پریشان ہونا چھوڑئیے ، حالات کا مقابلہ کیجیے

مصنف : پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اکتوبر 2012

             ولیم نیویارک میں پٹرول بیچنے کا کروبار کرتا تھا۔ اس کا کاروبار اپنے عروج پر تھا کہ وہ ایک بدترین سانحے سے دوچار ہوگیا۔اس وقت نیویارک میں جنگ کے قوانین نافذ تھے اور قانون کے تحت ولیم کی کمپنی محض انہی گاہکوں کو تیل فراہم کرنے پر پابند تھی جن کے پاس راشن کارڈ تھے۔لیکن ولیم بے خبر تھا کہ اس کی کمپنی کے ٹرک ڈرائیور گاہکوں کو کم مقدار میں تیل سپلائی کرکے کچھ تیل بچالیتے ہیں اور پھر یہ فاضل تیل وہ مہنگے داموں دیگر لوگوں کو فروخت کرتے تھے۔ یہ سب کچھ ولیم کی ناک کے نیچے ہورہا تھا لیکن وہ بے خبر تھا۔ایک دن ایک شخص اس سے ملنے آیا۔ اس نے خود کو حکومت کا انسپکٹر ظاہر کیا۔ اس نے تفصیل سے ولیم کو ڈرائیوروں کی اس حرکت کے بارے میں بتایا۔ ساتھ ہی اس نے ولیم سے ایک بھاری رقم کی صورت میں رشوت کا مطالبہ بھی کردیا۔ ولیم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوگا۔گوکہ ولیم اس میں ملوث نہیں تھا لیکن قانونی طور پر وہی ان سب معاملات کا ذمہ دار تھا۔وہ اتنا فکر مند ہوا کہ بسترپردراز ہوگیا۔تین راتیں اورتین دن اس کیفیت میں گزرے کہ نہ تو وہ سو سکا اور نہ ہی کچھ کھا سکا۔کبھی وہ سوچتا کہ رشوت دے کر جان چھڑالے لیکن اس بات کی کیا گارنٹی تھی کہ وہ آدمی اس کا پیچھا چھوڑ دیگا۔ کبھی وہ سوچتا کہ اس آدمی سے جاکر کہہ دے کہ جو جی میں آئے کرلو لیکن اس صورت میں اس کا چوبیس سالہ بزنس برباد ہوجاتا۔دن یونہی گزرہے تھے کہ ایک شب اس کے ہاتھ میں ولز ایچ کیرئیر کا ایک کتابچہ ملا جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ‘‘ بری ترین صورت حال کا مقابلہ کریں’’۔ اس نے اس کتابچے کے بتائے گئے طریقہ کار پر عمل کا فیصلہ کیا۔

             اقدام نمبر ایک کے طور پر اس نے یہ جائزہ لیا کہ اس معاملے میں ناکامی کا زیادہ سے زیادہ کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ملا کہ کاروبار ٹھپ ہوجائے گا اور اسے جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ ممکن نہ تھا۔ نہ تو اسے پھانسی پر لٹکایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کالے پانی کی سزا دی جاسکتی تھی۔

             اقدام نمبر دو میں اس نے خود کو اس بری صورت حال کے لئے تیار کرنا شروع کردیا۔ اگر اس کا کاروبار ٹھپ ہو گیا اور جیل ہوگئی تو رہائی کے بعد وہ ملازمت کے لئے تگ و دو کرسکتا ہے کیونکہ اس کے پاس اس فیلڈ کا ایک وسیع تجربہ تھا۔یہ سوچ کر اس کے بوجھ میں کمی واقع ہونی شروع ہوئی اور وہ مثبت بات سوچنے کے قابل ہوتا گیا۔

             تیسرے اور آخری اقدام کے طور پر اس نے سوچنا شروع کیا کہ وہ اس بدترین صورت حال کے منفی اثرات کو کس طرح کم کرسکتا ہے۔وہ اب کافی حد تک نارمل ہوچکا تھا اس لئے اس کے ذہن میں کئی حل آنے لگے۔ اس نے طے کیا کہ وہ اپنے وکیل کو یہ ساری باتیں بتائے گا اور اس سے مشورہ لے گا۔ حالانکہ یہ سامنے کی بات تھی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔

             یہ تینوں اقدام طے کرلینے کے بعد وہ بستر پر دراز ہوگیا اور اتنی گہری نیند سویا گویا کہ وہ نشے میں چور ہو۔اگلی صبح وہ اٹھا اور وکیل کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ وکیل نے اطمینان سے یہ سب کچھ سنا اور مشورہ دیا کہ ولیم اس صورت حال کو ڈسٹرکٹ اٹارنی کے علم میں لے آئے۔ ولیم نے ایسا ہی کیا۔ ڈسٹرکٹ اٹارنی نے ولیم کی باتیں سنی اور اسے بتایا کہ جو شخص ولیم کو دھمکی دے رہا ہے وہ کوئی انسپکٹر نہیں بلکہ ایک بلیک میلر ہے اور وہ کافی عرصے سے پولیس کو مطلوب ہے۔ چنانچہ ولیم کی مدد سے اس جعلی انسپکٹر کو پکڑ لیا گیا اور یوں ولیم کی خلاصی ہوئی۔ولیم نے سوچا کہ اگر وہ اس بدترین صورت حال سے نبٹنے کے لئے تین اقدامات نہ اٹھاتا تو آج وہ اسی بلیک میلر کے ہاتھوں ٹھگا جارہا ہوتا یا پھر کسی نفسیاتی ہسپتال میں زیر علاج ہوتا۔

             ہم اگر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہم میں سے ہر شخص کی زندگی میں ایسے سانحے اور حادثے رونما ہوجاتے ہیں جو ہمیں ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے میں دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو ہم صورت حال کے آگے گھٹنے ٹیک کر خود کو تقدیر کے دھارے میں بہنے دیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ اس سانحے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہوجائیں اور اس سے مقابلہ کریں۔ پہلی صورت میں بے چینی اضطراب ، ڈپریشن ، مایوسی اور بیماری ہمارے حصے میں آئے گی۔ دوسری صورت میں ہم خود اعتمادی، سکون اور صحت مند زندگی کی جانب پیش قدمی کریں گے۔

             ایک فلسفی لن یونگ نے کہا تھا ‘‘ حقیقی ذہنی سکون اسی صورت میں میسر آسکتا ہے جبکہ آپ بری ترین صورت حال کو ذہنی طور پر تسلیم کرلیں’’۔یہ بد ترین صورت حال کیاہوسکتی ہے؟۔ اس سے مراد کسی عزیز کا انتقال، کسی معذوری کا سامنا، کاروبار میں تباہی، تعلیمی میدان میں ناکامی، کسی ذلت کا سامنا، کسی مقصد کے حصول میں ناکامی وغیرہ ہوسکتی ہے۔ جب بھی کسی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑے تو ولز ایچ کیرئیر کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے خود سے درج ذیل سوالات کریں:

۱۔ میرے اس مسئلے سے بدترین صورت حال کیا ہوسکتی ہے؟

۲۔ اس بدترین صورت کے اثرات سے میں کس طرح نبٹ سکتا ہوں؟

۳۔ اس بدترین صورت حال کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لئے میں کیا اقدام کرسکتا ہوں؟