شیطانی کھلونے

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : ادب

شمارہ : مئی 2010

             قاسم میاں گھر کی دہلیز پہ یوں بیٹھے تھے گویا اگرآج کسی نے اس دہلیز پہ پاؤں رکھنے کی کوشش کی تو وہ کسی کو نہ بخشیں گے۔ ان کے تاثرات سے یہ سمجھنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ غمزدہ ہیں یا خوفزدہ۔

            گھر میں دہرا کہرام مچا تھا ایک تو اماں چپکے سے اگلے جہان سدھار گئی تھیں اور دوسرے قاسم میاں کو نجانے کیا ہو گیا تھا۔ نہ تو روتے تھے اور نہ ہی کسی کو گھر کے اندر آنے دیتے تھے۔ سب حیلے بہانے کر ڈالے مگر قاسم میاں تو ہوش و حواس سے ہی بیگانہ ہو چلے تھے۔ اس دہری آفت نے سبھی کو بوکھلا دیا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اماں کا ماتم کریں یا قاسم میاں کا۔

            جا میری بچی ذرا بھائی کو تو بلا لا ، دیکھ میں چولہا جلا رہی ہوں ۔ رضیہ اپنی سی کوشش کرتی ہے مگر قاسم میاں ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ تنگ آکر اماں وہیں سے دوچار کوسنے دیتی ہیں مگر ہے جو ان کے کان پر جوں رینگے ۔ روٹیاں پکا پکا کے اماں کے ہاتھ لکڑی ہو گئے اور بول بول کے زبان کانٹا مگر قاسم میاں کو کھانے کی فرصت نہ ملی۔ اب ایسی بھی کیا مصروفیت، بس موبائل وبال جان بن گیا ہے۔ ایک نوالہ لیتے ہیں اور ساتھ میں پانچ چھ میسج بھی بھیجتے ہیں ۔ اماں یہ دیکھ کے پھر کہتی ہے، کتنی بار کہاتھا تمہارے ابا سے کہ اس موئے کو کمپیوٹر نہ دلانا ، اسے تو ابھی موبائل ہی سے فرصت نہیں ، اوپر سے کمپیوٹر آگیا تو میں کہے دیتی ہوں کہ یہ میری جان لے کرہی دم لے گا۔ اری اماں یہ تم کیسی باتیں کرتی ہو۔ یہ بھلا تمہاری جان کیوں لینے لگا۔ ابے او لونڈے ! دیکھ تو بوکھلایا بوکھلایا سا پھرتا ہے ہر وقت ، نہ تجھ کو کھانے کی پروا ، نہ تجھ کو کسی کے آنے جانے کا معلوم ، بس ہر وقت یہ موئے موبائل اور کمپوٹر۔ اللہ قسم ! میں تجھے کہے دیتی ہوں اپنے لچھن صحیح کر لے ۔میرا تو یہ دیکھ دیکھ کر دم نکلا جاتا ہے۔

            جب سے ابا نے قاسم میاں کو موبائل اور کمپیوٹر دلایا تھا ، قاسم میاں تو گھر سے بالکل ہی انجان ہو گئے تھے۔ نہ کھانے کی فکر نہ آنے جانے والوں کی خبر۔ بعد میں اماں سے جھگڑا کہ اماں تم مجھے بتلایا تو کرو کہ گھر کوئی آیا تھا ؟اور یہ سنتے ہی اماں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ اماں تو کئی روز قبل ہی سے باقاعدہ اعلان شروع کر دیتیں مگر یہاں تو یوں محسوس ہوتا گویا قوت سماعت ہی غائب ہے ۔ کچھ سنتے ہی نہیں اور بعد میں اماں سے خار کھائے بیٹھے ہیں کہ تم مجھے بتلاتی نہیں۔

            ارے بھئی اب اٹھ بھی چکو ، اب کیا تم خاندان سے بالکل ہی قطع تعلق کر لو گے ، تمہارے چچا کے ہاں شادی ہے اور تم کو خبر ہی نہیں۔ پھر نہ کہیو کہ مجھ کو خبر نہ ہوئی ۔ بس اب کے تو تم ہمارے ہی ساتھ جاؤ گے۔ قاسم میاں آنکھیں ملتے اٹھے اور کہا : ‘‘اماں تم کیا صبح صبح شو رمچا رہی ہو ، میں اتنا بے خبر نہیں جتنا تم مجھے جانتی ہو۔ مجھ کو معلوم ہے کہ چچا کے ہاں شادی ہے۔’’ اماں کو حیرت کا جھٹکا لگا ۔ ارے لڑکے تم کو کیسے معلوم پڑ گیا ۔ اماں وہ مجھ کو چچا کے لونڈے نے موبائل پہ میسج کیا تھا۔ تبھی تو میں کہوں کہ میاں تم کو کیا خبر۔ خیر چلو اب اٹھ بھی چکو کہ چلیں ۔ نہ اماں میں تو کہیں نہیں جاؤں گا۔ اور تم کوپریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ میں نے ان کو فیس بک (facebook) پر مبارکباد دے دی تھی ، سو اب میں کیا کروں گا وہاں جا کر ۔ تم جاؤں اماں ، میں تو گھر پر ہی رہوں گا ۔ اماں بے چاری روتی پیٹتی یہ کہہ کر چلیں گئیں کہ خدا قسم ! میں تم کو بتا دوں یہ موئے شیطانی کھلونے میری جان لے کر ہی دم لیں گے۔

            ایسے بہت سے مواقع آتے مگر قاسم میاں کہیں موجود نہ ہوتے ، اور اگر شاذونادر کہیں ہوتے بھی تو خالی دماغ کے ساتھ ۔ بات کوئی اور جواب کوئی۔ اماں کا غصہ اگر کسی دن زیادہ ہی عروج کو پہنچ جاتا تو اماں کو سمجھانے لگتے ۔ دیکھو اماں! تم تو خوامخواہ مجھ سے خار کھائے رہتی ہو ۔ دیکھو اماں! میرے موبائل اور انٹرنیٹ پربھی بہت سے سارے دوست ہیں جو بالکل اکیلے ہیں ، اگر میں بھی ان سے رابطہ ختم کردوں تو اماں ان کو کون پوچھے گا۔ وہ تو بالکل ہی تنہائی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔ دیکھو ہمارے ہاں جو لوگ آتے ہیں تو اماں تم ، ابا، رضیہ سبھی تو موجود ہیں نا، ان سے باتیں کرنے کے لیے ،مگر ان بے چاروں کا کوئی نہیں۔ اماں سمجھا سمجھا کے تھک جاتیں کہ ماں باپ کا ، بہن بھائیوں کا ، محلہ داروں کا، رشتہ داروں کا بھی تم پر حق ہے مگر قاسم میاں تو بہت پکے معلوم ہوتے تھے۔

            اماں ہر وقت موبائل اور انٹرنیٹ کو کوسنے دیتیں کہ میرا بچہ کھا گئے۔ کیسا فرمانبردار بچہ تھا ، کبھی اف تک نہ کی ۔ پڑھائی میں بھی کتنا تیز تھا ۔ کوئی فارغ وقت ملتا تو کوئی سی بھی کتاب لے کر بیٹھ جاتا اور کبھی کبھی ٹی وی دیکھ لیتا مگر جب سے اس کے ابا نے اس کو یہ شیطانی کھلونے دلائے ، قاسم میاں کو تو گویا ہوش ہی نہ رہا۔

            اماں قاسم میاں کو سمجھاتیں کہ بچے ایسے تم خود کو برباد کر رہے ہو، نہ تمہیں خود کی خبر نہ دنیا کا ہوش ۔ تمہیں کچھ معلوم ہی نہیں کہ محلہ میں کیا ہو رہا ہے ، رشتہ داروں میں کیا ہو رہا ہے ، ملک میں کیا ہو رہا ہے اور تمہیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ گھر میں کیا ہو رہاہے ۔ تم کو سب بتاتے ہیں مگر گویا تم سنتے ہی نہیں اور پھر شکوہ کرتے ہو کہ ہم تم کو کچھ بتلاتے نہیں۔ قاسم میاں نجانے کیسے بڑے خوشگوار موڈ میں تھے ، بولے ، اماں مجھ کو سب خبر ہے ، تم کیا جانو مجھے کیا کچھ معلوم پڑتا ہے نیٹ سے ۔ دیکھو اماں ! تم کو معلوم ہے کہ افریقہ کے ایک ملک کا نام سینیگال ہے اور اس کا دارالحکومت ڈاکار ہے ۔ دیکھا کسی کو معلوم ہے یہاں ، نہیں نا، اور ہو بھی کیسے ۔ میں فیس بک پر بیٹھتا ہوں۔ میرے دوست ساری دنیا میں ہیں ، مجھ کو سب معلوم ہے۔اماں پوچھتی ہے ، اچھا ذرا یہ تو بتاؤ پاکستان کے کتنے صوبے ہیں ؟ ارے اماں ! یہ تو دوسری جماعت کا بچہ بھی جانتا ہے کہ چار ، تم نے مجھ کو بالکل ہی بدھو سمجھ رکھا ہے ۔ اچھا یہ بتاؤ بلوچستان کا دارالحکومت کون سا شہر ہے ؟ قاسم میاں ذرا کو سوچے اور پھر بولے ، اماں مجھے کیا ، میں نے کون سا حکومت کرنی ہے جو میں یہ سب جانتا پھروں۔ تب اماں بولیں، دیکھا میں نہ کہتی تھی تم کو کچھ معلوم نہیں ۔اور اماں بڑبڑاتی ہوئے آگے بڑھ گئی ، میں تم کو بتا دوں یہ شیطانی کھلونے میری جان لے کر ہی دم لیں گے۔

            قاسم میاں گھر کی دہلیز پہ سانپ بنے بیٹھے تھے ۔ کبھی غصے سے پھنکارتے اور کبھی خود ہی سے ہم کلام ہوتے۔ قاسم میاں کے کانوں میں اماں کی ایک ایک بات گونج رہی تھی ۔ دیکھو بیٹا ، وقت ضائع نہ کیا کرو ، تم کیا اس موئے کمپیوٹر اور موبائل کو ہر وقت چاٹتے رہتے ہو ، اللہ کے حقوق ہیں ، رشتہ داروں کے حقوق ہیں ، ہمسایوں کے حقوق ہیں اور سب سے بڑھ کر ماں باپ ، بہن بھائیوں کے حقوق ہیں مگر تمہیں تو کوئی خبر ہی نہیں ۔ دیکھ لینا ایک دن یہ موئے شیطانے کھلونے میری جان لے کر ہی دم لیں گے…… قاسم میاں کو رہ رہ کر ہر طرف سے اسی قسم کی آوازیں سنائی دینے لگتیں اور وہ لوگوں کو کوسنے لگتے ۔ کیا ہو گیا ہے لوگوں کو ، پاگل ہو گئے ہیں ، بھلا اماں ایسے کیسے جا سکتی ہے مجھے چھوڑ کے ، ابھی تو میں نے اماں سے بہت سے ساری باتیں کرنی تھیں ، ابھی تو میں نے اماں کی گود میں سر رکھنا تھا ، ابھی تو ابھی تو……

            قاسم میاں کی خود کلامی کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب ، ان کے موبائل کی گھنٹی بجی ، قاسم میاں نے موبائل کوایسے دیکھا جیسے بڑی گہری نیند سے جاگے ہوں ۔ نبیل کا میسج تھا ، وہ کہہ رہا تھا کہ فکر نہ کرنا میں نے اماں کے لیے قبر کا انتظام کر دیا ہے ۔ قاسم میاں بھڑک اٹھے اور جوابا ًمیسج کیا ،کیوں بھائی قبر کیوں ، اماں کو کیا ہوا ۔ نبیل کا جوابی پیغام پڑھ کر قاسم میاں یوں ٹوٹ کے روئے جیسے ان کو یقین آگیا ہو کہ اماں مر گئی ہے……

            قاسم میاں ابا کے پاس گئے اور بولے ، ابا! ایک بات تو بتاؤ۔ اگر کسی کی کوئی امانت ہمارے پاس موجود ہو تو کیا اسے واپس نہیں کرنا چاہیے۔ ابا نے رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا، کرنا تو چاہیے مگر اس وقت تم یہ کیوں کہہ رہے ہو ۔ قاسم میاں اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ابا پریشان تو ہوئے مگر ساتھ ہی انہیں ایک طرح کا اطمینان بھی ہوا کہ آخر قاسم میاں نے اس حقیقت کو مان لیا ورنہ ان کے دماغ کو اثر ہو جا تا ۔ قاسم میاں بولے ، ابا ! تو پھر جلدی کرو نا ، اماں کو لے چلو ، اللہ کی امانت تھی ، اس نے واپس مانگی ہے ، ابا جلدی کرو اللہ کی امانت اس کو لوٹا دیں ۔ ابا بولے پر بیٹا یہ بات تو بتاؤ کہ تجھے اماں کے مر جانے کا یقین کیونکر ہوا ، قاسم میاں بولے ابا وہ مجھے میسج آیا تھا…… یہ سن کر ابا یوں دھڑام سے کھاٹ پر گرے جیسے وہ اب دوبارہ کبھی نہ اٹھیں گے ، ہاں مگر وہ مسلسل کچھ بڑبڑا رہے تھے ۔ کسی نے کان لگا کر سنا ، ابا کہہ رہے تھے ، پھر وہی موبائل …… صغراں تم صحیح کہتی تھیں، یہ موئے شیطانی کھلونے میری جان لے کر ہی دم لیں گے ……!!!