سیدنا عکرمہؓ بن ابو جہل

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : جون 2006

            عکرمہ نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں یہ دن بھی دیکھے گا ۔ وہ ایسے شہر سے بھاگ رہا تھا اور شکست کھا کر بھاگ رہا تھا جس کی مٹی سے اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے باپ کا بدلہ دشمن کے خون کو اس مٹی میں جذب کر کے لے گا ۔ اسے ان لوگوں سے سخت نفرت تھی جنہوں نے اپنے والدین اور قبیلے کا کوئی پاس نہیں رکھا تھا جنہوں نے اپنے باپ دادا کو جاہل قرار دے کر عرب کی ساری جاری روایات کو تج کر کے ایک ایسے شخص کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا جو اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتا تھا ۔ اس کے دوستوں سعد بن ابی وقاصؓ اور مصعب بن عمیرؓ نے اسے کہا بھی کہ وہ اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کی بات سن لے ، ان کے پیش کردہ دین کو پرکھ تو لے ، اسے قبول کرنے کا فیصلہ بعد میں کر لینا ، لیکن اس نے وہی بات دہرائی جو اس کے باپ نے اسے کہی تھی اس نے کہا تھا: ‘‘میں اس شخص کو ہر گز اللہ کا رسول مانے کو تیار نہیں جس کی تعلیمات کے نتیجے میں ماں بیٹے کی ، بیٹا باپ کا ، بھائی بھائی کا اور فرد قبیلے کا دشمن بن رہا ہے۔’’

            اسے دوستوں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ دشمنیاں اس تعلیم سے نہیں پڑیں ، بلکہ نہ ماننے او رانکار کرنے والوں کے رویے سے جنم لے رہی ہیں۔ مگر عکرمہ نے ایک دفعہ بھی سنجیدگی اور تحمل سے کسی کی بات نہ سنی ۔ وہ اپنے باپ کا اندھا مقلد تھا ۔ اس نے صاف صاف کہا تھا کہ وہ وہی کچھ کرے گا جو اس کا والد کہے گا ۔ اس سے دشمنی رکھے گا جس سے اس کے باپ نے دشمنی رکھی ، اس سے دوستی رکھے گا جس سے اس کے باپ نے دوستی رکھی اور اس کا باپ تھا عمرو بن الحکم یعنی ابو جہل ! بنو خزیمہ کا معزز ترین فرد اور اسلام کا دشمن اعظم بھلا اس صورت میں عکرمہ اسلام کے قریب کیسے آسکتا تھا ۔

            بھاگتے عکرمہ کو بیتے ہوئے تلخ لمحے اچھی طرح یاد تھے۔ دراصل عرب کی اس زندگی میں اس شخص کو معزز اوربہادر سمجھا جاتا تھا جو اپنی زندگی دشمنی میں خون بہانے یا دوستی میں جان دینے کے لیے گزار دے اور اس نے اپنی زندگی اسلام کی دشمنی اور باپ کے انتقام کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

            عکرمہ کی زندگی کے تلخ لمحے اس وقت شروع ہوئے جب اللہ کے رسول اس کے باپ کے جال اور پہرے کے باوجود اس کی عین آنکھوں کے سامنے ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گئے ۔ ہجرت سے پہلے تو مسلمانوں کو تنگ کرنا ، ان پر آوازے کسنا ، اس کے لیے ایک کھیل ہوا کرتا تھا اور دشمنی کے بس یہی لمحے اس کے لیے سکون کا باعث تھے ورنہ جب سن 2 ہجری میں پہلا معرکہ بدر کے میدان میں ہوا تھا تو اسی دن سے اس کی زندگی کے تلخ ایام کا آغاز ہوا تھا ۔ اس دن اس کی آنکھوں کے سامنے انصار کے دو نوجوانوں نے اس کے والد کو خاک وخون میں نہلا دیا تھا اور بھلا وہ لمحہ وہ کیسے بھول سکتا تھا جب اس نے دور سے ایک انصاری کی تلوار کو اپنے باپ پر برستے دیکھا۔ وہ دیوانہ بار اس انصاری کی طرف بڑھا تھا ، مگر اس کے پہنچتے پہنچتے اس کا باپ خاک وخون میں لت پت ہو چکا تھا ۔ اس نے آتے ہی پیچھے سے وار کیا اور ایک لڑکے کا بازو کاٹ دیا ۔ وہ دوسرا وار کرنا ہی چاہتا تھا کہ ایک دشمن اس کے سامنے آگیا اور اس کے بعد اس نے ایسا منظر دیکھا کہ باپ کے قتل کا ہولناک منظر بھول گیا ۔ اس نے دیکھا کہ ایک قریشی ایک مسلمان کی گردن اڑانے کو تھا کہ نہ جانے کیسے اس پر ان دیکھا وار ہوا اور اس کی گردن نیچے لڑھک گئی۔ اس منظر نے اسے بالکل ہی ہلا کر رکھ دیا اور پھر ایک اور دشمن اس کے سامنے آگیا اور اس نے بڑی مشکل سے اس سے اپنی جان بچائی تھی ۔ اس کے بعد اس پر ایسا خوف مسلط ہوا کہ اس کے اندر کی ساری بہادری بزدلی اور پست ہمتی میں بدل گئی اور وہ شکست خوردہ ہو کر دوسرے لوگوں کی طرح میدان سے بھاگ گیا ۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ وہ کئی دن گھر نہیں جا سکا تھا ۔ باپ کی اس ذلت آمیز موت اور قوم کے بڑے بڑے سرداروں کا قتل اس کے ذہن سے چپک گیا تھا ۔ اس نے قسم کھائی کہ جب تک اس شکست کا بدلہ نہ لے گا چین سے نہ بیٹھے گا ۔ پھر اس کی نظروں کے سامنے ایک سال بعد کا منظر آگیا ۔ وہ منظر جس پر وہ فخر کیا کرتا تھا ۔

یہ احد کی جنگ کا دن تھا ۔ اس دن وہ ایک بہادر خالد بن ولید کے ساتھ رہا تھا اور انہوں نے مسلمانوں کے تیر انداز دستے کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کردیا اور پھر چن چن کر بدلہ لیا ۔ انہوں نے اس زور سے حملہ کیا کہ اپنی شکست کو فتح میں بدل دیا۔ لیکن اس فتح میں بھی شکست کا ایک احساس موجود تھا وہ یہ کہ بہت کوشش کے باوجود کوئی بہادر محمد بن عبداللہﷺ تک نہ پہنچ سکا تھا اس یاد نے اس کی سوچوں کا رخ خالد بن ولید کی طرف کردیا تھا ۔ وہ جو کبھی ان کا ساتھی تھا آج وہی بہادر اور انتہائی ذہین فوجی سالار اسلام قبول کر کے مسلمان ہو چکا تھا اور آج اسی سے شکست کھا کر وہ اپنے آبائی وطن سے فرار ہونے پر مجبور ہوا تھا ۔

