سوال ، جواب ( ترجمہ ، صدیق بخاری)

مصنف : آصف افتخار

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2005

جواب۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پر وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔

وضاحت: اس معاملے میں کلید ی لفظ قرض ہے۔جب بھی دو فریقین کے مابین تعلق قرض خواہ اور مقروض کا ہو گا تو قرض دینے والا اگر قرض کو اس شرط سے مشروط کر دے کہ وہ ایک معین اضافہ ایک معینہ مدت کے لیے اپنے قرض پر وصول کر ے گا تو یہ اضافہ سود یا ربا کہلائے گا۔

 قرآن مجید نے جب ربا کو ممنوع قرار دیا تو اسوقت اس کے لیے کوئی نئی اصطلاح وضع نہیں کی بلکہ معاشرے میں رائج اصطلاح کو ہی استعمال کیا اور ظاہر ہے کہ اس اصطلاح کا وہاں ایک خاص مطلب تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ قرآن نے شراب ا و ر جوئے کے لیے خمر اور میسر کی اصطلاحیں استعمال کی تو وہ بھی وہی تھیں جو وہاں رائج تھیں۔اس ماحول کا ہر شخص جس طرح خمر اور میسر کی اصطلاح کا مطلب سمجھ رہا تھا اسی طرح ربا کا مطلب بھی ان پر غیر واضح نہ تھا۔ قرآن نے جب جوئے اور شراب کوممنوع قرار دیا توصرف اتنا کہا کہ یہ اب سے ممنوع ہیں اور انہیں ممنوع قرار دیتے ہوئے قرآن نے یہ وضاحت بالکل نہیں کی کہ جوئے کا مطلب یہ ہوتا ہے اور خمر کایہ۔کیونکہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ کیا ہوتی ہیں۔یہی معاملہ ربا کا تھا قرآن کے براہ راست مخاطبین اس کے مفہو م کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔جب کوئی لفظ مروجہ مفہوم سے ہٹ کر ایک نئے مطلب میں استعمال کیا جاتا ہے تو عبارت کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ یہاں ایک نئے مطلب میں استعمال ہو رہا ہے۔جس طرح کہ اقبال نے خودی کے لفظ کو ایک نیا مفہوم دیا تو سیاق و سباق سے یہ بات واضح تھی۔

            لفظ کے معنی کے تعین میں یہ بات بنیاد ی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ اہل زبان اس کو کس مفہوم میں بولتے ہیں اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کامطلب او رہے تو پھر بارِ ثبوت اس کے ذمے ہے۔مثلا اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن نے خمر کا لفظ ایک خاص قسم کی شراب کے لیے استعمال کیا ہے یا اس شراب کے لیے جو بہت زیاد ہ پی جائے تو پھر یہ بات اس کو ثابت کرنا ہوگی کیونکہ اہل زبان تو اس کو اس مفہوم میں نہیں سمجھ رہے ہوتے ۔ اسی طرح ربا کا لفظ قرآن کی ایک نئی اصطلاح نہیں ہے بلکہ اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے جو عربوں میں رائج تھا۔اور عرب میں یہ لفظ اسی مفہوم میں مستعمل تھا جیسا کہ پیچھے وضاحت ہو چکی ہے۔یہ واضح ہے کہ جب قرآن ربا کا لفظ استعمال کر تا ہے تو وہ اس کو قرض پہ ایک متعین اضافے کے لیے ہی استعمال کرتا ہے اگر وہ اس کو محض اضافے کے مفہوم میں لے رہا ہوتاتوپھر اس کا اطلاق ہر اضافے پر ہوتاجبکہ منافع بھی ایک اضافہ ہی ہے۔لیکن وہ جائز ہے۔

(آصف افتخار)

جواب۔ میرا خیال ہے کہ اس آیت سے یہ استنباط درست نہیں ہے۔آیت میں زبان کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ سود کی شناعت کو مزید واضح کرنے کیلئے ہے نہ کہ اس کی اجازت کے لیے ۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ اگرکوئی یہ کہے کہ خدا کے لیے اپنی بیوی کے سامنے تو دوسری عورتوں سے چھیڑ خانی سے باز رہا کرو تو اس کامطلب یہ ہر گز نہیں کہ بیوی کی عدم موجودگی میں یہ چھیڑ خانی کر لیا کرو۔ اب قرآن کریم کی ایک مثال سے اس کو سمجھیے۔

‘‘ اور اپنی لونڈیوں کو پیشہ پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت کی زندگی کی خواہاں ہوں محض اس لیے کہ کچھ متاع دنیا تمہیں حاصل ہو جائے(۲۴۔۳۳)

