سير ت صحابہ

رفیق نبوت

شاہ محمد جعفر پھلواروی

کوئی تحریک حق ہو یا باطل، دونوں کے پھیلنے کا طریقہ قریب قریب یکساں ہے۔ دونوں کچھ قربانیاں چاہتی ہیں اور دونوں کے لئے مُخلص، معاون و رفیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک غیر مانوس آواز کے اُٹھتے ہی سننے والوں کے دماغ میں کئی بنیادی سوال پیدا ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً اس آواز اور اس پیغام میں کوئی معقولیت بھی ہے یا نہیں؟ یہ پیغام کیا خوشگوار نتائج پیدا کر سکتا ہے؟ اسے کامیاب بنانے کے لئے کن کن خارزاروں سے گزرنا پڑے گا۔ کیا کیا امتحان ہوں گے اور کیا کیا قربانیاں دینی پڑیں گی؟ پھر ہمیں اس کا کیا پھل ملے گا؟ دعوت کی کامیابی کی بھی کوئی توقع ہے یا نہیں؟ اس پیغام كی زد زندگی کے کن کن گوشوں پر پڑتی ہے؟ کن کن قوتوں کی مخالفتیں اور کس درجے کی مخالفتیں مول لینی پڑیں گی؟ کیا کیا خطرات سامنے آئیں گے اور کتنے عرصے تک ان سے دوچار رہنا پڑے گا؟ یہ تمام سوالات ہر نئی آواز کو سنتے ہی ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس دعوت کا ساتھ دیا جائے یا اس سے علیحدگی اختیار کی جائے یا اس کی مخالفت ضروری سمجھی جائے۔ کوئی سی راہ بھی اختیار کی جائے لیکن پہلے ان سوالات کو حل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض سوال ایسے ہیں جن کو صرف عقل حل کرتی ہے۔ بعض کا فیصلہ تجربہ کرتا ہے۔ بعض کی میزان صرف اخلاص ہوتا ہے بعض کے لئے محض سچائی کی تڑپ کسوٹی بنتی ہے اور بعض کے لئے فقط جذبہ ایثار و قربانی پیمانہ ہوتا ہے۔ان سارے سوالات کو ان مختلف ترازوؤں کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئیے۔ ان سوالات کا حل ہفتوں ، مہینوں اور برسوں میں بھی ہو تو کچھ عجب نہیں۔ پھر دعوت حق اور پیغام نبوت کے لئے تو ایک اور بھی بڑی دشواری ہوتی ہے۔ عام سطح بین نگاہوں کو اس پیغام میں نہ کوئی فوری محسوس ہونے والی معقولیت ہی نظر آتی ہے نہ کوئی فائدے کی امید ہوتی ہے۔ دعوت کیا ہوتی ہے؟ لَا اِلٰہ اِلاَ اللہ(اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نصب العین ہی نہیں) فائدہ؟ صرف رضائے الٰہی۔ امتحان؟ سر دھڑ کی بازی، زمین و آسمان کی مخالفت، جان ہتھیلی پر، مال خطرے میں، آبرو نرغے میں۔ کامیابی کی توقع؟ یہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس زندگی میں کامیابی کی کوئی امید؟ اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ اچھا کامیابی کے بعد کوئی دولت، کوئی حکومت، کوئی عہدہ، زن، زر، زمین ملنے کا وعدہ؟ بالکل نہیں بلکہ جو اس کا خواہش مند ہو اسے ادھر آنے کی ضرورت ہی نہیں۔ پھر کیوں ساتھ دیا جائے؟ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔کس کا جگرا ہے جو اس خشک و بے مزہ دعوت کو آسانی سے قبول کرنے کا تصور بھی کر سکے؟

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے--لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

پھر دیکھئیے کچھ زور پکڑنے کے بعد تو چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے بہت سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ دشواری تو اس وقت ہوتی ہے جب اس فلک نیلگوں کے سائے تلے ایک متنفس بھی اس آواز پر لبیک کہنے والا موجود نہ ہو اور پیغام کی بے بسی دنیا بھر کے خطرات کو امڈ آنے کی دعوت دے رہی ہو۔ اصل رفاقت وہی ہے جو اس دور آغاز میں اختیار کی جائے۔ایسی رفاقت کی سعادت اس کائنات میں صرف ایک خاتون کو حاصل ہوئی، جس کا نام خدیجہؓ ہے اور اسی دن دوسرے نمبر پر یہ شرف ایک مرد کو حاصل ہوا، جس کا اسم گرامی ابوبکرؓ اور لقب صدیق ہے۔

اس عزم رفاقت کا ایک خاص پہلو بھی قابل غور ہے۔ آپ ابھی سُن چکے ہیں کہ پیغام نبوت کو سنتے ہی ذہن انسانی میں کتنے فیصلہ طلب اور پُر خطر سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ان کو عقل، وجدان، تجربے، اخلاص، صدق دوستی اور جذبہ قربانی وغیرہ کی کسوٹیوں پر پرکھنا پڑتا ہے۔ یقین، مایوسی اور تذبذب کی بے شمار منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں۔ اگر اس موقع پر ایک آخری اور ابدی فیصلہ کرنا ہو تو اس میں مہینوں اور برسوں بھی لگ جاتے ہیں لیکن یہ سعادت گنتی کے صرف چند نفوس قدسیہ کو حاصل ہوئی ہے۔جنہوں نے دعوت نبوی سُنتے ہی ایک منٹ کا بھی توقف نہ کیا اور فی الفور رفاقت ابدی کا ایک غیر متزلزل فیصلہ کر لیا ۔ ان ہی میں دوسرا خوش بخت انسان صدیقؓ بھی ہے جس نے پیغام سنتے ہی ایک ہی لمحے میں تمام طرح کی میزانوں پر اسے تول لیا اور روح کی انتہائی گہرائیوں کے ساتھ رفاقت کا آخری اور ابدی فیصلہ کر لیا۔

پھر ایک اور حقیقت پر بھی غور فرمائیے کہ انسان میں ایک اور کمزوری یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک فیصلہ کر چکنے کے بعد بھی بعض مراحل پر اسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑتی ہے۔ اپنے آپ کو تولنا پڑتا ہے۔ کبھی شکوک و شبہات اور تذبذب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن جناب صدیقؓ کا شمار اس بلند مرتبہ اہل ایمان میں ہے جس کی پوری تاریخ میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آ سکا کہ اس کی روح کو کسی تذبذب نے آلودہ کیا ہو۔ عزم و یقین میں اور حق رفاقت ادا کرنے میں ہر قدم پہلے سے آگے ہی رہا۔پھر ایک ناقابل تردید حقیقت پر اور بھی غور کیجئیے۔ دنیا میں ہر کسی کے ایک دو رفیق ہوتے ہیں لیکن یہ رفاقت زندگی کے تمام گوشوں میں کہیں نہیں ہوتی۔ معاملات میں رفاقت ہے لیکن نظریات و تصوات میں نہیں رشتے میں رفاقت ہے مگر معاملات میں نہیں۔ صلح میں ہے تو جنگ میں نہیں۔ مذہب میں ہے تو سیاست میں نہیں۔ سب میں ہے تو بعض میں نہیں، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رفقاء میں رفاقت کلی کی سعادت جس خوش نصیب کے حصے میں آ سکی ہے، وہ ابو بکرؓ ہی کی تنہا ذات ہے۔ رسالت کو پوری زندگی میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جہاں یہ تصور بھی کیا جا سکے کہ یہ صدیقؓ حق رفاقت ادا کرنے میں سب سے آگے نہ رہا ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ ازل سے ہی اسے رفاقت نبوی کے لئے چُن لیا گیا تھا۔

صدیق اکبرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈھائی سال چھوٹے تھے اور ڈھائی سال تک خلافت کر کے سن و سال کی مساوات میں بھی حق رفاقت ادا فرما دیا۔ بچپنے سے ساتھ کھیلے ہوئے تھے۔ گویا یہ رفاقت پیدائشی تھی۔ پھر ایمان لانے کے بعد کبھی جدا نہ ہوئے۔ کچھ اہل ایمان جب انتہائی مجبور ہو کر ارض حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تو یہ صدیق بھی ایک دن چل کھڑا ہوا۔ "برک غماد" سے "ابن ادغنہ" یہ کہہ کر کہ آپ کو واپس کھینچ لایا کہ تم جیسے انسان کو ہم کبھی مکے سے نہ جانے دیں گے اس لئے کہ انک تکسب المعدوم و عمل الرحم و تحمل الکل و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق۔۔۔یعنی تم ان ہونے کام بھی کر دیتے ہو، صلہ رحمی بھی کرتے ہو، دوسروں کا بار اپنے سر لے لیتے ہو، مہمان نواز ہو اور پیش آنے والے حوادث میں حق کا ساتھ دیتے ہو۔

تاریخ و سیر پڑھ کر دیکھئیے ایک کافر کی زبان سے ابوبکرؓ کے لئے ہو بہو وہی الفاظ نکلے ہیں جوجناب خدیجہؓ کی زبان سے، پہلی وحی نازل ہونے کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نکلے تھے۔یہ ہے وہ رفاقت جسے ہم کردار کی رفاقت کہہ سکتے ہیں۔ بہر حال حضرت صدیقؓ اکبر ہجرت حبشہ نہ فرما سکے، اس لئے کہ آپ کی رفاقت کا انقطاع قدرت کو منظور نہ تھا۔

جب ایک ایک کر کے تمام اہل اسلام مدینے کی طرف ہجرت کر گئے تو رسول اللہؑ کی رفاقت سفر کے لئے کون رہ گیا؟ تنہا ابوبکر صدیقؓ حضور اکرم ؑ چلتے چلتے تھک گئے تو اسی رفیق سفر نے حضورؑ کو اپنی پشت پر اٹھا لیا اور نوکیلے پتھروں سے اپنے پاؤں میں ٹھوکریں کھاتا ہوا کسی طرح غار ثور تک پہنچ گیا۔ یہی وہ مقام رفاقت ہے جسے چشم فلک بھی رشک کی نگاہوں سے دیکھتی رہی اور جس نے عمر فاروقؓ کو "مبادلہ اعمال" کے لئے بے چین کر دیا۔ ایک جانب عمرؓ نے عرض کیا کہ۔۔۔۔"اے ابوبکرؓ آؤ ہم تم اپنے اپنے اعمال کا مبادلہ کر لیں۔ میری ساری عمر کی نیکیاں تم لے لو اور مجھے صرف شب ہجرت کی وہ نیکی دے دو جب کہ تم رسول اللہؑ کا مرکب بن کر اپنے زخمی پاؤں کے ساتھ غار ثور کے دہانے پر پہنچے اور غار میں تمہارے سوا کوئی بھی رسول اللہؑ کی رفاقت میں نہ تھا"

حقیقت یہ ہے کہ آفتاب رسالت اور ماہتاب ولایت کا تین دن تک برج ثور میں رہنا ایک ایسی عجیب رفاقت ہے کہ جسے بروج فلک نے ایک ہی بار دیکھا تھا۔ یہ وہ شرف رفاقت ہے جس میں اس رفیق غار کا کوئی سہیم و شریک نہیں۔ رفیق کے لئے عربی زبان میں "صاحب" کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے اور اس پوری کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے اور ایک ہی موقع ہے جس کے لئے جہاں کے لئے اللہ کی زبان نے صاحب یعنی صاحب محمد کا لفظ استعمال کیا ہے ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا(التوبہ آئت40)وہ رسول دو میں کا دوسرا تھا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے اور وہ رسول اپنے صاحب یعنی رفیق سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے۔

یوں تو حضورؑ کے تمام ہی رُفقا کو اصحابؓ اور صحابہؓ کہتے ہیں جو صاحب کی جمع ہے لیکن قرآن ان سب کے لئے وَالّذینَ مَعَہُ کا لفظ استعمال کرتا ہے اور صاحب کا لفظ صرف ایک ہی ہستی کے لئے استعمال کیا ہے اور وہ ہستی صرف جناب ابو بکر صدیق ؓ ہیں یہی وہ رفاقت غار ہے جس کی وجہ سے "یار غار" کا محاورہ ایک ضرب المثل بن گیا۔ رفاقت یہیں ختم نہیں ہو جاتی آگے چل کر جب معرکہ بدر در پیش ہوا تو تمام رفقا اپنے اپنے جوہر نبرد آزمائی دکھا رہے تھے اور داد ِ شجاعت دے رہے تھے اور ادھر رسول اللہؑ کے جھونپڑے میں ننگی تلوار لئے پہرہ دینے والا محافظ اور خدا و رسولؑ کے درمیان رازو نیاز کا تنہا سُننے والا راز دار یہی رفیق تھا جو غار میں بھی تنہا ساتھی تھا۔

اس سے آگے ایک اور بڑی عجیب رفاقت اس رفیق کو نصیب ہوئی۔ ڈھائی سال پہلے آنے والا رسول اللہؑ ڈھائی سال پہلے گیا اور ڈھائی سال بعد میں آ نے والا صدیقؓ ڈھائی سال بعد جا کر مل گیا مگر کس طرح؟ رسولؑ ہی کے پہلو میں ابدی نیند سو رہا ہے۔ یہ وہ رفاقت ہے جو قیامت تک باقی رہے گی اور کبھی ختم نہ ہو گی۔ ہر روز ہزاروں صلوۃ و سلام جو بارگاہ نبوت میں پیش ہو کر ساری امت پر تقسیم ہوتے رہیں گے ان میں سب سے پہلا حصہ اسی ابدی رفیق کا ہو گا۔ ہم صلوۃ و سلام کی حقیقت پر اس وقت کوئی گفتگو نہیں کریں گے۔ صرف دو آیات قرآنی پیش کر دیتے ہیں ایک جگہ ارشاد ہے-اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوۃ بھیجتے ہیں۔هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ الخ-اے اہل ایمان اللہ اور اس کے فرشتے تم پر بھی صلوۃ بھیجتے ہیں-

ان دو قرآنی آیات کو سننے کے بعد یہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے کہ صلوۃ و سلام میں

اس رفیق کا کتنا حصہ ہو گا۔ پیدائش سے لے کر وفات تک کی یہ رفاقتیں اور مرنے کے بعد کی یہ ابدی رفاقت ایسی نہیں جو آسانی سے نظر انداز کی جا سکے۔ ان میں سے کچھ رفاقتوں کو علامہ اقبالؒ نے بڑی خوبی سے ایک جگہ یوں جمع کر دیا ہے ؎

ہمت او کشت ملت را چو ابر--ثانی اسلام و غار و بدر و قبر

یہ سب کچھ تو ظاہری رفاقتیں ہیں، ان کے علاوہ باطنی رفاقت کا جہاں تک تعلق ہے، اس کے لئے فرمان رسولؑ کافی ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ ماصب اللہ شیٔا فی صدری الا صببتہ فی صدرِ ابی بکرخدا نے جو کچھ بھی میرے سینے میں ڈالا وہ ایک ایک کر کے میں نے ابو بکرؓ کے سینے میں انڈیل دیا۔

غرض جناب صدیق اکبرؓ کی رفاقت رسولؑ صرف چند پہلوؤں میں نہ تھی بلکہ جسم، روح، قلب، ذہن، مزاج ہر لحاظ سے ایک ایسی تھی اور مکمل رفاقت تھی جس میں کہیں خلا نظر نہیں آتا،یہی وجہ ہے کہ اس رفاقت کے دو اور خاص پہلوؤں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک تو یہ کہ بہت سے صحابہ کرامؓ نے متعدد مواقع پر حضورؑ کی رائے سے صحیح یا غلط اختلاف کیا لیکن صرف جناب صدیقؓ ہی وہ رفیق ہیں جنہوں نے حضورؑ کی کسی بات اور کسی رائے سے کبھی اختلاف نہیں فرمایا۔ صلح حدیبیہ کے واقعات اس پر بہترین گواہ ہیں۔ حدیبیہ کے معاہدہ سے تمام اہل اسلام شکستہ دل ہو رہے تھے لیکن صدیق اکبرؓ ہی تھے جن کے اطمینان و وقار میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا ۔ قیدیان بدر کے متعلق مختلف مشورے بھی اسی حقیقت پر شاہد عادل ہیں۔ سیدنا عمرؓ کی رائے تھی کہ قیدیوں کو قتل کر دیا جائے لیکن صدیق اکبرؓ نے رسول اللہؑ کی رائے سے اتفاق کیا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔

دوسری خصوصیت اس رفاقت کی یہ ہے کہ رفاقت کا حق ادا کرنے میں جناب صدیقؓ سے کوئی بازی نہ لے جا سکا۔ حبش عسرہ یعنی غزوہ تبوک کے چندے کے موقع پر ایثار و قربانی کا اور حق رفاقت ادا کرنے کو جو نمونہ جناب صدیقؓ نے پیش کیا، اسے تاریخ کی آنکھوں نے صرف ایک ہی بار دیکھا۔ نہ یہ اس سے پہلے ہوا نہ بعد میں۔ہر شخص ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر اپنی امداد لے آیا اور جناب صدیق نے اپنے لباس ستر پوشی کے سوا اپنی ساری پونجی لا کر رکھ دی۔ جب رسول اللہؑ نے دریافت فرمایا کہ اپنے اہل و عیال کے لئے کیا رکھا ہے تو یہ رفیق جواب دیتا ہے کہ "اللہ اور اس کا رسولؑ" اس قسم کے ایثار کے بیسیوں مواقع ہیں جن کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ ان رفاقتوں اور ان کے حق کی ادائیگی کی جو قدردانی رسول اللہؑ نے فرمائی، اس کا اندازہ صرف ایک ہی ارشاد سے کرلیجئیے۔ رسول اللہؑ نے اپنے مرض وفات کے دوران جو خطبہ دیا، اس میں بر ملا فرمایا کہ "میرے ساتھ جس نے بھی اور جتنا بھی کوئی احسان کیا ہے، میں نے اپنی زندگی ہی میں اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ لیکن ابوبکرؓ کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکا" اس فرمان کے بعد اس رفاقت کاملہ کے کسی اور پہلو پر کوئی مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