلال نے آواز پہچان لی تھی ۔یہ اس کے پڑوسی حامد چچا کی آواز تھی ۔ بلال نے خوف میں ڈوبی ہوئی آواز میں پوچھا :‘‘چچا حامد...ہمارے گھر کو کیا ہوا ....؟’’‘‘بیٹے تم ٹیکسی والے کو فارغ کر و ۔ٹیکسی چلی جائے تو میں دروازہ کھول دوں گا ۔’’بلال کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہاتھا ۔ٹیکسی والے نے خود اس کا سامان اتارااور کرایہ مانگے بغیر جلدی سے ٹیکسی میں بیٹھا اور بلال کو حیرتوں کے سمندر میں غرق چھوڑ کر غائب ہو گیا ۔اب دروازہ کھلا اور ایک نوجوان اور ایک ادھیڑ عمر شخص باہر نکلے ۔

             ادھیڑ عمر شخص کو بلال نے پہچان لیا تھا ۔یہ چچا حامد تھے ۔انہوں نے اسے بازو سے پکڑا اور اندر لے آئے۔ نوجوان نے سامان سنبھالنے کے بعد دروازہ بند کر دیا ۔

             لیکن لگتا تھا کہ چچا حامد کی زبان ان کا ساتھ نہیں دے رہی ۔ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ گڈ مڈ ہو رہے تھے ۔آخر نوجوان کو ہمت کرنا پڑی ۔وہ بولا ‘‘آج دوپہر کچھ دہشت گرد آپ کے گھر میں گھس آئے ۔ رینجرز ان کا پیچھا کر رہے تھے ۔پھر دونوں میں مقابلہ ہوا ۔آپ کے گھر پر رینجر نے کئی راکٹ فائر کیے ۔دو گھنٹوں کی خوفنا ک لڑائی میں دہشت گردوں سمیت تمہارے گھر کے سارے افراد مارے گئے ۔’’

             ‘‘لیکن ....لیکن یہ کیسے ممکن ہے چچا...کیاان کو بچانے والا کوئی نہیں تھا ؟....کیا رینجرز کو معلوم نہ تھا کہ اس گھر میں بے گناہ لوگ رہتے ہیں ؟’’

             بلال نے معلوم نہیں کتنے سوال پوچھے ’ لیکن ان کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا ۔انہیں تو بس یہی معلوم تھا کہ اس کے دونوں بھائی اور چھوٹی بہن ’ماں اور باپ کی لاشیں دہشت گردوں کے ساتھ رکھی گئی تھیں اور ریڈیو اور ٹی وی پر یہ خبر نشر ہوئی تھی کہ دہشت گردوں نے پہلے گھر والوں کو قتل کیا اور جب رینجرز اور پولیس انہیں گرفتار کرنے پہنچے تو ان پر فائر کھول دیا گیا اور یوں دہشت گرد مقابلے میں مارے گئے ۔

             بلال مزید چار دن کراچی میں ٹھہرا ۔اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ گندم کے ساتھ گھن کس طرح پس رہا ہے ۔

             چچا حامد کے منع کرنے کے با وجود اس نے اپنے گھر والوں کی میتیں اپنے طور پر دفنانے کے لئے پولیس سے رابطہ کیا ۔اگر اس کے پاس امریکی گرین کارڈ نہ ہوتا تو یقینا پولیس اسے بھی دہشت گرد قرار دے دیتی ۔

             اس نے بمشکل اپنے پیاروں کو لحد میں اتارا اور پھر جو فلائٹ ملی اس میں وہ انسانوں کے اس جنگل سے واپس امریکہ چلا آیا ۔

 اس کے دل میں پاکستان کی جو مقدس تصویر بسی تھی ’ وہ چکنا چور ہو چکی تھی ۔وہ اپنے تئیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امریکہ آچکا تھا ۔یہاں آکر اس نے ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو مشینی انداز میں مصروف کر لیا ۔

             مزید چھ ماہ گزرنے کے بعد اس کے اعصاب جواب دینے لگے تو بادل نخواستہ اس نے ایک ہفتے کی چھٹی لی ۔ایک ساتھی ڈاکٹر کے کہنے پر اولینا فیری میں اپنی سیٹ بک کرا لی اور بحری سفر پر نکل کھڑا ہوا ۔

             وہ شروع شروع میں سفر سے کسی حد تک لطف اندوز ہوا تھا ’مگر جلد ہی بوریت کا شکار ہو گیا ۔فرصت کے ان لمحات میں یاد ماضی ایک عذاب کی طرح اس پر مسلط ہوتا گیا ۔وہ جس قدر اسے بھلانے کی کوشش کرتا بھیانک یادیں اسی شدت سے کسی زہریلے ناگ کی طرح اسے ڈسنے لگتیں ۔

٭٭٭

             اب شام ڈھلنے کو تھی ۔ایڈگربل کے دو ساتھی ابھی تک وہاں موجود تھے ۔بلال کی میز کے قریب ہی فلپ بیٹھا ہوا تھا جو خاصی دیر سے بلال کو دیکھ رہا تھا ۔اس کے چہرے پر غیر معمولی کرب کے آثار اس کی عقابی آنکھوں سے چھپ نہیں سکے تھے ۔اس کی رگ تجسس بری طرح پھڑک اٹھی تھی کہ یہ شخص اس قدر گم سم اداس اور مغموم کیوں ہے ۔پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔

             فلپ کا پچھلے کئی ماہ سے کہانیاں لکھنے کا ارادہ ہورہا تھا ۔اسے خیال آیا کہ ممکن ہے اس ایشیائی نوجوان کے ذریعے کوئی نادر کہانی اس کے ہاتھ لگ جائے ۔ اس توقع کے ساتھ وہ اس کی طرف بڑھا ۔

             ‘‘ہیلو....کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں ؟’’ فلپ نے رسمی طور پر اس سے اجازت لی ۔بلال کو حقیقت کی دنیا میں آتے آتے کچھ وقت لگا ۔اس نے قدرے ہکلا تے ہوئے کہا : ‘‘ہاں ... ضرور تشریف رکھئے.....’’

             ‘‘لگتا ہے آپ بھی میری طرح تنہائی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔مسٹر...’’

             ‘‘میرا نام بلال ہے ۔ڈاکٹر بلال احمد۔’’

            ‘‘اور مجھے فلپ ٹرنٹ کہتے ہیں ..’’اس نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا ۔‘‘بڑی خوشی ہوئی آپ کے ساتھ مل کر ۔’’ بلال نے رسمی جملہ ادا کیا ۔

             اس سے قبل کہ وہ اور بات کرتے ایک نسوانی چیخ نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔وہ زمین پر لیٹے ہوئے کسی شخص کی طرف اشارہ کر کے ابھی تک چیخ رہی تھی ۔بلال اور فلپ دونوں اس کی طرف لپکے ۔فیری کے عملے کا ایک شخص اوندھے منہ پڑا تھا ۔ فلپ نے اس کی نبض ٹٹولی تو اس کی پیشانی شکنوں سے بھر گئی ۔اسے سیدھا کیا اور دل پر ہاتھ رکھا ۔‘‘یہ تو مر چکا ہے ۔’’ فلپ کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔اتنی دیر میں ایڈگربل کے دونوں ساتھی بھی ان کے قریب آ گئے ۔‘‘لگتا ہے اسے دل کا دورہ پڑا ہے !’’ان میں سے ایک نے اپنا خیال ظاہر کیا ۔فلپ نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بلال سے کہا :‘‘ڈاکٹر !ذرا آپ اس کا معائنہ تو کریں’’

            بلال فوراً اس پر جھک گیا ۔مرنے والے کا جسم ابھی گرم تھا ’البتہ رکی ہوئی دل کی دھڑکن اور منہ سے نکلنے والا جھاگ صاف بتا رہا تھا کہ اسے زہر دے کر مارا گیا ہے یا پھر اس نے خود کشی کی ہے ۔

             چیخنے والی عورت بولی :‘‘میں نے اس شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے گرتے دیکھا ہے ۔اور اب یہ مر گیا ہے ۔کس قدر خوفنا ک بات ہے !’’اس کی آواز میں بے پناہ خوف جھلک رہا تھا ۔وہ لوگ ابھی اس مسئلے میں الجھے ہوئے تھے کہ ایک دوسرا شخص بھاگتا ہوا آیا .

            ‘‘مارتھا ’مارتھا تم خیریت سے ہو نا !’’چیخنے والی عورت نے اس کی طرف لپکتے ہوئے کہا ‘‘ڈیوی ’دیکھو یہ شخص قتل کر دیا گیا ہے ۔’’ ‘‘اف میرے خدایا.. یہاں بھی .’’ اس نے خوف سے ابلی ہوئی آنکھوں سے لاش کو دیکھتے ہوئے کہا ۔‘‘تو کیا اور بھی کوئی لاش ملی ہے ؟’’فلپ نے حیرت سے پوچھا جس کو خاتون نے ڈیوی کہہ کر پکارا تھا ۔‘‘ہاں... نیچے عملے کی دو لاشیں ملی ہیں ۔ان کے منہ سے جھاگ بہہ رہا ہے ۔’’

             ‘‘چلو دیکھتے ہیں وہ کس طرح مرے ہیں ’’ ایڈ گربل کے آدمیوں میں سے ایک نے کہا اور انہیں دھکیلتا ہوئے نیچے کی طرف چلنے لگا ۔اس کا ساتھی بھی اس کے پیچھے تھا۔

             فلپ نے کسی قدر غصے سے ان کی طرف دیکھا اور پھر اس نے چیخنے والی عورت سے پوچھا ‘‘خاتون! کیا آپ نے مرنے والے کو ان دونوں کے قریب سے گزرتے ہوئے تو نہیں دیکھا ؟’’

             ‘‘نہیں میں تو مشروب لینے آئی تھی ۔جیسے ہی میں بار میں داخل ہوئی ’اس شخص کو میں نے لڑکھڑاتے دیکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ نیچے گر پڑا’’

             ‘‘آؤ ڈارلنگ!ہم اپنے کیبن میں چلتے ہیں ۔لگتا ہے اس فیری پر کوئی قاتل بھوت گھس آیا ہے ۔’’ڈیوی نے اپنی ساتھی خاتون کا بازو کھینچتے ہوئے کہا اور وہ فلپ اوربلال کو وہیں چھوڑ کر اپنے کیبن کی طرف چل پڑے ۔

             ‘‘آپ کا کیا خیال ہے مسٹر بلال ’ کیا یہ کسی بھو ت کی کارستانی ہے ؟’’فلپ نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا ۔ ‘‘بالکل نہیں ...میں بھوتوں ووتوں پر یقین نہیں رکھتا !’’

            ‘‘اچھا !...حیرت ہے ۔خیر اس موضوع پرآپ سے پھر بات ہوگی ’ اسو قت ہمیں فوراً نیچے جانا چاہئے ورنہ الزام ہم پر آسکتا ہے ۔’’ بلال کو فلپ کی بات قدرے درست معلوم ہوئی اور وہ نیچے کیپٹن کے کیبن کی طرف چل دیئے۔

٭٭٭

            پوری فیری میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی تھی ۔تھوڑی دیر بعد ہر جگہ کیپٹن کی یہ آواز گونج رہی تھی ۔‘‘مسافروں سے گزارش ہے کہ وہ ڈائننگ ہال میں پہنچ جائیں فیری پر ہونے والے نا خوشگوار حادثے کے بارے میں اہم اعلان کیا جائے گا ۔ہال میں نہ پہنچنے والے کو مشتبہ قرار دیا جائے گا ۔شکریہ ۔’’اعلان سنتے ہی اکثر لوگ ڈائننگ ہال کی طرف چل پڑے ۔فلم یونٹ کے لوگ سب سے زیادہ سہمے ہوئے تھے ۔بار میں لاش دیکھنے والی خاتون بھی اپنے ساتھی مرد کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے چلی آرہی تھی ۔فلپ اور بلال دونوں اکٹھے ہال میں پہنچے ۔ابھی چند لوگ ہی وہاں آئے تھے اس کے باوجود فلپ نے سب سے آخری والی ٹیبل پر بیٹھنا پسندکیا ۔‘‘ہم آگے کیوں نہیں بیٹھے ؟’’ بلال نے جگہ کے انتخاب پر فلپ سے سوال کیا ۔‘‘یہاں سے تمام لوگوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے ’’فلپ نے سنجید گی سے کہا۔ ‘‘تو گویا آپ جاسوسی کا شغل بھی فرماتے ہیں ’’ بلال نے مسکراتے ہوئے کہا ۔‘‘ڈاکٹر میرے شغل تو بہت سے ہیں ’لیکن جب تک آپ اپنے متعلق تفصیل سے نہیں بتائیں گے میں آپ کو کچھ بتانے والا نہیں ’’ فلپ کا لہجہ شکایت آمیز’لیکن انداز بے تکلف دوستوں کا تھا ۔ بلال نے مسکرانے پر ہی اکتفا کیا ۔اس دوران ایڈگربل کے وہ ساتھی ہال میں داخل ہوئے جن کی موجودگی میں قتل ہوا تھا اور جو فلپ کی نظروں میں مشکوک ہو چکے تھے ۔‘‘آپ کی ان دو آدمیوں کے بارے میں کیا رائے ہے ؟’’بلال نے پوچھا ۔فلپ نے نظریں ان دونوں پر جماتے ہوئے کہا ‘‘ میرا خیال تھا کہ یہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ آئیں گے ’ لیکن یہ تو اکیلے معلوم ہوتے ہیں ۔’’ آپ کو کیسے معلوم ہو اکہ ان کے اور بھی ساتھی ہیں ؟’’