اب ظاہر ہے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں رضامندی سے پیشہ کریں تو ان کو اجازت ہے ۔یہ اسلوب تو ان لوگوں کے اس فعل کی شناعت کو واضح کرنے کے لیے ہے جو لونڈیوں کو اس قبیح کام پر مجبور کرتے تھے جبکہ وہ عفت کی زندگی گزارنا چاہتی تھیں۔

قرآن نے ربا کے معنی واضح نہیں کیے او ر اس کو اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔جو لوگ قرآن کی عربی سے آشنا تھے وہ پہلے ہی سے اس سے آگاہ تھے۔اسی طرح قرآن نے خمر کے معنی بھی واضح نہیں کیے کیو نکہ یہ بھی لوگوں کو پہلے ہی سے معلو م تھے۔ قرآن نے تو صرف ان دونوں کی ممانعت کر دی۔قرآنی عربی میں ربا اس مقررہ رقم (اصل زر کے علاوہ) کوکہتے ہیں جس کامطالبہ ایک قرض دینے والا معینہ مدت کے بعد مقروض سے کرتا ہے۔مزید برآں قرآن سے یہ بھی واضح ہے کہ اُس زمانے میں بھی لوگ تجارتی مقاصد کے لیے قرض دیا کرتے تھے۔کیونکہ تجارتی مقاصد کے لیے دیے گئے قرض میں ہی مال پروان چڑھتا ہے جیسا کہ درج ذیل آیت سے واضح ہے

‘‘اور جو سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ وہ دوسروں کے مال کے اندر پروان چڑھے تو وہ اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑھتا ۔ او رجو تم زکوۃ دو گے اللہ کی رضا جوئی کے لیے تویہی لوگ ہیں جو ( اللہ کے ہاں) اپنے مال کو بڑھانے والے ہیں’’(۳۰۔۳۹)

اس لیے اگر کسی کا یہ خیا ل ہے کہ یہاں لفظ ربا کا مطلب صرف استحصالی سود ہے توبارِثبوت اس کے ذمے ہے۔درج ذیل آیت ہمارے موقف کو مزید موکد کر دیتی ہے۔

‘‘اے ایمان والو اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود تمہار ا باقی رہ گیا ہے ا س کو چھوڑ دو۔’’(۲۔۲۷۸)

‘‘ اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو فراخی تک اس کو مہلت دواور بخش دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو’’۔(۲۔۲۸۰)

درج بالا دونوں آیات ایک ہی سیاق و سباق رکھتی ہیں لہذا یہ دونوں اس بات کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں کہ صرف وہ ہی سود منع نہیں ہے جہاں مقروض تنگ دست ہو۔تنگ دستی کا بیان تو اصل میں ایک استثنا کا بیان ہے کہ اگر ایسا ہو تو۔اور آیت ۲۔۲۷۸ میں وہی سود منع کیا گیا ہے جو باہمی طور پر طے شد ہ ہو۔امام فراہی کے نزدیک اگر یہاں استثنائی صورت حال کا بیان نہ ہوتا تو ‘‘ان کان ’’کے بجائے‘‘ اذا’’استعمال ہوتا۔اس کو اس مثال سے سمجھیے فرض کریں کہ ایک پولیس آفیسر اپنے ما تحت سے یہ کہتا ہے کہ تمام ملزموں کو کل رہا کردینا اور اگر کوئی ملزم پولیس سے تعاون کرے تو اسے آج ہی رہا کردینا۔ ان دونوں جملوں کا سیاق ایک ہی ہے۔دوسرے جملے سے یہ با لکل واضح ہے کہ یہاں استثنا کا بیان ہے۔اسی طرح جب قرآن یہ کہتا ہے کہ سود میں جوبھی رہ گیا ہے اسے چھو ڑ دو اور اگر مقروض تنگی میں ہو تو اس کی فراخی تک مہلت دو۔تو واضح ہے کہ یہ دوسری بات اصل میں استثنا ہے۔دوسر ے الفاظ میں پہلی آ یت میں سود کی ممانعت کا عموم ہے اور انہی قرضوں کے لیے ہے جو لوگ تنگ دستی کی حالت میں نہیں لیتے بلکہ مال کو پروان چڑ ھانے کے لیے لیتے ہیں۔امام امین احسن اصلاحی اس آیت پہ بحث کرتے ہوئے ان الفاظ میں اس کو سمیٹتے ہیں۔

