سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، سید عمر فاران بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اپریل 2006

ج: قرآن ایک انذار کی کتاب ہے یعنی قرآن خبردار کرتا ہے ، متنبہ کرتا ہے اور بیدار کرتا ہے ۔ عربی زبان کا یہ اسلوب ہے کہ جب آپ ایک بات کی طرف بطور خاص متوجہ کرنا چاہتے ہوں تو اس طرح سے کہتے ہیں یعنی آپ کو معلوم ہوا کہ یہ کیا چیز ہے؟ آپ نے جانا کیا چیز ہے ؟آپ نے غور کیا،کیا چیز ہے؟ ہم اردو میں بھی یہ اسلوب استعمال کر تے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سفر یا بیماری میں آپ نے روزہ نہیں رکھا تو سفر کے ختم ہونے کے بعد اور اسی طرح بیماری سے شفا کے بعد روزہ رکھیں۔لیکن ا گر ایسی صورت ہے کہ سفر میں ہی رہنا ہے اور یا بیماری کے جانے کا امکان ہی نہیں ہے ، تو فدیہ دے دیجیے۔ایک مسکین کا کھانا ایک روزے کے بدلے میں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام میں پہننے کے لیے اگر کوئی لباس خاص کیا گیا ہے تو وہ حیا کا لباس ہے ۔ یہ لباس اگرموجود ہے تو پتلون اور شلوار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اسلام کا لباس اصل میں حیا کا لباس ہے ہے اس کی تلقین کرنی چاہیے اور اسی کے لیے لوگوں کو بتانا چاہیے آج کل صورتحال یہ ہے کہ یہ لباس تو اترتا جارہاہے اور لوگ پتلون ، شلوار اور پاجامے پر لڑ رہے ہیں ۔اسلام نے ان معاملات میں لوگوں کو کسی چیز کا پابند نہیں کیا ۔ آپ جس ملک میں ہیں ، جہاں رہتے ہیں ، جو حالات ہیں ، جو لباس چاہے پہنیں لیکن خدا کے لیے حیا کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے۔ شیطان اصلاً انسان پر دو ہی راستوں سے حملہ کرتا ہے ایک تو حیا ختم کر نے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرے وہ انانیت کے جذبے کو ابھارتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کے سوال کا قرآن نے نہایت واضح اور غیر مبہم جواب دے دیا ہے کہ جو اللہ سے محبت کرنا چاہتا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ اس سے محبت کرے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرا رحجان یہ ہے کہ یہ استعارے کے رنگ میں دنیا کی زندگی کی تعبیر ہے ۔یعنی جو کچھ اس دنیا میں ہمیں مادی طور پر پیش آتا ہے وہ قیامت میں روحانی طریقے سے ہمارے سامنے آجائے گا۔ دنیا کی زندگی پر اگر آپ غور کریں تو یہ پل صراط ہی تو ہے۔شریعت پرعمل بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے ۔میرے خیال میں یہ اسی کی تعبیر اور استعارہ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسلمان لڑکیوں کے لیے کسی بھی غیر مسلم سے شادی کی گنجائش نہیں ۔حقیقی مسلمان اس بات سے کبھی غافل نہیں ہو سکتا کہ اسکی اگلی نسلوں کا کیا ہو گا۔ہندو کو شوہر کی حیثیت سے قبول کرنے کا مطلب گھر میں شرک کو لانا ہے، مورتیوں کولانا ہے ۔ایک مسلمان کے لیے شرک سے بڑا گنا ہ کوئی نہیں تو ایک مسلمان لڑکی اپنے گھر میں کس طرح یہ گواراکرے گی؟اور پھر اولاد کامسئلہ ہے وہ کیا بنے گی؟ کیا مسلمان لڑکی انہیں مشرک دیکھنا گواراکرے گی؟میرے خیال میں یہ قانون سے زیادہ دل کا سوال ہے ۔ آپ شادی کر رہی ہیں کوئی پکنک منانے نہیں جا رہیں۔شادی تو عمر بھر کا فیصلہ ہوتا ہے ہزار با ر سوچنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جہاد شمشیر سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح تعلیم ، معاش اور دعوت کے میدان میں بھی۔ ہر چیز کا ایک موقع ہوتاہے۔ میرے خیال میں تعلیم کے میدان میں جہاد اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ معیشت کے میدان میں جہاد بھی اصل میں اس کے بعد ہی کامیاب ہو گا ۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں سے زیادہ جاہل قوم کوئی نہیں ہے ، مذہبی لحاظ سے بھی اور دنیوی علوم کے لحاظ سے بھی ۔ اس جہالت کو پہلے دور کرنا چاہیے۔یہ دور ہونے سے معاشی میدان میں بھی جہاد شروع ہو جائے گا ۔باقی رہ گئی یہ بات کہ آپ تلوار کب ہاتھ میں اٹھائیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے تو یہ دیکھیں کہ کس کے خلاف اٹھارہے ہیں۔ اللہ نے آپ کو صرف ظلم کے خلاف شمشیر اٹھانے کی اجازت دی ہے اور کسی چیز کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں۔ اور پھر یہ دیکھیں کہ آپ جس ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے جارہے ہیں اس کے لیے مطلوبہ ہمت اور طاقت بھی ہے ؟پہلے خود کو اس قابل کرنابھی ضروری ہے ۔ مسلمانوں کے مستقبل کا انحصار تعلیمی ترقی پر ہے۔ ان کی لیڈر شپ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اگر اس جگہ کھڑی ہو جائے کہ اب ہمیں مسلمانوں کو Educate کرنا ہے ،تو میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ نصف صدی بعد آپ کا اقتدار ہو گا لیکن اس سے پہلے کچھ نہیں ہوسکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فرشتوں کے ساتھ تو کوئی رابطہ نہیں کیا جاسکتا البتہ ان کو خود کوئی رابطہ کرنا ہو تو کر لیتے ہیں اور پوچھ کے نہیں کرتے۔ جنوں کے ساتھ لوگ رابطہ کرنے کے دعوے کرتے رہتے ہیں ۔ اس کے کسی ماہر سے مل لیجیے۔اگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم رابطہ کر لیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ جھوٹ بولتے ہوں لیکن امکان کی بہر حال نفی نہیں کی جا سکتی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل اسی طرح، جیسے اب لوگ انکار کر تے ہیں۔اللہ نے پانچ نمازوں کی صورت میں دن میں کتنی بار سجدے کا حکم دے رکھا ہے۔ بہت سے کر لیتے ہیں اور بہت سے انکار کر دیتے ہیں ۔(اگرچہ عملی انکار سہی انکار تو ہے)۔ ابلیس ہو یا انسان دونوں کو اللہ نے اختیار دے رکھا ہے۔ابلیس نے بھی ویسے ہی اختیار کا استعما ل کیا جیسے ہم کرتے ہیں ۔ غلط بھی کرتے ہیں اور صحیح بھی کرتے ہیں ۔ کتنے لوگ ہیں جن کو آپ کہیے کہ آئیے ذرا اللہ تعالی کے آگے سر جھکا دیں ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی اور آپ اگر زیادہ کہیں گے تو ہو سکتا ہے کہ سرکشی کے ساتھ کہہ دیں کہ نماز میں کیا رکھا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں گے کہ اصل میں تو حقوق العباد ادا کرنے چاہییں۔سجد ہ کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے اللہ کوکوئی سجدوں کی حاجت ہے؟ جبکہ یہی لوگ اپنے باس کے حضور بڑے ادب سے سرجھکا کر کھڑے ہونگے ۔ یہ ہے انسان کی بدقسمتی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کو جب بھی کسی جگہ جاب کرنی پڑے یا باہر جانا پڑے تو بناؤ سنگھا رکے معاملے میں بہت محتاط رہیں۔ باہر سادگی سے جائیں اور یہ بھی کوشش کریں کہ مردوں کے ساتھ خلوت میں بیٹھنا نہ ہو۔ باقی ضرورتاً ایک مجلس میں بیٹھ کر کھا پی لینا ممنوع نہیں ۔البتہ خلوت میں بیٹھنا اور زیب و زینت کو نمایاں کرنے کی کوشش کرناغلط ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ نے بڑا صحیح لفظ استعمال کیاکہ یہ کہانی ہے ۔ کہانی کو کبھی مذہب میں داخل نہیں کرنا چاہیے ۔مذہب تو سچی باتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وسیلے سے دعا مانگنے کا بھی کوئی تصور اسلام میں موجود نہیں۔جو کچھ مانگنا ہے اللہ سے براہ راست مانگیے۔ اسکے دربارمیں کوئی وسیلہ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے اور کسی کا یارا بھی نہیں ہے کہ اسکے دربار میں وسیلہ بن سکے

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ اپنے لیے ایک تلوار فراہم کر رہی ہیں۔تلوار کے اوپر چلیں گی تو پاؤں توزخمی ہو ں گے۔ پاکیزگی برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں اپنے آپ کواس خطرے میں مت ڈالیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے معاشرے میں اس طرح کی چیزیں ہمیشہ سے موجود ہیں اور شاید یہ ہمیشہ رہیں گی کیونکہ انسان مذہب کے معاملے میں بہت تساہل پسند واقع ہو اہے اور ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتا ہے ۔جب کہ حقیقی مذہب مشکل ہوتا ہے۔جب بھی کسی کے سامنے حقیقی مذہب پیش کیا جائے تو وہ زیادہ متوجہ نہیں ہوتا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح مذہب کم ہی مقبول ہوتا ہے البتہ اس میں آمیزش کردی جائے تو لاکھوں کے اجتماع کیے جا سکتے ہیں۔ دین میں دنیا کی آمیزش انسان کو لالچ کی وجہ سے متوجہ کر تی ہے ۔آپ خواتین کو بلائیے ان کو کہیے بی بی دیکھو تم کو ایک دن آخرت میں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اس جواب دہی کے لیے کچھ اخلاقی رویے اپنانے کی ضرورت ہے ، اپنے اوپر کچھ قدغنیں لگانا ضروری ہیں ، اپنے گردو پیش کے ماحول کے اندر حق کی سچی گواہ بن کر رہنا ضروری ہے ، غیبت سے ،چغلی سے، حسد سے ، تکبر سے اور اس طرح کی چیزوں سے پرہیز کرنا ضروری ہے آرائش و زیبائش میں حدود سے تجاوز کرنا غلط ہے ۔تو یہ باتیں بہت رغبت سے نہیں سنی جائیں گی بلکہ اگلی بار خواتین آنے کو بھی تیار نہیں ہوں گی حالانکہ یہ سب باتیں عین دین ہیں اور ان پر سب کا اتفاق ہے ۔ البتہ اگر آپ یہ کہیں کہ بی بی اگر تم روزانہ سورہ یسین پڑھو گی تو شوہر بالکل تمہارا تابع فرمان رہے گا ۔اب دیکھیں دو منٹ میں چہرہ کھل جائے گااور خواتین کہیں گی یہ ہوئی نا دین کی بات۔ یہ چیزیں ایسے ہی رہیں گی ۔ایک سچے مسلمان کو ایسی باتوں میں یہ رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ وہ کسی غلط کام میں شریک تو نہ ہو لیکن اپنے بھائیوں کو محبت سے توجہ دلاتا رہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میری تحقیق یہ ہے کہ یہ شکرانے کی قربانی ہے کوئی کرنا چاہے تو ضرورکرے ۔نفل عبادت ہے اور نفل نماز اور نفل روزے کی طرح ،یہ بھی جو چاہے کر سکتا ہے۔ اولاد کی پیدائش کا شکر ہے جس کا اظہار ہم قربانی جیسی عبادت کے ذریعے سے کرتے ہیں۔یہ کوئی الگ سے عباد ت نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ ایصال ثواب کرنا جائز ہے اور پہنچتا ہے۔اگر ہو تو وہ حدیث مجھے بھی بتائیے ۔حضور کی حدیث تو یہ ہے کہ جب کوئی خدا کا بندہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتاہے۔صرف تین چیزیں جاتی ہیں۔ اور وہ تین چیزیں یہ ہیں کہ اس نے اپنے پیچھے کوئی علم یا عمل کی روایت چھوڑی جس سے لوگ نفع پار ہے ہوں اس کا اجر اس کو ملتا رہے گا ۔ عمل کی کوئی روایت چھوڑی اسکو صدقہ جاریہ کہتے ہیں تو اس کا اجر اس کو ملتا رہے گا ۔ اس نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی وہ اسکے لیے دعائیں کرے گی تو اولاد کاعمل نافع ہو گا اس کے لیے ۔اور اولاد کے عمل کا نافع ہونا خود قرآن میں بھی بیان ہوا ہے ۔اولاد نماز پڑھتی ہے تو وہ نافع ہے ، روزہ رکھتی ہے وہ بھی نافع ہے ، اولاد حج کرتی ہے وہ بھی نافع ہے ۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہ قرآن پڑھ پڑھ کے مردوں کی بخشش کروائی جا سکتی ہے ،یہ بات نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے نہ حدیث میں ۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ امام شافعی کے سامنے جب اس طرح کا واقعہ ہواتو انہوں نے اس پر نہایت سخت تبصرہ کیا اور جب کسی نے سمجھانے کی کوشش کی کہ آخر نیکی ہی کا کام ہے تو انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نیکی کاایسا کام اللہ کے رسول اور صحابہ چھوڑ کے نہیں گئے کہ جو انہوں نے تو نہ کیا ہو اور تم کرنے جا رہے ہو۔ دین میں وہی کام کرنے چاہیےں جو کام پیغمبر اوران کے صحابہ نے کیے ہیں ۔ان حضرات کا عمل ایصال ثواب کے تصور سے خالی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلامی سوسائٹی لیڈر شپ سے بانجھ نہیں ہوئی ، اللہ تعالی اعلی درجے کے لوگ ہر دور میں پیدا کرتے ہیں اور ان کا ایک پورا توازن قائم رکھتے ہیں اس کا فیصلہ اس پر ہوتا ہے کہ کسی سوسائٹی میں اعلی لوگوں کی قدرومنزلت کے کیا جذبات ہیں ۔اس وقت تو عمر بن عبدالعزیز کو اڑھائی سال مل گئے تھے اب تو لوگ دس دن بھی حکومت نہیں کرنے دیں گے ۔ اللہ تو اعلی درجے کے لوگ پیدا کرتا رہتا ہے ۔مگر یہ اعلی درجے کے لوگ پروپیگنڈہ نہیں کرتے۔بس اپنا کام کرتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ایک اجتہادی مسلہ ہے یعنی یہ فیصلہ ہم کو کرنا ہے ، معقول فیصلہ یہ ہے کہ امام پڑھ رہا ہو بلند آواز سے تو سنیے اگر خاموش ہو تو پڑھیے ، جو کام ہم کو کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ حروف مقطعات جہاں ہیں وہیں ان کوہونا چاہیے۔ وہ الگ سے کوئی وظیفہ،اور کوئی ورد نہیں ہیں۔اور نہ ہی وہ اس مقصد کے لیے نازل ہوئے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)