فرشتوں کے قیدی

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : ناول

شمارہ : اپریل 2005

 قسط ۔۵

شر اور خیر کی ازلی دشمنی’ دور جدید کی مادیت پرستی سے اکتا کر ماضی کی ساد ہ زند گی کی طرف پلٹنے کی تمنا اور فطر ت میں ودیعت انسانی جذبوں کی شکست و ریخت کی تحیرخیز داستاں۔

            وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا:‘‘یہ مہمان خانہ ’’ جہاں فیری کے مسافر ٹھہرائے گئے ہیں’ کہاں ہے؟’’ تجربات کی بھٹی میں کندن بن جانے والے بوڑھے جیکب کو اسی سوال کی توقع تھی۔ وہ فوراً بولا:‘‘اس وادی کا رقبہ صرف ۲۷ مربع میل ہے۔ یہاں سے دس میل کی مسافت پر تمھیں اس وادی کی اصل آبادی ملے گی۔ وہیں مہمان خانہ ہے..اور میرا خیال ہے اب تم وہیں جاؤ گے!’’ ‘‘تمھارا اندازہ تھوڑا سا غلط ہے۔ میں اب تمھیں باقاعدہ شرف میزبانی بخشوں گا۔ اس کے بعد یقینا وہیں جاؤں گا۔’’ بل کے چہرے پر سفاک قسم کی مسکراہٹ تھی!

……٭……

            بلال اپنے خاص کمرے میں لیٹا مستقبل کے تانے بانے بن رہا تھا۔ وہ کیپٹن ایڈم کو اولینا فیری پر ہونے والے تمام واقعات سے آگاہ کر چکا تھا۔ اس گفتگو کے دوران میں وہ دونوں بالکل اکیلے تھے۔ بل کے بارے میں جب بلال نے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا تو کیپٹن ایڈم نے بڑے سرسری انداز میں کہا تھا کہ اس سے کسی کو چنداں خطرہ نہیں کیونکہ یہاں چھیننے کے لیے کوئی چیز نہیں۔ زمین’ تاج نہ تخت۔ جنس کے سوال پر کیپٹن ایڈم نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ یادداشت کے ساتھ ساتھ یہاں کے باشندے توالد وتناسل کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے ہیجڑے نما انسانوں کی بستی کو فرشتوں کی وادی قرار دینا بلال کے خیال میں قطعی ناانصافی کی بات تھی’ مگر اس نے کیپٹن سے کوئی اختلافی بات نہیں کی تھی’ صرف اپنی کہانی سنائی اور اس کی بتائی گئی معلومات سن لیں۔ اس کا ذہن ان حالات کی وہ تصویر قبول نہیں کر رہا تھا جو فی الحال اس کے سامنے تھی۔ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ نام نہاد فرشتوں کی یہ وادی لاتعداد ان دیکھے خطرات سے اٹی پڑی ہے اور یہاں عنقریب ایک خونی ڈرامہ ہونے والا ہے۔ وہ اسی ادھیڑ پن میں تھا کہ مس ماریا مسکراہٹیں بکھیرتی کمرے میں داخل ہوئی۔

            بلال کے لیے ماریا کی شخصیت بھی پراسراریت کے ان گنت پردوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ وہ اب تک یہ اندازہ تو لگا چکا تھا کہ اس کا تبسم بالکل قدرتی ہے اور اس میں زندگی کے تمام رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں ۔ اس کے بے پناہ حسن میں معصومیت کی مسحور کن آمیزش کو بھی وہ محسوس کرچکا تھا۔ وہ اس سے بھی بخوبی آگاہ ہوچکاتھا کہ اس کی ظاہری شخصیت ہی دل و نگاہ کی دنیا کو زیر و زبر کردینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ اس کے لیے رات کے کھانے کا بندوبست کرنے آئی تھی۔ بلال نے قدرے اپنایت سے پوچھا:‘‘مس ماریا! ہماری یہ خدمت کتنا عرصہ جاری رہے گی؟’’

            ‘‘آپ کی بات تو دوسری ہے مسٹر بلال’ البتہ وادی کے دستور کے مطابق ہمارے دوسرے پچاس مہمانوں کو کل صبح سے ان کی رہائش گاہوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔ پھر ان کی تربیت کی جائے گی کہ وہ وادی کے دوسرے لوگوں کی طرح اپنے کھانے پینے اور پہننے کا بندوبست کرنے کے لیے فصل کی کاشت شروع کر دیں۔ ان کی یہ فصل چند روز کے اندر اندر اس قابل ہو جائے گی کہ کھانے پینے کے معاملے میں وہ مکمل طور خود کفیل ہو جائیں گے۔’’

            ‘‘اورمیرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟’’بلال کی آواز میں غیر شعوری طور پر ایک خاص لوچ پیدا ہو گیا تھا۔ اس نے غزالی آنکھوں کو لمحے بھر کے لیے بلال کے چہرے پر مرکوز کیا اور پھر ان پر پلکوں کا گھنا سایہ ڈالتے ہوئے بولی:‘‘یہ تو آپ پر منحصرہے’ غموں سے نجات پانے کے لیے جذبوں سے عاری ہوکر بے حس ہوجانا پسند کرتے ہیں یا...’’ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔بلال کے لیے اس ادھورے جملے کو سمجھنا کو ئی مشکل نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ آئی اور اس نے کھانے کی طشتری میز پر رکھتے ہوئی ماریا کو پہلی بار بہت قریب اور بہت غور سے دیکھا۔اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ چودھویں رات’ ساحل کے کنارے کھڑے بحرِ بیکراں کی بے تاب اور جوشیلی لہروں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ رہا ہو... لمحے بھر کے لیے اس کے جی میں آیا کہ وہ اپنے آپ کو ان شوریدہ سر لہروں کے حوالے کر کے سمندرکا حصہ بن جائے لیکن اس کی بدقسمتی تھی یا خوش قسمتی کہ وہ دل پر دماغ کا پہرا بٹھانے کا ہنر خوب جانتا تھا۔ اس نے ایک جھرجھری لی تو اسے اپنے بدن کا ہر رونگٹا سراپا احتجاج محسوس ہوا۔ اس نے کمال ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے اپنی سبھی قوتوں کو ماریا سے ایک سوال کرنے پر لگادیا:‘‘ مس ماریا! آپ کب سے اس وادی میں رہ رہی ہیں؟’’ماریا کب سے اسی سوال کے انتظار میں کھڑی تھی۔ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی:‘‘میں واحد فرد ہوں جو اس وادی میں پیدا ہوئی ...کیپٹن ایڈم نے بتایا کہ میری ماں ایک جرمن خاتون تھی اور میرے والد ایک ایشیائی شخص ۔ جس طرح آپ کا جہاز پر اسرار حادثے کا شکار ہوا’ اسی طرح وہ بھی یہاں آگئے۔’’اس نے ایک نظر بلال کی طرف دیکھا اور پلکیں جھپکا کر دوبارہ بولی:‘‘میرے والدین اکیلے ہی اس پرانی کشتی میں سفر کر رہے تھے ۔ آپ کی طرح وہ بھی پر اسرار حالت میں اپنی کشتی پر بے ہوش پائے گئے۔ ان کی یادداشت ختم کرنے سے پہلے کیپٹن ایڈم نے ان کو ہوش میں لانا ضروری سمجھا۔ ہوش میں آنے کے بعد انھوں نے ‘‘فرشتے’’ بننے سے انکار کر دیا۔ انھیں اس وادی کے دستور کے مطابق باقی لوگوں سے علیحدہ کر دیا گیا۔ پھر مجھے یہی بتایا گیا کہ ایک صبح میرے والد بستر پر مردہ پائے گئے۔ میری ماں نے اس کے باوجود اپنے ماضی کو بھولنا گوارا نہ کیا اور مجھے جنم دیتے ہی وہ بھی فوت ہو گئیں۔ میری پرورش کیپٹن ایڈم نے کی ہے۔’’بلال نے مزید کریدتے ہوئے پوچھا:‘‘آپ کے خیال میں کیپٹن ایڈم نے آپ کے متعلق جو کچھ بتایا وہ درست ہے؟’’ماریا اپنے خوبصورت بال ماتھے سے ہٹاتے ہوئے بولی:‘‘ہاں کیپٹن ایڈم بہت با اصول آدمی ہیں۔ مجھے یہ توقع نہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہوں گے۔ وادی کے کئی دوسرے لوگ بھی میرے ماں باپ کے متعلق جانتے ہیں۔ ان سے بھی ان کی باتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔’’

            ‘‘کیا آپ پڑھنا لکھنا جانتی ہیں ؟’’ بلال کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا۔ ‘‘ہاں کیپٹن! ایڈم نے مجھ سمیت کئی لوگوں کو پڑھنا لکھنا سکھایا۔’’ بلال کی توقع کے بر عکس ماریا نے اس دفعہ بڑا مختصر جواب دیا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اگرچہ ماریا نے کیپٹن کے متعلق کوئی منفی بات نہیں کی لیکن وہ اس کے بارے میں زیادہ گفتگو کرنا پسند نہیں کرتی۔ وہ دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے جو سبزی پر مشتمل تھا۔ بلال نے ایسی لذیذ سبزی زندگی میں پہلے کبھی نہیں کھائی تھیں۔سالن کچھ اس مہارت سے تیار کیا گیا تھا کہ بلال کو اس کے ساتھ کوئی دوسری شے کھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔خاموشی کا وقفہ طویل ہونے لگا تو بلال دوبارہ بولا:‘‘ مس ماریا! کیا آپ اس زندگی سے خوش ہیں؟’’ اس نے غم انگیز مسکراہٹ کے ساتھ بلال کی طرف دیکھا۔ پانی کا ایک ننھا گھونٹ لیتے ہوئے وہ کمرے کی چھت کی طرف گھورنے لگی۔ وہ مناسب الفاظ کی تلاش میں تھی۔ آخر بولی:‘‘کاش ایسا ہوسکتا!لیکن یہ چاند تارے’کرنیں’پھول’شبنم’شفق اور چاندنی...یہ سب اور پھر انکل جیکب کی باتیں اور کتابیں...یہ سب میری بے چینی اور پریشانی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ اور اب آپ لوگوں کی آمد نے...’’اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ حالانکہ وہ کہنایہی چاہ رہی تھی کہ میرے دل و دماغ میں دبی چنگاریوں کو شعلوں کا روپ دے دیا ہے۔

             بلا ل کو اس کیفیت پر فرازؔ کا یہ شعر یاد آگیا۔

وحشت کا سبب روزن زنداں تو نہیں ہے

مہرومہ وانجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

            بلال نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پوچھا: ‘‘یہ انکل جیکب کون ہیں؟’’

            ‘‘انکل جیکب اور کیپٹن ایڈم ایک ساتھ اس وادی میں آئے تھے’ لیکن انھوں نے اپنے ماضی سے ناتانہ توڑتے ہوئے یہاں سے واپس جانے کا فیصلہ کیا ۔ وہ گزشتہ پچاس برس سے یہاں سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں’ مگر ابھی تک کامیابی ان کے نصیب میں نہیں آئی۔ وہ اس بستی میں رہتے ہیں جہاں میرے والدین رہا کرتے تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرتی ہوں اور ان کے زیر مطالعہ ساری کتابیں میں نے پڑھ ڈالی ہیں۔ زندگی کے متعلق تھوڑا بہت شعور میں نے انھی کی صحبت میں حاصل کیا ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں یقینا خود کشی کر چکی ہوتی۔’’