            عکرمہ کو اپنی زندگی کا ایک اور منظر ، مگر سر جھکا دینے والا منظر یاد آیا ۔ یہ منظر جنگ خندق سے متعلق تھا ۔ جب وہ پورے جزیرہ نماعرب کے لشکروں کے ہمراہ مدینہ پہنچا تو اسے یقین تھا کہ اب اسلام کا قصہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا ۔ مگر عکرمہ کو خندق دیکھ کر شدید حیرت ہوئی تھی ۔ یہ حیرت جلد ہی غصے میں تبدیل ہو گئی تھی ۔ ہزاروں کا لشکر اس کے ہمراہ تھا اور دشمن اس کے سامنے موجود تھا ، مگر سب کے ساتھ وہ بھی بے بس تھا۔ کئی دن ان کا لشکر خندق کے پار مدینہ کا محاصرہ کیے پڑا رہا ۔ عکرمہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کئی مرتبہ خندق کا معائنہ کر چکا تھا مگر اسے پار کرنے کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر پھر ایک دن اس نے ایسی جگہ کا سراغ لگا لیا جہاں خندق قدرے کم چوڑی تھی ۔ اسی دن اس نے عمرو بن عبدود کے ہمراہ گھوڑے کو ایسی ایڑ لگائی کہ خندق محفوظ طریقے سے پار کر لی ۔ اب وہ اور دشمن آمنے سامنے تھا اس کا جی تو یہی چاہتا تھا کہ وہ فورا دشمن پر ٹوٹ پڑے لیکن عمرو اس کا بزرگ ساتھی تھا ۔ اس لیے پہلے اسی نے مقابلہ کیا ۔ عمرو کو ایسا شاہسوار سمجھا جاتا تھا جو ہزار سواروں پر بھاری تھا لیکن اس کے چیلنج کا جواب اس سے کئی گنا کم عمر جسمانی لحاظ سے بہت کم طاقت ور دشمن نے دیا تھا۔ یہ حضرت علیؓ تھے ۔ انہوں نے اپنے پہاڑ جیسے دشمن کو عکرمہ کے سامنے چیونٹی کی طرح مسل دیا تھا عمرو کا یہ حشر دیکھ کر عکرمہ کی ساری بہادری جنگ بدر کی طرح پھر بزدلی اور پست ہمتی میں بدل گئی تھی ۔ ایک تو اسے اس چیز کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ جیسے ہی دشمن کے سامنے آتا ہے اس کا عزم ، اس کا جوش ، اس کا ولولہ ایک دم ختم کیوں ہو جاتا ہے ۔ اس وقت بھی یہی ہوا تھا عمرو کو خون میں لت پت دیکھ کر وہ واپس پلٹا اور اسی طرح گھوڑے کو ایڑ لگا کر خندق کو پھاند گیا جسے پھلانگ کر دشمن کے مقابلے پر آیا تھا ۔ اور اس دن کے بعد تو اس پر یاسیت مسلط ہو گئی تھی ۔ خندق کی جنگ کے بعد اہل مکہ یہ بات ماننے پر مجبور ہو گئے کہ اسلام کو ختم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا اور پھر حالات اس تیزی سے بدلے کہ یہ دن آن پہنچا ان کا سردار ابو سفیان صلح حدیبیہ کو برقرار رکھنے کے لیے بھکاری کی طرح مدینہ گیا ، مگر کسی نے اسے اہمیت نہ دی اور وہ ناکام واپس آگیا اور پھر اسلامی لشکر علی الاعلان مکہ پر حملہ آور ہوا ۔ عکرمہ اور اس کے ساتھیوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ کسی صورت میں بھی دشمن کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے ، مگر ایک عجیب خبر نے انہیں بالکل بے بس کر دیا ۔ یہ عجیب خبر تھی کہ مکہ کا سردار اور جنگ احد کا فاتح سالار ابو سفیان اب پہلے والا شخص نہیں رہا ۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو کوئی امان چاہتا ہے ان کے گھر میں پناہ لے لے ۔ مگر عکرمہ اور اس کے ساتھی اس اعلان سے سخت مایوس ہوئے ۔ خاص طور پر عکرمہ سوچنے لگا کہ بھلا باپ کے قاتلوں کے آگے ہتھیار ڈالنا کہاں کی غیرت ہے ۔ اس نے اپنے سترہ کے قریب ساتھیوں کو جمع کیا اور دشمن کو نقصان پہنچا کر مکہ سے روپوش ہونے کا منصوبہ بنایا ۔ اس نے ایک جگہ متعین کی تھی اور ساتھیوں سمیت ایک گھاٹی کے پیچھے چھپ گیا اس کی توقع کے مطابق خالد بن ولید کا مسلح دستہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ان کے سامنے آگیا ۔ ان کی تعداد 14 کے قریب تھی اور عکرمہ کے دستے کے لوگ 17 تھے ۔ عکرمہ نے مناسب موقع جان کر تیروں کی بوچھاڑ کی۔ پہلے ہی حملے میں خالد بن ولید کے چار ساتھیوں کو تیر لگے اور ساتھ ہی عکرمہ ساتھیوں سمیت للکار کر ان پر ٹوٹ پڑا اور یہی اس کی غلطی تھی ۔ وہ یہ بھول چکا تھا کہ صحابہ کرام ؓ نے ہمیشہ کم تعداد کے باوجود ان پر فتح پائی ہے اور آج محض چند افراد کی برتری کے ساتھ وہ ان پر کیسے قابو پالیں گے اور اگر اس جھڑپ میں وہ فتح یاب بھی ہو گئے تو مسلمانوں کے عظیم لشکر کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے ؟ دراصل یہ تو ایک نفرت کا جنونی اظہار تھا جو انہوں نے کیا اور پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتا ۔ آج جب وہ توحید کے ماننے والوں کے سامنے آیا تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ ساری بہادری اور غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اس نے جلد ہی اپنے تین ساتھیوں کو خون میں لت پت ہو کر زمین بوس ہوتے دیکھ لیا تھا ۔ مکہ کی مقدس سرزمین محض اس کی ضد اور حماقت کی وجہ سے خون سے رنگی جا رہی تھی ۔ اس احساس نے اس کی رہی سہی ہمت بھی ختم کر ڈالی اور وہ دو چار اوچھے وار چلانے کے بعد بھاگ کھڑا ہوا تھا ۔ عکرمہ کو نہیں معلوم کہ اس کے سترہ ساتھیوں میں سے بارہ مار ے گئے تھے اہل اسلام میں دو شہید ہوئے ۔ عکرمہ حواس باختہ ہو کر مکہ سے باہر نکل آیا ۔ مکہ سے باہر نکل کر اس نے ایک نواحی علاقے میں قیام کیا اور شہر کے متعلق سن گن لی ۔ اسے معلوم ہوا کہ قریش کو عام معافی دے دی گئی ہے ، لیکن بعض لوگوں کے جرائم کی بنیاد پر انہیں قتل کردینے کا حکم ہوا ہے ۔ ان کے متعلق یہ سخت حکم دیا گیا تھا کہ اگر یہ لوگ کعبہ کے غلافوں میں بھی چھپ جائیں تب بھی انہیں معاف نہ کیا جائے اور اس فہرست میں اس کا نام شامل تھا ۔ اس خبر نے گویا اس کی قسمت میں مکہ کو انتہائی عبرت ناک طریقے سے چھوڑ دینا مقدر کر دیا ۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کی بیوی ام حکیم ابھی مکہ ہی میں ہے ، لیکن وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتا تھا کہ شکست خوردہ چہرہ لے کر مکہ جائے اور بے بسی سے گردن کٹوا ڈالے ۔ آخر سوچ بچار کے بعد اس نے یمن کا رخ کیا ۔ جانے سے پہلے اس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے نام یہ پیغام بھیجا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یمن جا رہا ہے اور اب شاید ہی زندگی میں اس سے ملاقات ہو سکے ۔ اس پیغام کے بعد چند روز تک وہ یمن جانے کے لیے تہامہ کے علاقہ میں پہنچ گیا ۔ تہامہ ایک ساحلی علاقہ تھا اور یہاں سے عکرمہ کو ایک کشتی کے ذریعے یمن جانا تھا ۔ عکرمہ کو یہاں سے یمن جانے کے لیے کئی روز تک مناسب کشتی نہ مل سکی۔ اسی دوران اسے رہ رہ کر مکہ یاد آتا رہا ۔ اپنی بیوی یاد آتی رہی جسے وہ مفتوح مکہ میں اپنے دشمنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ آیا تھا اسے یقین تھا کہ دشمن اس کے فرار کا بدلہ اس کی بیوی سے لے گا ۔ اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا کہ اگر اسے بھاگنا ہی تھا تو کم از کم اپنے خاندان کو تو ہمراہ لیتا لیکن اس کی قسمت ہی پھوٹ چکی تھی ۔ اسی دوران میں اسے معلوم ہوا کہ ایک کشتی یمن جانے کے لیے تیار ہے اور اس میں جگہ بھی ہے ، عکرمہ بوجھل قدموں کے ساتھ کشتی والے کی طرف چل دیا ۔ کشتی میں پہلے بھی سواریاں تھیں اس نے بجھے دل سے ملاح سے کہا ۔ ‘‘کیا مجھے بھی لے چلو گے ؟’’ ‘‘ہاں لے چلوں گا لیکن…… ’’ ملاح بڑ ے غور سے اس کی طرف دیکھنے لگا ۔ پھر بولا : ‘‘کشتی میں سواریاں زیادہ ہیں اس لیے تمہیں ساتھ چلنے کے لیے اپنی نیت خالص کرنی ہوگی ۔’’ ‘‘نیت خالص کرنی ہوگی کیا مطلب ہے تمہارا۔’’ عکرمہ اس کی عجیب وغریب شرط پر حیران تھا ۔ ‘‘اگر تم شہادت دو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی لائق نہیں اور محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں تو میں سمجھ لوں گا کہ تمہاری نیت خالص ہے ۔’’ یہ جملہ سن کر عکرمہ کی عجیب حالت ہوئی ۔ سوچنے لگا جس کلمے سے ، جس عقیدے سے اس کی دشمنی رہی ہے ، جس کی خاطر اس کا پورا خاندان ختم ہوا ، گھر بار چھوٹا ، وطن سے بے وطن ہوا ، اب اس کلمے کو پڑھ کر اپنی نیت خالص کروں وہ تلخ ہو کر بولا ۔ ‘‘بوڑھے میاں ، لگتا ہے تم بھی بے دین ہو چکے ہو ۔ مگر میں تو اس توحید سے انکار کی خاطر مکہ چھوڑ چکا ہوں ۔’’ ‘‘اچھا مگر میں تو اس عقیدے اور اس کلمے کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتا ہوں ۔ تم نے اگر اس کی خاطر سب کچھ چھوڑا ہے تو بڑی نادانی کی ہے ……’’ عکرمہ ملاح کو مزید جلی کٹی سنانے لگا تھا کہ کسی خاتون نے مخاطب کیا : ‘‘ اے میرے چچا کے بیٹے ، کہاں کا ارادہ ہے ؟’’ عکرمہ کو آواز مانوس لگی لیکن اس انسیت کے حوالے سے جو نام اس کے ذہن میں آیا ، اس کا یہاں پہنچ کر اس سے یوں مخاطب ہونا ناممکن بات تھی لیکن جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو ناممکن ممکن ہو چکا تھا ، اسے مخاطب کرنے والی کوئی اور نہیں اس کی پیاری بیوی ام حکیمؓ ہی تھی ۔ وہ بے یقینی سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ تب وہ دوبارہ بولیں :

‘‘میں لوگوں میں سے سب سے افضل ، سب سے بڑھ کر نیک اور سب سے بڑی ہستی کے پاس سے آئی ہوں ۔ میں محمدؐبن عبداللہ کے پاس سے آئی ہوں ۔’’ عکرمہ کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا کہنے لگا : ‘‘ام حکیم، کیا کہہ رہی ہو ؟’’ بخدا میں سچ کہہ رہی ہوں ۔ انہوں نے ہند ، وحشی بن حرب، صفوان بن امیہ سب کو معاف کر دیا ان کے عفوودرگزر کی کوئی انتہا نہیں ۔ میں نے ان سے تمہارے متعلق بھی امان طلب کی اور انہوں نے کمال شفقت سے تمہیں پناہ دے دی ۔’’ عکرمہ کو ابھی بھی یقین نہیں آیا تھا بولا : ‘‘ کیا تم نے خود ان سے میری بابت بات کی تھی؟’’ ‘‘ ہاں میں نے خود ان سے بات کی تھی ۔ پھر اس دوران میں مجھے تمہارا پیغام ملاکہ تم یمن روانہ ہونے والے ہو اور میں ہر قسم کا خطرہ مول لے کر یہاں پہنچی اور عکرمہ تمہیں کچھ خبر نہیں کہ میں اپنی جان اور عزت کو خطرے میں ڈال کر کیسے یہاں پہنچی ۔’’ ام حکیمؓ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر عکرمہ تڑپ اٹھا اور بولا: ‘‘خدا کی قسم ، تم مجھے بتاؤ کس نے تمہاری عزت اور جان خطر ے میں ڈالی ؟’’ نیک دل بیوی نے اپنی داستان سناتے ہوئے کہا : ‘‘مدینہ میں تمہارے لیے امان کی اجازت لیکر میں ایک رومی غلام کے ساتھ تمہاری تلاش میں نکلی ۔ راستے میں رومی غلام کی نیت خراب ہو گئی میں جانتی تھی کہ اگر میں نے کوئی مزاحمت کی تو جان اور عزت دونوں سے جاؤں گی ۔ اس لیے اسے ٹالتی رہی اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میرا شوہر نہ ملا تو پھر میرا فیصلہ تمہارے حق میں ہو گا ۔ تہامہ کے قریب ایک عرب قبیلے کے ہاں ہم نے قیام کیا ۔ میں نے موقع پا کر عرب قبیلے کے ایک بزرگ سے رومی غلام کی بدنیتی اور اپنی مظلومیت بیان کی ۔ بزرگ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور رومی غلام کو فوراً قید میں کر لیا ۔ پھر میں آگے روانہ ہو گئی۔ پوچھتی پچھاتی آخر تمہارے پاس پہنچ گئی ۔ اب معلوم نہیں تم کیا فیصلہ کرتے ہو ۔’’ عکرمہ کا دل پسیچ گیا اور بولا : ‘‘ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ مکہ واپس جانے پر آمادہ ہوں ، لیکن مجھے اس نامرد اور رومی غلام سے حساب چکانا ہے ۔’’ چنانچہ عکرمہ بیوی کے ہمراہ پہلے اس عرب قبیلے کے پاس گیا جنہوں نے اس کی اہلیہ کی مدد کی تھی ۔ قبیلے نے ان کی عزت کی او ررومی غلام کو ان کے حوالے کر دیا ۔ عکرمہ نے غصے میں آکر رومی کو قتل کر ڈالا اور قبیلے کے معززین کا شکریہ ادا کر کے مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں ایک جگہ قیام کے وقت جب وہ آرام کرنے کے لیے لیٹے تو ام حکیمؓ نے عکرمہ سے کہا :

