تجھ سا۔۔۔۔۔۔

مصنف : سمیہ مریم عاربی

سلسلہ : ادب

شمارہ : فروری 2006

            بیٹا ! یہ چائے دیکھ رہی ہو ؟ میں نے چونک کر ابو کی جانب دیکھا جنہیں میں نے ابھی ابھی چائے تھمائی تھی ۔ میں سمجھ نہ پائی کہ ابو تعریف کرنے جارہے ہیں یا تنقید ۔ میری سوالیہ نگاہیں پا کر وہ ہلکا سا مسکرائے اور بولے ، ‘‘بیٹاایسا تو نہیں کہ اس چائے میں کہیں چینی زیادہ ہو اور کہیں کم ، کہیں دودھ زیادہ ہو اور کسی جگہ پر کم ’’ میں نا سمجھی سے مسکر ا دی اور بولی ‘‘ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو جی ’’ میرے اس جواب پر ابو بولے ‘‘ ماں باپ کا پیا ربھی اپنے سب بچوں کے لیے ایک جیسا ہوتا ہے، کسی کے لیے زیادہ اور کسی کے لیے کم تو نہیں ہو سکتا ہے ’’ ۔ اور میں اس ساری تمہید کا مقصد سمجھ گئی کہ ابو دراصل مجھے کیا بتانا چاہتے تھے ۔

            مجھے یاد ہے میں اس وقت 9th میں تھی اور ابو سے کسی بات پر ڈانٹ کھانے کے بعد کتھارسس کے لیے ڈائری کا سہارا لیا تھا ۔ یہ دور ایسا ہوتا ہے کہ انسان دماغ کی بجائے دل سے سوچتا ہے ۔ میں نے بھی ڈائری سے خوب شکایتیں کیں جن میں سرفہرست شکایت تھی کہ ‘‘ ابو مجھ سے زیادہ پیار ایما کو کرتے ہیں ’’ ۔ ڈائری ابو کے ہاتھ لگ گئی اور ان سب شکایات کے جواب میں انہوں نے اتنی پیاری مثال دی کہ وہ دن اور آج کا دن میں کبھی بھی اپنے ماں باپ کی محبت پر شک نہیں کرسکی ۔

            آج جب میں یہ سب لکھنی بیٹھی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اللہ جی نے اتنے پیارے ابو کسی کو دیے ہونگے؟ یا شائد ہر بیٹی کو اپنے ابو اتنے ہی پیارے لگتے ہیں جتنے پیارے مجھے لگتے ہیں ۔اگر وہ مجھے یہ سب نہ بھی بتلاتے کہ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں تو بھی میں ان سے اتنا ہی پیار کرتی ، کیونکہ وہ ہیں ہی اس قابل کہ ان سے صرف پیار ہی کیا جائے ۔ سوچتی ہوں کہ ان کی کونسی بات لکھوں اور کونسی چھوڑوں کہ میرے تو الفاظ بھی کم ہیں جبکہ وہ …… وہ صرف اچھے ابو ہی تو نہیں ، وہ تو اچھے بیٹے ، بھائی ، شوہر ، دوست ، ڈاکٹر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بہت ہی پیارے انسان ہیں ۔

            میرے بابا اپنے ماں باپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں ۔ انہوں نے شدید کسمپرسی میں زندگی گزاری لیکن محنت اور کوشش کے ذریعے معاشرے میں اپنا مقام بنایا اور اپنے والدین کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ۔ پھر صرف یہیں تک نہیں بلکہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی اپنی اولاد کی طرح چاہا اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں ۔ انکی دیرینہ آرزو تھی کہ انکے بھائیوں میں سے بھی کوئی ان کی طرح ڈاکٹر بنے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور پھر فطری طور پر انکی یہ خواہش اپنی بڑی بیٹی یعنی مجھ سے وابستہ ہو گئی ۔ اس خواہش کی شدت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جب میں 6th میں تھی تو انہوں نے مجھے چند دن باقاعدگی سے اپنے کلینک پر آنے کو کہا تاکہ میں انجکشن لگانا سیکھ لوں اور میرے اندر کچھ دوائیوں کی سوجھ بوجھ پیدا ہو ۔ وہ شاید مجھ میں مستقبل کی ڈاکٹر تلاش کر رہے تھے لیکن ہر کوئی زینب اور خدا بخش ( میرے دادا اور دادی ) جیسا خوش قسمت تو نہیں ہوسکتا کہ اسے خالد جیسی اولاد مل جائے جو اپنے والدین کی ہر خواہش پورا کرے ۔ مجھ سے مایوس ہونے کے بعد یہ خواہش ایمن سے وابستہ ہو گئی اور خدا کرے کہ ایمن انکی توقعات پر پورا اترے ۔