‘‘ظاہر ہے کہ مالدار لوگ اپنی ناگزیر ضروریات زندگی کے لیے مہاجنوں کی طرف رجوع نہیں کرتے رہے ہوں گے بلکہ وہ اپنے تجارتی مقاصد ہی کے لیے قرض لیتے رہے ہوں گے۔ پھر ان کے قرض اور اس زمانے کے ا ن قرضوں میں جو تجارتی اور کاروباری مقاصد سے لیے جاتے ہیں کیا فرق ہوا؟’’

چنانچہ قرآن سے یہ واضح ہوا کہ تمام اقسام کا سود ممنوع ہے او ر اس میں وہ بھی شامل ہے جو لوگ تجارتی مقاصد کے لیے لیتے ہیں او رجس میں استحصال کا کوئی پہلو نہیں ہوتا او ر نہ ہی کسی مجبور کی ضرورت سے ناجائز فائد ہ اٹھایا جاتا ہے۔

(آصف افتخار)

جواب۔ سود صرفی چیزوں پہ ہوتا ہے اور کرایہ غیر صرفی چیزوں پر ہوتا ہے۔ یعنی ایک چیز میں نے آ پ کوادھار دی اور وہ چیز ایسی ہے کہ اس کو لازماً فنا ہونا ہے۔وہ استعمال نہیں کی جاسکتی۔مثلاآپ کو آٹا چاہیے۔آپ اسے کھائیں گے اور یہ فنا ہو جائے گا اب اس کو دوبارہ پیدا کرنا ہو گا ۔یعنی محنت کر کے پھرگندم خریدنی ہو گی پھر آٹاپیدا ہو گا ۔پھر آپ اسے لوٹائیں گے۔اسی طرح پیسے بھی فنا ہو جاتے ہیں۔اس کو کہتے ہیں صرفی چیزیں۔استعمال کی چیزیں وہ ہوتی ہیں جو استعمال سے فنا نہیں ہوتیں بلکہ ویسے کی ویسے رہتی ہیں اور آپ معینہ مدت کے بعد انہیں اسی طرح لوٹا سکتے ہیں۔ مثلا یہ میز ہے ۔ آپ کو ضرورت تھی ۔آپ نے کہا ذرا میز دے دو استعمال کرنے کے لیے۔آپ استعمال کریں گے ۔اور استعمال کے بعدآپ میز اٹھا کے مجھے واپس دے دیں گے۔اس استعمال کا کرا یہ ہو تا ہے

            صرفی چیزوں میں انسان دہری مشقت میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔اگر اس سے اس کے اوپر کچھ مانگا جائے تو وہ چونکہ اس چیز کو فنا کر بیٹھتاہے۔اسے بھی دوبارہ پیدا کرکے دینا ہوتا ہے اور اس پر مزید بھی دینا ہوتا ہے تو یہ ظلم ہے ۔ فرض کریں کہ آپ نے بیس لاکھ روپیہ مجھے دیا ہے ۔وہ میں نے کاروبار میں لگا لیا۔مجھے کاروبار میں نفع ہویا نقصان، وہ ڈوب جائے یا کچھ بھی ہو۔مجھے اب اسے دوبارہ کما کر واپس کرناہے اور اس پر مزید بھی دینا ہے اس کے برعکس میں نے مکان لیا ہے آ پ سے ۔ مکان میں میں رہ رہا ہوں ۔مالک مکان نے نوٹس دیا میں نے کہا جی دوسرا تلاش کر لیتا ہوں۔خالی کر کے دے دیا ۔ یہاں دہر ی مشقت نہیں ہے۔ اسی طرح آپ ہوٹل میں ٹھہر تے ہیں توکمرے کاکرایہ ہی دیتے ہیں ۔کرایہ استعمال کا ہے اس کمرے کاجس میں آپ ٹھہرتے ہیں ۔کمرہ خالی کرتے وقت آپ کو کیا کرنا ہوتا ہے ؟ کمرہ دوبارہ بنا کے دینا ہوتا ہے ؟ نہیں!لیکن پیسہ اگر آپ نے دس لاکھ روپیہ لے لیا ہے تو وہ تو بہرحال آپ نے خرچ کرنا ہے ۔اسے دوبار ہ کما کر دینا ہوگا۔

(آصف افتخار)

جواب۔ ریفل ٹکٹ جوئے کے مترادف ہیں۔ ان کے حق میں عام طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان سے حاصل شدہ رقم انسانی بہبود پر خرچ کی جاتی ہے ۔ یاد رہے جب قرآن نے جوئے کو ممنوع قرار دیا تھا تو اس وقت جوابھی انسانی بہبود کا ایک ذریعہ تھا۔مخیر حضرات ایک جگہ جمع ہوتے شراب نوشی کرتے اور جوا کھیلتے اور جیتنے والا سب کچھ غربا میں تقسیم کر دیتا۔لیکن قرآن نے اس کی ممانعت کرتے ہوئے اس کے اخلاقی فساد کو پیش نظر رکھا اور اس وقتی منفعت کو بالکل نظر انداز کر دیا کیونکہ اخلاقی بگاڑ معاشروں کیلئے بہر حال زیاد ہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ قرآن کہتا ہے

‘‘وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ان دونوں چیزوں کے اندر بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے ۔’’(۲۔۲۱۹)

ان نام نہاد انسانی بہبود کی سکیموں کا ایک بڑا اخلاقی مفسدہ یہ ہے کہ یہ معاشرے میں خود غرضی ’ موقع پرستی اور طمع پیدا کرتی ہیں۔اسلام میں انفاق کی بہت فضیلت اور اہمیت ہے لیکن وہ انفاق جو صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی طلب میں ہو نہ کہ وہ جو فریج’ ٹی وی یا وی سی آر کے حصول کے لیے ہو۔یا کسی گلوکار کی رس بھری آواز سے حظ اٹھانے کے لیے ہو۔اس طرح کی تمام سکیمیں انسانی مزاج کا رخ آخرت اور رضائے الہی سے پھیر کر ذاتی اغراض کے پورا کرنے کی طرف کر دیتی ہیں۔اور یہ عمل بالآخر معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔اس طرح کی انسانی سکیمیں بنانے اور ان کا انتظام کرنے پر لاکھوں خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ ان سے ہزاروں اکٹھا کیے جاتے ہیں جبکہ یہ انتظامی لاکھوں بھی براہ راست غربا کی بہبود پر خرچ کیے جائیں تو کہیں زیادہ فائد ہ ہو سکتا ہے۔یہ خود غرضی کی عجیب مثال ہے کہ ایک شخص جو کہ ایک میوزک شو کیلئے یا ایک میچ کیلئے ہزاروں کے ٹکٹ خرید سکتا ہے اور اس موقع پر پہننے کے لیے ہزاروں کے کپڑ ے بنوا سکتا ہے وہ اپنے کسی ہمسائے کے دکھ درد کو دور کرنے کیلئے سیکڑوں نہیں خرچ کر سکتا کیونکہ میوزک شو یا میچ میں اس کی تصویر بھی اترنا تھی اور نام بھی اخبارات میں آنا تھاجبکہ دوسر ی صورت میں کچھ بھی نہیں ہونا تھا۔اسلام یہ قدر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ لوگ اخلاص کے ساتھ اللہ کے راستے میں خرچ کریں جس میں ان کامقصود شہرت ’ دکھاوا’ نمائش یا کوئی اور ذاتی غرض نہ ہو۔ ایسے ہی لوگ ابد ی جنت کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ اس طرح کی سکیموں میں خرچ کرنے والے اپنا احسان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے غریبوں کی مدد کی جبکہ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے احسان مند ہوتے ہیں غربا کے کہ ان کی صورت میں اللہ نے انہیں انفاق کا ایک موقع فراہم کیا۔ دونوں ذہنیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اسلام یہی دوسری قسم کی ذہنیت پیدا کرنا چاہتا ہے اس لیے اس طرح کی سکیموں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔بائبل نے اس کو اس طر ح بیا ن کیا۔

‘‘خبردار اپنے راستی کے کام آدمیوں کے سامنے دکھانے کے لیے نہ کرو۔ نہیں تو تمہارے باپ کے پاس جو آسمان پر ہے تمہارے لیے کچھ اجر نہیں ہے۔پس جب تو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا۔جیسا ریا کار عبادت خانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تا کہ لوگ ان کی بڑائی کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں وہ اپنا اجر پا چکے ۔بلکہ جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے ۔تا کہ تیری خیرات پوشید ہ رہے۔اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بد لہ دے گا۔’’(متی۔۶۔۱’۴)

قرآن مجید کہتا ہے۔‘‘اے ایمان والو! احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اکارت مت کرو۔ اس شخص کی مانند جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روز آخرت پر وہ ایمان نہیں رکھتا’’ (۲۔۲۶۴)

‘اور اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر ان کو چھپاؤ اور چپکے سے غریبوں کودے دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔اور اللہ تمہارے گناہوں کو جھاڑ دے گا۔اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کی خبر رکھنے والا ہے۔’’(۲۔۲۷۱)

