عبدالرحمان عوف اور ہمارا معاشرہ

مصنف : شعيب باجوہ

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : جنوري 2023

جب آپ کی وفات ہوئی تو ترکے میں’’کرنسی‘‘کی مد میں 3 ارب 20 کروڑ 10 لاکھ دینار چھوڑے تھے۔ ایک دینار گول سونے کا کچھ بھاری سا سکہ ہوتا تھا جو کہ ساڑھے 4 ماشے کے برابر تھا اور اسوقت ایک ماشہ پاکستانی 6 یا 7 ہزار روپے کا ہے۔ ایک ہزار گھوڑے، ایک ہزار اونٹ اور 10 ہزار بکرے، بکریاں اور مویشی اس کے علاوہ تھے۔ مدینے اور اس کے اطراف میں بے شمار زمینیں تھیں، جبکہ آپ کی جائیداد میں سونے کی سلیں تک موجود تھیں۔ وفات کے بعد ان سلوں کو کلہاڑوں سے کاٹا گیا۔ مزدوروں نے صبح کاٹنا شروع کیا تو شام ہوگئی اور مزدوروں کے ہاتھ تک سوج گئے۔آپ کی وفات کے وقت آپ کی چاروں ازواج حیات تھیں ا۴ور بیوی کے حصے میں جائداد کا آٹھواں حصہ آتا ہے۔ آپ کی ایک ایک بیوی کے حصے میں کرنسی کی صورت میں 4 لاکھ دینار یعنی 400 ملین درہم آئے۔
یہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ تھے جن کو نہ صرف بدری صحابی ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ یہ ان 10 صحابہ میں آٹھویں نمبر پر موجود ہیں جن کو رسول اللہﷺ نے دنیا میں ہی نام لے کر جنت کی بشارت دی تھی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اسلام سے پہلے بھی تجارت ہی کیا کرتے تھے اور حضرت عثمانؓ کے بہترین دوستوں میں شامل تھے۔ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو بالکل مفلوک الحال ہوچکے تھے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان کی مواخات بھی ایک انصاری صحابی سے کروادی۔ آپ نے ان انصاری صحابی سے صرف دو سوال کئے: 1) بازار کہاں ہے؟ 2) کونسے کاروبار کی مارکیٹ میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے؟
اس کے بعد سے عبدالرحمن بن عوفؓ نے جانوروں کے گلوں میں باندھنے والی گھنٹیوں کا کام شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ عرصے میں مارکیٹ سے یہودیوں کی اجارہ داری اور قبضہ ختم کروا دیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے مدینے میں جو مارکیٹ قائم کی تھی آپ وہاں کے چھوٹے تاجروں کو کم منافع اور بلاسود مال بھی سپلائی کرتے تھے۔ آپ جو کماتے اس کے دو حصے کر دیتے تھے، ایک دفعہ 8 ہزار دینار کمائے تو 4 ہزار اللہ کے نبیﷺ کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ آپﷺ نے پوچھا گھر پر کیا چھوڑا؟ فرمایا اتنا ہی ہے جتنا لے کر آیا ہوں۔ آپﷺ نے دعا فرمائی’’اے اللہ! عبدالرحمن جو رحمان کا تاجر ہے اس کے دونوں مالوں میں جو یہاں لے کر آیا ہے اور جو گھر پر چھوڑ کر آیا ہے اس میں برکت عطا فرما‘‘۔ عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں مٹی کو بھی ہاتھ لگاتا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی۔
ایک دفعہ مدینے میں ریت کا طوفان آ گیا۔ لوگ حیران پریشان گھروں سے باہر نکل آئے، ام المومنین حضرت عائشہؓ بھی دروازے پر آ گئیں اور پوچھا یہ طوفان کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ عبدالرحمن بن عوفؓ کا تجارتی قافلہ آیا ہے۔ آپ نے حیرت سے دریافت کیا؛ بھلا تجارتی قافلہ بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عین وسط شہر میں 700 سامان سے لدے اونٹ کھڑے تھے۔ عبدالرحمن بن عوفؓ روتے جاتے اور لوگوں میں سامان بانٹتے جاتے تھے حتی کے پورے 700 اونٹوں کا سامان لوگوں میں تقسیم کر دیا۔