‘‘عکرمہ بے شک تم میرے شوہر ہو لیکن تم مشرک ہو ، اس لیے میں تمہارے ساتھ کمرے میں نہیں سو سکتی ۔’’

عکرمہ بیوی کا یہ رویہ دیکھ کر حیران رہ گیا ، کہنے لگا : ‘‘اچھا…… تو مسلمان ہو گئی …… پھر تو تیرے اور میرے درمیان بڑی خلیج حائل ہو گئی ہے ۔’’ ‘‘ہاں عکرمہ ! اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو پھر میرے اور تمہارے درمیان علیحدگی ہو جائے گی ۔ میں اسی امید پر تمہارے تک پہنچی ہوں کہ تم اسلام قبول کر لو گے اور ہمارا تعلق قائم رہے گا ۔’’ یہ کہہ کر وہ عکرمہ کو سوچ کے سمندر میں دھکیل کر کمرے سے باہر چلی گئیں اور اسی رات عکرمہ نے اسلام لانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اگلے دن وہ مکہ معظمہ پہنچ گئے ۔

            ان کی آمد سے قبل اللہ کے رسول ﷺ کو وحی کے ذریعے اطلاع دے دی گئی کہ عکرمہ واپس آرہا ہے ۔ یہ اطلاع اس لیے دی گئی تھی کہ کہیں کوئی صحابی اسے دشمن جان کر نقصان نہ پہنچا دے ۔ رسول اللہ ﷺ نے خاص اعلان فرمایا: ‘‘دیکھو جلد ہی عکرمہ بن ابو جہل تمہارے پاس مومن اور مہاجر بن کر آئے گا اس لیے اس کے باپ کو گالی نہ دینا اس لیے کہ میت کو گالی دینے سے اس کے لواحقین کو تکلیف ہوتی ہے اور گالی مرے ہوئے شخص کو ہر گز نہیں پہنچتی۔’’ تھوڑی ہی دیر میں عکرمہ اور ام حکیمؓ آپؐ کے سامنے حاضر تھے ۔ آپؐ نے مسکراتے ہوئے عکرمہ کا استقبال کیا ۔ عکرمہ کی حالت عجیب تھی ۔ انہوں نے بے یقینی سے پوچھا۔ ‘‘ اے اللہ کے رسولؐ ام حکیمؓ نے بتایا ہے کہ آپؐ نے مجھے پنا ہ دے دی ہے ؟’’ ‘‘ہاں ام حکیمؓ سچ کہتی ہے ، میں نے تمہیں امان دے دی ہے ۔’’ عکرمہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا جس ہستی پر ماں ، بیٹے، بیٹی اور خاندان کو لڑانے کا الزام تھا وہ اس قدر رحمت اور عفوودرگزر والا ہوسکتا ہے ۔ ‘‘ تو پھر آپ فرمائیں کہ مجھے مسلمان ہونے کے لیے کیا کرنا ہے ؟آپ کی دعوت کیا ہے ؟’’ آخر عکرمہ نے وہ سوال کیا ، جو انہیں بہت پہلے کر دینا چا ہیے تھا ۔ آپؐ نے انہیں کلمہ توحید پڑھ کر اسلام قبول کرنے کی ہدایت کی ۔ نماز ، روزہ ، زکوۃ اور نیکی کرنے اور منکرات کو چھوڑنے کی ہدایت کی ۔ عکرمہ پریشان آواز میں بولے : ‘‘ اے اللہ کے رسولؐ خدا کی قسم آپ یہ دعوت پیش کرنے سے پہلے بھی ہم سے زیادہ سچے اور صالح انسان تھے ۔’’ اس کے بعد انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا :‘‘میں اقرار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ بلاشبہ اس کے سچے رسول ہیں ۔’’ اس کے بعد بولے :‘‘اللہ کے رسول مجھے اور کیا کرنا ہے؟’’ آپؐ نے فرمایا :‘‘اس سارے مجمع کو گواہ بنا کر اعلان کرو کہ آج سے تم اسلام کے مجاہد اور مہاجر ہو ۔’’ عکرمہؓ نے صدق دل سے اعلان کر دیا ۔ اللہ کے رسولﷺ نے خوش ہو کر ان سے فرمایا : ‘‘اے عکرمہ! آج اگر تم مجھ سے کوئی ایسی چیز مانگو ، جومیں نے کسی دوسرے کو بھی دی ہو ، تو تمہیں بھی وہ ضرور دوں گا ۔’’ عکرمہؓ سوچنے لگے کہ وہ کتنے عظیم شخص سے جہالت میں آکر عداوت کر بیٹھے تھے ۔ ان کے ذہن میں پچھتانے کے جذبے کے سوا کچھ نہ تھا ۔ ‘‘ اے اللہ کے رسولؐ مجھے ہر وہ دشمنی وعداوت معاف کر دیں ، جو میں نے آپؐ سے کی اور اس مقابلے کی معافی دے دیں جو زمانہ جاہلیت میں آپ سے کیا اور ہر وہ بات معاف کر دیں جو آپؐ کے سامنے یا غیر حاضری میں آپؐ کے خلاف کی ۔’’ حضرت عکرمہ ؓ کا یہ اخلاص اور جذبہ دیکھ کر حضور نے بآواز بلند یہ دعا کی : ‘‘الہی، اسے ہر وہ عداوت معاف کر دے جو اس نے مجھ سے کی ۔ اور اس راستے کی ہر ایک لغزش کو معاف کر دے جس میں یہ تیرے اسلام کے نور کو بجھانے کے لیے چلا ۔ الہی ، میرے سامنے یا میری غیر حاضری میں جو یہ میری عزت کے درپے ہوا ، اسے یہ لغزش بھی معاف کر دے ۔’’ حضرت عکرمہ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا اور کہا :‘‘ اے اللہ کے رسول خدا کی قسم ، ماضی میں اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے جو کچھ خرچ کیا کرتا تھا ، اس سے دوگنا زیادہ اب راہ خدا میں خرچ کیا کروں گا اور جو میں نے اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکنے کے لیے لڑائیاں لڑیں اب وہ اللہ کی راہ میں دوگنا زیادہ لڑائیاں لڑوں گا ۔’’ حضرت عکرمہ ؓ کے طرز عمل نے ثابت کیا کہ انہوں نے اپنے اس پرخلوص عزم کو دل وجان سے نبھایا۔

            حضرت عکرمہؓ بنیادی طور پر ایک مجاہد انسان تھے ۔ چنانچہ ایمان لانے کے بعد ان کی زیادہ دلچسپیاں اسلام کے لیے تلوار اٹھانے سے ہی رہیں ۔ رسول اللہﷺ کی وفات تک وہ تمام اہم مہمات اور غزوات میں شامل رہے ۔ آپﷺ کی وفات کے بعد جب فتنہ ارتداد پھیلا تو حضرت عکرمہؓ اسے فرو کرنے کے لیے حضرت ابو بکرؓ کے شانہ بشانہ لڑے ۔ حضرت ابو بکرؓ نے مدعیان نبوت اور مانعین زکوۃ کی سرکوبی کے لیے گیارہ لشکر بنائے ان میں سے ایک لشکر حضرت عکرمہؓ کے زیر قیادت منظم تھا ۔ حضرت ابو بکرؓ نے علم عکرمہؓ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے انہیں اسلامی اخلاقیات کا بدرجہ اتم خیال رکھنے کی نصیحت کی۔ انہیں یہ مہم سونپی گئی کہ وہ مسیلمہ کذاب کے قبیلے بنو حنیفہ کی طرف جائیں اور جاکر حالات کا جائزہ لیں۔ دشمن کی طاقت کا اندازہ کریں اور شرجیل بن حسنہ کا انتظار کریں عکرمہؓ جب بنو حنیفہ کی طرف چلے تو ان کے دل ودماغ میں ایک چیز سوار ہو چکی تھی وہ چاہتے تھے کہ آج وہ اپنی بہادری اور حکمت عملی سے ثابت کر دیں کہ وہ اسلام کے جری سپاہی ہیں ۔ وہ جیسے جیسے بنو حنیفہ کی طرف بڑھ رہے تھے انہیں اپنے جرائم کوتاہیاں اور اسلام کے خلاف روا رکھی جانے والی زیادتیاں یاد آرہی تھیں ۔ وہ ہر قیمت پر اپنی ان حماقتوں کی قیمت چکانا چاہتے تھے ۔ دشمن کے علاقے میں پہنچ کر عکرمہؓ کو معلوم ہوا کہ بنو حنیفہ بڑے منظم ہیں ۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں اور مزید یہ کہ مسیلمہ نے ا ن لوگوں کو باور کرایا ہے کہ اگر قریش میں ایک نبی اور رسول ہو سکتا ہے تو بنو حنیفہ میں کیوں نہیں ؟

اس موقع پر عکرمہؓ کے ذہن میں ایک عجیب بات آئی ۔ انہوں نے سوچا کہ بے شک ان کی طاقت دشمن سے کم ہے لیکن ان کی فوج میں بڑے بڑے بہادر ہیں ۔ اگر وہ شرجیل بن حسنہ کی آمد سے پہلے مسیلمہ کذاب پر حملہ کر کے اس کے لشکر کی کمر توڑ دیں تو حضرت ابو بکرؓ بہت خوش ہونگے اور ان کی بہادری کی بھی دھاک بیٹھ جائے گی ۔ یہ خیال آتے ہی انہوں نے دشمن پر حملے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس موقع پر وہ یہ بالکل بھول گئے کہ انہیں خلیفہ کا حکم ہے کہ شرجیل کا انتظار کرنے کے بعد کوئی فوجی اقدام کرنا ہے ۔ انہوں نے اپنے جذبہ جہاد کے تحت دشمن پر دھاوا کردیا ۔ عکرمہؓ اور ان کی فوج اگرچہ بہت بہادری سے لڑی ، لیکن انہوں نے دشمن کی طاقت اور مہارت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا تھا ۔ مسیلمہ کذاب نے اپنی فوج کو کچھ اس طرح سے لڑایا کہ عکرمہؓ اپنے لشکر کو پیچھے ہٹانے پر مجبور ہو گئے ۔ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر انہوں نے جنگ مزید جاری رکھی تو مسلمانوں کا جانی نقصان بہت زیادہ ہو گا۔ اس شکست کے بعد مسیلمہ کے حوصلے بہت بڑھ گئے ۔ خود عکرمہؓ بہت خوف زدہ تھے ۔ انہوں نے تو خلیفہ کو خوش کرنے اور فتنے کو ختم کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا لیکن نتیجہ بالکل برعکس نکلا ۔ چاروناچار انہوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو سارے حالات لکھ دیے ۔ حضرت ابو بکرؓ کو جب ان کی شکست کی خبر پہنچی تو وہ سخت ناراض ہوئے ۔ انہوں نے غصے بھرا خط لکھا : ‘‘ اے اپنی ماں کے بیٹے عکرمہ! میں تم سے سخت ناراض ہوں اور تمہیں واپس آنے کی ہر گز اجازت نہیں ۔ تمہارے مدینہ آنے سے شکست کے حالات سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہوں گے اب تم یہاں سے اگلی مہم پر روانہ ہو جاؤ اور حذیفہ اور عرفجہ کے علاقوں میں جاؤ۔ یہ حضر موت کا علاقہ ہے جہاں مہاجربن امیہ پہلے ہی مرتدین سے برسر پیکار ہے تم اس کی مدد کرو۔’’ حضرت عکرمہؓ اپنے خلیفہ کی ناراضی کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ انہوں نے اس دفعہ خاموشی سے خلیفہ کا کہا مانا اور حضر موت روانہ ہو گئے ۔ عکرمہؓ اپنی اس غلطی پر سخت نادم تھے اور انہوں نے اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگی اور عزم کیا کہ آئندہ وہ خلیفہ کے حکم کے آگے سرموانحراف نہیں کریں گے ۔ ادھر حضر موت کے علاقے میں مہاجر بن امیہ کو حضرت ابوبکرؓ نے پیغام بھیج دیا تھا کہ عکرمہؓ تمہاری طرف آرہے ہیں اور ان کے مشورہ کے بغیر کام نہ کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ کا یہ حکم عکرمہؓ کی اہمیت واضح کر رہا تھا ۔ حضرموت تک پہنچنے سے پہلے عکرمہ کو پہلے عمان پہنچنا تھا ۔ عمان کا علاقہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایران کا حصہ تھا ۔ وہاں جیفر نامی شخص گورنر تھا ۔ آپﷺ کی طرف سے اسلام کا پیغام حضرت عمرو بن العاصؓ لے کر گئے تھے ۔جیفر نے انہیں جواب دیا تھا :‘‘مجھے اسلام لانے میں ہر گز کوئی عذر نہیں ، لیکن یہ ڈر ضرور ہے کہ اگر میں نے اپنے علاقے سے زکوۃ اکٹھی کر کے مدینہ روانہ کی تو یہاں کے لوگ بغاوت کر دیں گے ۔’’ حضرت عمرو بن العاصؓ نے اس کی غلط فہمی دور کی کہ اسلامی ریاست کا مقصد دوسرے ملکوں سے خراج وصول کرنا ہر گز نہیں ، بلکہ زکوۃ کی رقم جس علاقے سے اکٹھی کی جاتی ہے و ہیں خرچ کی جاتی ہے چنانچہ عمان میں بھی یہی ہو گا ۔ یہاں کی زکوۃ یہاں ہی کے غربا، مساکین پر خرچ کی جائے گی۔ جیفر کی غلط فہمی دور ہو گئی اور وہ اسلام لے آیا ۔ رسول اللہﷺ کی وفات تک جیفر ہی عمان کا گورنر رہا اور حضرت عمرو بن العاصؓ اس کی مشاورت کے لیے وہاں ٹھہر گئے رسول اللہ کی وفات کے بعد جب پورے عرب میں فتنہ ارتداد کی آگ پھیل گئی تو عمان کے لوگ بھی اسلام سے باغی ہو گئے ۔ آپ ﷺ کی وفات کا سن کر حضرت عمرو بن العاصؓ تو مدینہ لوٹ گئے تھے اور جیفر نے لوگوں کی بغاوت کے بعد فرار ہو کر پہاڑیوں میں پناہ لے لی ۔ عمان میں باغیوں کا سردار لقیط بن مالک ازدی تھا ۔ اس نے بھی نبوت کا دعوی کر دیا تھا ۔ اس کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے حذیفہ بن محض کو روانہ کیا تھا اور اس کے قریبی علاقے مہرہ میں عرفجہ کو مقرر کیا تھا ۔ یہ دونوں اپنے علاقے کے بہادر سپاہی تھے ۔ عکرمہؓ کو ان دونوں کے پاس پہنچنا تھا وہ کچھ اس قدر برق رفتاری سے روانہ ہوئے کہ ان دونوں سرداروں سے پہلے ہی مقررہ جگہ پہنچ گئے۔ چند دنوں کے بعد تینوں سردار عکرمہؓ ، حذیفہؓ اور عرفجہؓ…… اکٹھے ہوئے اور باغیوں سے نپٹنے کی سبیل کرنے لگے۔ انہوں نے سب سے پہلے جیفر اور ان کے بھائی عباد کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ جلد ہی ان سے رابطہ ہو گیا انہیں یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ بلا خوف پہاڑیوں سے اتر آئیں اور اسلامی لشکر میں شامل ہو جائیں ۔ ادھر لقیط کو اسلامی لشکر کی اطلاع مل چکی تھی ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مخالفوں کو جمع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے ۔ اس نیت سے اس نے اپنا لشکر دبا کے میدان میں خیمہ زن کر دیا ۔ جیفر اور عباد نے اسلامی لشکر کی دعوت پر لبیک کہا اور پہاڑوں سے اتر کر اسلامی فوج سے مل گئے ۔ عکرمہؓ او ران کے ساتھیوں کو لقیط کے لشکر کی نقل وحرکت کا علم تھا۔ اس لیے انہوں نے دشمن کا خود استقبال کرنے کا فیصلہ کیا اور دبا کے میدان میں پہنچ گئے ۔ دونوں لشکر جلد ہی آپس میں الجھ پڑے ۔ پہلے مرحلے میں لقیط کا پلہ بھاری رہا ۔ اسلامی فوجوں میں انتشار پھیل گیا لیکن پھر عجیب واقعہ رونما ہوا ۔ عین اس وقت جب اسلامی فوجیں پسپائی کا فیصلہ کر چکی تھیں ۔ بنو عبدالقیس اور بحرین کے علاقوں کی طرف سے مدد آن پہنچی ۔ اس مدد سے لشکر کے اکھڑے ہوئے قدم جم گئے اور جلد ہی جنگ کا پانسا پلٹ گیا اور دشمن شکست کھا کر بھاگا ۔ یہ اسلامی لشکر کی عظیم کامیابی تھی اور اس کامیابی میں عکرمہؓ نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ امن وامان قائم ہو جانے کے بعد عرفجہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور عکرمہؓ اگلی منزل کی طرف پیش قدمی کرنے لگے ۔ عکرمہؓ اگرچہ اپنی اس فتح پر بہت خوش تھے ، لیکن انہیں اپنے موجودہ لشکر کی خامیوں کا بھی اچھی طرح علم تھا ۔ جب و ہ مہرہ پہنچے تو عکرمہ ؓ کا عجیب صورت حال سے واسطہ پڑا ۔ مہرہ میں دو گروپ تھے ہر ایک کا دعوی تھا کہ علاقے پر ان کی حکمرانی چلے ۔ ان حالات میں عکرمہؓ نے بہترین سیاسی فیصلہ کیا اور قدرے کمزور جماعت کو اسلام لانے کی دعوت دی ۔ ان کی توقع کے عین مطابق یہ دعوت قبول کر لی گئی اور وہ لوگ مسلمان ہو گئے ۔ ان کو ساتھ ملا کر عکرمہ نے بڑے گروہ سے سے جنگ کی یہ جنگ بڑے گھمسان کی تھی اور اس دفعہ بھی فتح نے عکرمہ کے قدم چومے ۔ عکرمہ نے مال غنیمت میں خمس کا مال نکالا اور ساتھ ملنے والے سردار کے ہاتھ اسے مدینہ خلیفہ کے حضور روانہ کر دیا ۔

 وہ خود یہاں کچھ عرصہ کے لیے ٹھہر گئے تاکہ امن وامان مکمل طور پر بحال ہو جائے ۔ جب حالات پرسکون ہو گئے تو وہ ایک عظیم الشان لشکر لیکر مہاجر بن امیہ کی مدد کو روانہ ہو گئے …… یہی ان کا اصل مقصد تھا۔ عکرمہ ساحل کے ساتھ ساتھ مہرہ سے حضر موت اور کندہ کی جانب بڑھے اور اس سفر میں انہیں کوئی خاص مہم درپیش نہ آئی ۔ در اصل یہ علاقہ مہرہ سے ملحق تھا اور مہرہ پر اب اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی ۔ دوسری طرف مہاجر کو سخت مزاحمت کا سامنا تھا۔ وہ شمالی جانب سے یمن کی جانب آرہے تھے ، عکرمہؓ کو جیسے ہی اندازہ ہوا کہ انہیں یہاں انتظار کرنے کے بجائے اپنے ساتھی سپہ سالار کی مدد کرنی چاہیے وہ فو راً روانہ ہو گئے ۔ یمن کا علاقہ ایک عرصہ سے بغاوت کے شعلوں کی لپیٹ میں تھا ۔ رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں یہاں پر اسود عنسی نے نبوت کا دعوی کر دیا تھا لیکن آپﷺ کی زندگی کے آخری دنوں میں اسے قتل کر دیا گیا اور وہاں پر فیروز نامی شخص کو گورنر مقرر کیا گیا اور حالات پرسکون ہو گئے ۔ لیکن رسول اللہﷺ کی وفات کے فوراً بعد حالات پھر خراب ہو گئے ۔ اسود عنسی کے حمایتی ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہو گئے اور قبیلوں کی شکل میں رہنے والے عربوں نے ایک منظم حکومت کے زیر تحت رہنے سے انکار کر دیا ۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے عمرو بن معدی کرب میدان میں آیا۔

            عمرو ایک اعلی درجے کا شاعر اور بہت بہادر سپہ سالار بھی تھا۔ پورے عرب میں اس کی بہادری اور عظمت کا طوطی بولتا تھا اس سے قبل وہ اسود عنسی سے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کر چکا تھا اور پھر جب اسود جہنم سدھارا تو اس نے وقتی طور پر خاموشی اختیار کر لی ۔ اب جب اسے دوبارہ اپنی حکومت بنتی نظر آئی تو خاموشی ترک کر کے وہ علی الاعلان دشمن بن کر سامنے آگیا ۔ اس نے ایک اور شخص قیس بن عبدیغوث کو ساتھ ملایا اور رسول اللہﷺ کے مقرر کردہ گورنر فیروز کو یمن سے نکال دیا۔ فیروز کا یمن سے نکلنا صرف قیس کی مدد سے ممکن ہوا تھا ۔ قیس پہلے فیروز کے ساتھ تھا اور اسود عنسی کو قتل کرنے کے منصوبے میں اس نے فیروز کی بہت مدد کی تھی ، لیکن جب گورنر کے طور پر فیروز کو نامزد کیا گیا تو وہ ناراض ہو گیا اور عمرو بن معدی کرب سے مل گیا ۔ اس نازک صورتحال میں بھی یمن کے مسلمان بالکل نہ گھبرائے ۔ ان کے حوصلے بڑھانے کے لیے عکرمہؓ مہرہ سے ایک عظیم لشکر لے کر پہنچ چکے تھے ۔

            دوسری جانب مہاجر بن امیہ مکہ مکرمہ ، طائف اور نجران سے سینکڑوں آزمودہ کار اور جنگی قابلیت رکھنے والے اشخاص کے ساتھ یمن پہنچے اور جب اہل یمن کو ان سپہ سالاروں کے آنے کی اطلاع ہوئی اور انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مہاجر بن امیہ نے راستے میں ایک دشمن قبیلے کو تہ تیغ کر دیا ہے تو انہیں یقین ہو گیا کہ وہ اسلامی لشکر کا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکیں گے ۔ ان کے سینکڑوں لوگ ہلاک کر دیے جائیں گے اور بقیہ کو غلامی کی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

            اہل یمن اس شش وپنج میں تھے کہ ان کے سرداروں قیس اور عمرو بن معدی کرب میں پھوٹ پڑ گئی ۔ ان دونوں نے اگرچہ مہاجر سے مقابلہ کرنے کا عہد کیا تھا لیکن اب وہ اپنے اپنے طور پر ایسا راستہ ڈھونڈنے میں مصروف ہو چکے تھے کہ ان کی اسلامی لشکر سے صلح ہو جائے ۔ اس دفعہ عمرو بن معدی کرب قیس پر بازی لے گیا اور اس نے رات کے اندھیرے میں اس پر حملہ کر دیا اور اسے گرفتار کر کے مہاجر بن امیہ کے پاس حاضر ہو گیا۔ مہاجر نے اس زمانے کے رواج کے بالکل برعکس اسلامی اخلاقیات کا مظاہرہ کیا اور عمرو بن معدی کرب کو بھی گرفتار کر لیا اور ان دونوں کو حضرت ابو بکر صدیقؓ کی خدمت میں مدینہ روانہ کر دیا ۔ یوں عکرمہؓ اور مہاجرکو یمن میں کوئی خاص معرکہ نہ لڑنا پڑا اور اکا دکا جھڑپوں کے بعد عکرمہؓ کو حکم ملا کہ کندہ روانہ ہو جائیں۔ کندہ میں اشعث باغیوں کے سردار تھے ۔ یہ حضرت ابو بکرؓ کی بیٹی ام فردہ کے شوہر تھے انہوں نے مدینہ آکر جب اسلام قبول کیا تھا تب ان کی شادی ام فردہ سے کر دی گئی لیکن بعد میں ایک حادثے کے نتیجے میں وہ باغیوں سے مل گئے ۔ اشعث سے مقابلہ کے لیے مہاجر کو حکم دیا گیا ۔ انہوں نے اشعث کی فوجوں کو شکست دی تو وہ بھاگ کر نجیر کے قلعے میں پناہ گزین ہو گئے ۔ نجیر ایک مضبوط قلعہ تھا اس پر حملہ کرنا آسان نہیں تھا ۔ وہاں تک پہنچنے کے تین راستے تھے ، ایک پر مہاجر کے ساتھی زیاد نے قبضہ کر لیا اور دوسرے پر مہاجر خود قابض ہو گئے ۔ تیسرا راستہ کچھ عرصہ تک کھلا رہا اور یہاں سے قلعے والوں کو سامان رسد اور فوجی امداد ملتی رہی ۔ آخر عکرمہ بھی اپنی فوج کے ساتھ آپہنچے اور انہوں نے اس تیسرے راستے پر قبضہ کر لیا ۔ جس سے محاصرہ مکمل ہو گیا ۔ جب قلعے والوں کو اپنی شکست صاف نظر آنے لگی تو ایک رات اشعث خاموشی سے عکرمہ کے پاس آپہنچے اور کہنے لگے کہ اگر وہ مہاجر سے کہہ کر اس کی اور اس کے نو ساتھیوں کی جاں بخشی کرادیں تو وہ قلعے کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیں گے ۔ عکرمہ کی سفارش پر مہاجر نے یہ تجویز قبول کر لی اور اشعث کو ہدایت کی کہ وہ جن لوگوں کی جاں بخشی کرانا چاہتا ہے ان کے نام لکھ دیں ، اشعث نے اپنے پورے خاندان کے نا م تو لکھ دیے لیکن اپنا نام بھول گیا اور کاغذ پر مہر لگا کر مہاجر کے حوالے کر دیا ۔ اسلامی لشکر نے ان لوگوں کی جاں بخشی کر دی اور باقی فوج کو تہ تیغ کردیا ۔ عورتوں کو گرفتار کر لیا او راشعث کے ساتھ قیدی کی حیثیت سے انہیں مدینہ روانہ کر دیا۔ اس سے قبل مہاجر نے اشعث کا نام فہرست میں نہ پاکر اسے قتل کر دینا چاہا اور اسے کہا : ‘‘ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے تیرے دل پر پردے ڈال دیے اور تو اپنا نام فہرست میں شامل کرنا بھول گیا ۔ میری بڑی خواہش تھی کہ اللہ تجھے ذلیل کرے اب مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔’’ تاہم عکرمہؓ نے بیچ میں دخل دیتے ہوئے کہا : ‘‘آپ اسے قتل نہ کریں ، بلکہ اس کا مقدمہ خلیفہ کے حوالے کر دیں ۔’’ مہاجر کو یہ بات اگرچہ ناگوار گزری لیکن انہوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اس حکم کے مطابق کہ عکرمہؓ کا مشورہ مانا جائے ، انہیں عورتوں کے ہمراہ مدینہ بھیج دیا ۔ جہاں توبہ کرنے کے بعد انہیں معاف کر دیا گیا ۔ اسی طرح عمرو بن معدی کرب اور قیس کو بھی معاف کر دیا گیا ، ان تینوں حضرات نے اپنے وعدے کا پاس کیااور اسلام کی بہت خدمت کی ۔ مہاجر کو یمن کا گورنر بنا دیا گیا اور عکرمہؓ کو مدینہ لوٹنے کا حکم ملا۔ حضرت عکرمہؓ کا آخری معرکہ یرموک کی جنگ تھی یہ جنگ حضرت خالد بن ولیدؓ کی سپہ سالاری میں لڑی گئی۔ جب معرکہ یرموک میں مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہو چکی تو سرزمین یرموک میں تین مجاہد لیٹے ہوئے تھے ۔ یہ سب زخموں سے چور تھے اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے سے قاصر تھے ۔ ان میں ایک حارث بن ہشامؓ، دوسرے عیاش بن ابی ربیعہؓ اور تیسرے عکرمہؓتھے۔عکرمہؓ کو جنگ سے پہلے کا منظر یاد آرہا تھا جب انہوں نے موت پر بیعت کی تھی اور انہیں دیکھ کر خالد بن ولیدؓ نے کہا تھا :‘‘اے عکرمہؓ! اس طرح نہ کرو تمہارا یہاں قتل ہو جانا مسلمانوں کو بہت گراں گزرے گا۔’’ عکرمہ ؓ نے کہا تھا :‘‘خالدؓ! آپ پیچھے ہٹ جائیں آپ نے پہلے ایمان لاکر رسول اللہﷺ کی رفاقت حاصل کر لی تھی ، میں اور میرا باپ رسول اللہﷺ کے سب سے زیادہ مخالف رہے مجھے چھوڑ دیجیے تاکہ میں آج اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر سکوں ۔’’ انہوں نے اپنی قسم کا بھرم رکھا ، اور انہیں فتح بھی ملی اور شہادت بھی ۔ اب زندگی کے کچھ لمحے ان کے جسم میں باقی تھے کہ انہیں بہت پیاس لگی ۔ انہوں نے ساتھ لیٹے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا کسی نے پانی کا پیالہ بڑھایا تھا ۔ یہ حارثؓ تھے ۔ انہوں نے پلانے والے کو اشارہ کیا کہ پہلے عکرمہؓ کو پلائے ۔ جب پانی ان کے قریب گیا تو عیاشؓ نے ان کی طرف دیکھا ۔ حارثؓ کی طرح انہوں نے اشارہ کیا کہ پانی پہلے عیاشؓ کو پلایا جائے ۔ پانی پلانے والا جب عیاشؓ کے قریب پہنچا تو ان کی روح بدن کا ساتھ چھوڑ چکی تھی ۔ وہ جب واپس عکرمہؓ کے پاس آیا تو وہ بھی بجائے پانی کے شہادت کا جام پی چکے تھے ۔ اور جب حارثؓ کے پاس پہنچا تو وہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ۔