             ‘‘انہوں نے جس طریقے سے اور جس وقت بار اٹنڈر کو قتل کیا تقریباً اسی لمحے دوسرے دو آدمی قتل ہوئے۔ اس کاایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قاتل ایک سے زیادہ ہیں اور ایک منظم گروہ کی شکل میں کسی خاص مقصد کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔’’ فلپ نے بڑے اعتماد سے اپنا نظریہ پیش کیا ۔

             ‘‘بڑی عجیب بات ہے!...آپ نے کیسے اندازہ کر لیا کہ بار اٹنڈر کا قتل ان دونوں نے کیا ہے ۔؟’’بلال کی آواز قدرے بلند ہو گئی تھی ۔فلپ فوراً بولا خدارا ذرا آہستہ بات کریں ...میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا ... دیکھو اس وقت کچھ اور لوگ ہال میں آ رہے ہیں ۔’’ بلال کی نظریں ہال کے دروازے کی طرف اٹھ گئیں ۔ اس وقت ایڈ گربل اپنے تین ساتھیوں سمیت ہال میں داخل ہو چکاتھا ۔وہ اور اس کے ساتھی عجیب اندازِ بے نیازی سے آ رہے تھے فلپ کے لئے یہ انداز ذرا بھی اجنبی نہیں تھا ۔مجرموں کے منظم گروہ کے لیڈروں کو اپنے چیلوں کے ساتھ اس کروفر سے چلتے ہوئے وہ کئی مرتبہ پہلے بھی دیکھ چکا تھا ۔ اس کی چَھٹی حس بتا رہی تھی کہ آنے والے حالات فیری کے مسافروں کے لئے بہت کٹھن ہوں گے ۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ان مجرموں سے نپٹنا عملے کے بس کی بات نہیں ہوگی ۔ وہ چاروں تقریبا ً وسط میں آکر بیٹھ گئے ۔فلپ نے ان کے بیٹھنے ہی سے اندازہ لگا لیا کہ ان کے پاس بظاہر کوئی اسلحہ نہیں ۔اسی لمحے اسے بلال کی سرگوشی سنائی دی‘‘کیا یہ لوگ بھی آپ کو مشکوک دکھائی دے رہے ہیں ؟’’ اس کا جملہ ابھی پوری طرح ادا نہیں ہوا تھا کہ فیری کا کپتان دو مسلح سیکورٹی گارڈز کے ہمراہ ہال میں داخل ہوا ۔ وہ تمام مسافروں کی نگاہوں کا مرکز تھا ۔مسافر اس سے کسی اہم انکشاف کی توقع لگائے بیٹھے تھے ۔فلپ کپتان کے بظاہر پر سکون چہرے کے پیچھے فکر کی پرچھائیاں دیکھ رہا تھا ۔اس نے اپنی گھڑی پر نگاہ ڈالی اور عملے کے ایک آدمی نے اسے سب مسافروں کے پہنچ جانے کا اشارہ دیا تو اس نے قدرے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہنا شروع کیا :‘‘میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں ۔ہمارے عملے کے تین افراد کو قتل کر دیا گیا ۔ایک آدمی بارمیں ہلاک ہوا ہے ’ وہ وہاں اٹنڈر کے فرائض دے رہا تھا ۔دوسرا آدمی ایک ویٹر تھا جو اس ڈائننگ ہال کے دروازے پر مردہ پایا گیا اور تیسرا قتل میرے کیبن کے عین سامنے ہوا ۔یہ آدمی ہمارا نائب کپتان تھا ...ہمارے لئے یہ حادثات انتہائی پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں ...ہمارے ڈاکٹر نے انکشاف کیا ہے کہ تینوں مقتولین کو مہلک زہر دیا گیا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ قتل پانچ منٹ کے اندر اندر ہوئے ہیں ۔ اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر مسافر کے کیبن کی تلاشی لی جائے ...’’

             کپتان کا باقی جملہ مسافروں کے شور میں دب گیا کچھ مسافر اس کے حق میں تھے اور کچھ مخالف ۔ بل اور اس کے ساتھی بھی مخالفوں میں شامل تھے ۔اس موقع پر فلپ اٹھا اور بلند آواز میں بولا :‘‘ہمیں کپتان سے ہمدردی کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور میں سب سے پہلے اپنے کیبن کو تلاشی کے لئے پیش کرتا ہوں ...’’ تلاشی لینے کے حمایتوں نے تالیاں بجا دیں ’لیکن مخالفوں نے پھر شور مچایا ۔ایک دومنٹ تک یہ شور شرابا ہوتا رہا ۔پھر اچانک ایک دھماکے کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔ (جاری ہے)