نور جہاں کا مزار

مصنف : تلوک چند محروم

سلسلہ : ادب

شمارہ : مئی2016

ادب 
نور جہاں کا مزار: تلوک چند محروم
سید متین احمد 

تلوک چند محروم اردو کے نظم نگار شعرا میں سے تھے۔آپ کی مختلف موضوعات پر بعض نظمیں خیال،الفاظ کے چناؤ،بحروں کی غنائیت، مناظرِ قدرت کی تصویر کاری اور روانی میں پر تاثیر ہیں۔ آپ کی ایک نظم "نور جہاں کا مزار" عبرت سرائے دہر کا ایک جیتا جاگتا مرقع ہے جس کا مرکزی موضوع شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہان کی گورِ غریباں کی تصویر کشی ہے۔علامہ شبلی نعمانی کی ایک نظم "عدلِ جہانگیری" میں اس ملکہ ہند کا ایک واقعہ رقم ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسن و ادا کی اس ناظورہطناز کی کیا ادائیں ہوئی ہوں گی جن پر اک روز فنا کی ناگن نے اپنا بسیرا جمایا اور آج راوی کے کنارے اس کے مزار پر، خیال ہے کہ، اس کا اپنا ہی یہ شعر دیدہ عبرت کو بہت کچھ دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
بر مزارِ ما غریباں، نے چراغے، نے گِلے
نے پرِ پروانہ سوزد، نے چراغِ بلبلے
زمانہ بدل جاتا ہے، مسرتیں ادسیوں میں ڈھل جاتی ہیں،شہنائیوں کی سامعہ نواز صدائیں، غم کے نغموں سے مبدل ہو جاتی ہیں۔ صرف ایک ذات ہے جس کو دائمی بقا ہے۔’’محروم‘‘ کی یہ نظم انھی اداسیوں کی تصویر کاری ہے۔
خاور سے باختر تک، جن کے نشاں تھے برپا
کچھ مقبروں میں باقی، ان کی نشانیاں ہیں
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہِ نور جہاں ہے
مدت ہوئی وہ شمع، تہِ خاک نہاں ہے
اٹھتا مگر اب تک سرِ مرقد سے دھواں ہے
جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم
تْربت پہ ہے ان کے شبِ رنجور کا عالم
اے حسنِ جہاں سوز! کہاں ہیں وہ شرارے
کس باغ کے گل ہو گئے، کس عرش کے تارے؟
کیا بن گئے کِرمکِ شب تاب وہ سارے؟
ہر شام چمکتے ہیں جو راوی کے کنارے
یا ہو گئے وہ داغ، جہانگیر کے دل کے؟
قابل ہی تو تھے عاشقِ دل گیر کے دل کے!
تجھ سی مَلَکہ کے لیے یہ بارہ دری ہے
غالیچہ سرِ فرش ہے کوئی نہ دری ہے
کیا عالمِ بے چارگی اے تاجوری ہے
دن کو یہیں بسرام، یہیں شب بسری ہے
ایسی کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی
ہوتی ہو مگر یوں، سرِ صحرا نہیں ہوتی
تعویذِ لحد ہیزبر وزیر یہ اندھیر
یہ دور زمانہ کے الٹ پھیر، یہ اندھیر
آنگن میں پڑے گرد کے یہ ڈھیر، یہ اندھیر اے گردشِ ایام! یہ اندھیر، یہ اندھیر
ماہِ فلَکِ حسن کو یہ برج ملا ہے
اے چرخ !ترے حسنِ نوازش کا گلہ ہے
حسرت ہے ٹپکتی درودیوار سے کیا کیا
ہوتا ہے اثر دل پہ، ان آثار سے کیا کیا 
نالے ہیں نکلتے ، دلِ افگار سے کیا کیا
اٹھتے ہیں شرر آہ، شرربار سے کیا کیا 
یہ عالمِ تنہائی، یہ دریا کا کنارا
ہے تجھ سی حسینہ کے لیے ہْو کا نظارا
چوپائے جو گھبراتے ہیں گرمی سے تو اکثر
آرام لیا کرتے ہیں اس روضے میں آکر
اور شام کو بالائی سیہ خانوں سے شپّر 
اڑ اڑ کے لگاتے ہیں درو بام کے چکر
معمور ہے یوں محفلِ جاناں نہ کسی کی
آباد رہے گورِ غریباں نہ کسی کی
آرستہ جن کے لیے گلزار وچمن تھے 
جو نازکی میں داغ دہِ برگِ سمن تھے
جو گل رخ و گل پیرہن و غنچہ دہن تھے
شاداب گلِ تر سے کہیں جن کے بدن تھے
پڑ مردہ وہ گل، دب کے ہوئے خاک کے نیچے 
خوابیدہ ہیں خارو خس وخاشاک کے نیچے
رہنے کے لیے دیدہ و دل جن کے مکاں تھے
جو پیکرِ ہستی کے لیے روحِ رواں تھے
محبوبِ دلِ خلق تھے، جاں بخشِ جہاں تھے
تھے یوسفِ ثانی کہ مسیحائے زماں تھے
جو کچھ تھے ، کبھی تھے، مگر اب کچھ بھی نہیں ہیں
ٹوٹے ہوئے پنجر سے پڑے زیرِ زمیں ہیں!
دنیا کا یہ انجام ہے دیکھ اے دلِ ناداں
ہاں بھول نہ جائے تجھے یہ مدفنِ ویراں
باقی ہیں نہ وہ باغ، نہ وہ قصر، نہ ایواں
رام کے اسباب نہ وہ عیش کے ساماں
ٹوٹا ہوا اک ساحلِ راوی پہ مکاں ہے 
دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے