لعبت چین

مصنف : مولانا عبدالحلیم شرر

سلسلہ : ناول

شمارہ : نومبر 2008

            موسٰی: ‘‘مضائقہ نہیں ۔ ان جھگڑوں اور رکاوٹوں سے میرے عیش کی لذت زیادہ ہو جاتی ہے، ا س کے بعد اسے قید خانہ میں بھیج دیااور سب قیدی اپنے سرداروں میں تقسیم کر دیے ۔اب وہ اس تدبیر میں مصروف ہوا کہ خزاعی کے عرب حملہ آوروں کو بھی ایسی شکست دے کہ پھر کبھی ترمذ پر حملہ کرنے کا نام نہ لیں۔

             والی خراسان کے خزاعی سپہ سالار نے صبح کو جب سارے ترکی لشکر کی تباہی کا حال سنا تو نہایت ہی پریشان ہوا بلکہ خود اپنی تباہی کی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی اور اس سے زیادہ گھبراہٹ اس کے ہمراہی لشکر میں پیدا ہوئی۔ ان لوگوں کو یقین ہو گیا کہ ہمارا بھی ایک دن یہی حشر ہونے والا ہے مگر خزاعی ان کے حوصلے بڑھاتا دل مضبوط کرتا اور ہر ہر سپاہی کو انعام واکرام سے خوش کر کے اور ان کی ہمت بندھا کے ترمذ کو اس طرح گھیرے پڑا رہا۔ اس کا یہ استقلال دیکھ کے ایک دن عمرو بن خالد نے موسیٰ سے کہا:‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ خزاعی کے ہمراہ عربوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن سے کھلے میدان میں مقابلہ کر کے آپ ہر گز فتح یاب نہیں ہوسکتے۔ اس پر قیامت یہ کہ خراسان سے ان کو روز نئی کمک پہنچتی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ آپ اطاعت قبول کر کے عبدالملک کی بیعت قبول کر لیں۔’’

            موسٰی:(طیش میں)‘‘یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ میں خزاعی کو قتل کر کے خود اس پر حملہ کروں گا اور خراسان کو بھی چھین لوں گا۔’’ عمرو:‘‘یہ آپ کے امکان سے باہر ہے اور اگر ایسی ہی خودداری ہے تو اس خطرناک خودکشی میں میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔’’ موسٰی: (غیظ و غضب سے)‘‘مجھے تمہاری پروا نہیں میں جو کچھ کرتا ہوں اپنے قوت بازو سے کرتا ہوں اور اگر تم نے سرکشی یا دغابازی کا ارادہ کیا تو اسی وقت تم کو قتل کر ڈالوں گا۔’’ یہ کہہ کے تلوار کھینچ کے اس پر جھپٹ پڑا۔ عمرو:‘‘میں موت سے نہیں ڈرتا۔ سپاہی کے لیے مرنے سے ڈرنا ہی کیا۔ موت کے منہ میں جانا تو ہمارا روز کا کھیل ہے۔ اور کون سا دن ہوتا ہے جب ملک الموت کا سامنا نہیں ہوتا لیکن اگر آپ کا یہی حال ہے کہ سچی صلاح دینے والے کے دشمن ہو جاتے ہیں تو میں لڑائی میں آپ کا ساتھ نہ دے سکوں گا۔ اصل یہ ہے کہ خزاعی کو لڑائی کا تجربہ نہیں ورنہ اب تک آپ کی آزادی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔’’ موسٰی:‘‘ اچھا تو اب تم جا کے اس کے پاس ٹھہرو اور اسے وہ تدبیر بتاؤ جس پر عمل کر کے وہ میری آزادی کا خاتمہ کرے گا۔’’ یہ کہہ کر اس نے تلوار ہاتھ سے پھینک دی ۔ غلام سے کوڑا منگوایا اور خود اپنے ہاتھ سے عمرو کو زور زور سے اتنے کوڑے مارے کہ اس کے جسم سے جا بجا خون جاری ہو گیا۔ کھال ادھڑ گئی۔ پھر لوگوں کو حکم دیا کہ اسے قلعہ سے نکال کے پھاٹک بند کرلو۔ لوگوں نے یہی کیا۔ عمرو خون میں نہایا ہوا قلعہ سے نکلتے ہی خزاعی کے لشکر کی طرف چلا اور قریب پہنچتے ہی واویلا کے ساتھ امان مانگنے اور سردار عسکر اسلام کی دہائیاں دینے لگا۔ لوگ پکڑ کر خزاعی کے سامنے لے گئے۔ اس نے حال پوچھا اور عمرو نے بیان کیاکہ ‘‘میں ایک یمنی الاصل شخص ہوں جو عبداللہ بن خازم کے ساتھ تھا۔ ان کے مارے جانے کے بعد خراسان سے بھاگ کے یہاں ان کے بیٹے کے پاس چلا آیا۔ جس نے پہلے تو میری قدر کی اور اپنے مشیروں میں شامل کر لیا مگر آج میں نے خلافت کی اطاعت کا مشورہ دیا تو سخت ناراض ہوا، اور شاید دل میں سمجھا کہ میں آپ لوگوں سے مل گیا ہوں اور اس کوشش میں ہوں کہ عساکر خلافت کو قلعہ ترمذ کے اندر بلا لوں۔ اس بدگمانی پر اس درجہ غضب ناک ہوا کہ نہایت بے رحمی اور سنگدلی سے مجھے خود اپنے ہاتھ سے بے انتہا پیٹا اور قلعہ سے نکلوا دیا۔ میں بھاگ کے اور کہاں جا سکتا تھا۔ آپ کے لشکر میں چلا آیا۔ خزاعی نے اس کے زخم دیکھے اس کی حالت پر نہایت تاسف ہوا اور کہا:‘‘مضائقہ نہیں اگر موسٰی کو تمہاری قدر نہیں تو میں قدر کروں گا تم میرے ساتھ رہو اور لڑائی میں آزادانہ مشورہ دیا کرو ، غالباً تم قلعہ ترمذ کے اندرونی مقامات سے بخوبی واقف ہو گے اور جانتے ہو گے کہ اس کی فصیل کہاں کہاں پر کمزور ہے اور کس طرف سے دھاوا کرنے میں آسانی سے کامیابی ہو سکتی ہے؟’’ عمرو:‘‘ جی ہاں! قلعہ کے اندر کی حالت میں بخوبی بتا سکتا ہوں بلکہ حکم ہو تو پورا نقشہ بناکے پیش کر دوں جو حملہ کے وقت کام آئے گا۔’’ خزاعی:‘‘ وہ نقشہ ضرور تیار کرو۔ اس کے تیار ہوتے ہی میں حملہ کر کے قلع پر قبضہ کر لوں گا۔’’ عمرو نے ایک ہفتہ کے اندر اندر نقشہ تیار کر دینے کا وعدہ کیا اور ہمدم ہمراز دوستوں کی طرح ہر وقت جلوت وخلوت میں خزاعی کا ساتھ دینے لگا۔ جب بیٹھتا ایسی باتیں کرتا کہ خزاعی روز بروز اس کا گرویدہ ہوتا جاتا ، اپنے آنے کے چار پانچ روز بعد ہی ایک صبح عمرو نے دیکھا کہ سپہ سالار خزاعی اپنے خلوت کے خیمہ میں تنہا بیٹھا ہے۔ خواب کے سارے کپڑے اس کے جسم پر ہیں اور کوئی ہتھیار پاس نہیں ۔ ادب سے جا کے …… السلام علیک یا امیر کہا پھر عرض کی:‘‘خدا ہمارے امیر کو صد سال تک زندہ رکھے۔ ایسی لڑائی اورمعرکہ آرائی کے خطرناک موقعوں پر کوئی اسلحہ جنگ حضور کو اپنے پاس ضرور رکھنا چاہیے۔ دنیا کا اعتبار نہیں گو کہ حضور کو اپنی شجاعت پر بھروسہ ہے اور کسی خطرہ کی پروا نہیں مگر فرض کیجیے کہ کوئی کم بخت دشمن چھپ چھپا کے پاس پہنچ جائے تو آپ نہتے کیا کریں گے۔’’ خزاعی:‘‘تمہارے اس خیر خواہانہ مشورہ کا شکر گزار ہوں مگر یہ نہ سمجھو کہ میں کسی وقت غافل رہتا ہوں۔ تلوار ہمیشہ اتنی قریب رہتی ہے کہ جب ہاتھ بڑھاؤں اس کے قبضہ پر پڑے۔’’ یہ کہتے ہی جس فرش پر بیٹھا تھا تو اس کا کونا الٹ کے دکھایا تو نظر آیا کہ اس کے نیچے ایک نہایت ہی اعلی درجہ کی براق وجواہر دار تلوار رکھی ہے۔ اس تلوار کو دیکھ کر عمرو پھڑک گیا اور بولا واہ! واہ! سبحان اللہ! کیا اچھی تلوار ہے۔ ایسی تلواریں بہت کم دیکھی ہیں۔’’ خزاعی:‘‘ یہ تلوار میں نے اصفہان میں پانچ ہزاردینار کو مول لی تھی۔ ہندی فولاد ہے اور خاص دمشق کی ساخت۔ کاٹ اتنی سچی ہے کہ زرہ کو ساگ کی طرح کاٹ جاتی ہے اور پوری قوت سے پڑ جائے تو فولادی خود کے دو ٹکڑے ہو جائیں۔’’ یہ کہہ کر اس نے اٹھا کے اس کی باڑھ دیکھی اور عمرو کی طرف بڑھا کے کہا:‘‘اس کا جوہر بھی تو دیکھو کیسا اعلی درجہ کا ہے؟’’ عمرو نے تلوار لے لی۔ اسے الٹ پلٹ کے دیکھا پھر سبکی اور صفائی کا اندازہ کرنے کے لیے دو ایک ہاتھ ہوا میں چلائے اور خالی وار کرتے کرتے اپنی پوری قوت سے ایک ہاتھ خزاعی کے گلے پر مارا جو اس صفائی سے پڑا کہ سر کٹ کے دور جا گرا اور دھڑ تڑپنے لگا۔ خزاعی کا خون کرتے ہی عمرو اس پرخون تلوار کو ہاتھ میں لیے ہوئے خیمہ کے باہر نکلا ۔ خود خزاعی کے گھوڑے پر جو تیار کھڑا تھا سوار ہو کے ایک ایڑ بتائی اور بے نظیر عربی راہوار ایک ہی جھپٹ میں قلعہ ترمذ کے نیچے کھڑا تھا۔ فوراً پھاٹک کھلا اور وہ اندر داخل ہو کے سیدھا موسٰی کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے پوچھا: ‘‘خیریت؟’’ کہا:‘‘خیریت ہے۔ آپ کا اقبال بلند اور دشمن پامال۔’’ یہ کہہ کے ساری سرگزشت بیان کر دی اور اب لوگوں کو معلوم ہوا کہ موسیٰ کی برہمی اور اس کا غیظ و غضب اور مارنا پیٹنا سب دکھاوے کا تھا۔ وہ اسی کام کے لیے دشمنوں میں گیا تھا۔ اب کیا تھا؟ موسی کی خوشی کی کوئی حد نہ تھی اور جیسے ہی قلعہ میں یہ خبر مشہور ہوئی ساری فصیل اور اس کے برجوں پر سے تہلیل وتکبیر کے نعرے بلند ہونے لگے۔ ساتھ ہی حکم دے دیا گیا کہ قلعہ کا لشکر نکل کے دشمنوں پر حملہ کرے۔ عساکر خلافت میں خزاعی کے مارے جانے کی خبر مشہور ہوتے ہی ہر طرف تہلکہ پڑ گیا۔ تمام سردار اور سپاہی گھبرا اٹھے اور اس قتل کے اسباب اور انجام پر غور بھی نہیں کرنے پائے تھے کہ قلعہ ترمذ والے جوش وخروش سے نیزے ہلاتے ہوئے ان کے سروں پر آپہنچے۔ بدحواسی کے ساتھ تھوڑی دیر تک مقابلہ تو کیا مگر دم بھر میں ہمت ہار کے بھاگنے لگے۔ امان مانگی اور والی خراسان کا ساتھ چھوڑ کے موسٰی کی فوج میں شامل ہو گئے۔ اس شکست خوردہ لشکر میں سے بہت ہی کم لوگ امیہ کے پاس خراسان پہنچے اور سب کا انجام یہ ہوا کہ یا تو مارے گئے یاامان مانگ کے اس کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ موسٰی نے تمام دشمنوں کو شکست دینے اور تورانی وعربی لشکروں کو پامال کرنے کے بعد ترمذ میں اسی پرفضا باغ میں جو قلعہ پر قابض ہونے سے پہلے سیرو تفریح کے لیے بنایا گیا تھا پورے ایک ہفتے تک جشن منایا جس میں تمام لوگوں نے عیش زندگی کا لطف اٹھایا اور ہر وقت ہر جگہ سرور ومسرت کے کرشمے نظر آرہے تھے۔ اس جشن کے آخری دن اس نے قصر کو اغیار سے خالی کر کے اپنی دونوں مہ جبینوں قتلق خانم اور لعبت چین نوشین کے سامنے ارسلان کو بلایا جو پابہ زنجیر لا کے سامنے کھڑا کر دیا گیا اور موسٰی نے اس کی طرف دیکھ کے خفیف مسکراہٹ کے ساتھ کہا :‘‘مجھے افسوس ہے کہ اس جشن میں تم شریک نہیں تھے۔’’ ارسلان نے اس کا کچھ جواب نہ دیا بلکہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ایک آہ کھینچ کے حسرت سے سر نیچا کر لیا۔ موسٰی:‘‘بولو ! جواب دو۔ اگر تم کو اپنے نہ شریک ہونے کا افسوس ہے تو میں اس جشن کو اور آٹھ دن تک برقرار رکھ سکتا ہوں۔’’ ارسلان:‘‘ مجھے اس جشن میں مزہ نہیں آسکتا۔ میری تمنا تو یہ تھی کہ میں یونہی عیش منا رہا ہوتا ۔ نوشین میرے پاس ہوتی اور تم یونہی میرے سامنے پابہ زنجیر کھڑے ہوتے۔’’ موسٰی:‘‘ اس کی کوشش تم نے کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ جس میں مجھے تم سے ہمدردی ہے مگر مجھے بھی وہی کر دکھانا تھا جو کہا تھا۔ چنانچہ جس طرح پہلے دو بار زیر کر چکا ہوں ویسے ہی پھر کیا۔’’

            ارسلان:‘‘ مگر مجھے قتل کیوں نہیں کرڈالتے تاکہ تمہارے اطمینان وعیش میں جو کانٹا باقی ہے ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے؟’’ موسٰی:‘‘اس لیے کہ جو لطف مجھے تمہارے زیر کرنے میں آتا ہے قتل کرنے میں نہ آئے گا۔’’۔ارسلان:‘‘ تمہارے چھوڑ دینے کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ تم پر اتنی آفت نازل ہو گئی جب میں نے سنا کہ تمہارا باپ مارا گیا ۔ نیا والی خراسان مقرر ہواجو تمہارا دشمن ہے تو میں اس کے پاس پہنچا۔ اس کو فوج کشی کرنے پر آمادہ کیا اور ساتھ ہی سارے ترکستان کو اٹھا کے کھڑا کر دیا۔ یہ سب میری کارگزاری تھی۔’’

            موسٰی:‘‘ میں جانتا ہوں کہ یہ تمہاری کارگزاری تھی اور اسی لیے تمہارا شکر گزار ہوں کہ ان تمام آفتوں کو دور کر کے تمہاری بدولت مجھے ایک ایسا جشن منانے کا موقع مل گیا جو زندگی بھر یادگار رہے گا اور چونکہ یہ عیش تمہاری کوششوں سے حاصل ہوئی ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہیں بھی اس عیش میں شریک کروں۔ فقط اسی لیے تم کو قید کر کے قلعہ میں روک رکھا ورنہ اسی وقت چھوڑ دیتا۔’’ ارسلان:‘‘ نہیں میں اس جشن طرب میں شریک نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ میں تمہاری خوشی کا رفیق نہیں بلکہ تمہارے غم کا ساتھی ہوں۔ مجھے خوش کرنا چاہتے ہوتو اپنے رنج والم اور مصیبت وغم کے موقع پر بلاؤ اور دیکھو میں کیسا خوش ہوتا ہوں۔’’۔موسٰی:‘‘تم سے بزدل اور ذلیل دشمنوں کی کوششیں اتنی زبردست اور کامیاب نہیں ہو سکتیں کہ مجھے کبھی ایسا روز بد دیکھنا نصیب ہو۔خیر اب تم پھر آزاد ہو اور اسی وقت زنجیریں کھول کر قلعہ اور شہر ترمذ سے باہر نکال دیے جاؤ گے لہذا اپنی ناآفرین مربیہ شہزادی نوشین کے سامنے زمین چوم کے جان بخشی کا شکریہ ادا کرو۔ یہ فقط ان کا طفیل ہے جو تمہاری ہر شرارت معاف کر دی جاتی ہے اور کیسا ہی جرم کر کے پکڑے جاؤ چھوڑ دیے جاتے ہو ، دراصل میں اتنا رحم دل نہیں ہوں۔ والد مرحوم نے ایک دفعہ بہت سے بہادر اور شریف دشمنوں کو اسیر کر کے چھوڑ دینا چاہا تھا مگر میں نے نہیں چھوڑنے دیا اور جب تک ان سب کو قتل نہ کرالیا چین نہ لیا ، خود تم کو میں ایک گھڑی کے لیے زندہ نہ رہنے دیتا مگر ناز آفرین نوشین تمہاری جان لینا نہیں چاہتیں اور ان کی رحمدلی سے مجھے ہر مرتبہ تمہاری صورت دیکھ کے اپنے عیش میں ایک نیا مزہ مل جاتا ہے۔’’ نوشین:‘‘ ارسلان! اب تم پیچھا چھوڑ دو اور یہ سمجھ کے اپنے دل کو تسلی دے لو کہ میں تمہاری قسمت میں نہ تھی۔ امیر موسٰی کی بڑی مہربانی ہے کہ میرا کہنا مان کے تمہاری جان بخشی کرتے ہیں ورنہ تمہاری سزا قتل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔’’

            ارسلان:‘‘ اسی لیے کہتا ہوں کہ بجائے آزاد کرنے کے مجھے قتل کر ڈالو اور وہی سزا دو جس کامیں تمہارے خیال میں مستوجب ہوں۔’’

            نوشین:‘‘یہ تو مجھ سے نہ ہو گا کہ جس کی دلہن بننے کے لیے کاشغر سے آئی تھی گو وہ مجھے نہیں پاسکا اس کو قتل کراؤں۔’’ ارسلان:‘‘ نہ قتل کراؤ گی تو میں پہلے سے زیادہ دشمنی کروں گا اور اس سے زیادہ شورش پھیلاؤں گا۔’’ موسٰی:‘‘ اور میں انشاء اللہ العزیز یونہی ذلیل وخوار کروں گا۔’’ اس کے بعد موسٰی کے حکم سے اسکا غلام ارسلان کو قلعہ کے باہر لے گیا اور زنجیروں سے کھول کے آزاد کر دیا اور کہا:‘‘ پھر یہاں نہ آنا۔’’

            والی خراسان امیہ بن عبداللہ بن خالد کو یہ شکست ۷۶؁ھ میں ہوئی تھی ۔جس کے بعد اس کا حوصلہ ایسا پست ہوا کہ پھر کبھی اسے موسیٰ کی طرف نظر اٹھا کے دیکھنے کی بھی جرات نہ ہوئی ۔دل پر ایسی کوفت تھی کہ اس نے ان واقعات کی دمشق میں عبد الملک بن مروان کو بھی خبر نہ کی مگر خارجی طور پر خبر دربار تک پہنچ گئی ۔جس پر وہاں سے سخت عتاب ہوا اور دارالخلافت دمشق سے اس مضمون کا فرمان آیا ‘‘میں سمجھا تھا کہ تم بکیر کے بعد خراسان اور مشرقی حدود و قلمر و خلافت کا انتظام کر لو گے مگر تمھارے طرز عمل سے ثابت ہوا کہ تم بکیر سے بھی زیادہ نالائق و نااہل ہو ۔اس کی نالائقی تو فقط اس قدر تھی کہ سر کش قبائل عرب کو دبا کے امن و امان نہ قائم کر سکا ۔مگر تم اتنے بڑے نالائق ہو کہ ملک میں سطوت خلا فت قائم کرنے کے لیے جو فوج تھی اس کو بھی ضائع و تباہ بر باد کر دیا ۔’’یہ فر مان پڑ ھتے ہی اسے فکر ہوئی کہ اس خبر کو دارالخلافت میں کس نے پہنچایا ۔کئی مہینوں کی سرا غ رسانی کے بعد پتا چلا کہ اس خبر کو دوسروں کے ذریعہ سے معزول والی خراسان بکیر بن و شاح نے پہنچا یا ہے ۔جو ظاہر میں دوست اور جان نثار رفیق بنا ہوا ہے مگر در پردہ دوبارہ حکومت خراسان حاصل کرنے کی پیروی میں لگا رہتا ہے ۔دو ایک مرتبہ اس سے سر تابی و مخالفت بھی ظاہر ہوئی تھی چنانچہ اس نے بلا تامل حکم دیدیا کہ بکیر کو قتل کر ڈالا جائے چنانچہ ۷۷؁ھ میں وہ مار ڈالا گیا اور عبداللہ بن خازم کے غم میں رونے والوں سے تھوڑے بہت کم آنسو پیچھے رہ گئے ۔

            بکیر کو قتل کر کے بیٹھا کہ پھر اس کے پاس ارسلان آیا جس کی صورت دیکھتے ہی اس نے غصہ کے ساتھ کہا ۔‘‘تمھارے ملک والوں کی نامردی سے میرا سارا لشکر تباہ ہوگیا اور موسیٰ کی قوت پہلے سے بدر جہا زیادہ بڑھ گئی ۔’’ارسلان :‘‘خیر وہ تو قصور تھا جس کی ہمیں سزا بھی مل گئی ۔مگر اب میں نے ایسا بندوبست کیا ہے کہ ترمذ پر سارا تر کستان چڑھ آئے ۔تاتار و مغل ہی نہیں چین کے لوگ بھی حملہ کی تیاریاں کررہے ہیں اور منتظر ہیں کہ آپ کی طرف سے سبقت ہو تو اپنی اپنی جگہوں سے چل کھڑے ہوں ۔’’امیہ :‘‘تم لوگوں کا کچھ اعتبار نہیں ۔تم نے مجھے امیر المومنین کی نظر میں ذلیل کرایا ۔پھر ایسی ہی ذلت سے پیٹھ دکھاؤ گے اور پھر میرے لشکر کوانہی مصیبتوں سے سابقہ پڑے گا ۔میں نے تو اب عہد کر لیا ہے کہ موسیٰ سے تعرض نہ کروں گا بلکہ اس سے پہلے تمھاری خبر لوں گا اور جب بخارا اور سمر قند پر ہمارا قبضہ ہو جائے گا تو موسیٰ کو چاروں طرف سے ہماری قلمرو میں محصور ہو کے خود ہی ہتھیار رکھ دینا پڑیں گے ۔’’ارسلان :‘‘ہم لوگ خلافت اسلامیہ کے دوست ہیں اور یہ امید نہ تھی کہ آپ سے ہمیں اطاعت و دوستی کا یہ پھل ملے گا ۔’’امیہ : ‘‘یہ دوستی کا پھل نہیں تمھاری نامردی و بزدلی کی سزاہے ’’یہ مایوس کرنے والا جو اب پا کے ارسلان اس کے پاس سے چلا آیا ۔مگر بجائے سمر قند میں واپس جانے کے اس نے خراسان کے تمام شہروں میں چکر لگایا اور جا بجا لوگوں کو امیہ کی مخالفت پر ابھارنے لگا اورہر جگہ سے عبد الملک کی خدمت میں اس مضمون کی عر ضد اشتیں بھجوائیں کہ امیہ نے خراسان کا انتظام بگاڑ رکھا ہے اور جو لوگ اس کو نیک نیتی سے مشورہ دیتے ہیں ان کا دشمن ہو جاتا ہے ۔اسی کا ایک نمونہ یہ ہے کہ سابق والی بکیر کو محض اس موہوم بدگمانی کی بنیاد پر کہ اس نے ترمذ کی خبر بارگاہ خلافت میں پہنچا دی قتل کر اڈالا ۔ادھر امیہ نے یہ کیا کہ اپنے کہنے کے مطابق خلافت کی فوجوں کو جیجون کے پار اتار کے مغربی علاقوں میں قریب کی دو چیدہ ریاستوں پر قبضہ کر لیا اور ماور اء النہر کا ایک معتبد بہ حصہ اپنے قبضہ میں کر کے وہاں مضبوطی سے قدم جما لیے ۔

            عبد الملک کے پاس امیہ کے خلاف ہزاروں عر ضد اشتیں پہنچیں تو پریشان ہوا کہ اس ملک کا کیاانتظام کرے ۔ان دنوں دمشق میں حجاج بن یوسف کی کار گزاریوں کی بہت واہ واہ ہو رہی تھی ۔جس نے ارض حجاز پر قبضہ کرنے اور عبداللہ بن زبیر کے شہید کرنے کے بعد ملک عراق کا عمدہ انتظام کر دیا تھا ۔سر زمین عراق خصوصاًبلاد کو فہ و بصرہ بنی ہاشم کے طرفداروں سے بھرے ہوئے تھے ۔جو بنی امیہ کے خلاف تھے اور ان کی ذات سے روز کوئی نیا ہنگامہ پیدا ہوتا تھا ۔خصو صاًایک طرف حضرت امام حسین ؓ کے خون کا انتقام لینے والوں اور امامت کے نئے نئے دعویداروں نے اور دوسری طرف خوارج نے سارے عراق کی یہ حالت کر رکھی تھی کہ گویا وہاں کسی کی حکومت ہی نہ تھی ۔اس حا لت کو حجاج نے اپنی سخت گیری سے چند ہی روز میں مٹا کے بہت اچھا انتظام قائم کر دیا تھا ۔جس کے سارے شام و دمشق میں خصوصاً حکمران خاندان یعنی بنی امیہ میں بہت تعریف ہو رہی تھی ۔اس خوش تدبیری کے انعام میں عبد الملک نے حجاج کو لکھا ۔‘‘آئندہ سے میں تمام مشرقی مقبوضات اسلام کو تمھاری ہی زیر انتظام دے دیتا ہوں خراسان ،کمان ،سیستان ،مازندراں ،فارس ،سندھ اور دیگر ممالک مشرق اب تمھارے قبضہ اختیار میں ہیں تمھیں ان ملکوں میں والی منتخب کر کے بھیجو اور جہاں کے والیوں کو چاہو معزول کر دو ۔غرض اس کے بعد سے ان سب ملکوں کے نظم و نسق کے تمھیں ذمہ دار اور جوابدہ ہو ۔’’حجاج نے پہلے تو اس قد ردانی کا بارگاہ خلافت میں شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد ان سب ملکوں میں اپنے معتمد علیہ لوگوں کو والی مقرر کر کے بھیجنے لگا چنانچہ اسی سلسلہ میں ۷۷؁ھ میں اس نے ولایت خراسان سے امیر بن عبد اللہ کو معزول کر دیا اور مہلب بن ابی صفرہ کو اس کی جگہ والی مقرر کر کے بھیجا ۔مہلب چند روز کے لئے پہلے بھی یہاں حکمران رہ چکا تھا اور فی الحال اس نے خوارج کے استیصال میں بڑی ناموری حاصل کی تھی ۔مہلب کے آتے ہی ارسلان اس کے پاس پہنچا اور وہی درخواست جو امیہ سے کی تھی ۔اس کے سامنے بھی پیش کر دی ۔مہلب عقلمند اور عاقبت اندیش شخص تھا ۔پوچھا ‘‘تم کو موسیٰ سے کیا دشمنی ہے ؟’’ارسلان کو یہ تو مناسب نہ معلوم ہوا کہ اندرونی ذاتی واقعات اور اپنی اس کی رقابت کو بیان کرے اور یہ بتائے کہ میری معشوقہ دُلہن کو وہ لے اڑا ہے ۔بات بنانے کے لئے کہا ‘‘ہم اس کے اس لئے دشمن ہیں کہ وہ خلافت کا باغی ہے اور والی خراسان سے سر کشی و تمرد کرتا ہے ۔’’مہلب :‘‘ایسا ہے تو اس کی فکر ہم کو اور دربار خلافت کو ہونی چائیے تم کو اس کا اس قدر خیال کیوں ہے ؟بظاہر موسیٰ خلافت کے خلاف نہیں ہے ۔خلافت کی قلمرو میں سے کسی شہر یا علاقہ کو اس نے دبا نہیں لیا ہے اور نہ کبھی قلمرو خلافت پر چڑھ کے آیا ہے پھر ہمیں اس سے بے ضرورت لڑائی چھیڑنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ اس سے بڑھ کے کیا ہوگا کہ ان دنوں امیہ نے جب جیجون پار فوج بھیج کے ماورا ء النہر کے علاقوں پر قبضہ کیا تو سب نے مخالفت کی مگر موسیٰ نے اس میں ذرا بھی دخل نہیں دیا ۔’’ارسلان : ‘‘آپ کے تشریف لانے سے پہلے امیر امیہ نے اپنے سپہ سالار خزاعی کو بھیجا تھا کہ ترمذ پر قبضہ کر لیں مگر موسیٰ نے مکاری و فریب سے اس سپہ سالار کو مروا ڈالا ۔’’مہلب :‘ ‘ مروا نہ ڈالتا تو کیا کرتا ؟جب خلافت کی سر حد کے باہر بھی ایک پناہ کی جگہ میں اسے خاموش بیٹھنے نہ دیا گیا تو وہ سوا اس کے او رکیا کر سکتا تھا یا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ امیہ نے اس پر فوج کشی کیوں کی ؟اور اس سے بھی زیادہ گہرا راز سر بستہ یہ ہے کہ تم تورانیوں کو اس میں اس قدر انہماک کیوں ہے کہ اسے ترمذ کے قلعہ سے نکالا جائے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ماور اء النہر کے ایک شہر کو جو ہم سب سے بہت دور تمھارے شہروں کے درمیان میں واقع ہے تم ایک مسلمان کے قبضہ میں نہیں دیکھ سکتے مگر چونکہ اس کی بہادری کی وجہ سے تمھا را زور نہیں چلتا، اس لیے چاہتے ہو کہ ہمارے ہاتھ سے اس کو تباہ کراؤ ایسے فریب میں امیہ آگئے ہیں میں نہیں آسکتا ۔’’

            ارسلان :‘‘اس نے ترمذ کے اطراف و جوانب میں لوٹ مچا رکھی ہے آس پاس کے تمام شہر ہر وقت آفت میں مبتلا رہتے ہیں ۔’’ مہلب :‘‘تو تمھا را کام ہے کہ ان شہروں کو اس کی دست برد سے بچاؤ او راپنے میں بچانے کی قوت نہیں پاتے تو اس کی اطاعت قبول کر لو پھر اس کے بعد وہ تمھارا دوست اور حامی بن جائے گا ۔’’

            غرض مہلب نے ارسلان کو صاف صاف جواب دے دیا اور کہا ۔‘‘میں موسیٰ کی مخالفت کے بجائے اس کی مدد کروں گا بلکہ جب کبھی سنوں گا کہ تمھارے تما م سرداروں اور حکمرانوں نے اتفاق کر کے اس پر یورش کی ہے تو خراسان سے اس کی مدد کی جائے گی ۔’’ارسلان اس کے پاس سے مایوس ہوکے گیا تو مہلب کے بیٹے یزید سے ملا اور اس سے دوستی بڑھانے لگا ۔یزید ایک عیش پرست اور عاشقانہ مزاج کا نوجوا ن تھا ۔اس کا رنگ صحبت دیکھ کے ارسلان نے ویسی ہی باتیں کرنا شروع کیں اور اسے عیاشی و عیش پرستی کی باتوں میں لگا نے لگا اور چند روز ہی روز میں دونوں میں اس قدر دوستی ہوگئی کہ یزید بن مہلب کو بغیر ارسلان کے کسی صحبت اور کسی بزم عیش میں لطف نہ آتا اور دونوں ہر وقت اور ہر جگہ ایک دوسرے کے ساتھ دیکھے جاتے ۔یہ حالت مہلب نے دیکھی تو بیٹے کو بلا کر سمجھا یا اور کہا ـــ..............‘‘ارسلان نے تم سے بے غرض اور بے وجہ دوستی نہیں بڑھائی ہے ۔موسیٰ نے ترمذ پر قبضہ کر کے تمام ملوک ترک و تاجیک کو مغلوب کرنا شروع کر دیا ہے اور کوشش میں ہے کہ سارے توران و تاتار پر قبضہ کرے ان لوگوں کا اس پر زور نہ چلا تو ہمارے پاس آئے کہ دھوکہ اور فریب دے کر ہمیں اس سے لڑائیں ۔جس حماقت میں مبتلا ہو کر امیہ بن عبداللہ نے ذلت اٹھائی اور اپنا سارا وقار کھو دیا اب یہ تم سے ملا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ تم اس کے چکر میں آنہ جاؤ ۔خوب یاد رکھو کہ موسیٰ سے لڑنے کے عوض ہمیں اس کی قدر کرنی چائیے اور اس کوشش میں رہناچائیے کہ اس کی قوت بر قرار رہے اس میں کئی مصلحتیں ہیں اول تو یہ ہے کہ موسیٰ کی وجہ سے تورانی و تاتار ی حکمرانوں کو اتنا اطمینان نصیب نہیں ہوتا کہ سب اتفاق کر کے ہماری طرف رخ کریں اور یہ اسی کی بر کت تھی کہ امیہ ماور ا لنہر کے بعض علاقوں پر قبضہ کر سکا اگر موسیٰ نے ترمذ میں اپنی قوت نہ قائم کر لی ہوتی تو یہ وہ پر فتن گروہ ہے کہ ہمیں خراسان میں کبھی آرام سے نہ بیٹھنے دیتا ۔دوسری بات یہ ہے کہ موسیٰ اگر چہ بظاہر خلافت کا مطیع نہیں مگر پھربھی مسلمان ہے اور امیر المومنین کے حکم سے باہر نہیں ہو سکتا ۔وہ چاہے کتنا ہی بڑھ جائے ہمارا ہم مذاق، ہم وطن اور ہم مذہب رہے گا ۔اس لئے ہمیں چائیے کہ اس کو اطمینان سے اپنی قوت بڑھانے دیں ۔بلکہ کوشش کریں کہ وہ تمام ملوک توران و ترک کو مطیع و منقاد بنائے اور جب سارا ملک ایک اسلامی حکمران کے ماتحت ہوگا اس وقت آسانی سے ہم اس کو اپنے قبضہ میں لا سکیں گے ۔خلاصہ یہ ہے کہ موسیٰ ہمارے لئے نہایت کار آمد ہے اور ہمارے واسطے مشرق میں چین تک راستہ صاف کر رہا ہے تیسری اہم بات یہ ہے کہ جب تک تر مذ کے قلعہ میں مو سیٰ ہے ۔اس وقت تک تم مجھے خراسان کا والی دیکھ رہے ہو اگر وہ مار ڈالا گیا یا اس کی قوت ٹوٹ گئی تو پھر خراسان کی مسند حکومت پر میری آزادی لاحاصل ہو گی بلکہ کوئی مضری آئے گا جو تمھا رے سارے خاندان اور کل قبائل ازدکو خاک میں ملا دے گا ۔’’

            ان باتوں نے یزید کو ارسلان کی دوستی سے کسی قدر روک دیا گو کہ نو جوانی کی مروت اور عیاشانہ ہم مذاقی کے خیال سے بظاہر اسی طرح ملتا تھا ۔ارسلان ایک ہوشیار شخص تھا ۔یزید کے چشم و ابرو سے اس کے دلی جذبات کو سمجھ گیا تھا اور اس کے دل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی اور تدبیریں کرنے لگا ایک دن یزید نوجوانی کے نشہ میں خراسان اور ترکستا ن کے حسن و جمال کا مقابلہ کررہا تھا ارسلان نے کہا حسن تو ترکوں کا حصہ ہے اگر آپ انسانی حسن کی بہار دیکھنا چاہتے ہیں تو بحر قزوین (کیپسین سی ) کے مشرقی و مغربی ممالک میں جا کر دیکھئے ۔اس کے مشرق میں تر ک رہتے ہیں اور مغرب میں گرجستان والے اور ان دونوں ملکوں سے زیادہ حسن و جمال خدا نے کسی سر زمین کی عورتوں کو نہیں دیا ہے ۔’’یزید :‘‘کیا ترکستان کی عورتیں خراسان و فارس کی مہ لقاؤں سے زیادہ صاحب جمال ہیں ؟’’ارسلان :‘‘خراسان و فارس کو حسن سے کیا تعلق ؟نہ ان ملکوں نے کبھی حسن کا دعویٰ کیا اور نہ شاعروں نے کبھی یہاں کے حسن کی تعریف کی ۔’’یزید :‘‘میں نے گرجستان اور کوہ قاف کے علاقو ں کے حسن کی تعریف بے شک سنی تھی مگر بحر قزوین کے مشرقی سواحل یعنی ترکستا ن و تاتار کے حسن کا حال آج تم سے سنا ۔’’ارسلان :‘‘حضور شعرائے عجم ترکوں ہی کے حسن و جمال کا نغمہ گایا کرتے ہیں ۔سارے ایرانی ہمیشہ سے ترکوں کی ذات گرہ گیر کے اسیر ہیں اور اسی کا ایک سبب یہ ہے کہ موسیٰ بن عبداللہ بن خازم گھر بار اور اہل وطن کو چھوڑ کے اور باپ تک سے بگڑ کے جو سارے خراسان کا حاکم تھا ترکستان چلا گیا اور فقط پری جمال عورتوں کے شوق میں وہاں پڑا ہوا ہے ۔’’

            یزید :‘‘میں تو اسے بڑا بہادر سنتا ہوں مگر تمھارے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فقط حسین عورتوں کے فراق میں رہا کرتا ہے ایسے عیش طلب آدمی سے ایسی بہادری نہیں ظاہر ہو سکتی۔’ارسلان :‘‘دراصل وہ بہاد رنہیں ایک نوجوان عیش پرست اور حسین عورتوں کا غلام ہے ۔انہی عورتوں کے شوق میں کچھ لڑائی بھڑائی بھی کر لیتا ہے اور اس کی ناموری کی اصلی وجہ یہ ہے کہ بہت سے بہادر سردار اور تجربہ کار سپہ سالار اس کے پاس ترمذ میں جمع ہو گئے ہیں ۔وہی میدان جنگ گر م کرتے ہیں اور وہی ترمذ اور اس کے قرب و جوار کا انتظام کرتے ہیں مگر موسیٰ ہے بڑا خوش نصیب !’’

            یزید :‘‘جب اس میں نہ شجاعت ہے نہ لیاقت تو خوش نصیبی کیا ہے ؟’’ارسلان :‘‘خوش نصیبی یہ ہے کہ بے لڑے بھڑے عورتوں کی آغوش میں بیٹھے ہی بیٹھے ہر طرح کی ناموری حاصل کررہا ہے اور اس سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ اسے دو ایسی پری جمال و مہوش نازنیں و نا ز آفرین مہ لقا ئیں مل گئی ہیں جو حسن و جمال میں عدیم المثا ل ہیں اور ساری دنیا میں چراغ لے کے ڈھونڈئیے تو حسین گل اندام دل ربائیں کہیں نہ ملیں گی ۔’’یزید :‘‘(بے حد اشتیاق کے ساتھ ) وہ آفت کی پر یاں کو ن ہیں وہ کیو نکر اس کے ہاتھ لگیں ۔’’ارسلان :‘‘ان میں سے ایک جو دونوں میں بڑھی ہوئی ہے شاہ کا شغر کی بیٹی شہزادی لعبت چین نوشین ہے دوسری سمر قند کی منتخب حسینہ قتلق خانم ہے ۔وہ چند روز تک میرے والد طر خون کی اجازت سے سمر قند میں مقیم رہا تھا ۔وہیں سے ان دونوں نازنیوں کو زبر دستی پکڑ کے لے بھا گا اور اگر چہ اس کے تعاقب میں بہت سی فوجیں بھیجی گئیں مگر ان کے پنجہ سے بچ کر ترمذ میں پہنچ گیا ۔وہاں پہلے ترمذ کے حاکم کو دوست بنا کر اس کا ہمدم و ہمراز بنا اور جب شاہ ترمذ نے دعوت کے طور پر اسے اپنے قلعہ میں بلایا تو کھانے پینے او رخوب عیش کرنے کے بعد دغابازی سے قلعہ پرقابض ہوگیا اور کمزور شاہ ترمذ نے گھر بار اور قلعہ کو خیر باد کہہ کر راہ فرار اختیار کی ۔’’یزید :‘‘ افسوس ! تو نے باتوں باتوں میں مجھے شہزادی کا شغر لعبت چین نوشین کا پروانہ بنا دیا ۔شاہ ترمذ او رقلعہ ترمذ سے مجھے مطلب نہیں مگر ان دونوں پر ی جمال معشوقاؤں کو جس طرح ہو سکے گا موسیٰ سے چھین کر اپنے قبضہ میں لاؤں گا مگر افسوس والد کو خد اجانے موسیٰ کی کون سی بات پسند آگئی ہے کہ اس کے خلاف کسی کارروائی کو پسند نہیں کرتے تم اگر یہ سب حالات ان سے بیان کرو تو کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑے گا ۔’’ارسلان :‘‘بالکل اثر نہ ہوگا ۔مجھ سے وہ بد گمان ہوگئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دینی اور قومی اختلاف کے باعث مجھے موسیٰ سے تعصب ہے حالانکہ میں وہ شخص ہوں جس نے سارے ترکستا ن اور چین کے بادشاہوں کو خلافت اسلامیہ کا دوست اور مطیع و منقا د بنا دیا ہے ۔’’یزید :‘‘خیر تو میں ہی ان سے درخواست کروں گا کہ مجھے موسیٰ کے مقابلہ اور ترمذ کے فتح کرنے کے لئے روانہ کریں ۔شاید منظور کر لیں ۔’’ارسلان :‘‘(بہت ہی خوش ہو کر ) یہ درخواست کیجئے اور جس طرح ممکن ہو اس کو منظور کرائیے ۔میں آپ کے ہمراہ چلوں گا اور وہاں پہنچ کر آپ میری کارگزاریاں دیکھیں گے ۔اول تو میں سارے ترکستا ن و مغولستا ن ،ترک و تاجیک اور توران و تبت کو آپ کی مدد اور کمک پر اٹھا لا کھڑا کروں گا اور اس کے بعد ترکستا ن و توران کے بہترین حسن و جمال اور منتخب و عدیم المثال چہروں کو آپ کے سامنے لا کے پیش کر دوں گا جن کے حسن ملائک فریب او رنازو انداز دیکھ کے آپ کو خدا کی قدرت نظر آئے گی اور فتبارک اللہ احسن الخالقین پڑھنے لگیں گے ۔’’

            یزید :‘‘وہ سب میری حرمین ہوں گی اور ان کی ملکہ و سر تاج ناز آفرین لعبت چین نوشین ہوگی ۔’’ارسلان :‘‘بے شک !اسے موسیٰ سے چھین کر آپ کے مشکوائے معلی میں پہنچانا تو میرا سب سے پہلا کا م ہوگا ۔’’اس کے بعد دونوں نے باہم دوستی و یکجہتی کا عہد و پیمان کیا اور خفیہ خفیہ ترمذ پر حملہ کرنے کی تیاریاں کرنے لگے ۔’’(جاری ہے)