سيدنا عثمان رضي اللہ عنہ

مصنف : مفتی محمد زاہد

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : اگست 2023

سيرت صحابہ

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ

ابو الحسين آزاد—مفتي محمد زاہد

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں عظمت اور عبقریت کے عجیب و غریب اور نادر پہلو جمع ہو گئے ہیں۔ آپ صرف اُن کے قبولِ اسلام ہی کو لے لیجیے۔ ابتدائے اسلام کاوہ زمانہ جب قریش کی ساری سیاسی اور اقتصادی اشرافیہ اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ ہے اور انھیں نظر آرہا ہے کہ یہ نیادین کس طرح سے ہماری ارسٹوکریسی اور تھیوکریسی کے لیے پیغامِ رحیل ثابت ہو گا اور جلد ہی ہماری باطل عظمتوں کے قصر چکنا چور ہو کر زمین پر جا گریں گے۔ خصوصیت سے بنو امیہ جن کی بنو ہاشم سے خاندانی رقابت نے مخالفت کی اس آگ کو مزید دو آتشہ کر دیا تھا۔ عین اسی بنو امیہ کا ایک جلیل القدر فرزند اپنا سب کچھ پیغمبرِ خدا کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔ایک غریب یا کمزور آدمی کی بنسبت یہاں اشرافیہ کے لیے اسلام میں دلچسپی کے اسباب بہت تھوڑے تھے اور خطرات بہت زیادہ تھے۔

حضرت عثمان کے قبول اسلام کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے کہ ایک طرف شرف، عزت، سرداری اور وقار کھڑے ہیں جب کہ دوسری طرف نسبتاً ایک غریب اور رقیب قبیلے کا فرد آواز لگا رہاہے: میری غلامی میں آجاؤ، فلاح پاجاؤ گے۔ حضرت عثمان دیکھ رہے ہیں کہ لا الہ کا یہ اقرار اپنے ساتھ کیا کچھ طوفان اور سونامیاں لے کر آئے گا لیکن اُن کے اندر کا حق پرست ایک لمحے کے لیے بھی تذبذب کا شکا رنہیں ہوتا، ادھر انھیں صدیقِ اکبر کی دعوتِ صدق وصفا پہنچتی ہے اور اُدھر وہ لبیک، لبیک کی ندا لگاتے دارِ ارقم میں حاضر ہو جاتے ہیں۔عباس محمود عقاد لکھتے ہیں:

فمنھا نفھم أن فضل عثمان في إسلامه لا يدانيه أحد من السابقين المعدودين إلى الإسلام؛ إذ لم يكن منهم من أقامت أسرته بينها وبين النبي هذه الحواجز العريقة من المنافسة والملاحاة. (عبقرية عثمان ٤٥)

اس قبولِ اسلام کا ردعمل جو کچھ ہونا تھا وہ ظاہرہے۔ اُن کے چچا نے انھیں جس طریقے سے تنگ کیا اور تکلیفیں دیں وہ مشقتوں کے عادی شخص کے لیے تو پھر بھی کچھ سہل ہو سکتی ہیں لیکن سرادری اور ثروت میں پلنے والے عثمان کو جس جسمانی اور نفسیاتی کرب سے گزرنا پڑا ہو گا میں اور آپ صرف اس کا سوچ ہی سکتے ہیں۔اُنھیں قریش سے اتنی ایذا پہنچی کہ وہ مدینہ کی ہجرت سے بھی بہت پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ مدنی زندگی میں حضرت عثمان جس طرح بڑھ چڑھ کر اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرتے ہیں وہ عظمت کا ایک مستقبل باب ہے۔ وہ مسجد کے لیے زمین خرید تے ہیں، اہلِ مدینہ کے لیے کنواں خریدتے ہیں اور تبوک جیسے عُسرت اور تنگی کے زمانے میں اپنی دولت کے ڈھیر بارگاہِ رسالت کی چوکھٹ پہ رکھ دیتے ہیں۔ اُن کے اِس عمل کی قبولیت اور عظمت کا اندازہ ذرا اُس مسرت اور خوشی سے لگائیے جو اُس وقت حضور رسالت مآبؐ کے چہرے پر کھیل رہی تھی اور آپ عثمان کے صدقے کو اچھال اچھال کر فرمارہے تھے: ما ضر عثمان ما عمل بعد اليوم. آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل اُسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔اوراُن کو شہادت کو دیکھیے تو جیسے ذبحِ عظیم کی تفسیر سامنے آگئی ہو۔یہاں ہمیں اُ ن کی شخصیت میں عقیدے کی عجیب وغریب تاثیر نظر آتی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں محافظ اُن کے گرد کھڑے ہیں لیکن وہ ایک لمحے کے لیے بھی گوارا نہیں کرتے کہ اُن کے ہاتھ پر کسی مسلمان کا خون لگے یا وہ، وہ پہلےشخص بنیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم کی حرمت کو پامال کرے۔ہم بعد کے ادوار میں دیکھتے ہیں کہ خلفاء نے کس طرح ادنی سی ادنی مزاحمت کرنے والوں کے سروں کو بھی نیزوں میں پرو کر نشانِ عبرت بنایا لیکن حضرت عثمان دیکھ بھی رہے ہیں کہ شہادت اُن کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور باغیوں کی شورش کی آگ اُن کی معزولی یا اُن کے خون کے علاوہ کسی تیسری چیز سے نہیں بجھنے والی، یہاں کون سی آڑ ہے جو عثمان کو حرہ، کربلا اور کوفہ برپا کرنے سے روک رہی ہے۔ یہ عقیدے کی قوت ہے۔وہ ایک طرف خلافت کی اُس قمیص کی بھی حفاظت کر رہے ہیں جو اللہ نے انھیں پہنائی ہے اور رسول اللہ نے انھیں اُسے پہنے رکھنے کی تلقین کی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کے خون کی بھی حفاظت کر رہے ہیں۔ وہ اگر محض اپنی حکومت کے طالب ہوتے تو بھلا جان کیوں دیتے؟ مرنے کے بعدکون سی خلافت باقی رہ سکتی تھی؟اپنے عقیدے کی حفاظت کی خاطر قربانی دینے والے بہت لوگ دیتے ہیں لیکن یہاں پر عقیدے کی عطا کردہ تعلیم پر عمل پیرا ہونے کی خاطر حضرت عثمان اپنے خون کی قربانی دے رہے ہیں۔ اُن کا عقیدہ، اُن دین اور اُن کا ایمان انھیں یہ بتاتا ہے کہ کسی مسلمان کا خون نہیں بہانااور رسول اللہ کے حرم کی حرمت پامال نہیں کرنی بھلے اپنی جان بھی چلی جائے۔عباس محمود عقاد لکھتے ہیں:

وكان الخير فيه ذلك الإيمان الصادق الذي صمد به شيخ في التسعين للكرب المحيق به، وهو ظمآن محصور في داره بغير نصير، ولو شاء لكان له ألوف من النصراء، يريقون البحار من الدماء حيث عزت قطرة الماء. (عبقرية عثمان ١٦٧)اس حادثہ میں خیر (اور سبق) یہ ہے کہ ایمانِ صادق جب اپنا جلوہ دکھاتا ہے تو ایک نوے سالہ بوڑھا شخص جس کو ہر طرف سے گھیرلیا گیا اور گھر میں محصور کردیا گیا ہے، وہ تنہا اور بے یار و مددگار رہتا ہے لیکن اپنے لیے کسی کی جان کو خطرہ میں نہیں ڈالتا، حالاں کہ اگر وہ چاہتا تو اُس کے ہزاروں جاں نثار اُس جگہ جہاں پانی کا ایک قطرہ ملنا دشوار ہوگیا تھا خون کی ندیاں بہا دیتے۔

حضرت عثمان اور مسجد نبوي كي تعمير نو

مفتي محمد زاہد

آج کل حجاج کرام کی بڑی تعداد سعودی عرب میں موجود ہے۔ یہ سب حضرات مدینہ منورہ بھی حاضر ہوچکے ہوں گے یا ہوں گے۔ مدینے کی حاضری کے دوران ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجد نبوی میں بلکہ زیادہ سے زیادہ قربِ رسول ﷺ میں گذاریں، اکثر ایک نماز کے لئے جاتے ہیں تو کئی نمازیں پڑھ کر ہی بلڈنگ یا ہوٹل واپس آتے ہیں۔ یہ سب اس لئے ممکن ہوتا ہے کہ مسجد نبوی کی عمارت میں خوب صورتی کے علاوہ راحت رسانی کا بھی پھر پور انتظام ہے، دنیا کا شاید سب سے بڑا اور سب سے اعلی ائیر کنڈیشننگ کا نظام ان کی عبادت کو آسان کرنے کے لئے موجود ہوتا ہے۔ عہد نبوی سے عہدِ فاروقی تک مسجدِ نبوی کی تعمیر کا جو سادہ انداز تھا وہ اپنی جگہ ہماری تاریخ کا قابلِ فخر حصہ ہے، لیکن اسی دور کے عشاق کی شان کے لائق تھا۔ آج اگر اسی انداز کی تعمیر ہوتی تو فرض نماز کی چار رکعتوں کے دوران ہی اتنا پسینہ آتا اور گرمی لگتی کہ آج کے عاشقوں کا عشق نبوی چار رکعتوں میں ہی پگھل جاتا اور سلام پھیرتے ہیں اذکارِ مسنونہ پڑھے بغیر ہی اپنے کرتے یا قمیص کو حرکت دیتے ہوے اور گریبان میں پھونکیں مارتے ہوے باہر بھاگتے، چند لوگ ہی اس سے مستثنی ہوتے اور اگلی نماز میں بھی عین اقامت کے وقت مسجد میں داخل ہوتے۔کبھی غور کیا کہ آج حجاج اور سال بھر کے معتمرین وزائرین کی مجموعی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہوتی ہوگی۔ یہ سب اتنے سکون سے عبادات کرلیتے ہیں تو یہ کس کا صدقہ جاریہ ہے۔ ہوا یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب مسجد نبوی کی تعمیر نو کا مرحلہ آیا تو انہوں نے مسجد کو جدید ترین انداز سے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ، بعض حضرات کو اعتراض بھی ہوا کہ سلف کے طریقے سے انحراف ہے، لیکن حضرت عثمان نے ماضی یا حال کی بجاے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوے پورے شرح صدر کے ساتھ کام جاری رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر خلافتِ راشدہ میں یہ کام نہ ہوتا تو بعد میں کسی کے لئے اندازِ تعمیر میں تبدیلی ممکن نہ ہوتی۔ وقتی اعتراضات ختم ہوگئے اور بعد میں سب تسلیم کررہے ہیں کہ حضرت عثمان کا فیصلہ درست تھا۔مسجد نبوی کی تعمیر میں بہت سوں کا حصہ ہے، بانی تو سید المرسلین ﷺ ہیں، وہ یتیم جنہوں نے زمین مفت دینے کی پیش کش کی، وہ ابوبکر جنہوں نے قیمت ادا کردی، وہ صحابہ جنہوں ایمانی جوش وجذبے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل اپنے ہاتھوں سے تعمیرکی، وہ عمار جو سب سے زیادہ سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے (وعمار یحمل لبنتین لبنتین) وہ عثمان جنہوں نے خالص اپنے مال سے جگہ خرید کر توسیع کی وغیرہ وغیرہ نہ معلوم کتنے کردار ہیں ، مسجد نبوی ان سب کا صدقہ جاریہ ہے۔ لیکن آج کروڑوں لوگ وہاں سکون واطمینان کے ساتھ طویل وقت جو گذار لیتے ہیں اس کا سب سے زیادہ اجر وثواب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی جاتا ہوگا (من سن سنۃ حسنۃ الخ) اور وہ اس حوالے سے سب سے بڑے محسن ہیں۔ اس میں ان کی انفرادیت یہ ہے کہ باقی جس نے مسجد نبوی میں کوئی کردار ادا کیا اس کو اس وقت بھی شاباش اور تحسین ضرور ملی ہوگی جبکہ حضرت عثمان کے حصے میں وقتی طور پر تنقید آئی، حالانکہ اس میں ان کی ذات کا دھیلے کا بھی فائدہ نہیں تھا۔ انہوں نے وقتی تنقید سہہ کر آنے والوں کے راہ کھول دی۔ اب جب آپ کو وہاں حاضری کی سعادت حاصل ہو (اللہ کرے سب کو بار بار مقبولیت کے ساتھ حاصل ہو) تو کم از کم ایک مرتبہ حضرت عثمان کے ایصالِ ثواب کے لئے دو نفل پڑھ کر یہ دعا ضرور کردینا کہ اللہ انہیں اس احسان کا ہماری طرف سے بہترین صلہ عطا فرمائیں۔