جب ایک میوزک شو’ یا تمنائے دید’ یا میچ کا لطف’ یا ایک فریج اور ٹی وی وغیر ہ انفاق کا باعث اور محرک ہو تو ان تمام اخلاقی اقدار کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے جنہیں اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔اور اخلاقی اقدار کی موت کا مطلب اصل میں معاشرے کی موت ہوتا ہے۔انفاق کی اصل روح کا برقراررہنا اسلامی معاشرے کا جزو لا ینفک ہے۔جسے کسی صورت قربان نہیں کیا جا سکتا۔

‘‘جو لوگ اپنے مال رات اور دن’پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں انکے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔اور نہ ان کے لیے خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔’’

(آصف افتخار)

جواب۔ سٹاک ایکسچینج اصل میں ایک منڈ ی ہے جہاں شیئرز کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔کسی کمپنی کے شیئرز خرید کر آپ اصل میں اس کے کاروبار میں حصہ دار بنتے ہیں۔اور اگر اس کمپنی کے کاروبار کی نوعیت شریعت سے متصادم نہیں ہے تو اس کا حصے دار بننے اور منافع حاصل کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اسی طر ح کسی وقت آپ اگر اپنے اس حصے کو بیچ دیتے ہیں اور اپنا اصل زر واپس لے لیتے ہیں تو یہ بھی درست ہے۔تا ہم جب معاملات شیئرز کی اس حقیقی خرید وفروخت سے آگے بڑھتے ہیں تو مسائل کا آغاز ہوتا ہے اور شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔

اصل تو یہ ہے کہ شیئرز کی قیمت کمپنی کی حقیقی معاشی کارکردگی سے وابستہ ہو۔لیکن مارکیٹ میں موجود سٹے باز جنہیں انویسٹرز کہا جاتا ہے وہ طلب و رسد میں مصنوعی بگاڑ پیدا کرکے قیمتوں کو اپنے مفاداتی طریقوں سے کنٹرول کرتے ہیں۔اور نتیجتاساری مارکیٹ ہی سٹے پر چل پڑتی ہے۔کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک کمپنی کے شیئرز کی قیمت بڑھ رہی ہوتی ہے کہ یکدم گرنا شروع ہو جاتی ہے جبکہ دوسر ی طرف ایک کمپنی کے شیئرز کی قیمت گھٹ رہی ہوتی ہے کہ یکدم بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔اس طرح یہ سٹے باز لاکھوں کا کھیل،کھیل رہے ہوتے ہیں جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور عام طور پر معاشرے کے کمزور طبقے کو ان منفی اثرات کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔۱۹۔اکتوبر ۱۹۸۷ جسے کہ بلیک منڈے کہا جاتا ہے اسی طرح کی سٹے بازی کا برا ترین دن تھا۔انویسٹرز کی بے چینی کی وجہ سے وال سٹریٹ کی مارکیٹ بری طرح کریش ہوئی۔اور ایک ہی دن میں اربوں روپیہ ڈوب گیا۔بعض اوقات وقت سے قبل ہی شیئر ز کی خریدوفروخت شروع ہو جاتی ہے یعنی کمپنی نے اصل میں ابھی شیئر ز مارکیٹ میں نہیں بیچے ہوتے۔اور عام طور پر ادھار کے سرمائے پر یہ سارا کاروبار چلتا ہے اور اندازوں میں معمولی سی غلطی دور رس اثرات مرتب کرتی ہے اور اثرات در اثرات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اور نتیجے میں ملک کی پوری معیشت متاثر ہوتی ہے۔دوسری طرف محنت کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اخلاقی و معاشی بگاڑ معاشرے میں سرایت کر جاتا ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں معاشی سرگرمی محنت اور سرمائے کے اشتراک سے اخلاقی اصولوں کی حدود میں رہتے ہوئے پروان چڑھے۔جبکہ سٹے بازی اعلی اخلاقی اقدار اور حقیقی معاشی محنت سے اجتناب کا نام ہے۔ان تمام کے پیش نظر تقوی یہی ہے کہ سٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے اجتناب کیا جائے۔کیونکہ اس سے اسلامی معاشرے کی حقیقی قدر ، انفاق بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

اسلامی ریاست ایسی قانون سازی کر سکتی ہے کہ جس کی روسے باہمی معاہدوں میں دھوکا دہی کا عنصر ختم کیا جا سکے اور فریقین کو نقصان سے بچایا جا سکے ۔جب تک ایسا قانون وجو د پذیر نہیں ہوتا یہ فرد پر ہی ہے کہ وہ ایسے معاشی معاملات سے اجتناب کرے جن سے یہ خدشہ ہو کہ وہ اس کے تزکیے اور طہارت پر اثرانداز ہوں گے۔

(آصف افتخار)