سیدنا بلالؓ

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : مئی 2007

قسط ۔ ۴

             حضرت بلالؓ مدینہ کے بازار میں خریداری کی غرض سے آئے تھے ۔ ان کے ہمراہ ایک غریب اور مفلوک الحال مسلمان تھا ، انہیں رسول اللہﷺ سے خصوصی ہدایت ملی تھی کہ وہ بازار سے اسے غلہ ، کمبل اور کپڑے خرید کر دیں انہوں نے یہ ساری خریدرای قرض پر کرنا تھی۔ اس وقت مسلمانوں پر تنگ دستی کے حالات تھے ۔ انصار سے جو کچھ بن پڑا تھا انہوں نے اس سے زیادہ کر دکھایا تھا مگر اس کے باوجود نادار مہاجر مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی تھی جو بے سہارا تھی اور ان کے لیے کچھ میسر نہ تھا ۔ ایسے موقعوں پر رسول اللہﷺ نے کئی مرتبہ قرض لیکر ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی تھی ۔ بعض اوقات یہ قرض کسی غیر مسلم سے لینا پڑ جاتا تھا ۔ مدینہ میں یہودی مالدار تھے اور وہی (منفعت پر قرض دیتے تھے اس وقت تک سود حرام نہ ہوا تھا) اس وقت بلالؓ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جس سے انہیں مطلوبہ قرض مل جائے یا مطلوبہ چیزیں ادھار میسر آجائیں ، مگر ابھی تک انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی ۔ یہی وہ موقع تھا جس کی ان کی اذان سے تنگ یہودی کو تلاش تھی ۔ وہ خاصی دیر سے حضرت بلالؓ کو دیکھ رہا تھا جب تین چار جگہ سے انہیں انکار ہوا تو وہ سامنے آیا اور بولا : ‘‘دوست لگتا ہے تمہیں قرض چاہیے۔ ’’ ‘‘جی ہاں !آپ کا خیال درست ہے ۔’’ بلالؓ نے قدرے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ‘‘تو پھر آئیے! میرے پاس گنجائش ہے اور میں آپ کو جانتا بھی ہوں ۔ آپ موذن ہیں اور بلالؓ ہے آپ کا نام مجھے آپ پر اعتماد ہے آپ جتنا چاہیں قرض مل جائے گا ۔’’ حضرت بلالؓ یہودی کی اس فراخ دلانہ پیشکش پر حیران ہوئے اور سوچنے لگے کہ کہیں دال میں کچھ کالا تو نہیں وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہودی تو روپے پیسے کے بڑے حریص ہوتے ہیں ، مگر پھر اپنی مجبوری کا خیال آیا اور انہوں نے اس سے قرض لینے کا ارادہ کر لیا ۔ انہوں نے اپنی ضرورت بتائی کہ کچھ غلہ اور کپڑے خریدنے ہیں اور اسی قدر قرض چاہیے۔ یہودی بولا : ‘‘دیکھو بلالؓ قرض تو میں آپ کو ضرور دوں گا مگر ضمانت کے طور پر آپ کی کوئی چیز میرے پاس رہے گی یہ میرا اصول ہے ۔’’ ‘‘اللہ کے بندے اگر میرے پاس کوئی چیز ہوتی تو کیا میں تم سے قرض لیتا؟’’ ‘‘تو ٹھیک ہے اس شرط پر قرض لے لیں کہ عدم ادائیگی کی صورت میں تم میری ملکیت میں آجاؤ گے ۔’’ اس کی شرط نے حضرت بلالؓ کے لبوں پر خاموشی کی مہر لگا دی ۔ یہ دیکھ کر یہودی بولا ۔ ‘‘آپ پریشان نہ ہوں ، مجھے یقین ہے کہ آپ وقت پر ادائیگی کر دیں گے ۔ یہ تو محض شرط ہے جو میں نے اپنی تسلی کے لیے عائد کی ورنہ مجھے آپ پر اعتماد نہ ہوتا تو قرض ہی کیوں دیتا ۔’’ حضرت بلالؓ نے کچھ تامل کیا اور پھر ہامی بھر لی ۔ یہودی کی آنکھیں چمکیں اور بولا ‘‘ادائیگی کب ہو گی؟’’ ‘‘مہینے کے آخر پر!’’ ٹھیک ہے آپ اگر رقم واپس نہ کر سکے تو اس کے عوض میں آپ پر اپنی ملکیت ظاہر کر سکوں گا۔’’ اور یہودی نے قبیلہ بنو نجار کے معززین کے سامنے حضرت بلالؓ کو قرض کی رقم دے دی ۔ حضرت بلالؓ رقم لیکر خریداری کرنے چلے گئے اور یہودی دل ہی دل میں خوش ہونے لگا اسے یقین تھا کہ حضرت بلالؓ یا ان کے رسول محمد عربیﷺ کے پاس مہینے کے آخر تک اتنی رقم جمع نہ ہو سکے گی اور بلالؓ کو معاہدے کے مطابق اس کی غلامی قبول کرنا پڑے گی اور وہ پھراسے اذان نہ دینے کا پابند کرے گا۔

            اس مہینے یہودی جب بھی حضرت بلالؓ کی زبانی اللہ کی توحید کا نغمہ سنتا دل ہی دل میں اپنے آپ کو دلاسا دیتا کہ بس ایک ماہ ہی کی بات رہ گئی ہے ۔ اس کے بعد اس آواز کا طلسم ختم ہو جائے گا۔ دن گزرنے لگے اور مہینا قریب آگیا ۔ آخری رات کا چاند نیا جنم لینے آسمان سے غائب ہو گیا ۔ اور یہ اس دن کی بات ہے جب مہینا ختم ہونے میں صرف چار دن رہتے تھے ۔ حضرت بلالؓ مسجد نبوی کی طرف جار ہے تھے کہ انہیں اپنے سامنے سے وہی یہودی کچھ دوسرے تاجروں کے ہمراہ آتا دکھائی دیا۔ قریب آکر وہ خاصے درشت لہجے میں حضرت بلالؓ سے مخاطب ہوا ۔ ‘‘اے حبشی ! تمہیں معلوم ہے مہینا ختم ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟’’ حضرت بلالؓ بولے : ‘‘ہاں مجھے معلوم ہے باقی چار دن رہ گئے ہیں !’’ ‘‘تو کیا تم قرض کی ادائیگی کر سکتے ہو؟’’ ‘‘نہیں!’’ ان کی آواز میں ایک انجانا خوف صاف جھلک رہا تھا ۔ ‘‘تو پھر معاہدے کے مطابق میں تمہیں اپنا غلام بناؤں گا اور سن لو یہ قرض میں نے تمہیں یا تمہارے صاحب رسول (ﷺ) کے احترام میں نہیں دیا تھا بلکہ تمہیں اپنا غلام بنانے کے لیے دیا تھا اور جب تم میرے قبضے میں آؤ گے تم سے ریوڑ چرواؤں گا اور تم وہی کام کرو گے جو غلامی میں کیا کرتے تھے ۔’’ یہودی اپنی دھن میں بکتا گیا اور اپنی سازشی ذہنیت کا کھل کر اظہار کرتا گیا ۔ حضرت بلالؓ کی آنکھوں کے سامنے ایک مرتبہ پھر امیہ بن خلف آگیا ۔ وہ سوچنے لگے کیا اس بدطنیت یہودی کی شکل میں امیہ پھر زندہ ہو گیا ہے؟ کیا ایک دفعہ پھر انہیں غلامی کی ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا؟

            یہودی حضرت بلالؓ کو پریشان کر کے آگے چلا گیا اور بلالؓ سوچنے لگے کہ انہوں نے تو ابھی تک اس سارے معاملے کا رسول اللہﷺ سے ذکر تک نہیں کیا اور قرض لینے کا تذکرہ بھلا وہ کرتے کیسے ! انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ آپﷺ کے پاس اب کوئی رقم نہیں حضرت بلالؓ خود آپﷺ کے خزانچی تھے مالی حالت کا اندازہ بھلا ان سے بڑھ کر اور کسے ہو سکتا تھا لیکن اب! اب تو بتانا ضروری ہو گیا ہے ۔ اسی پریشانی کی حالت میں اذان دی نماز پڑھی اور فراغت کے وقت حضورﷺ کے گھر تشریف لے گئے ملاقات کی اجازت چاہی اور حضورﷺ کی خدمت میں گزارش کی ۔ ‘‘اے اللہ کے رسولﷺ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ کے علم میں ہے کہ ایک مسلمان حاجت مند کے لیے میں نے قرض لیا تھا یہ قرض میں نے ایک یہودی سے لیا تھا وہ اب واپسی کا تقاضا کر رہا ہے ۔ اگر میں چار دن تک قرض واپس نہ کر سکا تو اس کے عوض وہ مجھے اپنے پاس رکھ لے گا۔ یہ صورت حال ہے کہ اب ادائیگی کرنے کے لیے نہ میرے پاس کچھ ہے اور نہ آپ کے پاس ۔ یہودی مجھے ذلیل کرنے پر تلا بیٹھا ہے آپ اجازت دیں تو مسلمان دوستوں سے تعاون کی درخواست کی جائے ؟’’ آنحضرتﷺ نے معاملے پر غور کیا اور یہ رائے دی کہ ان حالات میں ایسا کرنا مناسب نہ ہو گا۔ دراصل آپ ﷺ اچھی طرح جانتے تھے کہ مسلمان تو ان کے حکم پر اپنا سب کچھ لا کر ان کے حوالے کر دیں گے ، لیکن ایسا کرنا ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔’’ رسول اللہﷺ کا یہ جواب حضرت بلالؓ کے لیے غیر متوقع تھا ، مگر وہ کچھ نہ بولے ۔ البتہ پریشانی چہرے پر ظاہر تھی۔ وہ سیدھے گھر گئے سوچوں کا شکار ، اندیشوں سے دل فگار، غلامی کے خطرے سے بے حال اس کیفیت نے انہیں ماضی کی تلخ یادوں کی وادی میں دھکیل دیا۔ غلامی کے دن اذیت کے لمحات ، ذلت کا احساس ان پر اس قدر طاری تھا کہ نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ خاصی دیر کروٹیں بدلتے رہے پھر اٹھے اپنی تلوار ، میان ، نیزہ اور جوتے اپنے قریب رکھے اور پھر لیٹ گئے ۔ انہوں نے سوچا کہ وہ صبح ہونے سے قبل کہیں دور جا کر روپوش ہو جائیں گے جہاں وہ یہود ی انہیں نہ پاسکے ۔ اورپھر جب قرض کی ادائیگی کا انتطام ہو گا وہ آ جائیں گے ۔پوری رات وہ اس طرح بے چین رہے ۔ سو جاتے ، مگر پھر بیدار ہو جاتے ۔ آخر صبح ہوئی وہ تیار ہو کر مسجد نبویﷺ کی طرف قدم اٹھانے لگے ۔ راستے میں انہیں ایک صحابیؓ نے رسول اللہﷺ کا یہ پیغام دیا کہ حضور انہیں یاد فرما رہے ہیں ۔ حضرت بلالؓ راستے بھر سوچتے رہے اور اپنے آپ سے پوچھتے رہے کیا اللہ کے رسول مجھے عام مسلمانوں سے مدد لینے کی اجازت دیں گے یا اللہ کی طرف سے وسعت آگئی ہے ۔ اس کیفیت میں دربار رسالت میں حاضر ہوئے ۔ حضور نے فرمایا : ‘‘خوشخبری ہو بلال اللہ نے تمہارا قرض اتارنے کا بندوبست کر دیا ہے ۔’’ بے اختیار ان کی زبان سے الحمدللہ کے کلمات نکلے۔ حضور نے فرمایا : ‘‘کیا تم نے راستے میں لدے ہوئے سامان کے چار اونٹ نہیں دیکھے؟’’ بلالؓ نے جواب دیا ‘‘نہیں میں نے انہیں نہیں دیکھا۔’’ ‘‘تم انہیں باہر دیکھ سکتے ہو ، یہ چاروں اونٹ تمہارے اختیار میں دیے جاتے ہیں ۔ تم انہیں لو اور اپنا قرض ادا کرو ۔’’ حضرت بلالؓ مسجد سے باہر تشریف لے گئے ۔ وہاں کپڑے اور غلے سے لدے چار اونٹ ان کے انتظار میں تھے ۔ یہ اونٹ سامان سمیت ایک امیر تاجر مسلمان نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیجے تھے ۔ بلالؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اونٹوں سے سامان اتار کر انہیں چارہ ڈالا اور خوشی خوشی مسجد واپس گئے۔ اذان دی ، رسول اللہﷺ کی امامت میں نماز پڑھی اور البقیع کی طرف چل دیے ۔ یہاں ایک جگہ اعلان کیا ‘‘جس نے رسول اللہﷺ سے قرض لینا ہے حاضر ہو جائے ۔’’ لوگ آنے لگے اور حضرت بلالؓ سامان میں سے انہیں دے کر حساب چکانے لگے ۔ آخر وہ یہودی بھی آیا حضرت بلالؓ اس کی مکار شکل دیکھ کر کہنے لگے : ‘‘تم اپنا قرض واپس لو ۔ آئندہ میں تم سے کبھی قرض نہیں لوں گا۔’’ یہودی نے سازش کی تھی اور اللہ نے اسے ناکام بنا دیا ۔ اسے اپنی ناکامی پر سخت افسوس تھا ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ عزت و ذلت انسان کے بجائے اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ حضرت بلالؓ نے سارا قرضہ اتار دیا اور ان کے پاس صرف دو اوقیہ سونا باقی بچا۔ وہ واپس مسجد نبوی پہنچے دوپہر کا وقت ہو چکا تھا دیکھا تو حضورﷺ اکیلے مسجد میں تشریف فرما تھے ۔ حضرت بلالؓ سے دریافت فرمایا : ‘‘کیا قرض ادا ہو گیا ہے ۔’’ ‘‘ہاں ! اللہ کے رسولﷺ تمام قرض ادا ہو گیا ۔’’ ‘‘کیا کچھ باقی بچا ؟’’ ‘‘ہاں دو اوقیہ سونا بچا ہے ۔’’ ‘‘میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اس کے بوجھ سے بھی نجات دلاؤ ۔’’ حضرت بلالؓ نے وہ سونا بھی کسی محتاج کو دے دیا اور پھر آپﷺ کو بتایا کہ اب کوئی سامان نہیں بچا اور نہ ہی کوئی محتاج اور سائل باقی بچا ہے ۔ آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔

            زمانے کا پہیہ تیزی سے گردش کر رہا تھا بدر کے بعد احد میں مشرکین مکہ کے ساتھ معرکہ ہوا چند مسلمانوں کی غلطی سے میدان کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کی میدان میں واضح فتح جلد ہی بہت بڑے نقصان میں بدل گئی۔ بلالؓ اس غزوے میں موجود تھے ۔ پھر خندق کا موقع آیا اور بلالؓ نے دوسرے صحابہ کے ساتھ مٹی کھودی اور تن دہی سے کام کیا ۔ اس جنگ میں سارا عرب مدینے پر چڑھ آیا تھا ، لیکن اللہ کی مدد سے یہ ساری فوجیں مسلمانوں کا کچھ نہ بگاڑ سکیں ۔ انسانیت کی رہنمائی کے لیے روشن کیا جانے والا اسلام کا یہ چراغ مشرکین عرب کی پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا تھا غزوہ خندق کے بعد صلح حدیبیہ کا موقع آیا اور مسلمانوں نے مشرکین مکہ سے صلح کا معاہدہ ان کی مرضی کی شرائط پر کیا اور نتائج اپنی مرضی کے حاصل کیے ۔ امن ہونے کے سبب پورے عرب میں اسلام بڑی تیزی سے پھیلا اور آٹھ ہجری میں مسلمان علی الاعلان مکہ پر حملہ آور ہوئے اور مکہ کی مغرور اور اکڑی گردنوں والے کفار میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کا راستہ روک سکیں ۔ صحابہؓ کرام کا پاکیزہ قافلہ بلا روک ٹوک مکہ میں داخل ہو گیا ۔                       اور پھر وہ دن بھی آگیا جس پر چشم فلک بھی حیران تھی اور اہل دنیا حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ۔ بلالؓ اور دوسرے صحابہؓ رسول اللہﷺ کے ہمراہ ایک مرتبہ پھر بیت اللہ کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کر رہے تھے ۔ اس مرتبہ انہیں کوئی منع کرنے والانہ تھا اور نہ کوئی ایک اللہ کی عبادت پر ناک بھوں چڑھانے والا تھا ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی سواری پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کیا ۔ پھر بیت اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے دروازے کو مقفل پاکر حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا کہ عثمان بن طلحہ کو تلاش کریں ۔ عثمان بن طلحہ کے پاس ہی بیت اللہ کے تالے کی چابی تھی عثمان بن طلحہ خاموشی کے ساتھ چابی لے کر حضرت بلالؓ کے ہمراہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ رسول اللہﷺ کعبہ کے دروازے پر کھڑے فرما رہے تھے ۔ ‘‘اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ، اپنے بندے کی مدد کی اور اس نے اکیلے تمام لشکروں کو شکست دی۔ ’’ حضور نے عثمان کو دیکھا اور کہا : ‘‘اے عثمان! لاؤ چابیاں ا دھر لاؤ ، آج نیکی اور وفا کا دن ہے !’’ دروازہ کھولا گیا تو آنحضورﷺ ، بلالؓ ، اسامہ بن زیدؓ اور عثمان بن طلحہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے ۔ دروازہ بند کر دیا گیا رسول اللہ آگے آگے تھے اور بلالؓ ان کے پیچھے ۔ اندر کمرے میں اللہ کے رسولﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی ۔ پھر کعبے کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو دیکھافرشتوں کی تصویروں کو دیکھا ۔ آپ کی تاسف بھری نگاہیں ایک تصویر پر جا ٹکیں یہ اس کعبہ کو تعمیر کرنے والی کی تصویر تھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تصویر ۔ تصویر میں ان کے ہاتھ میں پانسے کے تیر تھے ۔ (پانسے کے تیر قرعہ نکالنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے ) یہ تصویر دیکھ کر آپؐ ضبط نہ کر سکے ۔ فرمایا: ‘‘اللہ ان تصویروں کے بنانے والے کو ہلاک کرے ۔ انہوں نے ہمارے جد امجد کو پانسے پھینکنے والا بنا ڈالا ۔ ابراہیم علیہ السلام کا ان پانسوں سے بھلا کیا تعلق ؟’’ پھر آپؐ نے سورہ آل عمران کی وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں اللہ تعالی نے خود شہادت دی ہے کہ حضرت ابراہیم کا ان گمراہوں سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ایک سچے اور پاکباز مسلمان تھے ۔ اس کے بعد آپؐ نے ایک چھڑی ہاتھ میں لی اور تمام بتوں کو اس کے ذریعے سے منہ کے بل گرا دیا اور زبان مبارک پر یہ الفاظ رواں ہو گئے ۔ ‘‘حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کو تو ملیامیٹ ہی ہو جانا ہے ۔’’ اس کے بعد دروازہ کھلا اور لوگ آنے لگے ۔ اسی جگہ وہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا جس میں قریش مکہ کے بڑے بڑے مجرمین گرنیں نہوڑائے آپؐ کے سامنے آئے اور آپؐ نے ان سب کو معاف کر دیا اور کہا کہ جس طرح یوسف علیہ السلام نے اپنے مجرم بھائیوں کو معاف کیا تھا ، آج میں بھی سنت یوسفی کو آگے بڑھاتے ہوئے تمہیں آزاد کرتا ہوں اس کے بعد کا واقعہ بھی ایک عجیب واقعہ تھا ۔  ( جاری ہے )