حضرت عثمان اور تبوك كا سفر

مفتي محمد زاہد

آپ کی انتہائی فکر مندی کی حالت میں جو آپ کی مدد کرتا ہے آپ کا رواں رواں اس سے خوش ہوجاتا ہے، فرض کریں بیٹی کی شادی ہے ہاتھ میں کچھ نہیں کوئی آکر تعاون کردیتا ہے کتنی خوشی ہوگی آپ کو۔ آپ ایک مدرسے کے مہتمم ہیں طلبہ کے کھانے اور عملے کی تنخواہوں کے پیسے نہیں ہیں کوئی یہ بوجھ اپنے ذمے لے لیتا ہے تو اس کے بارے میں آپ کے جذبات کیا ہوں گے۔ اللہ کے نبی کو سب سے مشکل سفرِ جہاد درپیش ہے، جو کئی پہلوؤں سے انتہائی کٹھن مرحلہ ہے جسے قرآن نے ساعۃ العسرۃ کہاہے۔ اندازہ لگائیں اللہ کے نبی کی فکر مندی کا کیا عالَم ہوگا، جب حضرت عثمان نے بار بار کھڑے ہوکر مدد کے بڑے بڑے اعلان فرماے ہوں گے تو اللہ کے نبی کا جی کتنا خوش ہوا ہوگا۔ اللہ کے نبی نے فرمایا کہ عثمان آج کے بعد جو کچھ بھی کرے اس کی آخرت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ شریعت سے مستثنی ہوگئے، بلکہ بات یہ ہے کہ اللہ کے ہاں فیصلے اعمال کے وزن پر ہوتے ہیں، عثمان اب کچھ بھی کرلے یہ نیکی اتنی بڑی ہے کہ اس کی حسنات کا پلڑا ہر حال میں بھاری رہے گا (اس جیسی بات حدیث میں اہل بدر کے بارے میں بھی آتی ہے اس کا بھی یہی مطلب ہے)۔تو جس سے اللہ کے نبی کا جی خوش اس سے ہمارا جی بھی خوش۔

 

سيدنا عثمان كي حكومت كا آخري دور

مفتي محمد زاہد

سیدنا أمیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ جن کے صاحبِ حیا ہونے کی خبر اللہ کے نبی ﷺ نے دی اور حیا اور ایمان کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے تھے اور قرآن کی رو سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ کو قرض دینے کے مترادف ہے اور اللہ کبھی ڈیفالٹ نہیں کرتا، بلکہ کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔ جن کی طرف سے اللہ کے نبی حدیبیہ میں بیعت کرکے یہ گواہی دی کہ عثمان بھی اللہ کی راہ میں جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہے جبکہ باقیوں نے اپنے بارے میں یہ گواہی خود دی۔ ان کے دور کے آخری حصے کی ایک انتہائی قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس دور میں جس انداز سے حکومت سے اختلاف اور ایجی ٹیشن کو برداشت کیا گیا اس کی مثال آج کے جمہوریت کے بڑے سے بڑے دعوے دار بھی پیش نہیں کرسکتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے طاقت سے مسئلہ حل کرنے کی بجائے حضرت علی کے مشوروں کے مطابق پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی (اگرچہ کچھ لوگ اس طرح کا حل پسند نہیں کرتے تھے، انہی میں سے ایک شخص کے بارے میں حضرت عثمان کی اہلیہ نے حضرت سے کہا کہ علی کرم اللہ وجہہ فلاں سے شخص سے زیادہ تمہارے خیر خواہ ہیں)۔ وہ ذات جس کی بعض پالیسیوں اور فیصلوں سے بعض کبار صحابہ نے اگرچہ اختلاف کیا (اور اختلاف ایک حسن ہے جو جمہوریت والوں کو اب سمجھ میں آیا ہے) تاہم کوئی یہ نہیں کہہ سکا اس ہستی نے منصبِ خلافت کو اپنی ذات یا اپنی اولاد کے مفاد کے لئے استعمال کیا ، مالی طور پر اللہ کا دیا ہوا پہلے ہی ان کے پاس بہت تھا ، لیکن اگر نیت صاف نہ ہو تو ڈالروں سے بھرے سوس اکاونٹس کے باوجود بھی انسان کا پیٹ نہیں بھرتا، لیکن اس ہستی پر ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی اس طرح کا چھوٹا سا الزام بھی نہیں لگا سکا۔ رضی اللہ عنہ وأرضاہ۔