فاصلہ پر رہو

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : ادب

شمارہ : دسمبر 2011

 ہرآدمی کے سامنے اس کا ذاتی انٹرسٹ ہے۔ ہر آدمی اپنے اندر ایک انا لیے ہوئے ہے۔ ہرآدمی دوسرے کو پیچھے کرکے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے سڑک پر بیک وقت بہت سی سواریاں دوڑتی ہوتی ہیں۔ آگے سے پیچھے سے’ دائیں سے بائیں سے۔ اس لیے سڑک کے سفر کومحفوظ حالت میں باقی رکھنے کیلئے بہت سے قاعدے بنائے گئے ہیں۔ یہ سڑک کے قاعدے سڑک کے کنارے ہر جگہ لکھے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ سڑک سے گزرنے والے لوگ انہیں پڑھیں اور ان کی رہنمائی میں اپنا سفر طے کریں۔ایک سڑک سے گزرتے ہوئے اسی قسم کا ایک قاعدہ بورڈ لکھا ہوا نظر سے گزرا۔ اس کے الفاظ یہ تھے ‘‘فاصلہ برقرار رکھو’’میں نے اس کوپڑھا تو میں نے سوچا کہ ان دولفظوں میں نہایت دانائی کی بات کہی گئی ہے۔ یہ ایک مکمل حکمت ہے۔ اس کا تعلق سڑک کے سفر سے بھی ہے اور زندگی کے سفر سے بھی۔موجودہ دنیا میں کوئی آدمی اکیلا نہیں ہے۔ ہر آدمی کو دوسرے بہت سے انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔ ہرآدمی کے سامنے اس کا ذاتی انٹرسٹ ہے۔ ہر آدمی اپنے اندر ایک انا لیے ہوئے ہے۔ ہرآدمی دوسرے کو پیچھے کرکے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ ہم زندگی کے سفر میں ‘‘فاصلہ پر رہو’’ کے اصول کو ہمیشہ پکڑے رہیں۔ ہم دوسرے سے اتنی دوری پر رہیں کہ اس سے ٹکراؤ کا خطرہ مول لیے بغیر ہم اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔اسی حکمت کو قرآن میں اعراض کہا گیا ہے۔ اگر آپ اعراض کی اس حکمت کو ملحوظ نہ رکھیں تو کہیں آپ کا فائدہ دوسرے کے فائدہ سے ٹکرا جائے گا۔ کہیں آپ کا ایک سخت لفظ دوسرے کو مشتعل کرنے کا سبب بن جائے گا۔ کہیں آپ کی بے احتیاطی آپ کو غیرضروری طور پر دوسروں سے الجھا دے گی۔ اس کے بعدوہی ہوگا جو سڑک پر ہوتا ہے۔ یعنی حادثہ’ سڑک کا حادثہ آدمی کے سفر کو روک دیتا ہے۔ بعض اوقات خود مسافر کا خاتمہ کردیتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں مذکورہ اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کانتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کی ترقی کا سفر رک جائیگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ خود اپنی زندگی سے محروم ہوجائیں۔ آپ تاریخ کے صفحہ سے حرف غلط کی طرح مٹا دئیے جائیں۔ (مولانا وحید الدین خان)