سیدنا بلالؓ

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : مارچ 2007

قسط ۔ ۲

            ‘‘یہ تمہاری بھول ہے دوست ، یہ سزائیں تو اس کالے پہاڑ کے لیے لذت کا باعث بن چکی ہیں ۔ میں نے کسی کالی عورت کے بچے کو اس سے بڑھ کر صبر کرنے والا نہیں پایا ۔’’ ‘‘آپ کیا کریں گے اس کے ساتھ ؟’’ ‘‘آج شدید گرمی کا دن ہے ۔ سورج کی اس تپش میں اسے لوہے کی زرہ پہناؤں گا پھر مکہ کی پتھریلی زمین پر دھوپ میں سلاؤں گا وہ یہ سزا برداشت نہیں کر سکے گا ۔ آخر انسان ہے کوئی پتھر تو نہیں کہ پگھل نہ سکے!’’ اور ابو جہل اپنے شیطانی منصوبے کو روبہ عمل لانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔

            حضرت بلالؓ کو باندھ کر لایا گیا۔ پھر انہیں ایک جگہ گرم گرم ریت پر لٹا دیا گیا ۔ بلالؓ بیڑیوں میں بندھے ہوئے بے بسی سے گرم ریت پر تڑپتے رہے۔ چلچلاتی دھوپ کی گرم اور تیز شعائیں تیروں کی طرح جسم کو چھلنی کر رہی تھیں ۔ سورج انہیں ڈستا رہا ، پسینہ بہتا رہا ، ان کی آنکھوں میں پڑتا رہا ، تکلیف کی کوئی حد نہیں تھی ، لیکن اللہ کے دین کی محبت ، اس کے رسولﷺ کی بشارت کہ یہ دنیا تو ایک آزمائش ہے ایک امتحان ہے اس آزمائش اور امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت ملے گی ۔ جہاں ماضی کا نہ کوئی پچھتاوا ہو گا نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ اور بلالؓ اس جنت کو حاصل کرنے کے لیے صبر کی ہر انتہا کو پار کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے ۔

            ادھر امیہ اور ابو جہل کچھ دیر بعد واپس آئے ان کاخیال تھا کہ بلالؓ آج ضرور ان سے معافی مانگ کر اس عذاب سے چھٹکارا پانے کی بھیک مانگیں گے ۔ ابوجہل اور اس کے ساتھ ایک پوری جماعت بلالؓ کی زبان سے معافی کے الفاظ سننے کے لیے ان کے قریب آئی۔ جونہی بلالؓ کی نظر ان پر پڑی ، وہ اپنی تکلیف بھول گئے خدا کے دشمنوں کو دیکھ کر ان کی قوت برداشت ایک مرتبہ پھر اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔ اس دوران میں ابو جہل ان پر جھکا اور بولا : ‘‘بلال اب سناؤ ، کیسے ہو ؟’’ ‘‘احد …… احد ۔’’ ابو جہل کو یوں معلوم ہوا کہ بلالؓ نے اس کے چہرے پر مکہ کی تپتی ہوئی ریت پھینک دی ہے ۔ اس کا رنگ بدل گیا ، سینہ تنگ ہو گیا …… ایک زور دار طمانچہ بلالؓ کے منہ پر دے مارا اور حلق کے بل چیخا : ‘‘اے کالی عورت کے بچے ! تم ابھی تک اپنی سرکشی پر قائم ہو ۔’’ یہ کہہ کر اس نے اردگرد نظر دوڑائی چند قدموں کے فاصلے پر ایک بڑی سی چٹان نظر آئی اس کی آنکھوں میں پھر شیطانی چمک آئی ۔ لوگوں کو مخاطب کر کے بولا : ‘‘چلو ، یہ چٹان اس حقیر غلام کے سینے پر رکھ دو ۔’’ لوگوں نے مل کر بھاری بھر کم چٹان حضرت بلالؓ کے سینے پر رکھ دی بوجھ سے حضرت بلالؓ کا جسم او ربھی شدت سے دکھنے لگا ، لیکن انکے عزم اور حوصلے میں بھی اسی نسبت سے اضافہ ہوا ۔ وہ دھیمی آواز میں ‘‘احد …… احد’’ کا توحیدی نغمہ گنگنانے لگے ۔ درد حضرت بلالؓ کے چہرے پر صاف نظر آرہا تھا …… پتھر کے بوجھ سے سانس بھی مشکل سے آرہا تھا ۔ آواز بھی صحیح طرح نہیں نکل رہی تھی ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ کراہنے لگے ۔

            بے رحم امیہ اور ابوجہل اس منظر سے لطف اندوز ہونے لگے وہ دیکھ رہے تھے کہ اب بلالؓ احد نہیں کہہ سکتے ، بلکہ درد انگیز آوازیں نکال رہے ہیں ۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ یہ آوازیں بھی بند ہو گئیں ہیں اور کچھ لمحوں بعد ان کے ہونٹ کچھ کہنے کے لیے ہلے ، مگر ان کے کانوں میں کوئی آواز نہ آئی ، یہ منظر دیکھ کر ان کے کان کھڑے ہو گئے سوچنے لگے کہ کہیں بلالؓ کے ہونٹوں پر محمدﷺ اور اس کے دین سے بے زاری کے کلمات تو نہیں نکل رہے ۔ اس اشتیاق میں وہ فوراً قریب آئے اور کان لگا کر ان کے ہونٹوں سے نکلنے والے الفاظ سننے لگے ، بلالؓ انتہائی دھیمی اور آ ہستہ سی آواز میں کہہ رہے تھے ، ‘‘احد…… احد’’ یہ لوگ مجھے قتل بھی کر دیں گے تو میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤں گا ۔ اے ابراہیمؑ کے رب ! اے یونسؑ ، موسیؑ اور عیسیؑ کے رب ! مجھے نجات دے اور پھر آزمائش میں نہ ڈال ۔ حضرت بلالؓ کے لب اللہ کے حضور دعا کر رہے تھے ۔ دونوں کافروں کے لیے یہ منظر برداشت سے باہر تھا ۔ وہ تو اس غلط فہمی میں تھے کہ بلالؓ ان سے التجا کرے گا ، مگر وہ اس خدائے واحد کو پکار رہے تھے جس کا نام لینے کے جرم میں وہ سینے پر پہاڑ اٹھائے ہوئے تھے ۔ ابو جہل بھی اب امیہ کی اس بات کا قائل ہو چکا تھا کہ اس غلام کو قتل کر دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔

            حضرت ابو بکرؓ ہی کیا ، پورا مکہ جانتا تھا کہ بلالؓ پر اسلام قبول کرنے کے جرم میں کیا قیامت گزر رہی ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ انہی سوچوں میں گم تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ امیہ اور ابوجہل بلالؓ کو تپتی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر پتھر رکھے ہوئے ہیں ۔ وہ اسی لمحے اس کی طرف لپکے ، مکہ کی گرم دوپہر ان کے چہرے کو جھلسا رہی تھی اور وہ اپنے اللہ سے بلالؓ کے لیے مدد کی دعا کرتے ہوئے تیزی سے قدم بڑھا رہے تھے ۔ جلد ہی وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں بلالؓ کو لٹایا گیا تھا اور کافر ایک چٹان کے سائے تلے بیٹھ کر ان کے بے بسی کا تماشا دیکھ رہے تھے ۔ یہ منظر دیکھ کر انہیں بنو امیہ اور اس کے ساتھیوں پر شدید غصہ آیا ، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ ظلم اکیلے بلالؓ ہی پر نہیں ہو رہا ، بلکہ ہر کمزور مسلمان پر زمین تنگ ہو رہی ہے اور تو اور کفار تو اچھے خاصے اثر و رسوخ رکھنے والے نومسلموں پر بھی قیامت ڈھا رہے ہیں مگر حضرت ابوبکرؓ یہ سب کچھ بھلا کر امیہ کی طرف بڑھے اور غصے سے بولے : ‘‘امیہ! تم کب تک اس بے قصور غلام کو اذیت دیتے رہو گے ؟’’ وہ چمک کر بولا : ‘‘تمہارا اس سے کیا واسطہ ، بلالؓ میرا غلام ہے میں جو چاہوں گا اس سے سلوک کروں گا ۔’’ حضرت ابوبکرؓ نے تاسف سے بھری آواز میں کہا : ‘‘کیا اس بے چارے کے بارے میں تم اللہ سے نہیں ڈرتے ’’ ‘‘بس رہنے دو اپنی یہ نصیحتیں یہ تمہاری ہی وجہ سے اس حال کو پہنچا ہے ، تمہی نے اسے بگاڑا ہے۔’’ ‘‘ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم میں نے تو اسے سیدھے راستے کا پتا بتایا تھا ۔’’ ‘‘اچھا خیر جو بھی ہو ، اب تم اپنا راستہ ناپو!’’ ‘‘نہیں میں یہاں سے اس وقت تک نہیں ہلوں گا جب تک تم اسے چھوڑ نہیں دیتے ۔’’ ‘‘ہم تو اسے چھوڑنے والے نہیں …… یا یہ مر جائے گا یا اپنے دین میں واپس آجائے گا۔’’

تو پھر جان لو امیہ یہ روشنی دیکھنے اور ہدایت پانے کے بعد تاریکی اور جہالت کی طرف نہیں پلٹے گا ۔ یہ مر جائے گا اور تمہیں ایک غلام کی قیمت جتنا نقصان ہو جائے گا۔’’ حضرت ابوبکرؓ نے اس کی دکھتی رگ یعنی مال پر ہاتھ رکھا ۔ ‘‘لیکن میں یہ کیسے گوارا کر لوں کہ یہ میرا کھائے ، میرا پہنے اور پھر میرے ہی خداؤں کو برا بھلا کہے اور ان کا انکار کرے !’’ ‘‘تو پھر ایسا کرو ، اسے میر ے ہاتھ فروخت کر دو!’’ ‘‘آپ خریدیں گے اسے !’’ وہ بے یقینی سے بولا ۔ ‘‘بالکل!’’ ‘‘کیا قیمت ادا کرو گے۔’’ ‘‘جتنی تم چاہو گے ۔’’ ‘‘پانچ اوقیہ سونا ۔’’ امیہ نے اپنی طرف سے کئی گنا زیادہ قیمت مانگی تاکہ ابوبکرؓ مایوس ہو جائیں مگر ابوبکرؓ نے کہا :‘‘مجھے منظور ہے …… یہ رقم بیعانہ کے طور پر اور اس غلام کو چھوڑ دو !’’

            امیہ نے بے یقینی سے ابوبکرؓ کی طرف دیکھا اور حیرت سے یہ کہے بغیر نہ رہ سکا : ‘‘اے ابوبکرؓ تم بلاشبہ ہمارے ہاں کے معزز شخص ہو خدا کی قسم تم ایک اوقیہ بھی کہہ دیتے تو میں لے لیتا !’’ ابوبکرؓنے کہا‘‘ خدا کی قسم ، اگر تم بلالؓ کے بدلے سو اوقیہ سے زیادہ بھی مانگتے تو میں وہ بھی ادا کرنے پر آمادہ ہو جاتا اور بلالؓ کو آزاد کروا لیتا ۔’’ یہ کہہ کر وہ حضرت بلالؓ کی طرف بڑھے اور ان کے سینے پر رکھی چٹان ہٹانے لگے شرم کے مارے کچھ اور لوگ ان کی مدد کو آئے اور پھر بلالؓ کے سینے پر رکھا پتھر ہٹ گیا وہ اب آزاد تھے …… ہر قسم کی غلامی سے آزاد!

            حضرت ابوبکرؓ نے محبت سے حضرت بلالؓ کا ہاتھ تھام لیا اور انہیں سہارا دیتے ہوئے رسول اللہﷺ کی طرف لے چلے ۔ راستے میں بلالؓ کہنے لگے :‘‘آپؓ نے اگر مجھے اپنے لیے خریدا ہے تو میں آپؓ ہی کے پاس رہوں گا، لیکن اگر اللہ کے لیے خریدا ہے تو مجھے اللہ کے کام کے لیے چھوڑ دیجیے۔’’ حضرت ابو بکرؓ خاموش رہے ۔ دونوں نبی اکرم ﷺ کے حضور حاضر ہوئے اللہ کے رسولﷺ نے بلالؓ کو دیکھا ، اذیت سے ان کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے لیکن آنکھوں کی چمک ظلم سے آزادی کی طمانیت بھی ظاہر کر رہی تھی ۔ آپﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا : ‘‘ابوبکرؓ کیا تم نے بلالؓ کو خرید لیا ہے۔’’ ابوبکرؓ شان بے نیازی سے بولے :‘‘اللہ کے رسولﷺ میں نے اسے آزاد کر دیا ہے ۔’’

            حضرت بلالؓ کے لیے یہ آزادی فوری ظلم سے رہائی کا باعث تو بن گئی مگر زندگی ایک نئی آزمائش کی سختیاں لے کر ان کے سامنے آگئی ۔ جس آزادی کے وہ خواب دیکھا کرتے تھے اس کی قیمت ادا کرنا انہیں مشکل لگ رہا تھا ۔ دراصل بلالؓ کے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھا جس سے وہ کاروبار کرتے کوئی گھر نہیں تھا جس میں وہ سر چھپاتے کوئی رشتہ دار نہیں تھا جس کا وہ سہارا لیتے ۔ امیہ ایسے ہی نہیں کہتا تھا کہ جو لباس ، جو رہائش اور جو طرح طرح کے کھانے اسے میسر ہیں ، وہ جب نہیں ہونگے تو پھر تمہیں میری اہمیت کا اندازہ ہو گا۔ اس موقع پر پھر مسلمان اور حضورﷺ کا دامن شفقت بلالؓ کی مدد کو آیا اور ان کے لیے کھانے پینے ، پہننے اور رہنے کا انتظام ہو گیا ۔ یہ انتظام اگرچہ بلالؓ کے لیے کسی عظیم نعمت سے کم نہیں تھا لیکن اس کی صورت بھی یہ تھی کہ یہ بہت جلد قریش مکہ کے عدم تعاون کے باعث مسلمانوں کی حالت پتلی ہو گئی۔ نوبت فاقوں پر آگئی ۔ خاص طور پر جب قریش نے رسول خداﷺ کے خاندان کا بائیکاٹ کیا اور انہیں شعب ابی طالب میں محصور کر دیا تو یہ لوگ زندہ رہنے کے لیے کچھ نوالوں کو بھی ترس جاتے ۔ بڑی مشکل سے جان اور جسم کا رشتہ قائم رکھا گیا ۔ آخر رسول اللہﷺ اور حضرت خدیجہؓ کے کچھ قریشی رشتہ داروں کی مداخلت سے یہ بائیکاٹ ختم ہوا اور رسول اللہﷺ کے خاندان کو کچھ آسانی ہوئی ۔ بلالؓ نے بھی یہ ساری تکالیف برداشت کیں ۔ اس کے کچھ عرصے بعد جب کفار مکہ کا ظلم اور بڑھا تو مسلمانوں کا ایک گروہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا یہ ہجرت اللہ کے رسولﷺ کی اجازت سے ہی کی گئی۔ بلالؓ اس ہجرت میں شامل نہ ہو سکے ظاہر ہے ان کے پاس اس کے وسائل ہی نہیں تھے ۔ حضرت بلالؓ دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ کفار کے طعنے ، گالیاں ، بدتمیزیاں اور ظلم برداشت کر رہے تھے لیکن وہ اس پہلو سے خوش تھے کہ ظلم کی یہ آندھی ان دنوں سے تو بلاشبہ کم ہی تھی جس کا سامنا انہیں غلامی کے دور میں تھا ۔اس دوران میں قرآن کے ذریعے سے اللہ تعالی کی طرف سے انہیں یہ تسلی اور بشارت دی جا رہی تھی کہ بہت جلد ان کی آزمائش ختم ہونے والی ہے اور کفار کی سرکشی اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے ۔ اسی طرح ظلم کے تیرہ سال ایک ایک کر کے بیت گئے ۔ مسلمانوں پر اگرچہ ان برسوں کا ہر لمحہ ایک ایک صدی پر بھاری تھا ، مگر اللہ کے بخشے ہوئے صبر اور ایمان کی طاقت نے انہیں اس آزمائش میں سرخرو کر دیا ۔ ان تیرہ برسوں کی کلفتیں اور آزمائشیں انسان کی سوچ سے بھی باہر ہیں ان برسوں کا ہر لمحہ اپنے اندر موت کا کھٹکا رکھتا تھا ہر لمحے اپنوں کی بیگانگی ، نفرت ، دشمنی ، بدتمیزی اور عقل سے عاری رویے کا سامنا تھا مگر مصیبتوں اور دکھوں کی یہ آگ ایمان خالص رکھنے والوں کے لیے ایک بھٹی کی شکل اختیار کر گئی تھی جب وہ اس بھٹی میں کندن بن گئے اور اللہ نے جان لیا کہ مکے کی بستی میں اصل اور خالص لوگ علیحدہ ہو چکے ہیں اور باقی اب کھوٹ بھیڑ چال اور بہت ہی مجبور لوگ بچے ہیں یا وہ ہیں جن کی عقل میں بات ابھی نہیں آئی تو اللہ کے رسولﷺ نے مسلمانوں کو حکم دے دیا ۔ ‘‘اللہ نے تمہارے کچھ بھائی بنا دیے ہیں ایک ٹھکانے کا بندوبست فرما دیا ہے ، جہاں مسلمان امن اور چین سے رہیں گے ۔ اس لیے یثرب کے اس علاقے کی طرف سے اپنی سہولت کے مطابق ہجرت کر جاؤ ۔’’ یہ اگرچہ مشکل سے چھٹکارا کی ایک نوید تھی مگر حضرت بلالؓ کے لیے اس میں بھی دکھ اور درد کی ایک کسک تھی ۔ وہ مکہ میں پیدا ہوئے اور اسی کی گلیوں میں پروان چڑھے تھے ۔ مکہ اللہ کا گھر تھا ، اس کے نئے دین نے بھی اسے اللہ کا گھر قرار دیا تھا اور انہیں یہاں سے چلے جانے کا دکھ بھی تھا اور جانا بھی شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو۔ معلوم نہیں انہیں کب یہاں واپسی نصیب ہونا تھی بلاشبہ اس جیسے حساس دل کے لیے یہ دکھ ایک بہت بڑا دکھ تھا ۔ مگر اسے بہرکیف انہیں برداشت کرنا تھا انہی سوچوں میں گم ایک دن وہ کعبہ کا طواف کر کے گھر کی طرف آرہے تھے کہ راستے میں انہیں حضرت عمارؓ بن یاسر اور سعدؓ بن ابی وقاص ملے ۔ حضرت بلالؓ نے ان سے کہا : ‘‘بھائیو ، اب تو مکہ میں ٹھہرنا مشکل ہو گیا ہے میں تو بس آج کل میں روانہ ہو جاؤں گا ۔’’ عمارؓ نے کہا : ‘‘کیا آپ کچھ دن انتظار نہیں کر سکتے ۔’’ ‘‘انتظار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بھائی جب اللہ کے رسولﷺ نے حکم دے دیا تو پھر انتظار کاہے کا !’’ ‘‘ہاں بھائی ، بہترین نیکی وہی ہے جو جلد کر لی جائے ، بلالؓ تم تیار ہو تو میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا ۔’’ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنا فیصلہ سنایا ۔ یہ سن کر عمارؓ بولے : ‘‘ٹھیک ہے اگر تم دونوں تیار ہو تو میں بھی تمہارے ہمراہ جاؤں گا۔’’ ان تینوں نے باہمی مشورے سے ایک جگہ مقرر کی اور طے کیا کہ رات کے تیسرے پہر یہاں اکٹھا ہوجانا ہے اور پھر مل کر یثرب کی راہ لیں گے ۔ تینوں وعدے کے مطابق مقررہ جگہ پر پہنچ گئے اور بڑی خاموشی اور رازداری سے یثرب کی طرف روانہ ہو گئے ۔ انہیں یقین تھا کہ یثرب میں اللہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا ان کے لیے اللہ کے دین پر چلنا کوئی جرم نہیں رہے گا ۔

            تینوں دوست مقررہ جگہ پر وعدے کے مطابق پہنچ گئے اور اب وہ خاموشی کے ساتھ اس سرزمین سے دکھی دل کے ساتھ رخصت ہو رہے تھے جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا ۔ جس کی حسین اور خوبصورت یادیں انہیں رہ رہ کر یاد آرہی تھیں مگر اسی مکہ میں پچھلے کئی برسوں سے وہ جس عذاب سے گزر رہے تھے وہ بھی تو ان کی یادوں کا حصہ تھا ۔ یہ سوچ سوچ کر ان کے دکھ اور درد میں ہر آن اضافہ ہو رہا تھا کہ انہیں اپنے وطن سے محض اس وجہ سے نکلنا پڑ رہا ہے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جھوٹ کے بجائے سچ کو ماننا چاہتے ہیں وہ جہالت کے بجائے عقل سے کام لینا چاہتے ہیں ۔ تینوں دوست گھاٹیوں اور ہموار میدانوں سے گزرتے حفاظت کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے ۔ اپنے نبیﷺ کے فرمان کے مطابق انہوں نے وہاں کے لوگوں کو اپنا ہمدرد پایا ۔ وہ اگرچہ زیادہ امیر اور مالدار لوگ نہیں تھے ، مگر انہوں نے ان کی ضرورت کا لحاظ اپنی ضروریات سے زیادہ رکھا ۔ حضرت بلالؓ کو چند ہی روز بعد اپنی زندگی میں ایک خلا محسوس ہونے لگا ۔ جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ اللہ کے پیغمبر ﷺ کی صحبت سے محروم ہیں جیسے جیسے یہ احساس حضرت بلالؓ کے دل میں بسنے لگا وہ اسی قدر بے چینی محسوس کرنے لگے ۔ کچھ دن مزید گزرے کہ حضرت بلالؓ کو حضرت عمرؓ بن خطاب کی آمد کا معلوم ہوا فوراً ان سے رابطہ کیا اور رسول اللہﷺ کے بارے میں دریافت کیا ۔ انہوں نے خوشخبری دی کہ حضور اکرمﷺ عنقریب مدینہ پہنچنے والے ہیں ۔ حضرت بلالؓ کے لیے یہ خبر ایک بہت بڑی خوشخبری تھی ۔ اب حضرت بلالؓ کا یہ روزانہ معمول بن گیا کہ وہ سارا دن مکہ سے آنے والے راستے میں بیٹھ جاتے اور آپﷺ کی آمد کا انتظار کرتے اس انتظار میں مدینہ کے کئی دوسرے لوگ بھی شامل ہوتے ۔ یہ لوگ رات گئے تک راستہ تکتے رہتے اور جب ہر طرف اندھیرے چھا جاتے تو اگلے دن کی امید لگا کر واپس ہو جاتے ۔ یوں کئی دن گزر گئے ۔ حضرت بلالؓ کی بے قراری اب سوا ہو چکی تھی ۔ ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگتے تو پھر اللہ کی یہ سنت یاد آتی کہ رسولوں کی حفاظت خود اللہ فرماتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہ پریشان ہی رہتے ۔ ایک دن حسب معمول سخت گرمی پڑ رہی تھی اور وہ انتظار کرنے والے کے ساتھ آپﷺ کا انتظار کر رہے تھے ۔ دوپہر تک سورج کی شعاعیں بہت زیادہ قیامت ڈھانے لگیں تو سارے لوگ چلے گئے حضرت بلالؓ بھی کچھ دیر بعد وہاں سے چلے گئے ۔ انہیں اپنے گھر بیٹھے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ان کے کانوں میں ایک پرجوش آواز آئی ۔ ‘‘اللہ کے نبی ﷺتشریف لے آئے ۔’’ حضرت بلالؓ فورا اٹھ کھڑے ہوئے سوچنے لگے کہ شاید یہ جملہ انہوں نے خواب کی حالت میں سنا ہو مگر پکارنے والے نے پھر پکارا ۔ ‘‘اللہ کے نبیﷺ تشریف لے آئے اللہ کے نبی ﷺ تشریف لے آئے ۔’’ حضرت بلالؓ باہر کو لپکے اور دیوانہ وار مدینہ کے باہر اس راستے کی طرف دوڑنے لگے جہاں پہلے ہی کچھ لوگ آنے والے کی راہ تک رہے تھے ۔ ( جاری ہے )