بچوں کا شکریہ ادا کرنا

مصنف : صفدر ہمدانی

سلسلہ : ادب

شمارہ : ستمبر 2011

کچھ روایات کو ہم نے فقط بڑوں سے مربوط و منسلک کر رکھا ہے،جیسے معذرت یا معافی بچہ ہی بڑے سے مانگے گا یا پھر شکریہ بچہ ہی بڑے کا ادا کرے گا حالانکہ اگر ہم بچوں سے غلط بات کی معذرت کر لیں اور اچھی چیز پر انکا شکریہ ادا کر دیں تو سچ جانیئے کہ یہ بھی تربیت اور تہذیب کا ایک طریقہ ہے۔ میں نے اپنی ذاتی زندگی میں بہت حد تک اس فارمولے پر عمل کیا ہے اور اگر کسی وقت کوئی غلط کام یا بات ہوئی ہے تو اپنے بچوں سے معذرت بھی کی ہے اور اکثر انکی اچھی باتوں پر انکا شکریہ بھی ادا کیا ہے.جیسے بچے سالگرہ پر یا شادی کی سالگرہ پر تحائف دیتے ہیں تو انکا شکریہ ادا کرتا ہوں یا پھر بچے اگر کھانے کے لیئے باہر کہیں لے جائیں تو انکا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے انہیں عملی طور پر اس بات کی تربیت مل رہی ہے کہ کہاں اور کس جگہ کیا رویہ درست ہے. میں نے اپنے بیٹے محمد اور بیٹی زہرا کو او لیول میں ہی باور کروا دیا تھا کہ وہ دنیا بھر کی کوئی بھی زبان پڑھیں لیکن اردو ضرور پڑھیں. انکا شکریہ کہ انہوں نے میری بات مانی اور دونوں نے باقاعدہ لندن میں اردو کا امتحان بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا اور خوب اچھی طرح اردو بولتے سمجھتے اور لکھتے بھی ہیں. زہرا کی نسبت محمد کی اردو بہت اچھی ہے یہاں تک کہ وہ میرا کالم اور اشعار بھی پڑھ لیتا ہے اور لکھ بھی لیتا ہے۔ محمد ان دنوں وارک یونیورسٹی میں گریجویشن کے آخری مراحل میں ہے. اکیس اپریل کو میں نے اس کے دادا کی برسی پر کالم لکھا تو فیس بْک پر اس نے کالم پڑھنے کے بعد مجھے لکھا کہ بابا داعی اجل کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کی جس قدر خوشی ہوئی میں بیان نہیں کر سکتا کہ میرے بیٹے نے مجھ سے اسکے معانی پوچھے جس سے ثابت ہوا کہ سارے کالم میں اسکے لیئے یہی دو لفظ مشکل تھے جو اب اس لیئے نہیں رہے کہ میں نے اسے اسکا مطلب بتا دیا ہے. دوسری خوشی مجھے اسوقت ہوئی جب اس نے دوپہر میں مجھے یونیورسٹی سے فون کیا اور کہا کہ بابا آپ کے کالم میں املا کی ایک غلطی ہے اور آپ نے ‘‘گیند کو گنید’’ لکھا ہے. میں نے اس سے فون پر بات کرتے ہوئے کالم دیکھا تو واقعی املا غلط تھی. میری خوشی کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں کہ میرا بیٹا اب اس قابل ہے کہ وہ باپ کی تحریر کو اتنے غور سے پڑھتا ہے اور املا کی غلطی بھی تلاش کر لیتا ہے.میں اسوقت اس تحریر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں ‘‘ محمد بیٹے بہت شکریہ کہ تم نے املا کی اس غلطی کی جانب توجہ دلوائی جو اب میں نے درست کر دی ہے اور یاد رکھو کہ اگر غلطی درست کر دی جائے توپھر وہ غلطی ، غلطی نہیں رہتی’’۔

 محمد بیٹا ایک بار پھر بہت بہت شکریہ