            ‘‘مس ماریا! یہ عجیب بات نہیں کہ کیپٹن ایڈم نے آپ کی پرورش کی لیکن آپ ان کا نام بغیر کسی رشتے کے لیتی ہیں لیکن مسٹر جیکب کو آپ نے انکل کہا ہے ۔ لگتا ہے کہ آپ کیپٹن ایڈم کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتیں!’’ جوا ب میں ماریا کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر بولی:‘‘کیپٹن ایڈم رشتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے کبھی مجھے بیٹی نہیں کہا جب کہ انکل جیکب وہ ہستی ہیں جنھوں نے مجھے رشتوں کی پہچان دی۔’’ماریا اس جواب کے بعد خاموش ہو گئی۔انہوں نے خاموشی کے ساتھ کھانا مکمل کیا۔ اس دوران بلال نے محسوس کیا ماریا کی دلچسپی کھانے میں نہیں بلکہ وہ کسی الجھن میں ہے۔ آخر وہ ہمت کر کے بولی:‘‘مسٹر بلال! اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنے بارے میں بھی بتائیں۔’’بلال سمجھ گیا کہ فطری حیا کی وجہ سے ماریا ایسے سوالات کرنے سے ہچکچارہی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ اس میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس نے مختصر ترین الفاظ میں اپنی داستان سنا ڈالی۔ ماریا کے لیے اس کی آپ بیتی میں ایک عالم تحیر تھا۔ تجسس کے مارے وہ بے حال ہو چکی تھی۔ اس نے پے در پے سوال کرنا شروع کر دیے۔ ان سوالوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ جذبوں سے عاری اور رشتوں سے بے گانہ اس مصنوعی دنیا میں رہنے کے باوجود وہ زمین کے حقیقی معاشرے کی بہت ساری قدروں اوررویوں سے آگاہ ہے۔ خاص طور پر بلا ل اس بات پر اس کا اطمینان اور یک گونہ خوشی محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ وہ ابھی تک غیر شادی شدہ ہے اور اس کی زندگی میں کوئی عورت نہیں آئی۔ سوال و جواب کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ انھیں باہر سے کسی کے چیخنے چلانے اور دوڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ایک شخص شور مچاتا کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے پیچھے ایڈ گربل کا سیاہ فام ساتھی سٹارم تھا۔ یہ وہی پہلوان نما شخص تھا جس کے منہ میں بل نے سلگتا ہوا سگار ٹھونسا تھا۔ شور مچانے والا شخص ماریا کی طرف بڑھا اور اسے دیکھ کر وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ آنے والا ماریا کی اوٹ لیتے ہوئے خوفزدہ لہجے میں ممیایا:‘‘مس ماریا... یہ ... یہ مجھے مارتا ہے!’’ سٹارم’ ماریا اور بلال کو دیکھ کر رک گیا اور پھر شکایت آمیز لہجے میں بولا:‘‘اس نے میری مونچھوں کا بال اس وقت کھینچا جب میں کھانا کھا رہا تھا۔’’ ماریا نے فوراً اپنے پیچھے کھڑے شخص کی طرف دیکھا جو بڑے غور سے ایک چھوٹے سے سیاہ بال کو دیکھ رہا تھا۔ وہ غصے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی: ‘‘ مسٹر نومین! آپ کو شرم آنی چاہیے۔ آپ ایک مہمان کو تنگ کر رہے ہیں۔’’ ماریا کی ڈانٹ سن کر نو مین سہم کر دور ہٹ گیا۔ اب اس کی نظروں کا مرکز بلال تھا جو بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہاتھا۔ ادھر ماریا کی ڈانٹ نے سٹارم کا حوصلہ بڑھایا اور وہ اس کی طرف لپکا۔ یہ دیکھتے ہی اس نے ایک زبردست کلکاری ماری اور بلال کو اپنا ہمدرد سمجھ کر اس کی طرف چھلانگ لگادی۔ وہ کسی بچے کی طرح بلال کی گردن میں بازو ڈال کر اس سے چمٹ گیا۔ اس کی یہ بے تکلفی بلال کے لیے غیر متوقع تھی ۔ اس نے بوکھلاہٹ میں ماریا کی طرف دیکھا جس نے آگے بڑھ کر اس کی قدرے گنجی چندیا پر ایک زوردار دھول جمائی اوروہ میز پہ رکھے برتنوں کو الٹاتے ہوئے ایک طرف ہو گیا۔ اب اس نے بچوں کی طرح پھس پھس رونا شروع کر دیا۔ بلال حیرت سے بولا:‘‘مس ماریا! یہ کیا مخلوق ہے؟’’

            ‘‘یہ مسٹر نومین ہیں...ہماری وادی کے سب سے معصوم شخص!’’

            ‘‘نومین! خاصے اسم بامسمیٰ ہیں’ ان کا تاریخ و جغرافیہ کیا ہے؟’’بلال کو اس کا جواب نہ مل سکا کیونکہ سٹارم نے موقع پا کر نومین پر حملہ کر دیا تھا’ مگر اس نے بھی ہمت نہیں ہاری۔ اس نے سٹارم کی بڑی بڑی مونچھوں پر ہاتھ ڈالا اور اگلے ہی لمحے وہ انھیں پکڑ کر باقاعدہ جھول گیا۔ سٹارم نے ذبح ہوتے ہوئے سانڈ کی طرح آوازیں نکالیں جو اس قدر خوفناک تھیں کہ نومین نے خوفزدہ ہو کر مونچھیں چھوڑ دیں۔ اس کے ہاتھ میں اب سٹارم کی مونچھوں کے کئی عدد بال تھے جنھیں دیکھ کر اس نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا اور باہر کی طرف دوڑ گیا۔ درد کے مارے سٹارم کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔ اپنی مونچھوں کو سہلاتے ہوئے وہ بھی باہر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی ماریا کی ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے بولی:‘‘ در اصل یہ موصوف بچے تھے جب وادی میں آئے۔ ان پر یادداشت ختم کرنے والے مشروب کا یہ اثر ہوا کہ بعض اوقات ان پر حماقت کا دورے پڑتے ہیں اور یہ ایسے ایسے کارنامے دکھاتے ہیں کہ بس کچھ نہ پوچھیے۔’’

            ‘‘لیکن یہ مونچھ والے صاحب تو بہت ظالم شے ہیں۔ ان کے ہتھے چڑھ گئے تو وہ ان کی ساری حماقت یوں نکال دیں گے جیسے گیلے کپڑے سے پانی نچوڑا جاتا ہے۔’’

            ‘‘آپ بے فکر رہیں’ نو مین بہت تیز دوڑتا ہے۔ وہ آج تک اپنے کسی تنگ کرنے والے شخص کے ہاتھ نہیں آیا۔ آیئے ہم باہر ٹہلنے چلتے ہیں۔’’

……٭……

            ایڈ گربل آٹھ گھنٹے سونے کے بعد صبح سورج چڑھے بیدار ہوا ۔ بوڑھے جیکب نے میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے اسے بہت اچھا ناشتا دیا۔ اس کے حسن سلوک کے باوجود بل نے اس پر اعتماد کرنا مناسب نہ سمجھا اور اپنا سارا سامان ساتھ لیا اور پھر آنے کا وعدہ کر کے آبادی کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں ایک چٹان کو اچھی طرح پہچان کر اس نے بریف کیس اور بندوق احتیاط سے وہاں چھپائے اور ایک مشین پستول’ متعدد میگزین اور ایک دوربین زاد راہ کے طور پر ساتھ لیے اور تین گھنٹے کے بعد وہ اس وادی کے سامنے تھا جس کے خدوخال اس کے میزبان نے اسے بتائے تھے۔ مکانات بہت سادہ طریقے سے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر گھر کے سامنے ایک کھیت بھی تھا جس میں بڑے خوبصورت سر سبز پودوں کی فصل لہلہا رہی تھی۔ کھیتوں کی وجہ سے گھروں کا ایک دوسرے سے فاصلہ خاصا ہوگیا تھا۔ تمام گھر خوبصورت چھوٹی چھوٹی سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ اکثر لوگ اپنے کھیتوں میں مصروف کار نظر آئے۔ بل ایک کھیت کے پاس سے گزرا تو ایک کسان نے اسے دیکھا۔ اس نے بڑے اخلاق سے اس کو صبح کا سلام کیا۔ بل نے جواب دیا اور خاصے معقول لہجے میں پوچھا:‘‘جناب! کل یہاں کچھ نئے لوگ آئے تھے...’’

            ‘‘لگتا ہے آپ سیر کرنے کے بعد راستہ بھول گئے!’’ وہ مسکراتے ہوئے اس کی بات کاٹ کر بولا۔ بل کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ پوچھنے والے نے اسے ایک مہمان سمجھا ہے۔ اس قدر آسانی سے منزل مل جانے پر اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ وہ اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا:‘‘آپ نے ٹھیک سمجھا۔ کیا آپ مجھے میرے دوسرے ساتھیوں تک پہنچا دیں گے؟’’اور وہ اپنا کام چھوڑ کا اس کے ساتھ ہو لیا۔ راستے میں کئی افراد نے بل سے ہاتھ ملائے۔ اسے ملنے والے اکثر افراد کی عمریں ۵۰ سال سے زیادہ تھیں’ لیکن وہ سب قابل رشک صحت کے مالک تھے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ ایک قدرے بہتر عمارت کے سامنے تھے۔ بل کے رہبر نے عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:‘‘لیجیے جناب! یہ رہا مہمان خانہ! میرے خیال میں اب آپ کو اپنے کمرے تک پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔’’

            ‘‘بہت بہت شکریہ آپ کا۔ میں اپنے کمرے میں پہنچ جاؤں گا۔’’ بل نے مسکین سی صورت بناتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ آنے والا واپس ہوگیا۔ بل نے اب احتیاط سے مہمان خانے کی طرف قدم بڑھانے شروع کیے۔ وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ مہمان خانے سے ملحقہ عمارت سے ایک شخص بھاگتاہوا اس کی طرف بڑھنے لگا۔ بل نے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ شاید اس شخص کا ہدف کوئی اور ہو’ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ آنے والا مسٹر نومین تھا۔ وہ آتے ہی بل سے بے تکلفی سے بولا:‘‘ ہیلو مسٹر! دیکھیں’ میں نے ایک کالے کلوٹے اور ٹنڈ والے پہلوان کی گھنی مونچھوں سے سات بال کھینچے ہیں۔’’ اس کا انداز اس بچے کا سا تھا جو اپنے ہم عمر حریف پر فتح حاصل کر کے خوشی سے سرشار ہو رہاہو۔ بل کے ذہن میں فوراً سٹارم کا نقشہ آگیا۔ وہ نو مین کو تھپکی دیتے ہوئے بولا:‘‘شاباش... بڑے بہادر ہو تم۔ کیا مجھے بتاؤ گے کہ یہ گنجا اور کالا پہلوان کہاں رہتا ہے؟’’

            ‘‘ہاں بالکل! وہ دیکھیں ہمارے گھر کے بالکل ساتھ والے کمرے میں رہتا ہے۔’’ یہ کہتے ہوئے وہ کسی اسپرنگ کی طرح اچھلا اور بل کی ٹوپی اتار کر دوڑ لگا دی۔ بل کو اس کی بد تمیزی پر بڑا تاؤ آیا۔ وہ غصے میں اس کے پیچھے بھاگا مگر پھر کچھ سوچ کے رک گیا اور اس کمرے کی طرف بڑھنے لگا جدھر نو مین نے اشارہ کیا تھا۔کمرے کے آگے بنا چھوٹا سا برآمدہ عبور کر کے بل نے دروازے کو دھکا لگایا تو وہ کھل گیا۔ سامنے سٹارم لیٹا خراٹے لے رہا تھا۔ آگے بڑھ کر اسے زور سے جھنجھوڑتے ہوئے وہ اسے نیند سے بیدار کرنے لگا۔ سٹارم ہڑ بڑا کر اٹھ گیا۔ بل کو دیکھتے ہوئے غصے سے بولا:‘‘ کون ہوتم؟ کیوں تنگ کر رہے ہو مجھے؟’’ بل کو بوڑھے کی یادداشت والی بات کے درست ہونے میں اب کوئی شبہ نہیں رہاتھا۔ وہ بے یقینی سے اس کی طرف دیکھتا رہا’ پھر بولا:‘‘تمھارا نام کیا ہے؟’’‘‘مجھے کچھ یاد نہیں ... حتیٰ کہ اپنا نام بھی!’’ اس کی آواز میں عجیب جھنجھلاہٹ تھی۔ بل نے پستول نکالا اور اس کی گردن پر نال دباتے ہوئے بولا:‘‘بتاؤ اپنا نام ورنہ میں تمھیں گولی مار دوں گا!’’

            ‘‘میں سچ کہتا ہوں مجھے کچھ یاد نہیں۔’’ بل نے اپنے منصوبے کے مطابق سٹارم کو اس کے حال پر چھوڑا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ اب وہ باری باری کمروں میں ولف کی تلاش کرنے لگا۔ سٹارم کی طرح سارے مسافر اسے خواب خرگوش کے مزے لیتے ملے۔ پانچویں کمرے میں ولف اور کلارک لیٹے تھے۔ بل نے ولف کو بیدار کیا۔ اس نے بھی حسب توقع بل کو پہچاننے سے صاف انکار کردیا۔ بل نے اس کی کنپٹی پر پستول رکھا اور اسے چپ چاپ چلنے کے لیے کہا۔ انتہائی اکھڑ مزاج اور شکست سے نا آشنا ولف خاموشی سے ایک سدھائے ہوئے ٹٹو کی طرح اس کے آگے چل پڑا۔ اس کی فرمانبرداری دیکھ کر بل نے پستول جیب میں رکھ لیا تھا۔ حالات کے اس طرح سازگار ہوجانے کی اسے قطعی توقع نہیں تھی۔ وہ جلد از جلد واپس جیکب کے پاس پہنچ جانا چاہتا تھا۔

