سوال ۔جواب

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ2016

بغیرغسل کے میت کی تدفین
سوال (۱): ہمارے یہاں ایک صاحب شوگر کے مریض تھے، جس کی وجہ سے ان کا ایک پیر پوری طرح سڑگیا تھا اوراس میں کیڑے پڑگئے تھے۔ ان کاانتقال ہوا تو ڈاکٹروں نے تاکید کی کہ نہلاتے وقت ان کا پیر نہ کھولا جائے اوراس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ کر غسل دیا جائے۔جب میت کوغسل دیا جانے لگا تولوگوں میں اختلاف ہوگیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پورے بدن پر پانی پہنچانا فرض ہے۔ میت پر پانی ڈالنے سے کیا نقصان ہوگا۔ لیکن گھر والوں نے ڈاکٹروں کی بات مانتے ہوئے پیر میں جہاں زخم تھا اس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ دی اوربدن کے بقیہ حصے پر پانی بہایا گیا جس طرح غسل دیا جاتا ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میت کے کسی عضومیں زخم ہونے کی وجہ سے اگراس حصے پر پانی نہ بہایا جائے توغسل ہوجائیگا؟
سوال (۲): ایک صاحب کا بری طرح ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ ان کا سر بالکل کچل گیا اوربدن کے دوسرے حصوں پر بھی شدید چوٹیں آئیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم ہوا۔ اس کے بعد نعش کو ورثاء کے حوالے کیا گیا۔ میت کوغسل دینے میں زحمت محسوس ہورہی ہے۔ کیا بغیر غسل دیے تکفین وتدفین کی جاسکتی ہے؟ سنا ہے کہ شہداء کوبغیر غسل دیے دفنایا جاسکتا تھا۔ کیا ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کوشہید مان کراسے بغیر غسل دیے نہیں دفن کیا جاسکتا؟

جواب: اصطلاح شریعت میں’ شہید‘اس شخص کو کہا جاتا ہے جوراہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے مارا جائے۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔ غزو ہ احد کے موقع پر جو مسلمان شہید ہوگئے تھے، اللہ کے رسولﷺ نے ان کے بارے میں ہدایت دی تھی: اْدفْنْوہْم فِی دِ مَاءِہِم بخاری: ۳۶۴ا، (انہیں بغیر غسل دیے دفن کردو)
احادیث میں کچھ دوسرے افراد کے لیے بھی شہید کا لفظ آیاہے۔ مثلاً جوشخص پیٹ کے کسی مرض میں وفات پائے، جسے طاعون ہوجائے، یا جوڈوب کر مرے۔ (بخاری :۶۵۳) ایک حدیث میں ہے:’’ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔‘‘ (بخاری :۲۴۸۰، مسلم :۱۴۱) ان افراد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ انہیں غسل دیا جائیگا۔
ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کسی شخص کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے، نعش مسخ ہوجائے اور کچھ اعضاء ضائع ہوجائیں تواس صورت میں غسل کا کیا حکم ہے؟ احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ اگر بدن کے اکثر اعضاموجود ہیں توغسل دیا جائے گا، ورنہ نہیں۔ شوافع اورحنابلہ کے نزدیک جسم کا کچھ بھی حصہ موجود ہوتو اسے غسل دیا جائے گا۔ اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے موقع پر ایک پرندہ کسی میت کا ایک ہاتھ اڑا لایا تھا اوراسے مکہ میں گرادیا تھا۔تب اہل مکہ نے اسے غسل دیا تھا اوراس موقع پر انہوں نے نماز جنازہ بھی ادا کی تھی۔بسا اوقات میت کا کوئی عضو سڑجاتا ہے، اسے دھونے سے انفیکشن پھیل جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگرکسی ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ اس عضو کونہ دھویا جائے تواس پر عمل کرنا چاہے اوراس عضو کو چھوڑ کر بدن کے بقیہ حصوں پر پانی بہادینا چاہیے۔ اس طرح غسل ہوجائے گا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت، ۳ا۴۲۴۲ (تغسیل المیت) ۷۷۲۲۴(شہید)

(ابو یحییٰ)

جواب : حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَن صَلّٰی عَلٰی جَنَازٍَۃ فِی المَسجِدِ فَلَیسَ لَہْ شَئی (ابن ماجہ : ۷ا۸ا۔علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔) ’’جس شخص نے مسجدمیں نماز جنازہ پڑھی، اسے کچھ اجر نہیں ملے گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسجد نبوی کے باہر ایک جگہ نماز جنازہ کے لیے متعین کردی گئی تھی۔ وہیں آپ نماز پڑھایا کرتے تھے۔ بہت سی احادیث میں اس کا تذکرہ موجودہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ جگہ مسجد نبوی سے متصل مشرقی جانب تھی۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، المکتبہ السلفیہ ، ۳۰،۹۹ا)اس بنا پر بہتر یہ ہے کہ عام حالات میں سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے نماز جنازہ مسجد کے باہرادا کی جائے۔ لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں بعض مواقع پر مسجد میں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
لَقَد صَلّٰی رَسْولْ اللہِ صَلّٰی اللہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَلَی ابنَی بَیضَاءَ فِی المَسجِدِ(مسلم : ۹۷۳، ابوداؤد : ۸۹ا۳، ترمذی : ۰۳۳ا، نسائی : ۹۶۸ا)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں اداکی۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق اورحضرت عمر فاروق کی نماز جنازہ بھی مسجد میں ادا کی گئی۔ (مصنف عبدالر ز اق : ۶۵۷۶،موطا امام مالک : ۹۶۹)
اسی بنا پر امام بخاری نے یہ ترجمۃ الباب قائم کیا ہے : باب الصلاٰۃ علی الجنائز بالمصلیٰ وبالمسجد (اس چیز کا بیان کہ جنازہ گاہ اور مسجد دونوں جگہ نماز جنازہ اداکی جاسکتی ہے)
علامہ ناصر الدین البانی نے لکھا ہے : ’’مسجد میں نماز جناز ہ جائز ہے ( بہ طور دلیل انہوں نے کئی حدیثیں نقل کی ہیں، لیکن افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں ادا کی جائے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معمول تھا۔‘‘ (احکام الجنائز ، ص ۵۳۱)
فقہامیں امام شافعی اورامام احمدکے نزدیک اگر مسجد میں گندگی ہونے کا اندیشہ نہ ہوتو وہاں نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔ امام مالک کے نزدیک مسجد میں جنازہ کولے جانا مکروہ ہے ، البتہ اگروہ مسجد کے باہر رکھا ہو تومسجد میں موجودہ افراد اس کی نماز میں شریک ہوسکتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جس مسجد میں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے اس میں جنازہ کی نماز پڑھنی مکروہ ہے ، خواہ جنازہ اورنمازی دونوں مسجد میں ہوں ،یا جنازہ مسجد سے باہر اورنمازی مسجد کے اندر ہوں، یا جنازہ مسجد میں اور نمازی مسجد کے باہر ہو ں۔ البتہ بارش یا کسی دوسرے عذر کی بناپر مسجد میں نماز جنازہ بلا کراہت جائز ہے (الفتاویٰ الہندیۃ: ۱،۶۲ا فتاویٰ شامی :۱،۹ا۶۔)
اس موضوع پر تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: الموسوعۃالفقہیۃ کویت :۶ا،،۳۶۔۳۵

(ابو یحییٰ)

جواب: عہدِ جاہلیت میں نکاح کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ آدمی دوسرے سے کہتا تھا : تم اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے کردو ، میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تم سے کردوں گا اور دونوں کا مہر معاف ہوجائے گا۔ اسے ’نکاحِ شغار‘ کہاجاتا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ نکاح سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرفرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شغار سے منع کیا ہے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’اسلام میں ’شغار ‘ جائز نہیں ہے۔‘‘
بعض روایات میں ’ شغار‘ کا مطلب بھی بتایا گیا ہے:
’شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی سے دوسرے آدمی کا نکاح (اس شرط پر ) کردے کہ دوسرا اپنی بیٹی سے اس کا نکاح کردے اوران میں سے کسی کے ذمے اپنی بیوی کا مہر نہ ہو۔‘‘
علامہ شوکانی نے’ نکاح شغار‘ کی دو علّتیں قرار دی ہیں: ایک یہ کہ اس میں ہر لڑکی کوحقِ مہر سے محروم کردیا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ اس میں ہر نکاح دوسرے نکاح سے مشروط اوراس پر موقوف ہوتا ہے۔ (نیل الاوطار)
اگراس طریقہ نکاح میں دونوں لڑکیوں کا مہر تو مقرر کیا گیا ہو، لیکن دونوں نکاح ایک دوسرے سے مشروط اورمعلّق ہوں توبھی وہ ناجائز ہوں گے۔روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس کے بیٹے عباس نے عبدالرحمن بن الحکم کی لڑکی سے اورعبدالرحمن نے عباس بن عبداللہ کی لڑکی سے نکاح کیا اور دونوں لڑکیوں کا مہر بھی مقرر کیا گیا ، لیکن حضرت معاویہ کواس نکاح کی خبر پہنچی توانہوں نے مدینہ کے گورنر حضرت مروان کولکھا کہ اس نکاح کوفسخ کردیا جائے ، اس لیے کہ یہ وہی نکاحِ شغار ہے ، جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے نکاح شغار کی تین صورتیں بتائی ہیں اورتینوں کو ناجائز قرار دیا ہے : ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کوبدلے میں اپنی لڑکی دے گا اوران میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔دوسرے یہ کہ شرط تووہی ادلے بدلے کی ہو، مگر دونوں کے برابر مہر(مثلاً پچاس پچاس ہزار روپیہ )مقرر کیے جائیں اورمحض فرضی طورپر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کیا جائے،دونوں لڑکیوں کوعملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔ تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو ، بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔‘‘
بدلے کی شادیوں میں عموماً تلخی اورناخوش گواری کا اندیشہ رہتا ہے اوردونوں خاندانوں پر خانہ بربادی کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے۔ مثلاً اگرایک خاندان میں شوہر نے جایا بے جابیوی کی پٹائی کردی یا دونوں کے درمیان تعلق میں خوش گواری باقی نہیں رہی یا اس نے طلاق دے دی تو دوسرے خاندان میں لڑکے پر اس کے والدین یا دوسرے رشتے دار دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بھی لازماً وہی طرزِ عمل اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کرے۔لیکن اگر دونوں رشتوں کی مستقل حیثیت ہو، دونوں لڑکیوں کا مہر طے کیا جائے اوران کوادا کیا جائے اورایک رشتہ کسی بھی حیثیت میں دوسرے رشتے کومتاثر کرنے والا نہ ہو تو ایسے رشتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(ابو یحییٰ)

جواب: سلام اسلام کا شعار ہے۔ حدیث میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’تم لوگ جنت میں نہیں جاؤگے جب تک ایمان نہ لے آؤ اورتمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں کہ اگر اسے کرنے لگو توتمہارے درمیان آپس میں محبت پیدا ہوجائے گی۔ اپنے درمیان سلام کوعام کرو۔‘‘
علمانے بعض ایسے مواقع کی نشان دہی کی ہے جب سلام کرنا مناسب نہیں۔ مثلاً موذن ، نمازی، حالتِ احرام میں تلبیہ کہنے والے، تلاوتِ قرآن یا ذکر ودعا میں مشغول شخص کو سلام نہیں کرنا چاہیے۔ خطبہ جمعہ کے دوران جوشخص مسجد پہنچے اس کوبھی سلام کرنے سے احتراز کرنا چاہیے، اس لیے کہ خطبے کوخاموشی سے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص کھانا کھانے میں مصروف ہویا رفع حاجت کررہا ہوتواسے بھی سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ان مواقع پر اگر کوئی شخص سلام کرلے توجس کوسلام کیا گیا ہے اس کا جواب دینا ضروری نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گز ر ا۔ اس وقت آپ پیشاب کررہے تھے۔ اس نے آپ کو سلام کیا ، مگر آپ نے جواب نہیں دیا۔ 
کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تواس کوسلام کرنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ کوئی شخص کسی مجلس میں جائے توسلام کرے۔‘‘
البتہ احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر پروگرام شروع ہوگیا ہو تواتنی زور سے سلام نہ کرے کہ تمام حاضرین کے انہماک میں داخل پڑے اور خطیب کاذہن بٹ جائے، بلکہ اتنے دھیرے سے سلام کرے کہ پیچھے بیٹھے ہوئے چند لوگ سن لیں۔ سب کا جواب دینا بھی ضروری نہیں، بلکہ ان میں سے کوئی ایک بھی جواب دے دے تو سب کی طرف سے کفایت کرے گا۔
مجلس میں انگلیاں چٹخانے کی ممانعت میں کوئی حدیث مروی نہیں ہے ، لیکن اسے آدابِ مجلس کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ خاص طور سے مسجد میں دورانِ نمازیا نماز سے باہر اسے مکروہ کہا گیا ہے ۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس کے پہلومیں نماز ادا کی۔ دورانِ نماز میں نے انگلیاں چٹخائیں تو انہوں نے نماز کے بعد مجھے ڈانٹا۔
لفظ ’قلب‘ اوراس کے مترادفات

(ابو یحییٰ)

جواب : دیگر زبانوں کی طرح عربی میں بھی بہت سے الفاظ بہ طور مترادف مستعمل ہیں۔ ایسے متعددالفاظ کا استعمال قرآن کریم میں بھی ملتا ہے۔ علماء لغت نے ایک بحث یہ کی ہے کہ جن الفاظ کو مترادف سمجھا جاتا ہے ، ان کے درمیان بھی کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے۔ دو مترادف سمجھے جانے والے الفاظ سوفی صد ایک معنی میں نہیں ہوسکتے۔ ’فروق لغویہ‘ کے موضوع پر عربی زبان میں متعدد کتابیں پائی جاتی ہیں۔ اردو زبان میں اس موضوع پر ایک اچھی کتاب ’مترادفات القرآن‘ کے نام سے ہے، جو مولانا عبدالرحمن کیلانی کی تالیف ہے اوراس کی اشاعت ۲۰۰۹ میں مکتبہ دارالسلام لاہور سے ہوئی ہے۔اس کتاب سے متعلقہ بحث کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتاہے:
۱۔ قلب : مشہور عضو۔ روح وحیات کا منبع (جمع قلوب)۔ عقل ، فہم ، سوچ، فکرکے لیے اللہ تعالیٰ نے دل کومخاطب بنایا ہے۔ یعنی جوافعال جدید طب نے دماغ سے متعلق بتلائے ہیں ، قرآن نے دل سے متعلق کیے ہیں۔ ارشاد باری ہے :
لَہْم قْلْوب لَّا یَفقَہْونَ بِہَا (الاعراف: ۷۹ا)
’’ ان کے دل تو ہیں، لیکن وہ ان سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔‘‘
۲۔فواد:بعض علماء نے کہا ہے کہ جو فرق ’عین‘ اور’بصر‘ یا ’اْذن ‘ اور’سمع‘ میں ہے ، وہی فرق ’قلب‘ اور ’فواد‘ میں ہے۔ اس کی دلیل میںیہ آیت پیش کی جاتی ہے:
’’بے شک کان، آنکھ اوردل، ان سب (جوارح)سے ضرور باز پرس ہوگی۔‘‘(الاسراء :۳۶)
لیکن یہ صحیح نہیں۔۔۔.فواد (جمع افئدۃ) فاد سے مشتق ہے ۔۔۔.یہ لفظ گرمی اورشدیدحرارت پردلالت کر تاہے۔ لہٰذا جہاں انسان کے جذ با ت کی شدت اور اس کی تاثیر کا ذکر آئے گا وہاں اس لفظ کا استعمال ہوگا۔ مثلاً:
وَاَصبَحَ فْوادْ اْمِّ مْوسی فٰرِغًا(القصص:۰ا)
’’اور موسیٰ کی ماں کا دل خالی ہوگیا (یعنی اس میں قرار نہ رہا)‘‘
’’سر اْٹھائے دوڑتے ہوں گے۔ ان کی نگاہیں (بھی) ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی اور دل(دہشت کے مارے)اْڑرہے ہوں گے۔‘‘(ابراہیم:۴۳)
اللہ تعالیٰ نے فواد سے جس باز پر س کا ذکر فرمایا ہے وہ ایسے ہی اعمال سے متعلق ہوگی جوشدتِ جذبات کے تحت انسان کربیٹھتا ہے۔
۳۔ صدر: بہ معنی سینہ(جمع صدور) اورسینہ کے اند رہی دل ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
وَلِٰن تَعمَ القْلْوبْ الَّتیِ فِی الصّْدْورِ (الحج: ۴۶)
’’لیکن وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘
لہٰذا کبھی صرف’ صدور‘ کہہ کر قلوب مراد لیے جاتے ہیں ، جیسے شِفَاء لِّمَا فِی الصّْدْورِ (یونس:۵۷) اب چوں کہ صدر کا تعلق ظرف مکان سے ہے ، لہٰذا اگردل کی تنگی یا فراخی کاذکر مطلوب ہوتو صدور کا لفظ آئے گا۔ مثلاً:’’ اورہم جانتے ہیں کہ ان کی باتوں سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے۔‘‘ (الحجر:۹۷)
اَلَم نَشرَح لََ صَدرَک (الانشراح:۱)
’’ کیا ہم نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا۔‘‘
پھرکسی چیز کو چھپانے کے لیے بھی چوں کہ ظرف کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا راز کی بات کے چھپانے، خیالات اوروسواس کے ذکر میں بھی صدر کا استعمال ہوگا۔مثلاً:
’’وہ آنکھوں کی خیانت کوبھی جانتا ہے اورجو باتیں دلوں میں ہیں ان کوبھی جانتا ہے۔‘‘(المومن ۹ا)
الَّذی یْوَسوِسْ فِی اصْدْورِ النَّاسِ (الناس:۵)’’وہ( شیطان ) لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔‘‘
۴۔ اس معنیٰ میں قرآن میں ایک اورلفظ کا بھی استعمال ہوا ہے اوروہ ہے نفس (جمع نفوس)۔ اس سے خواہشات کا مبدا اورآرزو کرنے اورخوش ہوجانے والا دل مراد ہوتا ہے۔ جہاں تک پوشیدہ باتوں اور خیالات وغیرہ کو چھپانے کا تعلق ہے ، یہ صفت نفوس اورصدور میں مشترک ہے۔ ارشاد باری ہے :
’’اورتم اپنے دل میں وہ چیز چھپاتے تھے جسے اللہ ظاہر کرنیوالا تھا۔‘‘(احزاب ۳۷)
خواہشات کا تعلق نفس سے ہوتا ہے ، خواہ وہ اچھی ہوں یا بری۔ ارشاد باری ہے :
’’ یہ لوگ محض ظن (فاسد) اورخواہشاتِ نفس کے پیچھے چل رہے ہیں۔‘‘(النجم۲۳)
خوش ہونے کا تعلق بھی نفس سے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے :
’’پھر اگروہ عورتیں اپنے دل کی خوشی سے اس( یعنی اپنے مہر) میں سے تم کچھ چھوڑدیں تواسے شوق سے کھاؤ ۔‘‘(النسا:۴)
اس تفصیل سے ’دل‘ کے لیے قرآن میں مستعمل الفاظ (قلب، فواد، صدر اور نفس ) کے درمیان فرق کی کچھ وضاحت ہوجاتی ہے۔
تحریکی سرگرمیاں شوہر کی اجازت

(ابو یحییٰ)

تحریکی سرگرمیاں شوہر کی اجازت
سوال :میراخاندان تحریکی ہے۔ میرے خسر محترم جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے ، میرے شوہر محترم بھی جماعت کے کارکن ہیں۔ میں بھی حتی المقدور جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہتی ہوں۔ ابھی حال میں میری رکنیت کی درخواست منظور ہوئی ہے۔ اس پر میرے شوہر نے ناراضی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعت کے ذمہ دار کو رکنیت کی سفارش کرنے سے قبل ان سے ملاقات کرنی چاہئے تھی اوران سے اجازت حاصل کرنی ضروری تھی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں کا ’قوام ‘ بنایا ہے :الرِّجَالْ قَوَّامْونَ عَلیَ النِّسَاء۔ شوہر کی مرضی کے بغیر عورت کو گھر سے باہر جانے اورتحریکی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جماعت کے ذمہ دار کا رویہ عورت کو بے جا آزادی دینے کا ہے۔ اس سے ازدواجی تعلقات پر اثر پڑے گا اورگھر کے ماحول میں خواہ مخواہ ٹینشن پیداہوگا۔ ان باتوں سے میں ذہنی طورپر پریشان ہوگئی ہوں۔ بر اہ کرم میری رہ نمائی فرمائیں۔ میں کیا کروں؟

جواب: ہر مسلمان کی خواہ وہ مرد ہو یاعورت ذمہ داری ہے کہ وہ دین کافہم حاصل کرے، اس پر خود عمل کرے، پھر اللہ کے دوسرے بندوں تک اسے پہنچانے کی کوشش کرے۔ اہل ایمان سے مطلوب یہ ہے کہ اس کام میں وہ ایک دوسرے کاتعاون کریں:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ،زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقیناًاللہ سب پر غالب اورحکیم وداناہے۔‘‘(التوبہ: ا۷)ازدواجی زندگی میں شوہر بیوی کو بھی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دینی کاموں میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں اور اگر ایک سے کچھ کوتاہی ہو تو دوسرا اسے نرمی اورمحبت سے اس جانب توجہ دلائے۔ حدیث میں اس بات کو بہت لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ اس مرد پر رحم کرے جورات میں اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے۔ اگروہ نہ اٹھے تواس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے۔ اللہ اس عورت پر رحم کرے جورات میں اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے۔ اگروہ نہ اٹھے تواس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے۔‘‘
رحمتِ الٰہی کا یہ استحقاق صر ف نماز تہجد کے لیے خود اٹھنے اور دوسرے کواٹھانے تک محدود نہیں ہے ، بلکہ دین کے ہر کام میں اس طرح کا باہمی تعاون مطلوب ہے۔
جماعت اسلامی ہند امتِ مسلمہ کے تمام افراد کو خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین اسی مشن میں لگانا چاہتی ہے۔ وہ ہر مسلمان مرد اورعورت سے کہتی ہے کہ سب سے پہلے وہ دین کا صحیح فہم حاصل کرے، یہ جانے کہ اللہ اور اس کے رسول نے کن کاموں کا حکم دیا ہے اور کن کاموں سے روکا ہے۔ مامورات پر عمل کرنے اور منہیات سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے، آخر میں حسب توفیق اپنے پڑوسیوں ، اہل خاندان ، دیگر متعلقین اور عام افراد تک دین کی ان تعلیمات کو پہنچانے کی کوشش کرے۔ جولوگ جماعت کے اس مشن سے اتفاق ظاہر کرتے ہیں اور اس کے بعض بنیادی کاموں میں شریک ہوتے ہیں، انھیں وہ متفق اور کارکن بناتی ہے اور جواس کے دستور اور پالیسی و پروگرام سے مکمل اتفاق ظاہر کرتے ہوئے اس کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں انھیں وہ اپنا رکن بنالیتی ہے۔جماعت کے ذمہ داروں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کسی خاتون کو جماعت کارکن بنانے سے قبل اس کے شوہر سے ملاقات کرکے اس کی اجازت حاصل کریں، غیر ضروری ہے۔ اس کے بجائے اس خاتون کو جماعت کی رکنیت کے لیے خود کو پیش کرنے سے قبل اپنے شوہر یاسرپرست کواعتماد میں لینا چاہیے اور اس کی رضا مندی کے بعد ہی یہ اقدام کرناچاہیے، تاکہ گھر میں خوش گوار فضا قائم رہے اورآئندہ اس کی عملی سرگرمیوں میں اہل خانہ کاتعاون حاصل رہے۔ اگر اس کے بغیر یہ اقدام کیا گیا تو اسی صورت حال کا اندیشہ ہے، جس کا اوپر سوال میں تذ کر ہ کیاگیاہے۔اس سلسلے میں ایک اورچیز کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے لیے شوہر یا سرپرست کی اجازت ضروری ہے۔ اگروہ منع کردے تواس کا باہر نکلنا جائز نہیں۔ عہد نبوی میں عورتیں فرض نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی جایا کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہروں کو مخاطب کرکے فرمایا :’تمہاری عورتیں جب تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگیں توانھیں منع نہ کرو‘‘
اس حدیث کا خطاب عورتوں سے بھی ہے اور مردوں سے بھی۔ عورتوں سے یہ کہ وہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے مردوں سے اجازت طلب کریں اوران کی اجازت کے بعد ہی نکلیں اورمردوں سے خطاب یہ کہ جب ان سے اجازت طلب کی جائے تومنع نہ کریں۔ اجازت طلب کرنے اور اجازت دینے کایہ معاملہ صرف فرض نمازوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ تمام دینی ودنیاوی کاموں کے سلسلے میں ہے۔ تحریک سے باضابطہ وابستگی کے بعد گھر سے باہر کے تحریکی کاموں کی انجام دہی کے لیے عورت کا شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے اور اگر وہ کبھی اجازت نہ دے تو یہ معقول شرعی عذر ہے جسے ذمہ دارانِ جماعت کو قبول کرنا چاہیے۔ اب آپ جماعت کی رکن بن چکی ہیں۔ اجتماعات وغیرہ میں شرکت کے لیے گھر سے باہر جانا ہوتو شوہر محترم سے اجازت لے لیا کریں۔ وہ خود جماعت کے کارکن ہیں۔ ان کے دینی جذبے سے یہ توقع ہے کہ وہ بہ خوشی اجازت دے دیا کریں گے۔ واضح رہے کہ اجازت جس طرح صراحتاً ہوتی ہے اْسی طرح گھر میں جومعمول ہو وہ بھی اجازت ہی ہے۔
آخری بات یہ کہ دینی وتحریکی سرگرمیوں کی انجام دہی عورت کے گھر سے باہر نکلنے پر موقوف نہیں ہے۔ وہ گھر میں رہتے ہوئے تبلیغ واشاعتِ دین کا بہت سے کام کرسکتی ہے۔ اپنے گھروالوں ، رشتہ داروں ، ملاقاتیوں وغیرہ کو دین کی باتیں بتاسکتی ہے۔ چھوٹے بچوں بچیوں کی دینی تعلیم کاانتظام کرسکتی ہے۔ جدید ترقی یافتہ وسائل نے توگھر بیٹھے کام کاوسیع میدان فراہم کردیاہے۔ فون، موبائل ، ای میل ، فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے بے شمار افراد سے رابطہ کیاجاسکتاہے اور ان تک دین کی باتیں پہنچائی جاسکتی ہیں۔

(ابو یحییٰ)

جواب :کسی خاتون کے وارثوں میں صرف اس کا شوہر اورایک بیٹا ہو تواس کے انتقال پر اس کی وراثت اس طرح تقسیم ہوگی کہ شوہر کو اس کا ایک چوتھائی ملے گا اور بقیہ (تین چوتھائی) کامستحق اس کا بیٹا ہوگا۔ شوہر چاہے تواپنے حصے کا مالک بھی اپنے بیٹے کو بناسکتاہے۔
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ نابالغ لڑکے کی جائیداد اور جملہ مملوکہ اشیا کی حفاظت و نگرانی اس کے بالغ ہونے تک اس کا ولی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو، یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کوپہنچ جائیں، پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ توان کے مال ان کے حوالے کردو۔ا یسا کبھی نہ کرنا کہ حدِ انصاف سے تجاوزکرکے اس خوف سے ان کامال جلدی جلدی کھا جاؤکہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کامطالبہ کریں گے۔ یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جوغریب ہو وہ معروف طریقے سے کھائے‘‘۔(النساء:۶)
اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ یتیم کا سرپرست اگرمال دار اور صاحبِ حیثیت ہو تو بہتر ہے کہ وہ اس مال میں سے کچھ نہ کھائے، لیکن اگر غریب اور ضرورت مند ہو تواپنے حق الخدمت کے طورپر اس میں سے کچھ لے سکتاہے ، لیکن ضروری ہے کہ اس میں سے لینا معروف طریقے پر ہو، اتناہو کہ ایک غیر جانب دار آدمی بھی اسے مناسب خیال کرے۔
سوال میں جو حدیث پیش کی گئی ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک بوڑھے شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ میں نے اپنے بیٹے کوپال پوس کر بڑا کیا، اس کی ہرضرورت پوری کی، اس پر اپنا مال خرچ کیا۔ اب جب کہ میرے قویٰ مضمحل ہوگئے، میں کچھ کما نہیں سکتا، اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ لیتاہوں تووہ ناراضگی جتاتا ہے اور کہتاہے کہ میں اس کامال اڑا رہاہوں۔ آپ نے اس نوجوان کو بلا بھیجا۔ اس کے سامنے اس کے بوڑھے باپ کا دکھڑا پھرسنا(بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی باتیں سن کر آپ آب دیدہ ہوگئے) پھر آپ نے اس نوجوان کا گریبان پکڑا اور اسے اس کے باپ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: اَنت وَمَالْکَ لِاَبِیکَ 
اس سے معلو م ہوتاہے کہ بیٹے کے مال میں باپ کابھی حق ہے۔ وہ اس میں سے حسبِ ضرورت اور معروف طریقے سے لے سکتاہے۔

(ابو یحییٰ)

جواب:آدمی اپنا مال ضرورت مندوں میں خود بھی تقسیم کرسکتاہے اور کسی دوسرے کو بھی یہ ذمہ داری دے سکتاہے۔ جو شخص یہ ذمہ داری قبول کرلے اسے پوری امانت و دیانت کے ساتھ اسے انجام دینا چاہیے۔
جس شخص کو مذکورہ مال تقسیم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ، اس کے پاس یہ مال امانت ہے۔ بغیر اس کے مالک کی اجازت کے اس میں ادنیٰ سا تصرف بھی اس کے لیے جائز نہیں ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ صاحبِ مال نے جن کاموں میں خرچ کرنے یا جن افراد کو دینے کی صراحت کی ہو، انہی میں مال خرچ کیاجائے۔ ذمہ داری لینے والے کو اپنے طورپر فیصلہ کرنے اور مدّات میں تبدیلی کرنے کاحق نہیں ہے۔اسی طرح اگر وہ ذمہ دار اس مال کومستحقین تک پہنچانے میں ٹال مٹول سے کام لے یا بلاوجہ تاخیر کرے تو یہ بھی خیانت ہے۔ وہ مال کا کچھ حصہ اپنے ذاتی کام میں استعمال کرلے، پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کے پاس مال آجائے تو اسے بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردے، اس صورت میں وہ مال میں خیانت کرنے کامرتکب تو نہ ہوگا، لیکن بغیر صاحبِ مال کی اجازت کے ، مستحقین تک اس کے پہنچانے میں تاخیر کرنے کا قصور وار ہوگا۔ اس لیے ایسا کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔اب اگر ایسی کوتاہی ہوگئی ہے تواستغفار اور آئندہ احتیاط کا عہد کرنا چاہیے۔
***

 

(ابو یحییٰ)