ہمدردی

مصنف : قاضی احمد صہیب

سلسلہ : ادب

شمارہ : فروری 2006

            ‘‘ضرورت کے وقت تو عقل بھی گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔’’ میں نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔ سر سے پاؤں تک گرم کپڑوں میں ڈھکا ، میں صبح کی سیر کے لیے تیار کھڑا تھامگر دستانے تھے کہ ملنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے۔ مجبوراً میں ٹھٹھرتے ہاتھوں کے ساتھ ہی باہر نکل آیا۔ سرد ہوا کے تھپیڑوں کے باعث میں اپنے ہاتھوں کو کبھی بغلوں میں دبا لیتا تو کبھی دونوں ہاتھوں میں پھونک مار کر ان میں حرارت پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔ گلی اور سڑک کے مصافحہ کے مقام پر ایک بنجر درخت کا ٹنڈ منڈ تنا تھا۔ جو دیکھنے والوں کو زمانہ قدیم کی یاد دلاتا تھا۔ اس وقت مجھے کسی تفریحی مقام پر لگے ہوئے ایسے ہی ایک یتیم تنے کا خیال آیا جس پر لکھا تھا: ‘‘ایک کروڑ سال پرانا درخت’’ لوگ اسے دیکھ کر بڑی حیرت سے ایک دوسرے کے چہروں کو تکنے لگتے۔ میں نے سوچا کہ اگر اس بے آسرا تنے پر بھی اسی طرح کا کوئی بورڈ لگوادیا جائے تو اچھے خاصے لوگ یہاں بھی پاگل بن سکتے ہیں۔ پھر میں خود ہی اپنے خیال پر ہنستا ہوا ہاتھوں کو آپس میں ملتے ہوئے تیزی سے اس تنے کے قریب سے گزر گیا۔

            پارک میں داخل ہوا تو صبح کی سحر انگیز فضا نے دونوں بازو پھیلا کر نہایت گرم جوشی سے مجھے خوش آمدید کہا۔ چند لمحے تو اس منظر کی گرمی میں کھو کر میں اپنے ہاتھوں کی اکڑن کو بھول بیٹھا مگر پھر سرسراتی ہَوا نے مجھے اپنی ذات میں واپس لا پھینکا۔ میں نے بمشکل پارک کا ایک ہی چکر لگا کرواپسی کی راہ لی۔ اپنے ہی خیالات کی رو میں بہتا میں سڑک پر چلتا جارہا تھا کہ اچانک میری نظر اسی تنے پر پڑی۔ وہاں کا منظر دیکھ کر میرے اٹھتے قدم بے اختیار رکتے چلے گئے۔ ہاتھ خود ہی جیبوں سے باہر نکل آئے اور میں جیسے کسی جادو کے زیر اثر جہاں تھا وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ وہاں ایک چار پانچ سالہ فرشتہ صفت بچی اپنے اجڑی صورت والے باپ کے ساتھ بیٹھی تھی اور اس شدید سردی میں بھی دونوں کے بدن پر بس واجبی سا لباس تھا۔ بچی کا چہرہ اس قدر روشن اور معصوم تھا کہ اس کی پاکیزگی کے سامنے شعرا کے تمام استعارے شرمندہ شرمندہ سے نظر آرہے تھے۔وہ ایک بند کلی کی ماننداپنے دونوں بازو مضبوطی سے گھٹنوں کے گرد لپیٹے دور خلاؤں میں گھور رہی تھی اور اس کابدن واضح طور پر کانپ رہا تھا۔ اپنے آپ سے بے نیاز اور دنیا بھر سے بے خبر وہ دونوں زمانے بھر کی سردی کو اپنے اندر ذخیرہ کر رہے تھے۔

            ان کی یہ بے چارگی اور چند لمحوں پہلے اپنی ناشکری کا سوچ کر مجھے خود سے نفرت محسوس ہونے لگی۔ میں بے جان جسم اور کھلی ہوئی مردہ آنکھوں کے ساتھ چند قدم کے فاصلے سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ شاید وہ دونوں جم چکے ہیں۔ میں آہستگی سے ان کی طرف بڑھا ۔ ان کی سانسیں تو چل رہی تھیں مگر جسموں میں پلکیں اٹھانے کے لیے بھی مطلوبہ توانائی نہ تھی۔ وہ میری موجودگی کے احساس کے باوجود ویران اور بیگانہ تھے۔ اس بچی کی پیاری آنکھیں،اس کا ٹھٹھرتا بدن؟ مجھے لگا کہ مجھے ان کی کچھ مدد کرنی چاہیے۔بلکہ کچھ کیوں؟ خوب مدد کرنی چاہیے۔اتنی مدد کہ آئندہ انہیں اس حال میں دیکھ کر کسی دوسرے کے قدم نہ رکیں۔ یہ سوچ کر میں ایک نظر ان پر ڈالتا ہوا تیزی سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ میرے دل میں اس وقت جذبات کے کتنے ہی سونامی برپا تھے۔ میرا بس نہ چل رہا تھا کہ میں اڑ کر اپنے گھر پہنچوں اور خود کو بیچ کر ان کی اشک شوئی کروں۔ ایسے میں مجھے اپنی چار سالہ بھانجی ‘‘فاطمہ’’ یاد آئی، وہ چاند سے زیادہ حسین ہے مگر....اس بچی سے وہ بھی کم تھی۔ میں نے سوچا کہ اگر یہاں اس کی جگہ فاطمہ ہوتی تو پھر.....یہ سوچتے ہی میرا پورا بدن بے اختیار ایک جھرجھری لے کر رہ گیا۔ میرے قدم اور بھی تیزی سے اٹھنے لگے۔ میں نے خیال کی کھڑکی کھول کردیکھا کہ میں اس بچی کا ہاتھ تھامے اسے ایک سکول میں داخل کروانے کے لیے جارہا ہوں۔ وہ اجلے کپڑوں اور دھلے چہرے کے ساتھ پریوں کے کسی دیس کی شہزادی معلوم ہوری ہے۔ وہ چڑیوں کی طرح چہچہا رہی ہے اور اسے کھلتا اور کھلکھلاتا دیکھ کر میرا انگ انگ یوں ترو تازہ ہے گویا جنت کی مٹی کا بنا ہو۔ شام کو میں اسے مختلف جگہوں کی سیر کروارہاہوں اور اس کی کوئل جیسی بولی پوری کائنات کو معطر کر رہی ہے........ا تنے میں مَیں اپنے گھر تک پہنچ گیا۔ خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا تو مجھے پھر خود سے گِھن آنے لگی۔ وہ دونوں یوں کھلے آسمان تلے موسم کی شدت سے نبرد آزما اور میں فقط دستانوں کے نہ ہونے پر اس قدر نالاں! میں نے اندر داخل ہو کر ایک ہی جھٹکے سے اونی ٹوپی،لیدر کی جیکٹ اور جوگر،جرابیں دور اتار پھینکیں۔ میں نے کمرے کی تمام کھڑکیاں اور دروازے کھول دیے تا کہ ان کی طرح میں بھی سردی کو بلاواسطہ اپنے بدن پر محسوس کر کے ان کی تکلیف کا اندازہ لگاسکوں۔

            میں خود سے اس قدر خائف تھا کہ میرا دیواروں سے سر ٹکرانے کو جی چاہ رہاتھا۔ میں شدید غصے کی حالت میں ایک جھٹکے سے پلنگ پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ میری نگاہوں کے سامنے پھر وہی منظر گھومنے لگا۔ یخ بستہ ہوا، میں انگلیوں کی اکڑن سے پریشان، معصوم پری کا کانپتا بدن۔ مجھے بچی خلاؤں میں گورتی نظر آنے لگی۔ میں بھی آنکھیں بند کر کے خلاؤں میں گھورنے لگا۔ خلائیں وسیع ہونے لگیں۔ میں بستر پر قدرے نیچے ہوگیا۔ خلائیں....وسیع سے وسیع تر۔ بچی کی گہری پیاری آنکھیں۔ لاشعوری طورپر میں نے کمبل بدن پر کر لیا۔ خلائیں.....گہری آنکھیں.......... چند لمحوں بعد کمرہ میرے خراٹوں سے گونجنے لگا۔