فرشتوں کے قیدی

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : ناول

شمارہ : جنوری 2005

قسط ۔۳

شر اور خیر کی ازلی دشمنی’ دور جدید کی مادیت پرستی سے اکتا کر ماضی کی ساد ہ زند گی کی طرف پلٹنے کی تمنا اور فطر ت میں ودیعت انسانی جذبوں کی شکست و ریخت کی تحیرخیز داستاں۔

‘‘مسٹر بلال! کیا آپ کے ملک میں آمریت ہے جو کراچی کے لوگ اس قدر بغاوت پر اترآئے ہیں ؟’’

 ‘‘نہیں مسٹر فلپ...اس وقت تو عوام کی منتخب کردہ حکومت ہے اور کراچی میں اسی حکومت کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں ’’۔ بلال نے بجھے سے انداز سے جواب دیا ۔‘‘لیکن وہ منتخب حکومت ہی کیا ہوئی جس کے خلاف شہری مسلح بغاوت پر اتر آئیں’’۔

 ‘‘دراصل ہمارے ملک میں کبھی حقیقی جمہوری حکومت نہیں رہی ۔ جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے ’ اقتدار پر اکثرو پیشتر ایک خاص طبقہ ہی قابض رہا ہے... مارشل لاء ہو یا نام نہاد جمہوری حکومت...اسی طبقے کے ہاتھوں میں اصل طاقت رہی ہے۔ اور یہ ہیں وہ جاگیردار جو برطانوی دور میں تاجِ برطانیہ کے وفادار تھے ۔ان کی وفاداریوں کے عوض انگریزوں نے انہیں بڑی بڑی جاگیریں عطاکی تھیں ۔پاکستان کی اکثر سیاسی پارٹیوں کے مرکزی رہنما بھی یہ ہی لوگ رہے ہیں ۔پھر ان جاگیرداروں کو یہ سہولت بھی میسر تھی کہ وہ اپنی اولاد کو پڑھا لکھا کر بیوروکریٹ بنائیں’فوج میں بھیجیں یا سرمایہ کاری کریں ۔ اس طرح فوج ہو یا سیاست ’ بیوروکریسی ہو یا صنعت و معیشت’ ہر جگہ اسی گروہ کے لوگ قابض ہیں’’۔

 ‘‘لیکن حکومت تو ہمیشہ معاشرے کے با اثر افراد ہی کرتے ہیں ۔اگر آپ کے ملک میں یہ لوگ جاگیر دار ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟’’فلپ کی الجھن ہنوز برقرار تھی۔‘‘مگر اصلاً یہ لوگ معاشرے کے اشراف نہیں ...رذیل ہیں۔ یہ اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی بد دیانتی اور ابن الوقتی کے باعث اقتدار میں آئے ہیں ۔انہیں اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے عوام الناس کو جاہل اور غیر تربیت یافتہ رکھنا پڑا اور مقابلے میں آنے والوں کو انہوں نے رشوت اور لالچ سے خرید لیا ۔ اس خدشے نے انہیں ہمیشہ سیاسی جوڑ توڑ اور ذاتی مال و دولت جمع کرنے میں مشغول رکھا کہ نہ جانے کس دن حکومت ان کے ہاتھوں سے چھن جائے ۔انہوں نے اپنی سیاست اور حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لیے ہمیشہ منفی ہتھکنڈے استعمال کیے۔اس طرح معاشرے میں کرپشن’ بدنظمی’ دھونس اور دھاندلی کو فروغ ملتا رہا ۔اس دوران مثبت قوتیں محرومی کے باعث رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوتی گئیں اور مختلف شکلوں میں حکمرانوں سے الجھ الجھ کر اپنی توانائی ضائع کرتی رہیں۔ ہمارے دشمنوں نے اس صورت حال سے خوب فائدہ اٹھایا اور محروم طبقوں سے ہمدردی کر کے انہیں دہشت گردی اور زبردستی حق چھین لینے کا درس دیا۔ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انہی مکروہ حالات کا پیدا کردہ ہے’’۔

 ‘‘یہ صورت حال تو بہت مایوس کن ہے۔جب کسی ملک کے شہریوں میں احساس محرومی بڑھتا ہے تو ان کے دلوں سے وطن کی محبت ختم ہو جاتی ہے اور حب الوطنی سے عاری قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں ’’۔فلپ نے بات کی تہہ تک پہنچتے ہوئے کہا۔‘‘خدا نہ کرے کہ نوبت یہاں تک پہنچے۔میں اگرچہ پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آ چکا ہوں ’پھر بھی میری یہی خواہش ہے کاش’ میرے ملک کو ایماندار اور اہل قیادت میسر آ جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو میں سمجھوں گا میرے خاندان کا خون ضائع نہیں گیا ’ کام آگیا...’’

 کچھ دیر خاموشی کے بعد بلال نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا ‘‘مجھ پر تو بہت گفتگوہو چکی مسٹر فلپ’اب ذرا آپ میری حس تجسس کو آسودہ کریں کہ بل اور اس کے ساتھیوں کے متعلق آپ نے پہلے سے کیسے جان لیا کہ وہ جرائم پیشہ افرادہیں اور بار اٹنڈر کا قتل انہی کے ساتھیوں نے کیا تھا؟’’

 ‘‘اس کامختصر جواب یہ ہے کہ میرا کام ہی مجرموں کا سراغ لگانا ہے ۔آپ نے یہ تو جان ہی لیاکہ ان خبیثوں نے عملے کے تمام افراد کو زہر دے کر ہلاک کیا ہے۔ اسی لیے مجھے یقین ہے کہ جب ہم علیک سلیک کر رہے تھے تو قریب سے گزرتے بال اٹنڈر کو وہاں موجود دونوں میں سے کسی نے زہریلی پن چبھودی ہو گی۔ میں اپنی سروس کے دوران پہلے بھی ایسی وارداتوں کا سراغ لگا چکاہوں’’۔

 ‘‘تو گویا میرا اندازہ درست ہوا کہ آپ کا تعلق سراغ رسانی کے محکمے سے ہے!’’جیسے ہی بلال کی بات مکمل ہوئی ’ ان کے کیبن کا دروازہ زور سے کھٹکھٹایا جانے لگا۔ آنے والا ولف تھا ۔وہ بلال کو گھورتے ہوئے بولا‘‘ڈاکٹر !تم نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔اب تمہیں اپنے کیبن میں جانا چاہئے’’۔

 ‘‘مسٹر !میرا اکیلے میں دم گھٹتا ہے’’ ۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تھوڑا سا باہر گھوم لوں؟’’فلپ نے بڑی لجاجت سے کہا ۔وہ اپنے آپ کو کمزور دل ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا ۔ ‘‘نہیں’ ہر گز نہیں...تمہاری دیکھا دیکھی اور لوگ بھی باہر آجائیں گے ’البتہ اتنی اجازت تمہیں دیتا ہوں کہ تم ڈاکٹر کے کیبن میں چلے جاؤ’’۔

 ‘‘بہت شکریہ آپ کا’’۔ فلپ فوراً بیڈ سے نیچے اتر آیا مزید کوئی گفتگو کیے بغیر وہ دونوں کیبن سے نکل گئے ’ولف نے ان کے جانے کا اطمینان کرنے کے بعد بلال کے کمرے کی طرح یہاں بھی مناسب جگہ پر حساس ٹیپ ریکارڈر چھپا دیا ۔ اپنے کیبن کی طرف جاتے ہوئے بلال نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا ‘‘لگتا ہے یہ لوگ واقعی آپ کی اداکاری سے قائل ہوکر آپ کو ماہر تعمیرات ہی سمجھ رہے ہیں ’’۔

 ‘‘نہیں ڈاکٹر... مجھے تو کچھ اور ہی چکر لگتا ہے ۔ مجھے آپ کے ساتھ جانے کی اجازت دینے کی سمجھ بالکل نہیں آئی ۔ان لوگوں کا مفاد اسی میں ہے کہ فیری کے مسافر ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ رہیں تا کہ مشترکہ منصوبہ بندی نہ ہو سکے ۔اس لیے ہم دنوں کے اکٹھے رہنے میں یقینا ان کا کوئی مقصد پوشیدہ ہے...’’فلپ گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔‘‘ایک بات یہ بھی سوچنے کی ہے کہ انہیں ایک ماہرتعمیرات سے کیا کام ہوسکتا ہے؟پھر انہوں نے فیری کا اغوا تاوان کے لیے کیا ہے تو عملے کے افراد کو قتل کیوں کیا؟؟’’بلال نے اپنی الجھن بیان کی ۔اچانک فلپ کسی نتیجے پر پہنچتے ہوئے بولا‘‘مسٹر بلال میں سمجھ گیا ہوں کہ انہوں نے مجھے آپ کے ساتھ جانے کی اجازت کیوں دی ہے !بس آپ کیبن میں پہنچتے ہی غور سے دیکھئے گا کہ وہاں کی چیزوں ادھر ادھر تو نہیں کیا گیا !’’

 ‘‘لیکن آخر آپ کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟’’بلال نے تجسس کے مارے پوچھا ۔ ‘‘اسوقت بتانا مناسب نہیں ...کیبن میں پہنچ کر سب کچھ معلوم ہو جائے گا ’’۔ باقی راستہ انہوں نے خاموشی سے طے کیا ۔کیبن میں داخل ہوتے ہی بلال نے غور سے اس کا جائزہ لیا ۔اسے بظاہر کوئی تبدیلی نظر نہ آئی ۔ فلپ نے بیڈ کے ساتھ رکھی ہوئی میز پر سے گلدان اٹھایا اور اس کے اندر پوشیدہ چیز کو ڈھونڈنے لگا ۔اب بلال کو بھی معلوم ہو گیا کہ فلپ کس چیز کی تلاش میں ہے۔ کیبن میں داخل ہوئے انہیں قریباً ایک منٹ ہو چکا تھا ۔فلپ نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں۔اس کے ساتھ ساتھ معاینہ بھی جاری رہا ۔وہ ایک مرتبہ پھر اپنے ماہر تعمیرات ہونے اور بیوی بچوں سے جدائی کا ڈرامہ رچانے لگا۔

 چند گھنٹے آرام کر کے ولف جونہی کیپٹن کے کمرے میں داخل ہوا’ بل نے حسب عادت اس سے پوری کارروائی سنی۔ جیسے ہی ولف نے اسے بتایا کہ اس نے فلپ کو بلال کے کمرے میں جانے کی اجازت دے دی تھی’ اس کی پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی ۔وہ غراتے ہوئے بولا‘‘گدھے کی اولاد’اگر وہ شخص سراغ رسانی کے کسی محکمے سے تعلق رکھتا ہوا تو فوراً سمجھ جائے گا کہ تم اسے ڈاکٹر کے ساتھ کیوں بھیج رہے ہو...چلو میرے ساتھ..میرے خیال میں اس کی اصلیت جاننے کا یہ بہترین موقع ہے’’۔وہ دونوں بلال کے کیبن کی طرف چل دیے۔ولف اور بل تیز تیز قدم اٹھاتے آگے بڑھ رہے تھے کہ فلم یونٹ کے عملے کی دو لڑکیاں اپنے کیبن سے باہر نکلیں اور ان کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئیں۔انھوں نے شب بسری کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا ۔ ان کی یہ ہئیت کذائی دیکھ کر ولف کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ دوڑ گئی اور وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگا جبکہ بل کو پورے بدن پر چیونٹیاں رینگتی محسوس ہونے لگیں۔ان میں سے ایک نے قدم آگے بڑھایا اور شکایت آمیز لہجے میں بولی‘‘کیپٹن! آخر ہمیں کس جرم کی سزا میں قید کیا گیا ہے؟’’

 ‘‘نہیں مس...آپ سے بھلا کیا جرم سرزد ہو سکتا ہے...آج کی رات ہی یہ پابندی ہے ۔ اس کے بعد سب کو آزادی ہوگی ’’۔بل نے اپنی اندرونی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ اس نے دیکھا کہ دوسرے کیبنوں سے بھی کئی لوگ جھانک کر یہ منظر دیکھ رہے ہیں ۔‘‘دراصل ہم عرشے پر جا کر چاند کی روشنی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہیں’’۔ دوسری لڑکی نے ولف کے قریب آکر اس کی بندوق کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ۔ ولف کی مسکراہٹ میں اضافہ ہوتے دیکھ کر بل اچانک آگے بڑھا ۔لڑکی کی کلائی پکڑ کر اسے حقارت سے جھٹک دیا اوردرشت لہجے میں بولا ‘‘آج کی رات کسی کوکہیں جانے کی اجازت نہیں...اور لڑکی’ غور سے سنو!آیندہ ان کھلونوں کو ہاتھ لگانے کی کوشش نہ کرنا ۔ ان کے لمس میں پیار نہیں شعلوں کی جھلسا دینے والی لپک ہے’’۔اس نے دونوں کو بے رحمی سے کیبن کے اندر دھکیل دیا ۔اس کی آنکھوں میں غصے کی سرخی اور لہجے میں بھیڑیے کی غراہٹ دیکھ کر اور کسی کو مزید کچھ کہنے سننے کی جرات نہ ہوئی ۔ وہ دونوں دوبارہ بلال کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔

 دوسری منزل میں داخل ہوکر دائیں ہاتھ پانچواں کیبن بلال کا تھا ۔بل اور ولف جب راہداری میں داخل ہوئے تو انہیں اپنا ایک ساتھی راہداری کے دوسرے کونے پر سلگار سلگائے دھویں کے مرغولے چھوڑتا نظر آیا۔جب وہ دوسرے کیبن کے سامنے سے گزرنے لگے تو ایک مسافر جارحانہ انداز میں باہر آگیا ۔بل کو سامنے سے گزرتے دیکھ کر وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکا تھا ۔ چہرے مہرے سے اطالوی لگتا تھا ۔ وہ غضبناک ہو کر بولا ‘‘تمہیں علم ہے اس جرم کا انجام کیا ہوگا...؟’’کچھ لمحے توقف کے بعد وہ دوبارہ چیخا ‘‘جیسے ہی حکام کو علم ہوا وہ فیری کو گھیرے میں لے کر ہم سب کو مار ڈالیں گے!’’ولف نے اپنی بندوق مسافر کی طرف سیدھی کی مگر بل نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا’پھر ٹھہرے ہوئے سرد لہجے میں بولا ‘‘مسٹر! اس فیری کا دنیا سے رابطہ کٹ چکا ہے۔ عملہ ختم ہو چکا ہے ۔ اب کسی سے لڑائی جھگڑے کا امکان نہیں ۔ آج کی رات کے بعد کسی بھی مسافر پر کوئی پابندی نہیں ہوگی...’’بل ابھی مزید تقریر کرنا چاہتا تھا کہ مسافر دوبارہ چلایا‘‘تم آخر چاہتے کیا ہو؟ کہاں لے جانا چاہتے ہو ہمیں؟ہم تمہارے غلام...’’اس کا باقی جملہ حلق میں اٹک گیا ۔راہداری میں پہرادینے والا دبے قدموں سے آگے بڑھا تھا ۔اس نے بے خبری میں اسے گردن سے دبوچ لیا تھا ۔ اس کے آہنی ہاتھ کی فولادی انگلیوں کا دباؤ جیسے ہی مسافر کے ٹینٹوے پر پڑا’ اس کی زبان باہر لٹک گئی ۔ بل فوراً حرکت میں آیا’ اس نے پہرے دار کا ہاتھ جھٹک دیا اور اس کے منہ میں دبا سگار باہر کھینچا اور سفاک نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولا ‘‘جب تک کسی مسافر سے جان کا خطرہ نہ ہو ...اسے ہاتھ نہیں لگانا...سمجھے!’’یہ کہتے ہوئے اس نے سگار کا سلگتا سرا اس کے منہ میں ٹھونس دیا۔پہرے دار نے بال برابر حرکت نہ کی اور فرمانبرداری سے جلن برداشت کرتا رہا۔گردن سہلاتا مسافر یہ منظر دیکھ کر مزید دہشت زدہ ہوگیا تھا۔ بل ان کی طرف مڑا اور دوستانہ لہجے میں بولا ‘‘مسٹر جاؤآرام کرو...رات خاصی بھیگ چکی ہے...میں اس فیری کا کپتا ن ہوں ...تمہاری حفاظت میرا فرض ہے... جاؤ’’۔جیسے ہی مسافرنے اپنے کیبن میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا ’بل پہرے دار کی طرف مڑا ۔ اس کے منہ میں ابھی تک الٹا سگار ٹھنسا ہواتھا۔ بل نے اسے باہر نکالا۔وہ بجھ چکا تھا۔ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا تو پہرے دارنے منہ میں آئی راکھ تھوک دی۔ بل نے بڑی اپنائیت کے ساتھ اس کے ہونٹوں پر سگار دوبارہ لگا یا تو اس نے اسے منہ میں لے لیا۔بل نے جیب سے لائٹر نکالا اور سگار سلگا دیا۔ پہرے دارنے لمبا کش لیا جس میں اطمینان کا سانس بھی شامل تھا ’عجیب سا منہ بنایااور تھوتھنی اوپر کر کے مرغولہ ہوا میں چھوڑ دیا۔دھویں نے لمحے بھر کے لیے بھوت کی سی شکل اختیار کی اور پھر آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگا ۔بل نے پیار سے اسے تھپکی دی’ پھر ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔ اس تمام ہنگامے میں گو اتنا زیادہ شور نہیں ہواتھا’ پھر بھی محتاط کانوں اور متفکر آنکھوں نے اس کا نوٹس ضرور لیا تھا ۔ جب اطالوی مسافر چیخا تھا ’فلپ نے اسی وقت کیبن کا دروازہ تھوڑا سا کھول کر صورت حال کا اندازہ لگالیا تھا ۔ اس کے تجربہ کار ذہن نے اسی وقت جان لیا تھا کہ بل کا رخ کدھر ہے’ چنانچہ بل دروازہ کھٹکھٹائے بغیر جب خاموشی سے کیبن میں کسی جن کی طرح ظاہر ہوا تو منصوبے کے مطابق وہ بری طرح بوکھلایا‘‘کیپٹن آپ ... آیئے تشریف رکھیے’’۔ بلال خاموشی سے فلپ کی اداکاری سے محظوظ ہورہا تھا ۔ ‘‘مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ مسٹر فلپ!’’

 ‘‘مم ...مجھ سے ... لیکن آپ یقین کریں .. . آپ کے ساتھی کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ میں آپ پر حملہ آور ہونے لگا تھا... میں تو ساری عمر...’’

 ‘‘خاموش رہو! چپکے سے اپنے کیبن میں چلو۔ میں وہیں تم سے بات کروں گا ’’۔ بل نے سرد لہجے میں حکم دیا۔ فلپ فوراً فرمانبرداری سے اٹھ کھڑا ہوا تو بل بلال سے مخاطب ہوا ‘‘ڈاکٹر تم بھی ہمارے ساتھ چلو...دراصل میں اپنے منصوبے کے بارے میں تم سے کچھ مشورہ کرنا چاہتا ہوں’’۔بلال نے فلپ کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چراکر بھولپن سے بولا ‘‘کیا آپ کو کسی عمارت کے نقشے کے بارے میں گفتگو کرنی ہے؟’’

 ‘‘ہاں ہاں یہی سمجھ لو...’’ بل نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ۔وہ سب کیبن سے باہر نکل آئے ۔ فلپ کا کیبن پہلی منزل پر تھا ۔ یہاں آکر ولف پہرے دار سے باتیں کرنے لگا ۔ بل رکنے کے بجائے فلپ اور بلال کو ساتھ لیے آگے بڑھتا گیا ۔ جب وہ تینوں فلپ کے کیبن میں داخل ہونے لگے تو بلال نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ ولف ابھی تک اپنے ساتھی کے پاس کھڑا تھا ۔پھر جیسے ہی کیبن کا دروازہ بند ہوا پہرے دار فلپ کے کیبن کی طرف لپکا اور ولف بلال کے کیبن کی طرف۔کیبن میں پہنچ کر فلپ نے الماری سے شراب کی بوتل نکالی اور دو جام تیار کیے ۔ بل دوستانہ لہجے میں بولا ‘‘ڈاکٹر! کیا تمہیں یہ مشروب پسند نہیں؟’’

 ‘‘نہیں ...شکریہ ’میں شراب نہیں پیتا’’۔

 ‘‘ڈاکٹر بلال مسلم ہیں ۔ان کا مذہب انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا ’’۔فلپ نے وضاحت کی ۔‘‘اچھا ...بہت دلچسپ ’’۔ اس نے اپنا جام ایک ہی گھونٹ میں خالی کرتے ہوئے کہا۔ چند قدم ٹہلنے کے بعد وہ ٹائلٹ کی طرف جاتے ہوئے بولا ‘‘میں ذرا فراغت کے بعد بات کرتا ہوں ’’۔ جونہی وہ ٹائلٹ میں گھسا’ فلپ نے بلال کو اشارہ کیا اور اس نے خاموشی سے کیبن کی چٹخنی چڑھا دی۔ فلپ ہاتھ میں بوتل لے کر ٹائلٹ کے باہر کھڑا ہو گیا ۔ بل نے باہر نکلنے میں دو منٹ لگائے۔ جیسے ہی اس نے سر باہر نکالا فلپ نے پوری قوت سے بوتل گھمائی مگر جس انداز سے بل نے یہ وار بچایا’ اس سے صاف ظاہر ہوا کہ وہ اس حملے کی سو فی صد توقع رکھتا تھا۔ وار خالی ہونے پر فلپ نے بوکھلاہٹ کا اظہار کرنے کے بجائے سنبھل کر بل کی پشت پر زور دار ٹھڈا مارا جس سے وہ گرتے گرتے بچا۔

 بلال دروازے سے لگ کر کھڑا تھا ۔ اس نے دیکھا کہ بل نے سنبھل کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا ہے۔ اس موقع پر وہ خاموش تماشائی نہ بن سکا’ فوراً حرکت میں آیااور پوری قوت سے بل سے ٹکرایا۔ یہ ٹکر بل کے لیے خاصی غیر متوقع تھی۔وہ گر پڑا۔ گرے گرے اس نے دو قلا بازیاں کھائیں۔ تیسری قلابازی کھانے کے بجائے وہ اکڑوں بیٹھا اور پلک جھپکتے میں ریوالور نکال کر فلپ کی طرف فائر جھونک دیا۔ فلپ ہوشیار تھا۔ فوراً بیڈ کی اوٹ میں ہوگیا ۔ اس دوران بل کا دوسرا فائر بھی خطا گیا تھا۔ ریوالور پر سائلنسر لگا ہوا تھا اس لیے فائر کا شور نہیں ہوا۔ بلال نے بل کو تیسرا فائر کرنے کی مہلت نہ دی اور چھلانگ دی۔ مکھی کی آنکھ کی طرح لگتا تھا کہ بل چاروں طرف دیکھ رہا ہے ۔اس نے اپنی جگہ سے ہٹ کر بلال کا وار اپنے تئیں ناکارہ کر دیا تھا مگر اس کا اندازہ تھوڑا سا غلط ہوگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کے سر زور سے آپس میں ٹکرائے اور مخالف سمت لڑھک گئے ۔ فلپ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی جگہ سے اچھلا اور اب بل کا ریوالور اس کے قبضے میں تھا۔ بلال بے ہوش ہو چکا تھا۔بل چند لمحوں کے بعدسنبھلا’تاہم فلپ نے اسے اٹھنے کا موقع نہ دیا۔ریوالور کے بٹ کا زور دار وار اس کی کھوپڑی پراس مہارت سے کیا کہ بل کی دنیا اندھیر ہو گئی ۔ اسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے جلدی سے بل کو گھسیٹ کر ایک طرف کیا ۔بلال کو وہیں پڑا رہنے دیا۔ پھر وہ دروازے کی طرف بڑھا۔ احتیاط سے چٹخنی گرائی اور دروازے کے پیچھے ہوگیا۔ آنے والا پہرے دار تھا ۔وہ حیرانی سے گرے ہوئے بلال کی طرف بڑھنے لگا تو فلپ نے اس کے سر پر بھی ایک کاری ضرب لگائی ۔وہ بھی کوئی آواز نکالے بغیر ڈھیر ہو گیا۔ فلپ نے باری باری دونوں کو بیڈ کے نیچے دھکیل دیا’ پھر بلال کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ وہ جلدہی ہوش میں آگیا۔ پانی کا گلاس پینے کے تین منٹ بعد بلال مکمل حواس میں آچکا تھا۔

 ‘‘بل کہاں ہے؟’’ اس نے پہلا سوال کیا ۔ ‘‘بل اور اس کا ایک پہریدار ساتھی بیڈ کے نیچے بے ہوش پڑے ہیں ۔ آپ جلدی سے اپنے آپ کو سنبھالیں ۔ ہمیں بل کے ذریعے ریڈیو روم تک پہنچنا ہے۔ وہاں حکام سے رابطہ کریں گے۔ ولف کسی بھی لمحے آسکتا ہے۔آپ دروازہ بند کردیں ’میں بل کو باہر کھینچتا ہوں’’۔بلال لڑکھڑاتا ہوااٹھا اور دروازے کی چٹخنی چڑھا دی ۔ اپنے سر کے زخم کو سہلاتے ہوئے بولا ‘‘آپ بل کو باہر کیوں نکال رہے ہیں؟’’ ‘‘اسے باندھ کر ہوش میں لائیں گے پھر اس کے ذریعے ولف کو قابو کرنے کے بعد اسے ریوالور کی زد پر ریڈیو روم لے جائیں گے۔ جہاں سے بیرونی دنیا سے رابطہ کیا جاسکتا ہے’’۔بلال نے مزید کوئی سوال نہ کیا ۔ وہ بل کو پلنگ کے نیچے سے باہر نکالنے میں فلپ کا ہاتھ بٹانے لگا۔ بل کو کرسی پر بٹھانے کے بعد اسے باندھنے کا مرحلہ آیا تو رسی کا سوال پیدا ہوا ۔ مجبوراً انہیں اپنی پتلونوں کی دو پیٹیوں کا سہارا لینا پڑا ۔ایک سے اس کے ہاتھ اور دوسری سے پاؤں باندھ دیے گئے۔ پانچ منٹوں کے بعد اسے ہوش آگیا وہ ابھی پوری طرح اپنے حواس میں نہیں تھا کہ فلپ پھنکارتے ہوئے بولا‘‘ابھی تمہارا نائب آئے گا...اسے واپس کردینا ورنہ ہمیں تمہاری زندگی کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی’سمجھے!’’بل نے شعلہ بار آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا ...دروازہ کھٹکھٹایا گیا ۔فلپ نے اسے بولنے کا اشارہ کیا ۔ ‘‘کون ہے؟’’ بل کی آواز میں پہلے والا تحکم نہیں بلکہ قدرے لرزش تھی ۔‘‘میں ولف ہوں ۔ دروازہ کیوں بند کیا ہے؟’’اس کے سوال میں تفتیش صاف جھلک رہی تھی ۔ ‘‘خیریت ہے ..تم واپس میرے کمرے میں چلے جاؤ’’۔

 ‘‘نہیں ’جب تک میں تمہیں دیکھ نہیں لیتا یہاں سے نہیں جاؤں گا.. باہر ‘‘رینو’’ بھی اپنی ڈیوٹی پر نہیں ’’۔ ولف ڈٹ گیا تھا۔ فلپ نے ریوالور کا ٹہوکا دیتے ہوئے سرگوشی کی تو بل دوبارہ بولا‘‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ تم جاؤ’’۔عین اسی لمحے فیری نے بری طرح ہچکولہ کھایااور کوئی بھی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔

 فیری اسوقت برمودا نامی جزیرے سے قریباً سو کلومیٹر دور گزر رہی تھی۔ وھیل ہاؤس میں اونگھتے ملاح کو محسوس ہوا کہ ڈیش بورڈ پر سمت بتانے والے آلے جائیرو کمپاس کی سوئی بڑی تیزی سے ہل رہی ہے۔ اسی لمحے اسے فیری کی رفتار بھی کم ہوتی محسوس ہوئی ۔سپیڈومیٹر کی سوئی اس کے خیال کی تصدیق کر رہی تھی ۔لگتا تھا کوئی قوت اسے مخالف سمت میں کھینچ رہی ہے ۔ ملاح جان چکا تھا کہ اس کے اندیشے خوفناک حقیقت کا روپ دھارنے والے ہیں ۔برمودا مثلث کی تباہ کاریوں کی فہرست میں اولینا فیری کا اضافہ ہونے والا ہے۔اس کی نظر ایک مرتبہ پھرسمت بتانے والے آلے پر پڑی تو سوئی لٹو کی طرح گھوم رہی تھی ۔اس نے غصے سے کلارک کی طرف دیکھا ۔ اس کے کچھ کہنے سے قبل فیری دائیں جانب جھک گئی ۔ لگتا تھا کوئی خوفناک عفریت اسے الٹانے پر تلا ہوا ہے۔ اسی لمحے فیری کی بیرونی روشنیاں تاریک ہوگئیں۔ ملاح نے متعلقہ سوئچ دیکھے وہ آن تھے ۔اب فیری نے بائیں جانب جھکنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ہر طرف اندھیرا چھا گیا ۔پوری فیری میں روشنی کا نظام معطل ہو چکا تھا ۔ ملاح نے خوف کے مارے چیخنا شروع کر دیا ۔ فیری بار بار ہچکولے کھا رہی تھی۔ باہر سمندر میں طوفان کا شور تھا نہ کوئی دوسری غیر معمولی تبدیلی۔ اچانک فیری کا انجن بند ہوگیا اور ایک پراسرار گونج سنائی دینے لگی۔ آہستہ آہستہ یہ گونج مسافروں کی چیخوں پر حاوی ہوگئی ۔فیری تیزی سے کسی راکٹ کی طرح سمندر کے اندر جارہی تھی ۔ اور مسافر اس کے اندر یوں لڑھک رہے تھے جیسے ہاتھ میں پکڑی ٹرے کی اشیا کبھی ایک طرف لڑھکا دی جائیں اور کبھی دوسری طرف۔ فلپ کے کیبن میں ہونے والی زور آزمائی پہلے ہلکورے ہی سے ختم ہو گئی تھی ۔ تمام لوگ بری طرح فرش پر گر پڑے تھے ۔اس کے بعد آنے والے زلزلہ نما ہلکوروں نے سبھی کو ادھ موا کردیا اور وہ تنکوں کی طرح ادھر ادھر بکھرنے لگے تھے۔

 چند منٹ بعد تمام مسافر وں پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ فیری کی رفتار میں ہر لحظہ اضافہ ہو رہا تھا ۔ وہ راکٹ کی طرح کسی نادیدہ مرکز کی طرف کھنچتی چلی جارہی تھی۔ (جاری ہے)