سوال /جواب

مصنف : دارلاافتاء بنوری ٹاون

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جنوری2015

جواب۔حق تعالیٰ شانہ، بلا شبہ قادر مطلق ہے، اور ہرچیز پر قادرہے۔ مگر سوال میں یہ منطقی مغالطہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی سے عاجز فرض کرکے سوال کیا گیا ہے۔ کیونکہ کسی پتھر کو نہ اْٹھا سکنا عجز ہے۔ اور اللہ تعالیٰ عجز سے پاک ہے۔ پس جب ایسے پتھر کا وجود ہی ناممکن ہے تو اس کی تخلیق کا سوال ہی غلط ہے۔قدرت الہٰیہ ممکنات سے متعلق ہوتی ہے۔ محالات سے متعلق نہیں ہوتی۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب۔صحیح روایات کی رو سے بروز قیامت ہر شخص کو خود اس کے اور اس کے والد کے نام سے پکارا جائے گا۔ ماں کے نام سے پکارنے کا کسی صحیح اور مستند روایت میں تذکرہ نہیں ملتا۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب ۔اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ ’’خدا‘‘ کا استعمال جائز ہے۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں ’’عجمی سازش‘‘ نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ عربی میں لفظ رب ،مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ’’خدا‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جس طرح لفظ ’’رب‘‘ کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا اسی طرح لفظ ’’خدا‘‘ جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پرہوتاہے۔ کسی دوسرے کو ’’خدا‘‘ کہنا جائز نہیں۔
’’اللہ‘‘ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتاہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ ’’صفاتی نام‘‘ ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے۔ اور ہوتاہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ ’’خدا‘‘’’صاحب‘‘اور ’’مالک‘‘ کے معنی میں ہے۔ اور لفظ’’رب‘‘ کے مفہوم کی ترجمانی کرتاہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ ’’رب‘‘ کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائیگا؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ ایسی خودرائی سے اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھیں۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :صورت مسؤلہ میں کمرشل پلاٹ چونکہ حکومت کی ملکیت میں ہے لہٰذاآپ کے لیے صرف اپنا مکان بیچنا جائز ہے، کمرشل پلاٹ کو فروخت کرنا درست نہیں ہے۔ اور جو رقم بچوں نے کمرشل پلاٹ کی تعمیر میں لگائی ہے وہ چونکہ حکومت کی اجازت کے بغیر لگائی ہے ،لہٰذا اب وہ اس رقم کا تقاضا اور مطالبہ کسی سے نہیں کرسکتے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:۔ نماز میں تشھد پڑھتے ہوئے انگلی اٹھا نا متعدد شرعی نصوص سے ثابت ہے،اسی وجہ سے اس پر امت کا تسلسل کے ساتھ عمل چلا آرہا ہے ، حدیث اور فقہ کی تقریباً ہر کتاب میں اس کا ثبوت اور سنت ہونا واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔اس سلسلے میں اگر کسی قسم کا شک وشبہ بھی اگر کبھی پیدا ہوا ہو تو اس کا جواب بھی تفصیلی طور پر دیا گیا ہے،علامہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی سندھی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ٹھوس وقیع رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے،جس کا نام’’نورالعینین فی اثبات الاشارۃ فی التشھدین‘‘رکھا ہے،یہ رسالہ اگرچہ تاحال طبع نہیں ہوا مگر ہمارے پاس اس کا مخطوطہ موجود ہے،اور اس پر تحقیق و تخریج ہو چکی ہے ،رسالہ عربی زبان میں ہے، اہل علم کے فائدے کے لیے طباعت کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ہم یہاں پر ترمذی شریف کی ایک رویت نقل کرنے پر اکتفاکرتے ہیں ’’حضرت عباس بن سہل الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوحمید،ابواسید،سہل بن سعداور محمد بن مسلم رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا ،تو ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں،بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے (یعنی تشھد کے لیے) اور انہوں نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور دائیں پاؤں کا اگلا حصہ قبلہ رخ فرمایا اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پر رکھی اور بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر،اور اپنی انگلی سے اشارہ کیا (یعنی شھادت والی انگلی سے اشارہ کیا)۔امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(ترمذی شریف :38۔1)
مزید تفصیل کے لیے اہل علم حضرات اعلاالسنن،سنن ابی داؤد،سنن نسائی،سنن ابن ماجہ،بدائع الصنائع اور فتاویٰ شامی کی متعلقہ مباحث میں تفصیلات ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
ا

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:1۔ صورت مسؤلہ میں دفتر میں اکیلے نماز پڑھے تواذان و اقامت مستحب ہے البتہ دونوں کے بغیر بھی نماز جائز ہوجائے گی۔
2۔ وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ سوائے مغرب کے اور نمازوں میں کچھ تاخیرکرنامستحب ہے۔
3۔خواتین اذان ہوتے ہی نماز پڑھ لیا کریں، جماعت ہوجانے کا انتظارکرنا ضروری نہیں۔
4۔ فوت شدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہیں تو غالب گمان پر عمل کریں اگر کوئی غالب رائے نہ بنتی ہوتوپھر اتنی قضا نمازیں پڑھیں کہ یقین ہوجائے کہ اب کو ئی نماز ذمے باقی نہیں ہوگی۔
5۔عین طلوع،عین غروب اور دن کے بالکل بیچ کے وقت میں جس کو نصف النھار کہتے ہیں کوئی نماز،سجدہ تلاوت ،نماز جنازہ وغیرہ جائز نہیں سوائے اس دن کی عصرکی نمازکے،وہ غروب کے وقت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :مسجد میں نماز کے لیے بیٹھے ہوئے لوگوں پر جمعہ کی دوسری اذان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ اگر دینا چاہیں تو بغیر آواز کے جواب دے سکتے ہیں
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :لفظ " ض" کو صحیح ادا کرنے کے لیے ماہرِ تجوید قاری کی ضرورت ہوتی ہے ،اس کا صحیح فرق براہِ راست مشق ہی سے سمجھا جا سکتا ہے ،البتہ عوام کو یہ معلوم ہونا کافی ہے کہ لفظ "ض" کی ادائیگی میں "ظ" کی آواز نکلے یا"د"کی دونوں صحیح ہیں اور دونوں طرح پڑھنے والوں کی نمازہو جاتی ہے یہ دونوں لفظ عربی کے ہیں ،نماز میں غیر عربی قرأت جائز نہیں ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:حدیث شریف میں ان دعاؤں کا پڑھنا ثابت ہے لہٰذا صورت مسؤلہ میں نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے الفاظ پڑھ سکتے ہیں ،اسی طرح سجدے میں سبحان ربی الاعلیٰ کے بعد اور تشہد کے آخر میں کوئی بھی دعایا ایک سے زائد دعائیں عربی زبان میں مانگ سکتے ہیں،البتہ اگر امام ہوتو پھر مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے مذکورہ دعائیں نہ مانگے تو کوئی حرج نہیں۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :صورت مسؤلہ میں مشترکہ غسل خانہ اوربیت الخلاجس میں داخل ہونیکے لیے ایک ہی دروازہ ہوتاہے اس قسم کے غسل خانوں میں وضو کے دوران جودعائیں پڑھی جاتی ہیں وہ نہ پڑھی جائے کیونکہ یہ بیت الخلامیں پڑھنا شمارہوگااوربیت الخلا میں اذکار پڑھنے سے شریعت نے منع کیا ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:واضح رہے کہ احادیث میں دعاؤں کی جو برکات اور فضائل وارد ہوئے ہیں وہ ہر شخص کو بقدر یقین حاصل ہوتے ہیں۔ جتنا اس شخص کا ان کے صحیح ہونے پر یقین ہوگا اتنے ہی فضائل اس کو حاصل ہوں گے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دعاؤں کے ذریعے حفاظت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا دعاؤں اور معوذات کے موثر ہونے میں پختہ یقین تھا۔ لہذا جن دعاؤں سے آپ کو مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے دکھائی نہیں دیتے اس میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پڑھنے میں اور اس پر یقین و اعتقاد رکھنے میں کوتاہی ہوتی ہے۔ باقی دعاؤں کے بارے میں جو فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے وہ سو فیصد درست اور سچ ہے۔ 
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:1۔ بچوں کا پیشاب، پاخانہ دھلانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ 
2۔ اولاً تو اتنے چھوٹے بچوں کو جو مسجد اور نماز کے آداب سے واقف نہ ہوں مسجد لے جانا منع ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صراحۃً اس سے منع فرمایا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی پیمپر پہنے بچے کو گود میں اٹھا کر نماز پڑھتا ہے جب کہ اس پیمپر کے ناپاک ہونے کا یقین یا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ہوجائے گی۔ 

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

سنت اور حدیث میں فرق
سوال :میں نے ایک دیوبندی اہلسنت عالم ڈاکٹر علامہ خالد محمود حفظہ اللہ صاحب کا درس سنا، انہوں نے فرمایا کہ" ہر حدیث قابل اتباع یا قابل عمل نہیں ہوتی جو حدیث سنت کے درجے کو نہ پہنچے اس پر عمل جائز نہیں"۔انہوں نے کہا کہ" حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے مگر سنت کبھی ضعیف نہیں ہوتی"۔ نیز فرمایا کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث علم کا ذخیرہ ہیں اور ان کے اندر "سنت" کی تلاش یہ علم اور فقہ کا کام ہے"۔کیا مذکورہ عالم صاحب کا حدیث اور سنت میں یہ فرق کرنا درست ہے ؟ مجھے چند مثالوں سے سمجھا دیجیے۔ کیا أئمہ سلف یعنی حضرات صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین وغیرہ بھی حدیث اور سنت میں اس طرح کا فرق کیا کرتے تھے۔کیا صرف اہلسنت دیوبندی ہی حدیث اور سنت میں مذکورہ فرق کرتے ہیں یا تمام متقدمین محدثین اور ائمہ اہلسنت اور عصر حاضر میں اہل سنت کے دوسرے مسالک بھی اس فرق کو تسلیم کرتے اور بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم کی کونسی بات سنت ہے یہ حدیث مبارکہ ہی سے پتہ چلے گی۔ ایک عمل کو نبی اکرم کی سنت کہا جائے مگر وہ حدیث سے ثابت نہ ہو ، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟

جواب:۔ مذکورہ عالم دین کا حدیث اور سنت کے درمیان فرق کرنا درست ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور بچہ اٹھایا ہواتھا،اسی طرح ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ (کسی وجہ سے) کھڑے ہو کرپیشاب فرمایا،مگریہ دونوں باتیں حدیث سے ثابت ہونے کے باوجود سنت نہیں کہلاتیں، کیونکہ سنت کا معنیٰ ہے "چلنے کا راستہ" اورچلنے کا راستہ وہی ہوتا ہے جس پر بار بار چلا جائے، اس پر آنا جانا معمول کا حصہ ہو، مذکورہ دونوں عمل معمول کا حصہ نہیں تھے اسی لیے انہیں سنت نہیں کہا گیا۔
یہ فرق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر عصرِحاضر کے علماء تک ملحوظ رہا ہے ۔ہمارے علم کے مطابق اس فرق کو تمام مسالک کے حضرات تسلیم کرتے ہیں، اس قسم کے فرق کو سمجھنے کے لیے جو فطری فہم اور ایمانی فراست درکارہوتی ہے اسی کا نام علم اور فقہ ہے۔قرأن ،حدیث اور علم فقہ کا منبع ایک ہی ہے ،الگ الگ تقسیم کرنا اور سمجھنا غلط ہے ان کی باہمی نسبت بالکل ایسی ہے جیسے دودھ، دھی اور مکھن ، اگر ایک حقیقت سے نکلی ہوئی ان مختلف چیزوں میں تضاد نہیں سمجھا جاسکتا تو قران، حدیث اور فقہ میں بھی تضاد سمجھنا سنگین غلطی ہوگی۔ پس ہر سنت کا حدیث سے ثابت ہونا ضروری ہے مگر ہر حدیث کا سنت ہونا ضروری نہیں۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب : لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ طلوعِ فجر تک عشا کا آخری وقت باقی رہتا ہے اگر کسی شخص نے عشا کی نماز نہیں پڑھی اور سوگیا پھر طلوعِ فجر سے پہلے پہلے عشاکی نماز پڑھ لے تو وہ نمازادا شمارہوگی ،قضا شمار نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ عشاکا آخری وقت ہے۔البتہ آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے اس لیے آدھی رات سے پہلے عشاکی نماز پڑھ لیا کرے تاکہ کراہت نہ ہو۔
 

()

جواب :جو نام خلاف شرع ہوں مثلاً معنی اس کا نامناسب ہو جیسے عاصیہ(گناہ گار) یا عجب اور خودرائی وغیرہ کا اظہار اس سے ہوتا ہو، جیسے برّہ (نیکوکار) تو اس طرح کے ناموں کا بدلنا احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ وہ نام جن کا معنی اچھا ہو تو کشیدگی اور بیماریوں سے بچنے کے لیے ان کا بدلنا درست نہیں، بلکہ توہم پرستی میں داخل ہے۔ صورت مسؤلہ میں سائل کے بچوں کے نام محمد عبد الرحمٰن اور آمنہ بھی اچھے اور پسندیدہ نام ہیں ان کو بدلنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بعد کے تجویز کردہ دونوں نام صحیح اور بابرکت ہیں لیکن اس تبدیلی کا جو مقصد ہے وہ توھم پرستی معلوم ہوتا ہے، اس پر توبہ و استغفار کیا جائے اور آئندہ کے لیے اس قسم کے فیصلے کرنے سے پہلے استفسار کیا جائے، نہ کہ بعد میں۔***

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)