کالے جادو کے لیے 5 سالہ بچے کو قتل کرکے آنکھیں نکال لیں

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : ادب

شمارہ : فروری 2005

انوسٹی گیشن پولیس نے جعلی پیر، اس کے بھائی اور تیسرے ملزم کو گرفتار کر کے آلہ قتل بر آمد کر لیا۔

لاہور (اپنے رپورٹر سے) بادامی باغ انوسٹی گیشن پولیس نے 25یوم قبل لڑکی اور اس کی ماں کو قدموں میں گرانے کے لیے کالے جادو کی خاطر 5سالہ بچے ابو بکر کو قتل کرنے والے ملزموں اسلم اس کے ساتھی قاسم اور کا لے جادو کے لیے بچے کو قتل کرنے کی ترغیب دینے والے جعلی پیر نذر عباس کو گرفتار کر لیا ہے۔ ملزموں کو آج مقامی عدالت میں پیش کر کے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جائے گا۔گرفتار ہونے والے ملزم اسلم اور جعلی پیر نذر عباس سگے بھائی ہیں۔ جبکہ تیسرا ملزم قاسم ان کا رشتہ دار ہے۔ اسلم اور قاسم دونوں ہی مقتول ابوبکر کے گھر میں رہتے تھے۔ اسلم ، ابو بکر کی بڑی بہن سے شادی کرنے کا خواہش مند تھا۔ تاہم اس کی ماں صغریٰ بی بی اس رشتہ کے حق میں نہ تھی۔ جس کے بعد اسلم نے اپنے سگے بھائی نذر عباس سے اس بارے میں بات کی جو کہ سمن آباد میں پیری فقیری کرتا تھا۔ نذر عباس نے اسلم کی بات سننے کے بعد اس سے کہا کہ کالے جادو سے یہ کام ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضرور ی ہے کہ لڑکی کے سب سے چھوٹے بھائی کے ساتھ زیادتی کے بعد اسے قتل کیاجائے۔ اور اس کی آنکھیں الو کے خون اور سفید بلی کے دل میں جلا کر ، اس کا سفوف بناکر تعویذ بنایا جائے۔ جس کے بعد اسلم نے اپنے رشتہ دار قاسم سے مل کر پانچ سالہ ابو بکر کو اغو کر کے قتل کا منصوبہ بنایااور یکم دسمبر کو جب اس کی ماں صغریٰ گھرمیں موجود نہیں تھی ۔ دونوں ملزموں نے ابو بکر کو بند روڈ کے پار کھیتوں میں لے جاکر اس کے ساتھ زیادتی کی۔ اور بڑی سفاکی سے اس کو خنجر کے ساتھ ذبح کر دیا۔ اور اس کی آنکھیں نکال کر لاش گندے نالے میں پھینک دی۔ ملزموں نے معصوم ابو بکر کو قتل کرنے سے قبل چرس کا نشہ بھی کیا ۔تاکہ نشے کی وجہ سے ان پر بچے کی چیخ و پکار کا کوئی اثر نہ ہو۔ ملزموں نے بچے کی آنکھیں جعلی پیر کے حوالے کر دیں۔ اور اس کو بلی کے دل اور الو کے خون کے لیے دو ہزار روپے ادا کر دیے جس نے دوروز بعد کالے جادو کا عمل کر کے تعویذ دینے کا وعدہ کیا۔ اسلم اور قاسم پہلے مقتول کی ماں سے مل کر بچے کی تلاش کرنے کا ڈرامہ کرتے رہے۔ پھر دوروز بعد قاسم خوف زدہ ہوکر گاؤں چلا گیا۔ ایک ہفتہ بعد ابو بکر کی گندے نالے سے لاش ملی تو صغریٰ نے بیٹے کی موت کو اتفاقی قرار دیا۔ مگر جب پوسٹ مارٹم میں ابو بکر کی آنکھیں نکالے جانے اور اسے ذبح کرنے کا انکشاف ہوا تو صغریٰ بی بی نے تھانی بادامی باغ میں بیٹے کے قتل کا مقدمہ درج کرا دیا۔ اور اپنے بھتیجے قاسم پر شبہ کا اظہار کیا۔ جو ابو بکر کے اغوا کے بعد غائب ہوگیا تھا۔ انوسٹی گیشن پولیس نے قاسم کو پکڑنے کے بعد تفتیش کی تو اس نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ جس کے بعد پولیس نے دیگر ملزموں کو بھی گرفتار کر لیا۔ پولیس کے مطابق جعلی پیر نے بچے کو قتل کرنے کے لیے خنجر بھی دیا تھا۔ پولیس نے ملزموں سے آلہ قتل اور پستول بھی برآمد کیا ہے۔ ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے اندھے قتل کر ٹریس کرنے پر انچارج انوسٹی گیشن انسپکٹر میاں اشرف کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں بالخصوص لاہور اور اس کے نواحی علاقوں میں جعلی پیر اور عامل سادہ لوح افراد کو ان کی مرادیں اورتمام خواہشات پوری کرنے کا جھانسہ دے کر لوٹتے ہیں ، جبکہ جادو ٹونے کے لیے بچوں کے قتل کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں ۔ چند ماہ قبل مرید کے میں انہی جعلی پیروں اور عاملوں کی وجہ سے معصوم بچوں کے قتل کی سیریل وارداتیں ہوئی تھیں۔پنجاب حکومت نے کچھ عرصہ قبل جادو ٹونے کرنے والے عاملوں پر پابندی بھی لگائی تھی۔

(بشکریہ نوائے وقت ’۲۶ دسمبر ۲۰۰۴)