کاروبار

مصنف : تسنیم عابدی

سلسلہ : ادب

شمارہ : جولائی 2008

 

٭گھر کے دستر خوان پہ
روٹی سالن ہے
گھر والی نے جوڑا نیا بنایا ہے
فضلو! میرے سونے کے گہنوں کا شوق
پھولوں کے گجرے ہی سے پورا کر دے
 
٭ریشماں سارے وعدے اب پورے ہو ں گے
سرخی ، پاؤڈر ، کاجل تجھ کو لا دوں گا
تیری مانگ بھی افشاں سے چمکاؤں گا
 
٭فضلو تیرے نام کیا لاٹری نکلی ہے 
پہلے تو توُوعدوں سے کتراتا تھا
بدحالی پہ آنکھیں مجھ سے چراتاتھا
 
٭تجھ کو کچھ معلوم نہیں الہڑ بھولی
کتنی مہربان ہے قسمت کی دیوی
بم کے دھماکے ہونے سے اس بستی میں
روز نئی قبریں کھدوائی جاتی ہیں
کاروبار میں تیزی آتی جاتی ہے
تیرے دستر خوان پہ اب رونق ہو گی
میں تجھ کو اب گہنے بھی دلواؤں گا
موت کا کاروبار بہت زوروں پر ہے
 
٭ریشماں !بس تو دعا یہ کر تیرا فضلو
کیا ہی اچھا ہو عراق چلا جائے
یاافغانستان ہی جانا ہو جائے
پھر تو قسمت ایسا پلٹا کھائے گی
سونے میں تو پیلی ہو تی جائے گی
ایشیا میں بس گورکنی کا پیشہ ہی
بہت منافع بخش دکھائی دیتا ہے
موت کا کاروبار بہت زوروں پہ ہے
روز نئی قبریں کھدوائی جاتی ہیں۔