مجموعی طور پر اسلام اور اسلامی معاشرے کا مزاج یہی ہے کہ تجارت اور کاروبار کو فروغ دیا جائے جبکہ نوکری اور غلامی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اسی لئیے رسول اللہﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ: رزق کے 10 دروازے ہیں جن میں سے 9 تجارت میں کھلتے ہیں اور باقی 1 میں دوسرے تمام شامل ہیں‘‘۔
لوگ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ اسلام تبلیغ سے پھیلا یا تلوار سے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اسلام تجارت سے پھیلا ہے۔ مسلمان بے انتہا وسیع سوچ کے مالک تھے۔ یہ خود کو’’برانڈ‘‘بنانا اور ’’ برانڈ ‘‘ کرنا جانتے تھے۔ مسلمانوں نے خود کو کبھی بھی مکہ، مدینہ یا عرب تک محدود نہیں کیا۔ یہ ایران، عراق اور ہندوستان سے ہوتے ہوئے جزائر غرائب الہند تک پہنچ جاتے تھے اور اپنی ’’ برانڈ ‘ ‘ ساری دنیا میں متعارف کرواتے تھے۔ ان کی برانڈ کا نام’’اسلام‘‘تھا۔ مقصد اسلام ہوتا تھا اور نتیجے میں پیسہ بھی ملتا تھا۔ یہ کپڑے میں نقص اور عیب بتا کر بیچتے تھے، یہ بارش کے بعد گاہک کو بتاتے تھے کہ بارش کی وجہ سے گندم گیلی ہوگئی ہے اسلئے ہم اس کو اس کی اصل قیمت سے کم پر بیچیں گے۔ یہ معمولی فائدے پر بھی گاہک کو اچھی چیز بیچ دیتے تھے اور بیچا ہوا مال واپس بھی لیتے تھے اور تبدیل بھی کرتے تھے۔
ہم ایسی دوغلی قوم ہیں کہ ہم دو دو روپے کمانے کے لیے جھوٹ بھی بولتے ہیں اور چونا بھی لگاتے ہیں۔ لیکن کاروبار کرنے والوں کو چور لٹیرا بھی سمجھتے ہیں بلکہ لینے والا بھی یقین سے گیا اگر 100 میں سے کوئی دوکاندار سچ بولے کوئی اس سے کچھ لیتا ہی نہیں بلکہ اسے برا بلا بھی کہتے ہیں جو زیادہ مہنگا بیچے اس پر یقین زیادہ کیا جاتا ہے جو ایمانداری سے کچھ سستا بیچے لوگ شک کی نگاہ سیدیکھتے ہیں اسے۔ اور ان سے حسد بھی کرتے ہیں۔ آج ساری دنیا کو یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ امپورٹ، ایکسپورٹ، سرمایہ کاری اور تجارت کرنے والوں کو عزت دینے سے ملک اور قومیں ترقی کرتی ہیں، لیکن جن کے اباؤاجداد نے 3 براعظموں میں اپنا کاروبار متعارف کروایا وہی اس بات سے ناواقف ہیں۔دنیا میں 500 بڑی آئل کمپنیز ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی کسی بھی مسلمان ملک کی نہیں ہے جب کہ تیل پیدا کرنے والے 11 میں سے 10 ممالک عرب ہیں۔ آپ کو پاکستان کی بڑی بڑی نام نہاد فوڈ چینز اور ہوٹلز کا نام ونشان تک پاکستان سے باہر نظر نہیں آئیگا اور نہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں ہماری کوئی پروڈکٹ ملے گی۔ ہمارا چاول اور آم تک ہندوستان کے نام سے دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔
آپ کمال ملاحظہ کریں کہ مدینے میں یہودیوں کے مقابلے میں جو بازار رسول اللہﷺ نے قائم کیا وہاں پر باہر سے آنے والوں کو ‘‘ٹیکس فری‘‘ماحول دیا گیا۔ وہ وہاں اپنے خیمے لگاتے تھے لیکن ان سے کسی بھی قسم کی کوئی رقم نہیں لی جاتی تھی جب کہ اس کے مقابلے میں یہودی بھاری بھاری ٹیکس لیتے تھے۔ آج کاروباری لوگوں کے لیے اسرائیل ٹیکس فری ہے جبکہ ہمارے ملک میں کاروبار کرنا ہی عذاب بن گیا ہے۔
دنیا میں کوئی ریاست 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرتی ہے اور نہ کرسکتی ہے۔ یہ اپنے ملک میں مکیش انبانی، لکشمی متل، بل گیٹس اور جیف بیزاس جیسے لوگوں کو پروموٹ کرتے ہیں۔ یہ امریکا کو’’بل گیٹس کا امریکا ‘‘کہتے ہیں، لیکن ایک ہم ہیں جو ملک چلانے والے 22 خاندانوں کو سڑک پر لے کر آجاتے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا کاروباری چہرہ دکھانے والوں کو عدالتوں
 میں ذلیل و رسوا کر دیتے ہیں۔
اوباما اور مٹ رومنی کی الیکشن کمپین میں اوباما نے ہر جگہ اپنی تقریر میں اس بات کو دہرایا کہ میں 3 ملین ڈالر پر 21 فیصد ٹیکس دیتا ہوں جبکہ رومنی 21 ملین ڈالر پر صرف 14 فیصد ٹیکس دیتا ہے اور یہ غریبوں کے ساتھ زیادتی ہے، دنیا بھر میں غریب لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ امیروں نے ہماری دولت پر قبضہ کر رکھا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ ساری دنیا کی دولت کو ہر انسان میں برابر کا تقسیم کردیں یہ صرف 5 سال بعد ٹھیک انھی ہاتھوں میں دوبارہ آجائیگی، غریب غریب ہی رہے گا اور امیر دوبارہ امیر بن جائیگا، کیونکہ غربت اور امارت کا تعلق پیسے سے نہیں’’مائنڈ سیٹ‘‘سے ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکا سے لے کر کراچی تک MBA کرنے والوں کو دوسروں کی کمپنیوں کو بہترین انداز میں چلانے کی تربیت دی جاتی ہے، لیکن اپنی کمپنی شروع کرنے اور اسے آگے لے جانے کا کوئی پروگرام سرے سے ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز کے پاس ہے ہی نہیں۔ ہمارا سارا تعلیمی نظام محض غلام اور نوکر پیدا کر رہا ہے اور اس کے دو بڑے نقصانات ہیں۔
1) پہلا نقصان یہ ہے کہ بندے کا توکل اللہ پر سے ختم ہو کر مالک، سیٹھ اور کمپنی پر ہوجاتا ہے، اس کو لگنے لگتا ہے کہ مجھے کھلانے، پہنانے اور پرورش کرنے والا میرا باس ہے، یہ عیاشیاں اور مہینے کا راشن اسی کا مرہون منت ہے اور جس دن اس خدا (باس، کمپنی، سیٹھ) کا سایہ نعوذ باللہ میرے اوپر سے اٹھ گیا میں کنگال ہوجاؤنگا یا شاید سڑک پر آجاؤنگا اور میرے بیوی بچے بھوکے مر جائینگے۔
2) دوسرا نقصان یہ ہے کہ بندے کو اپنی قدر و قیمت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کو 60 لاکھ کمانے کے لیے پیدا کیا ہو اور وہ زندگی بھر 60 ہزار کو ہی اپنا مقدر سمجھتا رہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعے سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بدلنے والی ہوں اور وہ اپنی ساری صلاحیتیں بس اپنے بیوی بچوں کو ہی خوش کرنے میں لگا دے۔
بہرحال، ہمارے گھروں اور تعلیمی اداروں میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نوکری اور غلامی کے بجائے کاروباری ذہن اور تجارتی مزاج پروان چڑھایا جائے تاکہ ہمارے بچے دولت کے خوف اور پیسے کی جکڑ بندیوں سے باہر نکل کر بھی کچھ کر سکیں۔ 

سیرت صحابہ
حضرت عبدالرحمانؓ ابن عوف اور ہمارا معاشرہ
شعیب باجوہ