……٭……

            کیپٹن ایڈم حسب معمول صبح کی سیر سے واپس آرہا تھا کہ راستے میں نومین بل سے چھینی ٹوپی پہنے اکڑ اکڑ کر چلتا ہوا ملا۔ کیپٹن ایڈم نے اسے بازو سے پکڑا اور حیرت سے پوچھا:‘‘یہ ٹوپی تمھیں کہاں سے ملی؟’’

            ‘‘ملی کہاں ۔ میں نے تو بے وقوف کو باتوں میں لگا کر اس کے سر سے جھپٹ لی تھی۔ وہ میرے پیچھے بھاگا تھا مگر بھلامجھ سے کوئی دوڑ لگا سکتا ہے؟’’

            کیپٹن ایڈم نے اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا:‘‘ہاں واقعی’ مسٹر نومین سے زیادہ تیز تو کوئی بھی نہیں دوڑ سکتا! شاباش...ذرا ہمیں بھی تو دکھایے کہ یہ ٹوپی کیسی ہے؟’’ نومین نے فوراً ٹوپی اس کے حوالے کر دی۔ غور سے دیکھتے ہوئے کیپٹن بولا:‘‘مسٹر نومین’ آپ نے تو بڑے کمال کی چیز حاصل کی ہے۔ آیئے ہم مسٹر بلال کے پاس چلتے ہیں اور انھیں آپ کے اس تازہ کارنامے کے متعلق بتاتے ہیں!’’ نو مین بخوشی راضی ہوگیا۔ وہ بلا ل کے کمرے میں پہنچے تو حسب معمول اسے کسی گہری سوچ میں پایا۔ علیک سلیک کے بعد کیپٹن نے ٹوپی دکھاتے ہوئے اسے کہا:‘‘ڈاکٹر بلال! ہم آپ کے لیے دلچسپ خبر لائے ہیں۔ مسٹر نومین نے کسی سے یہ ٹوپی چھینی ہے۔’’ بلال نے ٹوپی کیپٹن کے ہاتھ سے پکڑ لی اور حیرت سے بولا:‘‘یہ ٹوپی تو اولینا فیری کے مقتول کیپٹن کی ہے’ اور اس پر غنڈوں کے سردار ایڈگربل نے قبضہ جما لیا تھا... یہ کس سے ملی آپ کو؟’’ بلال یہ سوال نومین سے کر بیٹھاتھا۔ ‘‘میں ان کا نام پوچھنا بھول گیا تھا۔ ویسے وہ بڑا لمبا چوڑا تھا اور اس کے منہ پر زخم کا نشان بھی تھا!’’ خلاف توقع اس نے معقول انداز سے جواب دیا۔ کیپٹن ایڈم نے اس کی بات نظر انداز کر کے ٹوپی بلال سے لے کر نومین کے سر پر رکھی اور اسے تھپکی دے کر واپس بھیج دیا۔ اس کی موجودگی میں سنجیدگی کے کسی بھی وقت رخصت ہوجانے کا قوی امکان تھا۔ اس کے جاتے ہی کیپٹن بولا:‘‘ حیرت کی بات یہ ہے کہ فیری کے کسی مسافر کے پاس ایسی کوئی ٹوپی ہمیں نہیں ملی تھی....’’

            ‘‘اور مل بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ تو کیپٹن کی مخصوص کیپ ہے...’’ پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا: ‘‘ نومین نے جو حلیہ بتایا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے ایڈگربل یہاں آیا تھا۔ اگر وہ زندہ ہے تو پھر اس وادی کی خیر نہیں ۔’’

            ‘‘آپ پریشان نہ ہوں ڈاکٹر بلال ! وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ آیئے!ہم ابھی تصدیق کر لیتے ہیں کہ وہ یہاں آیا تھا کہ نہیں۔’’بلال کے ایما پر ان کا رخ بل کے ساتھیوں ولف’کلارک’ سٹارم’ رینو اور ایڈی کے کمروں کی طرف تھا۔ (جاری ہے)