مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے

مصنف : اقبال عظیم

سلسلہ : غزل

شمارہ : اپریل 2007

 

مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے
اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے 
 
محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہو ں میں
شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے
 
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اسکو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
 
غرقاب کر دیا تھاہمیں ناخدا نے آج
وہ تو کہو کہ ایک ہمارا خد ا بھی ہے
 
ہو تو رہی ہے کوشش آرائش چمن
لیکن چمن غریب میں اب کچھ رہا بھی ہے
 
اے قافلے کے لوگو ذرا جاگتے رہو
سنتے ہیں قافلے میں کوئی رہنما بھی ہے
 
یہ حسن اتفاق ہے یا حسن اہتمام
ہے جس جگہ فرات وہاں کربلا بھی ہے
 
ہم پھر بھی اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیاعلاج
آنکھیں بھی ہیں چراغ بھی ہے آئنہ بھی ہے 
 
اقبال شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں
ورنہ دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے