لُعبتِ چین

مصنف : مولانا عبدالحلیم شرر

سلسلہ : ناول

شمارہ : مئی 2008

قسط ۔۳

            اس واقعہ کا انجام یہ ہوا کہ سارے بنی تمیم خراسان کے جن جن شہروں میں تھے بگڑ کھڑے ہوئے اور والد کے ساتھ دشمنی کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ چنانچہ ان کا ایک بڑا بھاری گروہ خاص مرو میں جمع ہو گیا جہاں والد کی طرف سے میں حکومت کر رہا تھا ۔ میں نے یہ حال والد کو لکھا اور انہوں نے اس اندیشہ سے کہ ہمارا سارا خاندان اورمال و اسباب مرو میں جمع ہے، مجھے حکم دیا کہ سب کو اور تمام مال و اسباب لے کران کے پاس چلا آؤں۔ میں نے فورا ًاس حکم کی تعمیل کی ۔ میرے آتے ہی بنو تمیم نے مل کر مرو میں جریش بن بلال قریشی کو اپنا سردار مقرر کر لیا اور ان کی عام رائے یہ قرار پائی کہ بڑھ کے والد سے مقابلہ کریں چنانچہ جریش نے بنو تمیم کی عظیم الشان قوت کے ساتھ آکے والد کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ یہ لڑائی بھی ایک قیامت تھی جو مدت دراز تک جاری رہی میں بھی اس لڑائی میں والد کے ساتھ موجود تھا ۔

            ایک دن جریش نے میدان میں آکے والد کو پکارا اورکہا ، ابن خازم! لڑائی کو طول دینے ا ور مسلمانوں کے کٹوانے سے کیا فائدہ؟ مرد ہو تو میدان میں نکل آؤ۔ ہم تم آپس میں سمجھ لیں اور جو غالب آئے وہی دونوں لشکروں پر حکومت کرے اور ملک کا مالک ہو۔ والد اگرچہ جریش کے مقابلہ میں بہت ناتواں اور کمزور تھے مگر اس نے ایسی غیرت دلانے والی بات کہی تھی کہ والد نے جواب دیا ۔ ‘‘سچ کہتے ہو اور انصاف بھی یہی ہے۔’’ اور فوراً اس کے مدمقابل ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ۔ دونوں نے پہلے بڑی دیر تک فنون جنگ کے کمالات دکھائے ۔دیر تک کوئی حریف غالب نہ آسکا لیکن آخر میں والد ہی چوکے ، جریش نے جھکائی دے کر ان کے سر پر تلوار کا ایسا ہاتھ مارا کہ ان کی سموری ٹوپی آگے کھسک کے چہرہ اور آنکھوں پر آگئی جس سے آنکھیں بند ہو گئیں اور جریش کو پورا موقع مل گیا کہ انہیں مار لے مگر تلوار مارنے کے ساتھ ہی اس کے گھوڑے کی رکاب ٹوٹ گئی اور اس سے اس کو ایسا جھٹکا پہنچا کہ تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر الگ جا پڑی ۔ والد سے اور کچھ نہ بنا تو گھوڑے کی ایا ل پکڑ کر اس کی گردن میں لپٹ گئے ۔ وہ انہیں اپنے خیمہ کی طرف لے کے بھاگا ان کی جان بچ گئی۔

            دوسرے روز پھر میدان جنگ گرم ہوا مگر آج دونوں سرداروں میں سے کسی کو بھی میدان میں آنے اور حریف کو بلانے کی جرات نہ ہوئی ۔ دونوں طرف کی فوجیں لڑتی رہیں مگر اب تمیمیوں کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی سمجھے کہ اب ہم مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ اس مایوسی نے ان میں پھوٹ ڈال دی اور تین گروہ ہو گئے ۔ ایک گروہ نے نیشا پور کا راستہ لیا ۔ جس کا افسر بحرین ورقا تھا ۔ ایک گروہ اور طرف بھاگا اور ایک گروہ مرورود کی طرف چلا ۔ جریش اسی میں تھا ۔ والد نے اسی گروہ کا شہر ملحبہ تک تعاقب کیا ۔ جریش کے ساتھ فقط بارہ آدمی تھے ۔ یہ لوگ بھاگتے بھاگتے ایک جگہ پہنچے تھے کہ پلٹ کے دیکھا والد سر پر پہنچ گئے ہیں ۔ ٹھہرے ، سنبھلے اورکٹنے مرنے کو تیار ہو گئے ۔ ہمارے ایک غلام نے بڑھ کر جریش کے سر پر تلوار ماری جو اوچھی پڑی اور کارگر نہ ہوئی ۔ جریش نے تلوار ہاتھ سے پھینک دی اور ہمراہیوں سے کہا ۔ ‘‘مجھے کوئی لکڑی اٹھا دو۔ میری اور اس کی تلوار کا مقابلہ نہیں ۔’’ کسی نے ایک لکڑی لا دی اور اسی سے اس نے ہمارے غلام کا کام تمام کردیا۔ اب اس نے والد کے قریب آکے کہا ‘‘میں نے تمہارے لیے ملک تو خالی کر دیا ۔ اب کیا چاہتے ہو۔’’ والد نے کہا ‘‘تم پھر دعوے دار ہو گے اور دشمنی کرو گے ۔’’ جواب دیا کہ ‘‘نہیں! اب یہ نہ ہو گا۔’’ یہ جواب سنتے ہی والد نے لڑائی روک دی اور صلح ہو گئی۔ والد نے اس کو چالیس ہزار درہم دیے ۔ دوستی کا وعدہ لیا اور اس گھڑی سے دونوں دوست بن گئے ۔

            ایک دن والد اور جریش بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور میں بھی ادب سے سامنے بیٹھا تھا اثنائے گفتگو والد کے سر کے اس زخم پر سے جو جریش کی تلوار سے پہنچا تھا اور ابھی تک اچھا نہیں ہوا تھا ۔ روئی کا پھایا گر گیا ۔ جریش نے فورا ًجھک کر اٹھایا اور آہستہ سے اسے زخم پر چپکا دیا ۔ والد نے مسکرا کے کہا ‘‘معاف کیجیے گا ۔ میری رکاب نہ ٹوٹ گئی ہوتی تو تلوار آپ کے بھیجے کے اندر تک تیر جاتی۔’’

            اب ۶۶ھ کے آخری ایام تھے اور والد نے ان دو تین برسوں میں بہت سے دشمنوں کو زیر کر لیا تھا ۔ مگر مفرور تمیمی باقی تھے جن کو انہوں نے مقام قصر میں گھیر لیا ۔ یہاں ان کے ستر اسی نامور بہادر جمع ہو گئے تھے اور قبل اس کے کہ اپنے گروہ کو بڑھائیں والد نے چھ ہزار سواروں کے ساتھ جاکے محاصرہ کر لیا ۔ ان لوگوں میں زہیر بن ذویب عددی عجیب آدمی تھا ۔ جس سے زیادہ بہادر آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔ مگر ان کا سردار وہ نہ تھا بلکہ عثمان بن بشیر تھا ۔ اس معرکہ میں میں بھی والد کے ہمراہ تھا ۔ ہمارے لشکر کے پہنچتے ہی وہ مقابلہ کو نکلے مگر باہر آکے جب ہماری فوج کی کثرت دیکھی تو عثمان بن بشیر نے کہا ‘‘باہر نکل کر اتنے بڑے لشکر سے لڑنا بے سود ہے ۔ قلعہ میں پلٹ جاؤ اور پھاٹک بند کر لو ۔ جب موقع ہو گا نکل کر حملہ کریں گے ۔’’ زہیر نے کہا ‘‘واہ! یہ نہ ہو گا ۔ میں جب تک ان لوگوں کی صفیں درہم برہم نہ کر لوں واپس نہ چلوں گا۔’’ یہ کہہ کے وہ ایک خشک ندی کی ترائی میں اتر گیا اور نیچے نیچے ہی جا کے ہماری فوج کے ایک پہلو میں نکلا اور ہم پر ایسا سخت حملہ کیا کہ واقعی ہماری صفیں درہم برہم کر دیں اب اس کی حالت یہ تھی کہ لوگ اس پر یورش کرتے تو ندی میں اتر جاتا اور جب غافل ہوتے اچانک آپڑتا اور سب کو پریشان کر دیتا۔ والد کو اس کی یہ بہادری دیکھ کر اس سے ایک محبت سی ہو گئی ۔ اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اپنے نیزوں کی نوکوں پر آنکڑے باندھ کر اس پر حملہ کرو اور ان آنکڑوں کو اس کی زرہ کی کڑیوں میں اٹکا کے اسے کھینچ لاؤ تاکہ تمہارے ہاتھ میں وہ زندہ اسیر ہو جائے ۔ اس حکم کے مطابق لوگوں نے آنکڑے باندھ کے اس کے زرہ میں اٹکانے کی کوشش کی ۔ چار آدمیوں نے بڑی جانفشانی سے ان کو اٹکا بھی لیا مگر زہیر کی ہمت اس بلا کی تھی کہ تینوں کو اپنے ساتھ دور تک کھینچ لے گیا ۔ یہاں تک کہ مجبور ہوکے انہیں اپنے نیزے چھوڑ دینے پڑے اور وہ ان کے نیزے لیے ہوئے قلعہ کے اندر چلا گیا ۔ اس تدبیر سے بھی وہ زندہ اسیر نہ ہوا تو والد نے اس کے پاس کہلا بھیجا اگر تم مخالفت سے باز آجاؤ تو وعدہ کرتا ہوں کہ ایک لاکھ درہم نقد دوں گا اور بیسا دن کا علاقہ تمہاری جاگیر میں دے دیا جائے گا مگر اس نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ اب محاصرہ نے طول کھینچا اور پناہ گزینان قلعہ نے تنگ آ کے والد کو پیام دیا کہ ‘‘اگر آپ نکل جانے کا موقع دیں تو ہم قلعہ آپ کے سپرد کر کے یہاں سے چلے جائیں ۔’’ والد نے کہلا بھیجا ۔ ‘‘یہ نہیں ہو سکتا ۔ میرے حکم پر بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈال دو ۔’’ محصورین یہاں تک عاجز آچکے تھے کہ اس حکم کو قبول کرنے پر بھی تیار ہو گئے مگر زہیر نے اس پر بگڑ کے کہا ‘‘کم بختو! یہ تم سب کو پکڑ کے قتل کر ڈالے گا ۔ جان ہی دینا ہے تو شریفوں کی طرح مرو ۔ چلو ہم سب نکل پڑیں یا تو بہادری دکھا کے مرجائیں یا ان کے نرغے سے نکل کے آزاد ہو جائیں گے ۔ خدا کی قسم! اگر تم نے سچی شجاعت دکھائی اور جان پر کھیل کر مردانہ حملہ کیا تو ضرور نکلنے کا راستہ مل جائے گا ۔ میں تمہارا ہر طرح سے ساتھ دینے کو تیار ہوں ۔کہو تمہارے آگے چلوں کہ تمہارے پیچھے چلوں۔’’ سب نے اس مشورہ کے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کو اس قدر پست دیکھ کے اس نے کہا ۔ ‘‘اچھا ٹھہرو! میں تمہیں دکھائی دیتا ہوں۔’’ یہ کہتے ہی اس نے قلعہ سے نکل کر ہمارے لشکر پر حملہ کیا ۔ ایک ترکی غلام اور ابن زبیر اس کے ہمراہ تھے۔ ہم نے لاکھ چا ہا کہ ان لوگوں کو پکڑ لیں مگر نہ پا سکے اور وہ سب ہماری صفیں چیرتے ہوئے محاصرہ سے نکل گئے ۔ مگر زہیر نے یہ کیا کہ دونوں ساتھیوں کو نکال کے پھر ہمارے لشکر پر حملہ آور ہوا اور صفیں چیرتا پھاڑتا پھر قلعہ کے اندر پہنچ گیا اور لوگوں سے کہا ‘‘تم نے دیکھا۔’’ انہوں نے جواب دیا یہ تمہارا ہی کام تھا ہم سے نہیں ہو سکتا۔ ہمارا اتنا بڑا جگر نہیں اور ہمیں جان زیادہ پیاری ہے ۔ اس جواب سے مایوس ہو کے زہیر نے کہا ‘‘پھر تمہیں اختیار ہے جو جی چاہے کرو مگر میں ہر حال میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔’’اب قلعہ کا پھاٹک کھلا اور سب لوگوں نے باہر نکل کے ہتھیار ڈال دیے اور سر جھکا کے کھڑے ہو گئے ۔ والد کے اشارے سے لوگوں نے جا کے رسیوں اور زنجیروں میں باندھ لیا ۔ اب والد اپنے خیمہ کے دروازہ پر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور ان کے برابر کرسی پر میں تھا اور اسیران بنی تمیم ایک ایک کر کے پیش کیے جانے لگے ۔ والد کے چشم و ابرو سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان لوگوں کا قصور معاف کر دینا چاہتے ہیں مگر مجھے مرحوم بھائی محمد کے خون اور ذلت سے مارے جانے کا اس قدر جوش اور غصہ تھا کہ والد سے بگڑ کے کہا ‘‘ابا جان! آپ معاف کرنے کو چاہے کر دیں لیکن اگر یہ خوانخوار قاتل اور میرے بھائی کی جان لینے والے بچ گئے تو میں زندہ نہ رہوں گا۔ زہر کھالوں گا ۔ خود کشی کر لوں یا جو جی میں آئے کر گزروں گا۔ ’’ میں نے یہ کلمات ایسے تیوروں میں کہے تھے کہ والد کو مجبوراً ان سب کے قتل کا حکم دینا پڑا۔ ان میں سے دوتین آدمی البتہ خاص اسباب سے چھوڑ دیے گئے جنہوں نے کسی موقع پر اظہار وفاداری کیا تھا ۔ خصوصاً بنی تمیمیوں میں سے بنی سعد کا ایک شخص جس نے والد کو ایک بار حملہ کرتے دیکھ کے اپنے ہمراہیوں سے کہا تھا ‘‘شہسوار مصر کے سامنے سے ہٹ جاؤ۔’’ اس کہنے پر اس کی جان بخشی کی گئی۔ اب زہیر بن ذوہیب پابہ زنجیر سامنے لایا گیا مگر جیسے ہی لوگوں نے اسے لانے کے لیے کھینچا اس نے گو کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا سپاہیوں کے ہاتھ سے زنجیر چھڑا کے ایک جست کی اور ایک زقند میں خندق کے پار تھا ۔ پھر وہاں سے دوسری زقند بھری اور اسی طرح زنجیروں میں بندھا ہوا اس پار خیمہ کے قریب آگرا اور خود ہی والد کے سامنے آکے زمین پر بیٹھ گیا ۔ اس میں بھی اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ تمہارا میں ادب نہیں کرتا مگر والد کے دل میں اس کی اس درجہ قدر تھی کہ اس کا بھی لحاظ نہ کیا اور پوچھا ۔ ‘‘زہیر بولو ۔ اب بھی اگر میں تمہیں نیسان کا علاقہ دے دوں تو کس قدر شکر گزار ہو گے؟’’ اس نے جواب دیا ۔‘‘ شکر گزار تو اس وقت ہو ں گا جب میرے قتل کا حکم دوگے۔’’ والد اب بھی یہی چاہتے تھے کہ اسے چھوڑ دیں ۔ یہ دیکھ کر مجھے طیش آگیا اور کہا ۔ ‘‘دیکھیے ایسا نہ ہو کہ آپ اس سخت ترین دشمن کو چھوڑ دیں ۔’’ یہ الفاظ والد کو ناگوار گزرے اور جوش کے لہجہ میں مجھ سے کہا ‘‘کم بخت تو یہ بھی خیال نہیں کرتا کہ زہیر کے ایسے نامور بہادر کو ہم قتل کرا دیں گے تو دشمنان اسلام سے کون لڑے گا ؟ اور محترم خاتونان عرب کی کون حمایت کرے گا؟ ’’ میں نے جب یہ دیکھا کہ ابا جان چھوڑنے پر ہی آمادہ ہیں تو بگڑ کے کہا ‘‘ابا جان! خوب یاد رکھیے کہ اگر آپ میرے مقتول و مظلوم بھائی کے خون میں شریک ہوئے تو اس کا انتقام میں آپ سے لوں گا۔’’ میرا یہ گستاخانہ جواب سن کر والد نے حیرت سے میری طرف دیکھا اورزہیر کے قتل کا حکم دے دیا ۔ زہیر نے یہ سنتے ہی شکریہ ادا کیا پھر کہا‘‘ مگر میری ایک درخواست ہے ۔ مجھے شوق سے قتل کیجیے۔ مگر ہاں وہاں نہ مارا جاؤں جہاں میرے یہ تمام ہمراہی قتل کیے گئے ہیں اور نہ میرا خون ان کے خون میں ملنے پائے میں ان سب کو یوں ہتھیار ڈالنے سے روکتا تھا اور مشورہ دیتا تھا کہ مرنا ہے تو شریفوں کی موت مرو ۔ تلواریں سوت سوت کے نکل پڑو جو سامنے آئے قتل کرو۔ اس میں یا مارے جاؤ یا لڑتے ہوئے نکل جاؤ ۔ افسوس انہوں نے سماعت نہ کی اوراس ذلت سے مارے گئے اگر میرے کہنے پر عمل کرتے تو خدا کی قسم بجائے اس کے تیرا بیٹا یوں اطمینان سے بھائی کے خون کا انتقام لے تجھے خود اس کی جان کے لالے پڑ گئے ہوتے ’’ والد نے اس کی یہ درخواست قبول کی اور مسلمانوں کا یہ ہرقلوس اور عربوں کا یہ رستم نریمان سب سے الگ لے جا کے قتل کر ڈالا گیا۔

            اب تمیمیوں میں سے فقط بحرین درقا باقی تھا جو نیشا پور میں اپنے باقی ماندہ گروہ کے ساتھ بیٹھا علم سرتابی بلند کر رہا تھا ۔ ادھر مرو رود میں بھی انہیں لوگوں سے خطرہ تھا اور سب سے بڑی آفت یہ تھی کہ خلافت کا کسی طرح تصفیہ نہیں ہو سکتا تھا شام میں بنی امیہ کا زور تھا جہاں مروان نے مسند خلافت پر بیٹھ کے گردوپیش کے تمام شہروں کو اپنے موافق بنا لیا تھا اور مصر میں بھی اس کی سطوت قائم ہو گئی تھی اور ۶۵ھ میں جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے عبد الملک نے اور زیادہ قوت کے ساتھ حکمرانی شروع کر دی۔ ادھر عراق میں خون حسین کے انتقام کا ہنگامہ بپا تھا اور مختار قاتلین حسین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے اور چن چن کے قتل کر رہا تھا ۔مگر یہاں کی ساری شورش فقط اس لیے تھی کہ بے امنی پیدا ہو۔ دولت اسلامیہ کی اصلاح، اس کے سنبھالنے اور نظم و نسق سلطنت درست کرنے کی کسی کو فکر نہ تھی ۔ ادھر مکہ معظمہ میں عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنی خلافت کی بیعت لینا شروع کر دی تھی ۔

            والد کو حکومت خراسان سلم بن زیاد سے ملی تھی مگر اب اس کا کہیں پتا نہ تھا ۔ وہ خود اپنی جان چھپاتا پھرتا تھا ۔ایسی حالت میں ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں ۔ دمشق والوں کا ساتھ دینے کو جی نہ چاہتا تھا اس لیے کہ انہوں نے خلافت اسلامی کو موروثی سلطنت بنا لیا تھا ۔ عراق کے ہنگامہ آراؤں کا ساتھ دینے کے کوئی معنی نہ تھے۔ وہ لوگ تو ایک بنے ہوئے نقش کو بگاڑنے کے سوا کچھ نہ چاہتے تھے ۔ مجبوراً انہوں نے عبداللہ بن زبیرؓ کا ساتھ دیا جن کے والد عشرہ مبشرہ میں سے اور وہ خود کبار صحابہ میں سے تھے۔ چنانچہ خراسان میں انہوں نے ابن زبیر کی طرف سے بیعت لینا شروع کر دی۔ مگر باوجود اس کے کہ یہ ممکن نہ تھا کہ انہیں ابن زبیر سے کسی قسم کی مدد ملے اس کا انجام یہ تھا کہ خراسان میں جیسا انتظام چاہتے تھے نہیں کر سکتے تھے اور دشمنوں کوروز ایک نیا جھگڑا پیدا کرنے کا موقع مل جاتا تھا ۔ یمانیوں کا ہنگامہ تو انہوں نے مٹا دیا مگر تمیمیوں کی شورش کسی طرح کم ہونے کو نہ آتی تھی ۔ اور بعض ایام میں یہ حالت ہوتی تھی کہ ڈرتے تھے کہ کہیں ان کا گھر بار تک نہ لٹ جائے اوراہل وعیال کسی آفت میں نہ پھنس جائیں۔ اس خیال سے انہوں نے مجھے حکم دیا کہ تمیمیوں کی شورش سے بچنے کے لیے تم دریائے جیجون کے اس پار یعنی ماورا النہر میں چلے جاؤ جہاں جابجا ترک کفار کی سلطنتیں ہیں ۔ ا نہی میں رہ کے ان سے دوستی پیدا کر کے یاتو ان کی سرزمین فتح کر کے اپنے لیے نئی جگہ نکالو اور یااطمینان سے وہاں بیٹھ رہو۔ میں خراسان کو فتنوں سے صاف کرتا ہوں اگر کامیابی ہوئی تو مدد دے کر ماورا النہر میں تمہاری سلطنت قائم کرا دوں گا اور کامیابی نہ ہوئی یا یہاں کی شورش بڑھی یا خلافت کا فیصلہ میری مرضی کے خلاف ہوا تو میں بھی تمہارے پاس آکے ٹھہروں گا اور ہم وہاں زیادہ اچھی اور آزاد حکومت حاصل کر لیں گے۔

            ان کے کہنے کے بموجب میں جیجون کے اس پار آگیا اور عہد کر لیا کہ جب تک نہ بلائیں گے خراسا ن کی قلمرو میں قدم نہ رکھوں گا ۔ یہاں میں مختلف شہروں میں مارا مارا پھرا مگر کوئی نہ اپنے شہر میں ٹھہرنے دیتا ہے اور نہ اپنے یہاں پناہ دیتا ہے ۔ فقط شاہ سمرقند طرخون نے اتنی مہربانی کی تھی کہ اپنے شہر میں ٹھہرا لیا مگر وہاں ایسے اتفاقات پیش آئے کہ مجھے اس کا شہر چھوڑ کر چلا آنا پڑا۔ ثابت: ‘‘سمرقند میں جو واقعات پیش آئے ان کو میں آپ کی فوج کے ایک سپاہی کی زبانی سن چکا ہوں ۔ جن سے آپ کی شجاعت و سپہ گری کا نقش سارے ترکستان میں بیٹھ گیا ہے۔’’ موسیٰ: ‘‘مشکل یہ ہے کہ وہاں سے میرے ساتھ دو معزز تورانی خواتین آئی ہیں جن کو میں نے بالکل جائز طور پر حاصل کیا ہے مگر انہی کا آنا ان لوگوں کے لیے باعث ملال ہو گیا ہے اوراب تمام ترک میرے دشمن اور خون کے پیاسے ہوگئے ہیں ۔ کیش میں ارسلان بن طرخون مجھ سے لڑنے کو محض اس لیے آیا کہ اس کی دلہن شادی کے جائز اور مروجہ مقابلہ میں مجھے مل گئی۔’’ ثابت: ‘‘یہ بیویاں نہیں آپ کے حال پر خدا کی عنایتیں اور مہربانیاں ہیں ۔ اس لیے ان کی قدر کیجیے۔’’ موسیٰ: ‘‘قدر تو میں کرتا ہوں اور کروں گا مگر ان کی وجہ سے ہمارے لیے دشواریاں کس قد ر زیادہ پیدا ہو گئی ہیں ابھی تک ہمیں فقط اپنی فکر تھی اب ان کی بھی فکر ہے ۔ ہماری ذات سے یہاں کسی کو عناد نہ تھا مگر ان کی وجہ سے بکثرت دشمن پیدا ہو گئے ہیں ۔’’ ثابت: ‘‘خدا ان سب پر آپ کو غالب کرے گا۔’’ موسیٰ: ‘‘خدا کی ذات سے مجھے ایسے ہی امید ہے مگر میں نے بھی ارادہ کر لیا ہے کہ یہاں اپنے لیے ایک چھوٹی سی قلمرو ضرور پیدا کروں گا۔ اول تو مجھے یہ سرزمین اور یہاں کے پرفضا سبزہ زار نہایت پسند ہیں ۔ دوسرے ترکوں کی قوت و شجاعت کا اندازہ کر کے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اگر مجھے کوئی اطمینان سے بیٹھنے کی جگہ مل گئی تو پھر میں سب کو دبا کے ایسی ریاست قائم کروں گا جو یادگار رہے گی۔ پھر اس کے بعد صدائے جہاد بلند کر کے سارے ترکستان میں توحید کی تبلیغ کروں گا اور علم اسلام کندھے پر رکھ کر خدائے واحد ذوالجلال کا نام پکارتا ہوا چین تک چلا جاؤں گا۔’’ ثابت: ‘‘خدا آپ کے ارادے میں برکت دے۔’’ موسی: ‘‘مگر کوئی ایسی جگہ تو بتائیے جہاں چل کے میں اطمینان سے بیٹھوں۔’’ ثابت: ‘‘مجھے تو یہاں کے سب مقاموں میں شہر ترمذ بہت پسند آیا۔ آبادی صاف ستھری ہے ۔اردگرد کے میدان نہایت ہی شاداب وزرخیز ہیں اور موسم بہار میں نمو نہ جنت ہو جاتے ہیں ۔ آبادی کے پاس ایک نہایت ہی مضبوط و مستحکم قلعہ ہے جو عین دریائے جیحون کے کنارے ہے اور جیحون کا پانی ہمیشہ اس کے پشتے سے ہم آغوش ہوتا رہتا ہے۔’’ موسیٰ: ‘‘اور ترمذ دریائے جیحون کے اس پار ہے؟’’ ثابت: ‘‘جی ہاں! اس پار۔ اس کے پاس ہی بدخشاں کا علاقہ شروع ہو گیا ہے جہاں سے بلبل ہزار داستان کے صد ہا جوڑے آکے ترمذ کے چمنوں میں آشیانہ لگاتے ہیں اورصبح و شام اہل قلعہ کو اپنا ارغنون سناتے رہتے ہیں۔’’ موسیٰ: ‘‘تو پھر میں وہیں چلوں گا۔ معلوم نہیں وہاں کی حکومت کس کے ہاتھ میں ہے؟’’ ثابت:‘‘ وہاں کا ایک مستقل فرماں روا ہے جو مشرک وکواکب پرست ہے اور گوکہ زیادہ قوت و شوکت نہیں رکھتا مگر آپ کے ٹھہرنے کا روادار نہ ہو گا۔’’ موسیٰ: ‘‘میں کوئی صورت نکال ہی لوں گا آپ رہبری کر کے ہمیں وہاں تک پہنچا دیں۔’’ ثابت: ‘‘میں آپ کے ساتھ چلوں گا اور آپ ہی کے ساتھ رہوں گا اس لیے کہ آپ ایسے بہادر اولوالعزم مجاہد کا ساتھ چھوڑ کر اب میں کہیں نہیں جا سکتا۔ رہی میری تجارت تو اس کو میرے بھائی اور غلام انجام دیتے رہیں گے اورمیں یہاں سے بیٹھ کے بھی ان کی مدد کر سکتا ہوں ۔ اس لیے کہ مشک کی خریداری یہاں کے ہر شہر میں ہو سکتی ہے۔’’ اس کے بعد موسیٰ نے ثابت کو رخصت کیا اور اپنے خیمہ میں جاکے لیٹ رہا کہ تھوڑی دیر آرام لینے کے بعد ثابت کی رہبری میں شہر ترمذ کی طرف کوچ کرے۔

 نئی سلطنت کی بنیاد

            تمام ہمراہیان موسی اس قدر تھکے ماندے تھے کہ اس روز سہ پہر کو یہاں سے کوچ نہ کر سکے ۔ رات بھر اسی گھاٹی میں پڑاؤ رہا۔ سب نے شام سے پہلے اٹھ کے شکار مارے۔ مچھلیاں پکڑیں ۔ پکایا کھایا اور عشا کی نماز پڑھتے ہی پڑ کے سو رہے صبح کو اٹھے تو خوب تازہ دم اور بشاش تھے۔ زخمیوں کی بھی یہاں اطمینان سے مرہم پٹی کی گئی اورصبح کو نماز پڑھ کر سارے لشکر نے ثابت کے بتانے پر دریائے جیحون کے کنارے کنارے چڑھاؤ پر سفر شروع کیا اور تیسرے روز شہر ترمذ کے سامنے کھڑے تھے۔ یہاں پہنچتے ہی موسی نے قلعہ کے دامن میں دریا کے کنارے پڑاؤ ڈال دیا اور حاکم قلعہ کو اطلاع کی کہ ‘‘ہم چند روز تک آپ کے جوار میں رہنے کے لیے آئے ہیں لہذا آپ سے ٹھہرنے کی اجازت چاہتے ہیں اور اگر آپ ہمیں اپنے قلعہ میں جگہ دیں تو نہایت ہی شکر گزار ہوں گے۔’’ وہاں سے جواب ملا کہ قلعہ کے اندر کسی غیر کے لیے جگہ نہیں ہے اور تمہارا وہاں ٹھہرنا بھی دراصل گوارا نہیں لیکن اب آگئے ہو تو ٹھہرو اور جس قدر جلد ممکن ہو چلے جاؤ اس لیے کہ ہمارے شہر کی مختصر آبادی کسی لشکر کے زیادہ مدت تک پڑے رہنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ’’ اس کے جواب میں موسی نے کہلا بھیجا: ‘‘ آپ اطمینان رکھیں ۔ میں جلدی چلا جاؤں گا اور آپ کو یا آپ کے شہر کومجھ سے تکلیف نہ پہنچے گی۔’’ حاکم ترمذ کو اس عربی لشکر اور ایک عربی سردار کا اپنے شہر میں رہنا کسی طرح گوارا نہ تھا مگر اس میں مزاحمت کی طاقت نہ تھی اور جانتا تھا کہ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو میں ان پر غالب نہ آسکوں گا اس لیے خاموش ہو رہا۔ موسیٰ نے یہاں مدت تک قیام کرنے کے لیے قلعہ کے پاس ہی نہایت قرینے سے لشکر گاہ مرتب کی ۔ بیچ میں اس کے خیمے تھے ۔ جن کے پاس ترمذی مزدوروں سے کام لیکر ایک پرتکلف کوشک قائم کرائی جس میں مہ جبین نوشین اور گل رخسار قتلق خانم کے ساتھ رہتا اس کوشک اور خیمہ کے چاروں طرف بہادران عرب کے خیمے تھے جن کے بیچ میں سے سڑکیں گزری تھیں اور معلوم ہوتا تھا کہ ترمذ کے پاس ایک دوسرا خوبصورت شہر خیموں کا قائم ہو گیاہے۔

            شاہ ترمذ پہلے تو اس سے بہت ہی بدظن تھا مگر چند روز بعد موسیٰ کے اخلاق اور اس کی ملن ساری اورمحبت سے خوش ہو کے اس کے پاس آنے لگا اور تھوڑے دنوں میں اس درجہ مانوس ہو گیا کہ روز بلاناغہ اس باغ میں آکے گھنٹوں بیٹھتا۔ اس کی صحبت سے لطف اٹھاتا اور روز بروز زیادہ دوست ہوتا جاتا ۔ اب دونوں مل کر شکار کو جاتے اور ہفتوں کوہ و صحرا میں رہ کے بڑے بڑے جانوروں اورچیتل، بارہ سنگھے اورچکارے مار لاتے اور موسیٰ کے باغ فرحت بخش میں ساتھ بیٹھ کے کھاتے ۔

             موسیٰ نے اپنے اخلاق و عادات اپنے آداب معاشرت اور اپنی دلچسپ باتوں سے اس کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ موسیٰ کو اب ترکی زبان بھی اتنی آگئی تھی کہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنا مطلب ادا کردیتا اور اس کی وہ بگڑی ہوئی زبان شاہ ترمذ کو اور زیادہ بھولی اور دلکش معلوم ہوتی۔ ایک دن شاہ ترمذ نے موسی سے کہا:‘‘ آپ کی صحبت میں سارے لطف و عیش و عشرت کے سامان ہیں مگر ایک چیز نہیں جس کے بغیر کوئی صحبت عیش ممکن نہیں ہو سکتی۔’’ موسی: ‘‘وہ کون چیزہے؟’’ شاہ ترمذ: ‘‘شراب گلرنگ۔’’ موسیٰ: ‘‘آپ کو کیا نہیں معلوم کہ شراب ہم لوگوں پر حرام ہے ۔ ہم حرام ہی نہیں اسے نجس اور ناپاک جانتے ہیں ۔ اس لیے چھو تک نہیں سکتے ۔ مگر آپ کے لیے مضائقہ نہیں اور آپ کی عیش پوری کرنے کے لیے آپ کے واسطے اس کا بھی انتظام کر دوں گا۔’’ شاہ ترمذ : ‘‘نہیں ! ایسا نہ کیجیے۔ میرے لیے آپ اپنی صحبت اور اپنے مکان کو گندہ کیوں کرتے ہیں اورفرض کیجیے مجھے آپ نے منگوا بھی دی تو بغیر آپ کے اکیلا میں اس کو پی کے کیا لذت اٹھا سکتا ہوں۔’’ موسیٰ: ‘‘اس کا خیال نہ کیجیے۔ اور یہ کہتے ہی موسیٰ نے ترمذ میں آدمی بھیج کے بادہ ناب کی ایک صراحی منگوا دی اور اپنے دوست شاہ ترمذ کواصرار کر کے پلائی۔ ان باتوں نے اسے موسیٰ کا بہت ہی جانثار دوست بنا دیا اور نشہ صہبا میں کہنے لگا: ‘‘موسیٰ! تم سے بڑا میرا کوئی بھی دوست نہیں جس وقت تم آئے تھے اس وقت میں تم سے گھبراتا اور وحشت کھاتا تھا مگر اس کی خبر نہ تھی کہ ہمارے دیوتا تمہارے ذریعہ سے میرے لیے اعلی ترین عیش و عشرت کا سامان فراہم کرنے والے تھے۔ مجھے اس کا بھی خیال ہے کہ تم روز میری دعوتیں کرتے ہواور کوئی سامان عیش نہیں ہے جس کو میرے لیے اٹھا نہ رکھتے ہو مگر میں نے آج تک ایک بار بھی تمہاری دعوت نہیں کی۔’’ موسیٰ: ‘‘دوستوں میں ایسی باتوں کا خیال نہیں ہوا کرتا ۔ یہاں وہاں ایک ہی ہے میں نے دعوت کی اور آپ نے کی تو مطلب ساتھ مل کے کھانے اور ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اٹھانے سے ہے اور اس کے خدا نے مواقع پیدا کر ہی دیے ہیں۔’’ شاہ ترمذ: ‘‘یہ صحیح ہے مگر میرا جی چاہتا ہے کہ پورے اہتمام سے اپنے قلعہ میں تمہاری دعوت کروں ۔ اب کے شکار سے واپس آئیں گے تو میں آپ کی دعوت کروں گا آپ کو اپنے قلعہ کی سیر کراؤں گا ۔ اپنے باورچیوں کے ہاتھ کا کھانا کھلاؤں گا اور اپنی تمام گانے والی لونڈیوں کا ناچ دکھاؤں گا۔’’ موسیٰ: ‘‘ میں تو یہی کہوں گا کہ ایسی تکلیف نہ کیجیے لیکن آپ کی دل شکنی بھی مجھے گوارا نہیں ہے ۔ آپ کے دل میں ایسا شوق پیدا ہوا ہے تو مجھے کوئی عذر نہیں۔’’ اس گفتگو کے ایک ہفتہ بعد شاہ ترمذ اور موسیٰ بڑے اہتمام سے شکار کو گئے اور چار روز تک خوب شکار کر کے واپس آئے تو شاہ ترمذ بجائے اس کے کہ حسب معمول موسیٰ کے باغ میں ٹھہرے رخصت ہو کے اپنے قلعہ میں گیا اور جاتے جاتے کہتا گیا کہ آج قلعہ میں آپ کی دعوت ہے ۔ تیسرے پہر کو جس وقت میں بلاؤں چلے آئیے گا اور اس کا خیال رکھیے گا کہ سو آدمیوں سے زیادہ اپنے ساتھ نہ لائیے گا۔’’ موسیٰ : ‘‘جیسا ارشاد ہو مجھے تو سوآدمیوں کے لانے کی بھی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔’’ شاہ ترمذ: ‘‘نہیں سو آدمی ضرور آپ کے ساتھ ہوں اور میں نے یہ اس لیے کہا کہ میں نے اپنی قوم کے بھی سو آدمی بلائے ہیں کل دو سو ہوں گئے اس سے زیادہ آدمیوں کی دعوت کا سامان نہ کر سکوں گا۔’’ موسیٰ : ‘‘بہتر ہے میں سو معزز آدمیوں کو لیتا آؤں گا جو میرے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کے کھانا کھائیں گے۔’’شاہ ترمذ: ‘‘یہی میرا مطلب ہے اتنے ہی میں نے اپنے دوست اور سردار بھی مدعو کیے ہیں یہ ایسی صحبت ہو گی کہ آپ پسند کریں گے۔’’ یہ کہہ کے شاہ ترمذ اپنے قلعہ میں گیا اور موسی نے اپنے مخصوص لوگ منتخب کر لیے۔ جن کو ساتھ لے جانے والا تھا ۔ دو تین گھنٹہ دن باقی تھا کہ شاہ ترمذ کا ایک سردار آیا اور موسی کو ادب سے سلام کر کے کہا: ‘‘تشریف لے چلیے ۔ ہمارے بادشاہ نے بلایا ہے ۔’’ موسیٰ نے فوراً اپنے ہمراہیوں کو ساتھ لیا اور پا پیادہ اس کے ساتھ ہو گیا ۔ قلعہ ایک پہاڑی پر تھا لہذا پھاٹک میں داخل ہونے کے بعد سب کو تقریباً دو سو گز کی بلندی پر چڑھنا پڑا۔ یہ دشوار راستے طے کر کے سب قصرشاہی میں پہنچے۔ پہلے چاروں طرف پھر کے قلعہ کی سیر کی اور اس بات سے نہایت محظوظ ہوئے کہ قلعہ پر سے کوسوں تک کا میدان نظر آتا تھا۔ خصوصاً دریائے جیحون کی سیر اس پر سے بڑا لطف دیتی تھی ۔ جو مشرق سے مغرب کی طرف قلعہ کی دیواروں کو چومتا اور اس کے مضبوط پشتوں سے لپٹا ہوا نکل گیا تھا۔مغرب کا وقت آیا تو اسلامی موذن نے ایک سرے پر کھڑے ہو کے اذان دی اور سب مسلمانوں نے وضو کر کے قلعہ کی بلندی پر جماعت سے نماز پڑھی جس میں موسیٰ امام تھا اور تمام اہل قلعہ اس کے اس طریقہ عبادت کو حیرت اور مرعوبیت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ بعد نماز سب جا کے قلعہ کے سب سے بلند دیوان خانے میں بیٹھے جہاں ایرانی قالینوں کا فرش تھا اور چینی گلدانوں میں گلدستے سجے ہوئے تھے ۔ دستر خوان بچھا۔ انواع و اقسام کے الوان نعمت چنے گئے۔اب سب نے کھانا شروع کیا اور شاہ ترمذی نے موسیٰ کے پاس بیٹھ کے شفیق میزبانوں کی طرح اسے اصرار کر کے کھلایا۔ یہاں تک کہ ڈیڑھ پہر رات گزر گئی اورسب نے ہاتھ دھوئے ۔ شاہ ترمذ نے رخصت چاہی تو موسیٰ نے کہا آپ شوق سے آرام کیجیے۔ہم ادھر ہی سوجاتے ہیں۔شاہ ترمذ:‘‘مگر میں بغیر آپ کو رخصت کیے کیسے جا سکتا ہوں۔ آپ اور آپ کے ہمراہی جالیں تو میں جا کے سوؤں۔’’ موسیٰ:‘‘میرا خیال نہ کیجیے میں اور میرے رفقا رات کو اس کمرے میں پڑ رہیں گے۔’’ شاہ ترمذ: ‘‘یہ نامناسب ہے اور میں ہرگز پسند نہ کروں گا کہ آپ اور آپ کے ساتھی سو عرب ساری رات قلعہ کے اندر رہیں۔’’ موسیٰ:‘‘ مگر میرے نزدیک یہی مناسب ہے۔ اب ہم یہیں رہیں گے اور ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہی قلعہ ہمارا گھر ہو گا اور یا اسی میں ہماری قبریں بنیں گی۔’’ شاہ ترمذ: ‘‘(طیش غضب سے) اس دعوت و خدمت گزاری کا معاوضہ یہی ہے؟’’ موسیٰ:‘‘ نہیں! یہ اس دعوت کا معاوضہ نہیں بلکہ اس کا معاوضہ ہے کہ یہاں آکے جب میں نے قلعہ کے اندر آنے کا ارادہ کیا تو نہایت ہی بے مروتی سے جواب دیا گیا کہ تم قلعہ کے اندر نہیں آسکتے۔ میں نے اس وقت عہد کر لیا تھا کہ انشا ء اللہ کسی نہ کسی بہانے سے اس قلعہ پر ضرور قبضہ کرلوں گا اور خدا نے اپنی مہربانی سے آج میرا وہ عہد پورا کر دیاہے۔’’اس جواب پربرافروختہ ہو کے شاہ ترمذ نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ان بدعہد اور مکار و دغا باز عربوں کو گرفتار کر لیں مگر قبل اس کے کہ ترمذ کے سپاہی اس حکم پر عمل کرنے کا بھی خیال کریں۔ سارے عرب تلواریں کھینچ کے کھڑے ہو گئے سب نے موسیٰ کے گرد جمع ہو کے اپنی صفیں باندھ لیں اور جب دیکھا کہ دشمنان شہر مقابلہ کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں تو زور و شور سے نعرہ تکبیر بلند کر کے ان پر حملہ کر دیا ۔ ان کی تکبیر کی آواز سنتے ہی باہر کے عرب جو اپنے پڑاؤمیں مسلح اور تیار اسی آواز پر کان لگائے بیٹھے تھے وہ بھی اندر گھس پڑے اور سارے شہر میں تلوار چلنے لگی۔رات کے اندھیرے میں کسی کو تمیز نہ ہوتی تھی کہ لوٹنے مارنے والے اہل شہر ہیں یا غیر۔ اور کسی کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یک بیک کون سی آفت اٹھ کھڑی ہوئی کہ ایسا ہنگامہ محشر بپا ہو گیا۔

            اب عرب سارے قلعہ میں پھیل گئے جو جہاں تھے وہیں سے بار بار نعرہ تکبیر بلند کرتا تھا اور ان آوازوں سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ سارا قلعہ عربوں کے قبضہ میں ہے۔ آخر شاہ ترمذ کے حواس جاتے رہے اور نظر آیا کہ اگر دم بھر اور یہاں ٹھہرا تو عربوں کے ہاتھوں گرفتار ہو جاؤں گا گھبراہٹ میں اپنی چند بیویوں اور بچوں کو اور تھوڑا سا زر و جواہر لے کے ایک تہہ زمین راستہ میں سے بھاگ گیا اور یہاں ساری رات یہی عالم رہا کہ قلعہ کے پھاٹک پر عربوں کا قبضہ تھا ۔ اس لیے کہ حارثین قلعہ پہلے ہی قتل ہو گئے تھے اور اب کسی کو مجال نہ تھی کہ قلعہ سے باہر جا سکے۔ اندر مرد ، عورت ، بوڑھا ، بچہ جو تھا اسے عرب گرفتار کر رہے تھے۔ اسی حالت میں صبح ہوئی ۔

            غرض دم بھر میں موسیٰ ترمذ کا حکمران تھا اور دنیا کی کسی سلطنت و حکومت کا اس پر اثر نہ تھا ۔ اس نے قلعہ کو خوب مضبوط کیا اس کے باہر بھی دوہری قلعہ بندیاں کرائیں ، خندقیں گہری اور چوڑی کرائیں اور ایسا انتظام کیا کہ دریائے جیحون سے پانی آکے ہر وقت ان میں بھرا رہے اور ڈوبی ہوں ۔

            شاہ ترمذ نے بے خانماں ہونے کے بعد نزدیک و دور کے تمام ترکی حکمرانوں کے پاس جا کے فریاد کی مگر کسی نے کوئی مدد کا وعدہ نہ کیا اور وجہ یہ تھی کہ ایک طرف تو موسیٰ کی شجاعت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ اس سے میدان میں لڑنا بھی آسان نہیں اور اب اس کو ایک زبردست قلعہ مل گیا ہے تو کس کی مجال ہے کہ اسے وہاں سے نکال سکے۔ دوسرے سب جانتے تھے کہ کسی قلعہ کو محصور کر کے اس پر قابض ہونا دوچار دن کا نہیں بلکہ برسوں کا کام ہے۔ اس خیال سے کسی نے شاہ ترمذ کی فریاد نہ سنی اور موسیٰ نے نہایت ہی اطمینان سے علم آزادی بلند کر لیا۔