             میں سمجھی تھی کہ شاید آگ بجھ چکی ہے لیکن آگ میں تو ابھی ایک چنگاری باقی ہے جو شاید وقفے وقفے سے سلگتی بھی رہتی ہے ۔ میں B.A کا آخری پیپر دے کر گھر آئی تو ابو سے اپنا پیپر ڈسکس کرنے لگی کہ یکدم ابو بولے ‘‘ میرا دل چاہتا ہے کہ تم پھر سے چھوٹی ہو جاؤ ، میں تمہیں پھر سے پڑھاؤں اور ڈاکٹر بناؤں ’’ ۔ اس بات نے میرے اندر اتنا شور مچایا کہ میرا دل چاہا کہ کاش وقت پلٹ جائے اور زندگی میں پہلی دفعہ مجھے ایما پر رشک آیا تھا ۔ انسان اپنے حالات اور وقت پر قادر ہو جائے تو وہ کیا نہ کرے ۔

            میں ابو کی اس خواہش کو پورا نہ کرسکی لیکن ابو نے مجھ سے کبھی کوئی گلہ نہیں کیا۔ میں نے F.Sc چھوڑ دی ، میں اسلامک یونیورسٹی میں نہ رہ سکی لیکن ابو خاموش رہے اور میں سوچتی ہوں کہ ایک بندے کے ضبط کی انتہا کیا ہوسکتی ہے ۔ غصہ تو انہیں بھی آتا ہے لیکن بڑی سے بڑی بات کو اس طرح ضبط کر جاتے ہیں کہ کوئی کیا جانے اس بات نے ایوان دل میں کتنے زلزلے برپا کیے ہونگے ۔ وہ اتنے ٹھنڈے مزاج کے ہیں کہ گالی کا جواب بھی خاموشی سے دیتے ہیں ۔ میں نے انہیں ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہوئے دیکھا ہے جس وقت کوئی مریض آجائے ، چاہے اس وقت وہ سو ہی کیوں نہ رہے ہوں ، وہ فورا اٹھ کر اس کا چیک اپ کرتے ہیں ۔ ایک دفعہ سخت بارش میں آدھی رات کے وقت کسی نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا اور ابو سے کہا کہ گھر جاکر مریض دیکھنا ہے۔ ابو خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیے ، یہ بھی نہ سوچا کہ آدھی رات کو طوفان میں واپس کیسے آؤں گا ۔ طوفانی رات میں طرح طرح کے وسوسے آتے ہیں لیکن وہ سب جھٹک کر چل دیے ۔ آج کی اس مادی دوڑ میں جب ہر کوئی جائزوناجائز ہر طریقے سے مال کما رہا ہے ، جبکہ ایک پرائیویٹ جنرل فزیشن بھی ایک دن میں پانچ سات ہزار کما لیتا ہے لیکن میرے ابو …… ایک دن اسی سلسلے میں بات ہوئی تو ابو کہنے لگے کہ ایک ڈاکٹر کے لیے ایک دن میں اتنا کمانا کوئی مشکل نہیں ۔ خواہ مخواہ کے ایکسرے ، مہنگی ادویات ،رپورٹس اور مہنگی فیس کے ذریعے بڑی آسانی سے کمائے جا سکتے ہیں لیکن کیا فائدہ حرام سے پیٹ پالنے کا مجھے اپنے ابو پر بہت فخر ہوا ، یہ تو میں نے خود بھی دیکھا ہے کہ اکثر مریض ابوکوآدھی فیس دیتے ہیں اور ابو خاموشی سے رکھ لیتے ہیں ، کبھی کسی کو بے جا ایکسرے کا نہیں کہتے ۔ اور میں نے اس حلال کمائی کی اپنے گھرمیں برکت بھی بہت دیکھی ہے ۔ابو نے ہمیشہ ہماری ہر جائز خواہش پوری کی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ دنیا تو مسافر خانہ ہے ، تعیشات کیا معنی !

 مزید کیا لکھوں ان کے بارے میں کہ ان جیسے باپ تو قسمت والوں کوملتے ہیں ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ جب کسی کو پتا چلتا ہے کہ یہ ڈاکٹر صاحب کی بیٹی ہے یا میں خود کسی سے اپنے ابو کے بارے میں بات کروں تو وہ مجھے رشک سے دیکھتے ہیں اور مجھے اس بات سے اتنی خوشی ملتی ہے جب کوئی کہتاہے کہ میں اپنے ابو جیسی ہوں۔

            خدا نے اپنے بندوں کو بہت سی نعمتوں سے نوازاہے اور ہر نعمت کی اپنی اہمیت ہے لیکن کچھ نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ، میرے والد بھی انہی میں سے ایک ہیں ۔مزید کیا لکھ‘ں کہ حرف پیچھے رہ جاتے ہیں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے