ہیرا

مصنف : احمد ندیم قاسمی

سلسلہ : ادب

شمارہ : ستمبر 2012

‘‘اور پھر شاہزادی نے تنگ آکر ہیرا چاٹ لیا’’۔

چھپر تلے کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ زینو بچے کو گود میں لیے دودھ پلا رہی تھی۔ اس نے اوڑھنی کے نیچے ہی بچے کو دائیں سے بائیں گھمایا اور بولی: ‘‘رُک کیوں گئے؟ پھر کیا ہوا؟’’وریام زور سے ہنسا۔ ‘‘مزا آگیا کہانی سنانے کا’’۔ وہ قہقہوں کے درمیان بولا۔

‘‘زینب بی بی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کیا کہہ گیا؟’’زینو جھینپ گئی۔ ‘‘میں پوچھتی ہوں ہیرا چاٹ لینے کے بعد کیا ہوا شاہزادی کو؟’’وریام دگنی شدت سے ہنسا۔ پھر ایک دم سنجیدہ ہوکر آہستہ سے بولا: ‘‘ہولے ہولے پگلی۔ کسی پڑوسن نے سن لیا تو بھد ہوگی۔ سب کہیں گے: وریام کی بیوی کی عقل گھاس چرنے گئی ہے’’۔

زینو کی جھینپ بوکھلاہٹ میں بدل گئی۔ ‘‘پچ نکالنے کی تو عادت ہے تمھاری’’۔ پھر یہ بوکھلاہٹ غصہ بنی اور یہ غصہ بچے پراُترا۔ زینو نے بچے کو اوڑھنی کے نیچے سے کھینچ کر زمین پر لٹا دیا اور بولی: ‘‘چمٹ کر رہ جاتا ہے کمبخت۔ جیسے لہو تک نچوڑ لے گا’’۔

بچہ رونے لگا۔ وریام نے پلنگ پر سے پھاند کر بچے کو اُٹھایا اور اسے کندھے سے لگا کر اِدھر اُدھر ٹہلتے ہوئے زینو کو سمجھانے لگا۔ ‘‘یوں نوچ کے نہیں پھینک دیتے۔ اس طرح بچے کی آنکھوں میں پیاس آجاتی ہے’’۔

مرد کو اپنی مملکت میں داخل ہوتا دیکھ کر عورت چلّا اُٹھی۔ ‘‘بس بس رہنے دو۔ بچے کو دودھ پلانا مرد کے ذمے ہوتا تو جب میں دیکھتی کیسے چمٹائے پھرتے دن بھر___ ‘‘اِدھر لاؤ’’۔ زینو نے بچہ چھین لیا۔ ماں کی بانہوں میں آتے ہی وہ خاموش ہوگیا اور وریام پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بولا: ‘‘بڑا سخت زمانہ آنے والا ہے زینو۔ یہ بچے کل بڑے ہوں گے تو ایسے ایسے کام لیے جائیں گے ان سے کہ ہم تم سوچیں بھی تو دماغ پھٹ جائیں۔ اسے خوب دودھ پلاؤ۔ خوب تندرست رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ توپ کا گولا ایک فرلانگ پر پھٹے اور وریام خان کے صاحبزادے دھماکے ہی کے زور سے تنکے کی طرح اُڑ کر دُور جاگریں۔ میں نے ایسے سپاہی بھی دیکھے ہیں کہ ادھر دھماکہ ہوا ادھر ہوا کا ایک جھکڑ چلا اور سپاہی نے ایسی پٹخنی کھائی کہ جنگ کے میدان میں بھی ہنسی آگئی۔ ایسے جوانوں کو تو کوئی اخبار وخبار چھاپنے چھپوانے پر لگا دینا چاہیے’’۔

‘‘اور تم؟’’زینو نے پیار بھرے جذبۂ انتقام سے پوچھا: ‘‘تمھیں گولے کا دھماکا کتنی دُور جا پھینکتا ہے؟’’‘‘میں؟’’ وریام پلنگ پر سیدھا بیٹھ گیا۔ ‘‘گولے سے اُڑ جاؤں تو دوسری بات ہے پر جس روز دھماکے سے اُڑا تو اس بیٹے کی قسم ہے۔ اپنے پیٹ میں سنگین بھونک لوں گا’’۔ ‘‘بکو نہیں’’ ۔ زینو بگڑ گئی۔

‘‘خدا کی قسم ہے زینو، ایسا ہو تو ہیرا چاٹ لوں’’۔‘‘کیا؟’’‘‘ہیرا چاٹ لوں’’۔

‘‘ارے ہاں’’۔ زینو کو کہانی یاد آگئی۔ ‘‘شاہزادی نے ہیرا چاٹ لیا تو پھر کیا ہوا؟’’ وریام فوراً بولا: ‘‘وہ مرگئی’’۔‘‘کیا؟’’ ‘‘شاہزادی مرگئی۔ ہیرا چاٹنے سے مر جاتے ہیں نا’’۔‘‘ہاں’’۔‘‘ارے!’’

مارے جھینپ کے اب کے زینو کافی دیر تک خاموش رہی۔ پھر سوئے ہوئے بچے کو آہستہ سے پلنگ پر لٹا کر وہ وریام کے پاس بیٹھ گئی اور ذرا سا ہنس کربولی: ‘‘تو تم اسی لیے ہنس رہے تھے؟’’وریام بھی ذرا سا ہنس دیا۔

‘‘کتنے میں آتا ہے ہیرا؟’’ زینو نے وریام کے بازو سے لگ کر پوچھا۔اور وریام نے بڑی رواداری میں کہا: ‘‘یہی کوئی ___ بس یوں سمجھ لو کہ___ اگر میں بھی بک جاؤں نا اور تم بھی اور ننھا بہرام بھی اور یہ مکان اور یہ چھپر اور___ یعنی ہمارا سب کچھ بک جائے نا جب بھی ہیرا نہیں ملے گا۔ صرف بادشاہوں، شاہزادوں کے پاس ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے لوگ تو گاڑیوں کے نیچے آکر مرتے ہیں یا افیم کھا لی یا سنکھیا پھانک لیا۔ امیر لوگ ہیرے چاٹ کے مرتے ہیں۔ امیروں کی موت بھی شاندار ہوتی ہے۔ کیسے مرا؟ بس ہیرا چاٹ کے مر گیا۔ اہاہاہا۔ یہ نہیں کہ ریل گاڑی کے نیچے لیٹ گئے۔ انتڑیاں ایک پٹڑی پر ڈھیر پڑی ہیں۔ سر دوسری پٹڑی کی طرف لڑھک گیا ہے اور چمڑا انجن کے پہیوں سے لپٹا جا رہا ہے___ تھوہ!’’

‘‘بھاڑ میں ڈالو ہیرے کو’’۔ زینو مارے خوف اور گھن کے پکاری۔ ‘‘کوئی اور بات کرو۔ ایسی اچھی سی کہانی سنائی اور ایسی گندی باتیں کرنے لگے ہو آخر میں۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے لام میں جاکر؟’’

لام میں جاکر وریام کو سچ مچ کچھ ہوگیا تھا ۔ اوّل درجے کا لٹھ مار رنگون اور سنگاپور کا چکر لگاکر اب ایسی پتے کی باتیں کرنے لگا تھا کہ چوپال پر اس کی باتیں سننے والے اس کے آس پاس سمٹ آتے اور جب محفل برخاست ہوتی تو گھروں کو جاتے ہوئے کہتے:‘‘روپیہ بھی کما لایا اور علم بھی سیکھ آیا۔ چھپر یونہی پھٹتے ہیں’’۔ زینو وریام کی تین مہینے کی چھٹی کے شروع دنوں میں سخت چکرائی ہوئی پھرتی رہی لیکن آہستہ آہستہ دونوں میں ذہنی سمجھوتہ ہوگیا اور زینو اس کی باتوں میں دُور کی کوڑیاں چننے کے بجائے پڑوسنوں سے فخریہ کہتی۔ وہ تو انگریزی بھی بولتا ہے۔ لکھتا بھی ہوگا۔ میں نے پوچھا نہیں۔ پوچھوں گی۔ گورے اسے خط لکھتے ہیں۔ میمیں اسے سلام بھیجتی ہیں۔ اب کے جائے گا تو بغداد شریف کی زیارت بھی کرے گا، ولایت بھی جائے گا۔ بادشاہ سلامت سے ہاتھ ملائے گا۔ میں تو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں’’۔

وریام چلا گیا۔

ایک برس کے بعد وریام واپس آگیا۔ اس کی واپسی کا واقعہ بڑا عجیب ہے۔

وہ اپنے گاؤں کے اسٹیشن پر اُترا مگر کچھ یوں جیسے اسے زبردستی اُتارا جا رہا ہے۔ پھر وہ پکارا۔ ‘‘بھئی یہ میرا گاؤں کیسے ہوسکتا ہے’’۔ ایک دم وہ پلیٹ فارم پر سر پٹ بھاگنے لگا۔ وہ لکڑی کے جنگلے پر سے کود گیا۔ سینے کے بل گرا اوراُٹھا نہیں بلکہ یونہی سینے کے بل رینگتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے گاؤں وا لے اس کی طرف بڑھے مگر گاڑی کے دروازے میں کھڑے ہوئے ایک فوجی جوان نے انھیں اپنے پاس بلایا اور ان سے کوئی ایسی بات کی کہ وہ جہاں کھڑے تھے وہیں جم گئے۔ پھر اس نے ایک بستر اور ___ بکس گاڑی سے اُتار کر گاؤں والوں کے حوالے کیا اور رومال سے آنکھیں پونچھتا ہوا چلتی گاڑی میں سوار ہوگیا۔

رینگ رینگ کر آگے بڑھتے ہوئے وریام کے اردگرد اب بچے جمع ہونے لگے تھے۔وہ پہلے تو بے خبری میں رینگتاگیا مگر اچانک جب اس نے اپنے سامنے بچوں کے سائے دیکھے تو وہ چیخ کر بولا: ‘‘لیٹ جاؤ بے وقوفو’’۔

بچے پہلے تو اس گرج سے دہل گئے مگر پھر بعد میں ایک ساتھ ہنسنے لگے اور پھر جب انھیں سامنے سے زینو دوڑتی ہوئی اس طرف آتی دکھائی دی تو سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس وقت وریام گاؤں کے کیکر کے سب سے بڑے شاہ کیکر کے نیچے پہنچ گیا تھا۔

وریام نے زینو اور بہرام کو دیکھا تو چیخ کر بولا: ‘‘لیٹ جاؤ’’۔زینو بالکل بین کے انداز میں پکاری: ‘‘تمھیں کیا ہوگیا ہے وریام۔ یہ تم کیا بن کر آگئے لام سے؟’’

وہ بہرام کو وہیں خاک پر بٹھا کر دھڑادھڑ اپنا سینا پیٹنے لگی۔ پلیٹ فارم کے جنگلے پر سے لوگ چھلانگیں لگاتے ہوئے آئے اور ان کی طرف لپکے اور وریام یونہی لیٹے لیٹے چیختا رہا۔ ‘‘میں کہتا ہوں لیٹ جا کمینی زمانے بھر کی۔ اندھی ہے کیا؟ دیکھتی نہیں جاپانیوں کی گولیاں ہر طرف سے سن سن نکلتی جارہی ہیں؟’’

اور جب بھاگتا ہوا ہجوم ان کے قریب پہنچ رہا تھا تو وہ اُٹھا اور بولا: ‘‘نہیں لیٹے گی؟’’ پھر اس نے تڑ سے زینو کے منہ پر تھپڑ مار دیا اور ایکاایکی اس کے چہرے پر ہلدی کھنڈ گئی۔ اس کی آنکھوں میں بڑا ڈراؤنا پھیلاؤ نمایاں ہونے لگا۔ اس کی کنپٹیوں میں رگیں پھول گئیں اور وہ ایک دم یوں بچوں کی طرح بلبلا کر رو دیا کہ زینو اتنے بہت سے لوگوں کے سامنے اس سے لپٹ گئی۔ اسے کھینچ کر بٹھالیا اور بھرائی اور بھیگی ہوئی آواز میں بولی: ‘‘ادھر تو دیکھو وریام۔ یہ بہرام ہے تمھارا بیٹا، پہچانتے ہو اسے؟’’وریام نے اثبات میں سر ہلایا اور روتے ہوئے بہرام کواُٹھا کر سینے سے بھینچ لیا۔

زینو بولی: ‘‘اور یہ درخت کون سا ہے؟’’‘‘شاہ کیکر ہے’’۔ وریام بولا۔ ‘‘کیا بچوں کی سی باتیں کر رہی ہو’’۔

زینو اتنے بہت سے آنسوؤں میں بھی مسکرا رہی تھی، بولی: ‘‘اور یہ میں ہوں جانتے ہو؟ یہ میں ہوں، بھلا بتاؤ تو میں کون ہوں؟’’

‘‘زینو ہو اور کون ہو؟’’ وریام کے خشک ہونٹوں پر پہلی بار مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔ آس پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی مسکرانے لگے۔‘‘شکر ہے خدا کا’’۔ ایک بولا۔‘‘یہ تو کوئی ایسی بات نہ ہوئی۔ ٹھیک ہوجائے گا’’۔ دوسرے نے رائے ظاہر کی۔‘‘جو لام سے جیتا جاگتا لے آیا ہے وہ یہاں بھی فضل کرے گا’’۔ ایک بوڑھے نے کہا۔

وریام نے اُوپر دیکھا۔ پھر جیسے اچانک کچھ یاد آتے ہی اس نے بہرام کو گود سے اُتارا اور اُٹھ کر سب سے بڑے تپاک سے ملا۔ انھیں ان کے ناموں سے پکارا۔ اسے تو ان کے بچوں تک کے نام یاد تھے۔ اسے تو یہ بھی یاد تھا کہ ننھے خاں میراثی کی بیوی کسی کے ساتھ کہیں بھاگ گئی تھی۔ مگر ہرسال کسی نہ کسی کے ہاتھ ننھے خاں کو پیار بھجواتی تھی۔ ‘‘اب بھی پیارے آتے ہیں؟’’ اس نے ننھے سے پوچھا اور ننھا بولا: ‘‘اب تو وریام خاں، ہرسال پیارے کے ساتھ ایک بچے کی خبر بھی آجاتی ہے اور اس سال تو اکٹھے دو ہوئے تھے اور وہ بھی مذکر’’۔ سب لوگ بے اختیار ہنسنے لگے۔ پھروریام نے بہرام کو اُٹھایا اور سامنے اپنے گھر کی طرف جانے لگا۔ زینو نوچے ہوئے بالوں اور کوٹے ہوئے سینے کو چادر سے ڈھانکتی اس کے پیچھے چلنے لگی۔ پھر دو آدمیوں نے واپس جاکر پلیٹ فارم پر سے وریام کا بکس اوربستر اُٹھایا اور جب وہ وریام کے گھر پہنچے تو وہ چھپر تلے پلنگ پر بیٹھا شیشے کے گلاس میں لسّی پی رہا تھا اور بہرام نے اس کی جیب میں ہاتھ ڈال ڈال کر اسے ادھیڑ ڈالا تھا۔

وریام نے لسّی پی اور بچے کو پیٹ پر بٹھا کر لیٹ گیا۔ فوراً ہی سو گیا اور زینو نے بہرام کو آہستہ سے اس کے پیٹ سے اُتار لیا۔ وہ دن بھر دروازے پر بیٹھی گاؤں والیوں سے وریام کی عجیب و غریب بیماری کی باتیں کرتی رہی۔ چند لوگوں نے آکر اسے بتایا کہ کوئی خاص فکر کی بات نہیں۔ جس فوجی نے وریام کا بکس اور بستر ان کے حوالے کیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ وریام پاگل تو بالکل نہیں۔ ذرا سا بیمار ہے۔ ‘‘اس سے کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے اسے غصہ آجائے۔ غصہ آجائے تو اسے کچھ ہوجاتا ہے۔ ویسے وہ ٹھیک ہے۔ اکتالیس دن تک سائیں سبزشاہ کے مزار کی خاک پاک چاٹی تو پتا ہی نہیں چلے گا کہ وہ کبھی بیمار بھی تھا، فکر کی ضرورت نہیں’’۔

وریام دیر تک سوتا رہا۔ شام کی گاڑی آئی تو دُور سے اس نے سیٹی بجانی شروع کی اور پلیٹ فارم تک یہ سیٹی نہ ٹوٹی۔ اس وقت گاؤں کے ریوڑ چراگاہوں کو واپس آتے ہوئے ریلوے لائن عبور کرتے تھے۔ اس لیے ریل کے انجن کو ہر روز اسی طرح چیخنا پڑتا تھا۔ گاڑی کی تیز سیٹی سے بھی وریام کی آنکھ نہ کھلی۔ پھر جب گاڑی چلی گئی تو وریام کی آپی آپ آنکھ کھل گئی۔ اس وقت بہرام کہیں اندر اس کے بکس کے تالے سے کھیل رہا تھا۔ وریام اُٹھا زینو کو پکارا تو آواز آئی: ‘‘یہاں تمھارے پاس ہی تو بیٹھی ہوں وریام’’۔

وریام نے پلٹ کر دیکھا تو زینو اسی کے پلنگ کے پائے پر بیٹھی تھی۔‘‘کب سے بیٹھی ہو؟’’‘‘دیر سے’’۔‘‘کیا کر رہی ہو؟’’ ‘‘تمھیں دیکھ رہی ہوں’’۔وریام نے جھٹ ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس نے زینو کو اس زور سے بھینچا کہ وہ ‘‘ہائے میری سانس، ہائے میری پسلیاں’’ پکارتی رہی اور ٹانگیں پھڑپھڑاتی رہیں۔ مگر وریام نے کافی دیر تک اسے اپنی گرفت سے آزاد نہ کیا۔ پھر جب اس نے زینو کو چھوڑا تو وہ الگ ہٹ کر بولی: ‘‘دروازہ کھلا تھا وریام، کوئی آجاتا تو کیا ہوتا؟’’

‘‘آجاتا تو چلا جاتا’’۔ وریام نے ہنس کر کہا: پھر وہ ایک دم سنجیدہ ہوگیا اور بولا: ‘‘ابھی تک چراغ نہیں جلایا؟’’‘‘نہیں تو___ جلا دوں؟’’‘‘نہیں، مجھے تم سے ایک دوباتیں کرنی ہیں اندھیرے میں’’۔‘‘کر و’’۔‘‘میرے پاس آجاؤ’’۔ اس کی آواز اچانک بھرا گئی۔زینو اس کے پاس آگئی۔‘‘زینو’’وہ بڑی ہی گھٹی ہوئی آواز میں بولا: ‘‘دیکھو’’ اس نے لجاجت سے کہا اور زینو اس پر جھک گئی، اور اس کے با ل اس کے شانوں پر سے گر کر وریام کے چہرے کوچھونے لگے۔

‘‘سنو زینو’’۔ وریام رُکتے ہوئے بولا۔ زینو لپک کر گئی۔ دروازے کی زنجیر چڑھا کر بھاگتی ہوئی واپس آئی اور وریام کے گھٹنے پر ٹھوڑی رکھ کر اسے یوں دیکھنے لگی جیسے اس پر سے نگاہوں کی آرتی اُتار رہی ہے۔

‘‘سنو زینو’’۔ وریام بولا۔ ‘‘جانے مجھے کیا ہوگیا ہے، میرا ایک دوست تھا زینو۔ میرے ساتھ والے مورچے میں تھا۔ گولے برس رہے تھے۔ گولے برستے رہے۔ جب ذرا سی خاموشی ہوئی تو میں نے کہا: ‘‘نواز اگر کوئی گولا اِدھر اُدھر گرنے کے بجائے یہاں میرے پاس تمھارے مورچے میں آگرے تو ہمارے ادھڑے ہوئے جسم جانے کس جانور کی خوراک بنیں گے۔ میں نے یہاں خاموش راتوں میں گیدڑوں کو بھی روتے سناہے۔ تو کیا ہم مسلمان جوانوں کے جنازوں کو گیدڑ کھائیں گے؟ ہوسکتا ہے ہماری لاشوں پر سے ٹینک گزر جائیں اور ہمارا چمڑا ان کے پہیوں سے لپٹ جائے اور سپاہی بیلچوں سے ہمارے چمڑے اور چربی کو ٹینک سے جدا کریں۔ ممکن ہے کہیں سے گدھیں___ ’’

زینو جو وریام کو خفا کر بیٹھنے کے ڈر سے اب تک ضبط کیے بیٹھی تھی، چیخ اُٹھی اور وریام کے منہ پر ہاتھ اور اس کی چھاتی پر سر رکھ کر رونے لگی۔

وریام نے بڑے پیار سے اس کا چہرہ اُٹھا کر آئینے کی طرح اپنے سامنے رکھ لیا اور بولا: ‘‘سنو تو، پھر کیا ہوا کہ گولوں کی ایک اور باڑ چلی۔ ہمارے گولے بھی ہمارے مورچے پر سے ہواؤں کو پھاڑتے ہوئے نکلے جارہے تھے۔ ایک بار پھر دونوں طرف خاموشی چا گئی۔ تو میں نے نواز کو پکارا اور جواب نہ ملا تو مجھے فکر ہوئی کیونکہ وہ تو گولوں کے طوفان میں بھی کان پر ہاتھ رکھ کر علی حیدر کے دوہے گاتا رہتا تھا۔ میں اپنے مورچے سے نکلا اور سینے کے بل لیٹ کر رینگتا ہوا اس کے مورچے پر پہنچا تو زینو مجھے بہرام کی قسم ہے’’۔

 وریام رُک گیا اور بولا: ‘‘اری وہ اکیلا اندر بیٹھا کیا کر رہا ہے۔ کیڑے مکوڑوں کی رُت ہے’’۔‘‘وہ تمھارے بکس کے اُوپر بیٹھا ہے’’۔ زینو جلدی سے بولی۔

وریام نے فوراً کہانی کا ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑا۔ ‘‘بھئی زینو مجھے اس بہرام کی قسم ہے کہ وہاں مورچے میں سر کے سوا اس کے سارے جسم کو جیسے کسی نے بوٹیوں بوٹیوں کاٹ کر ڈھیر لگا دیا تھا۔ پھٹا ہوا چمڑا دھجی دھجی بنا بکھرا پڑا تھا اور ایک طرف اس کا سر پڑا تھا۔ چاند کی طرح پیلا اور بڑا ہی معصوم سا۔ جانے موت کے بعد نواز کا چہرہ بچے کے چہرے کی طرح چھوٹا سا اور بھولا بھالا سا کیوں ہوگیا تھا۔ تب زینو مجھے ایسا لگا کہ نواز نہیں مرا، بہرام مر گیا ہے اور یہ سپاہی نہیں مرا۔ ایک بچے کو کسی قصائی نے کاٹ ڈالا ہے۔ پھر مجھے ایک دم ایسا لگا کہ یہ نواز نہیں ہے۔ یہ تو میں ہوں اور میں مر گیا ہوں اور میرے اندر کسی چیز نے میری بوٹی بوٹی کاٹنی شروع کر دی ہے۔ بھئی مجھے بہرام کی قسم ہے زینو مجھے تمھاری قسم ہے خدا کی قسم ہے کہ اس وقت مجھے اپنے گوشت میں سے گزرتی ہوئی چھری کی چرچر کی آواز بھی سنائی دے گی۔ بس اس کے بعد مجھے ہسپتال لے گئے اور جب سے سنا ہے کہ میں بکتا جھکتا رہتا ہوں اور بھاگ کھڑا ہوتا ہوں اور بھاگتے بھاگتے زمین پر دھب سے لیٹ جاتا ہوں۔ جانے کیا کیا بتاتے ہیں لوگ۔ پر زینو میں تو کچھ بھی نہیں کرتا۔ مجھے تو نیند آجاتی ہے، مجھے تو یہ تک یاد نہیں کہ گاڑی سے اُتار کر مجھے وہاں شاہ کیکر کے نیچے کون بٹھا گیا تھا جہاں سارا گاؤں میرے گرد جمع تھا۔ یہ مجھے کیا ہوگیا ہے زینو۔ میں نے تو ایسی لاشیں بھی دیکھی ہیں جو اکڑتی ہیں تو اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ پھولتی ہیں تو ذرا سا چھونے سے بھی بھیڑوں کی طرح باں سے بول اُٹھتی ہیں۔ پر اس نوازنے تو___ بھئی زینو، اب ذرا بہرام کو بلاؤ نا’’۔زینو جیسے کہیں دُور سے بولی۔‘ ‘بلاتی ہوں پر وعدہ کرو۔ اس سے ایسی ڈراؤنی باتیں نہیں کرو گے’’۔وریام گرجا: ‘‘تو کیا تم نے سچ مچ مجھے باؤلا سمجھ لیا ہے؟ تو کیا میں پاگل ہوں اچھا تو میں پاگل ہوں۔ کرلو جو کرنا ہے۔ میں پاگل ہوں۔ بلاؤ اسے۔ وہ کہاں ہے اس سے کہوجہاں بھی ہے لیٹ جائے۔ دیکھتی نہیں جاپانیوں کی گولیاں ہر طرف سے سن سن کر تی نکلی جارہی ہیں’’۔

وہ پلنگ سے کود کر زمین پر سینے کے بل لیٹ گیا اور رینگتا ہوا مکان کے اندر جانے لگا۔ زینو پہلے تو بہرام کو بکس پر سے اُٹھا لینے کے لیے بھاگی مگر پھر جانے اس کے جی میں کیا آئی کہ بچے کو اُٹھا کر چیختے ہوئے وریام کے پاس آئی اور دم بخود بہرام کو اس کے پاس لٹا دیا۔ پھر خود بھی وہیں لیٹ گئی۔ ‘‘یوں’’۔ وریام بولا۔ ‘‘اب ٹھیک ہے۔ اب ہم محفوظ ہیں۔ گولہ سیدھا ہمارے اُوپر آکر پھٹے تو دوسری بات ہے’’۔زینو کچھ دیر تک لیٹی رہی۔ پھر ڈرتے ڈرتے سر اُٹھا کر دیکھا تو بہرام باپ کے بالوں سے کھیل رہا تھا اور وریام گہری نیند سو رہا تھا اور زینو باہر دیوار پر ٹھوڑی رکھ کر کھڑی ہوئی پڑوسنوں کو وریام کے شور کا سبب بتانے آنگن میں چلی گئی۔

یہ سلسلہ مہینوں تک جاری رہا۔ وریام پر محض اس بات سے بھی پاگل پن سوار ہوجاتا تھا کہ پانی کے گلاس میں تنکا تیر رہا ہے یا ترکاری میں نمک کم ہے۔ پھر ایک دم اس کے ذہن میں جاپانی گولیاں چلانے لگتے اور وہ گھر میں میدانِ جنگ قائم کردیتا۔ تھک ہار کر سو جاتا اور جب اُٹھتا اور زینو سے ضد کر کے سارا حال معلوم کرتا تو اس کے زانو پر سر رکھ کر کئی بار وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو دیا اور بہرام کو سینے سے لگائے دیر تک آنگن میں ٹہلتا رہا۔

زینو بیس بیس کوس پیدل جا کر بڑے بڑے پیروں سے تعویذ لے کر آتی۔ اس نے سائیں سبز شاہ کے مزار پر سوجی کے حلوے کی کڑاہی چڑھائی اور روزانہ چٹکی چٹکی بھر خاک پاک لا کر وریام کو چٹاتی رہی۔ سنیاسیوں سے ٹوٹکے لیے اور تنکے سوئی پر چڑھا کر دواؤں کی غیرمحسوس مقدار میں مکھن میں لپیٹ کر وریام کو کھلائیں۔ اس نے پانچویں نماز ادا کرنا شروع کر دیں اور ہرنماز کے بعد جب وہ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتی تو خوب خوب روتی۔

پہلے پہل وریام نے اسے رونے سے روکا مگر پھر اس کا عادی ہوگیا۔ کہتا: ‘‘چلو رولو زینو۔ یہ بھی کر دیکھو’’۔ایک دن جب اس نے دیکھا کہ بہرام زینو کے پاس بیٹھا مٹی کھا رہا ہے اور زینو اپنے ہی کسی خیال میں کھوئی ہوئی اس کی طرف تکے جارہی ہے مگر اسے روکتی نہیں تو اس پر بلا کا پاگل پن سوار ہوگیا ۔ اس نے گلاس اُٹھا کر زینو کے سر پر دے مارا اور جب اس کے سر سے خون پھوٹ نکلا اور بہرام مٹی بھرا منہ کھول کر بلبلانے لگا تو وریام دھب سے زمین پر لیٹ گیا اور چلّایا۔ ‘‘لیٹ جاؤ کم بختو، رونے رُلانے سے کچھ نہیں بنے گا۔ آنسو گولیاں نہیں روک سکتے بے وقوفو! اری زینو! تو نے سر میں گولی کھائی ہے تو کیا اب پیٹ بھی چھلنی کرائے گی؟ لیٹ جا کمینی’’۔

تھک ہار کر جب وہ زمین پر ہی سو گیا اور زینو نے آس پاس چارپائیاں کھڑی کر کے اس کے سر کے نیچے تکیہ لاکر رکھ دیا تو ایک پڑوسن نے دیوار پر سے جھانک کر کہا: ‘‘زینو بہن! اس سے تو وریام کہیں وہیں لام میں مرہی جاتا تو اچھا تھا’’۔

زینو آپے سے باہر ہوکر گالیوں کا طومار باندھتی ہوئی اُٹھی اور پڑوسن کے ماتھے پر تڑاق سے وہی گلاس دے مارا جس نے اس کے سر کو زخمی کیا۔ پڑوسن گلاس سمیت دوسری طرف گری اور پھر محلے بھر میں کہرام مچ گیا۔ لوگوں نے زخمی عورت کے عزیزوں کو بمشکل زینو سے بدلہ لینے سے روکا اورجب روتی ہوئی زینو نے بھی پڑوس میں جاکر معافی مانگ لی اور اپنا گلاس اُٹھا کر جانے لگی تو زخمی پڑوسن بھی رو دی اور بولی: ‘‘ہمارے بھرے پرے پڑوس کو اُجڑا سمجھو۔ یہ زینو بھی ادھر ہی جارہی ہے جدھر وریام جاچکا ہے۔ بے چارے بدنصیب’’۔

شام کی گاڑی بھی لمبی سیٹی بجاتی ہوئی آئی اور گزر گئی۔ مگر بہرام کی آنکھ نہ کھلی۔ زینو شام تک تو اس کے پاس بیٹھی آتی جاتی چیونٹیوں کے رُخ بدلتی رہی تاکہ وہ وریام کو پریشان نہ کریں مگر جھٹپٹے کے بعد اس نے وریام کو آج پہلی بار جگانے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘ کیا ہے؟’’ وہ بولا۔

زینو نے کہا: اندر آجاؤ۔ ٹھنڈ پڑنے لگی ہے’’۔ اور وریام ‘‘چلو’’ کہہ کر اُٹھا اور اندر آکر ایک چارپائی پر گرا اور یوں سو گیا جیسے جاگا ہی نہیں تھا۔

آدھی رات کو اس کی آنکھ کھلی تو بچہ سو رہا تھا اور زینو چراغ کی میلی زرد روشنی میں بیٹھی وریام کا سردبار ہی تھی۔ وہ اُٹھا زینو کو بہت سے پیار کیے، اس کے سر پر بندھی ہوئی پٹی کو چھوا تو بولا: ‘‘یہ کیا ہے؟’’ اور جب زینو نے اسے دن کا واقعہ سنایا تو وہ اس کے زانو پر سر رکھ کر رونے لگا اور بولا: ‘‘سچ مچ اگر میں مر ہی جاؤں تو کچھ زیادہ نہیں بگڑے گا’’۔زینو اچانک جیسے نچڑ کر رہ گئی مگر پھر جیسے اپنے آپ سے لڑ کر مسکرا دی اور بولی: ‘‘مر تو جاؤ پر کہیں سے ہیرا بھی تو ملے۔ تمہی نے تو کہا تھا کہ شان سے مرنا ہے تو ہیرا چاٹ کے مرو’’۔وریام بچوں کی طرح بہل گیا۔ بولا: ‘‘سچ مچ زینو۔ کہیں سے مجھے ہیرا لا دو۔ چلو طے پایا کہ جب تک تم کہیں سے ہیرا نہیں لاتیں میں مروں گا نہیں۔ سنا ہے جاگیردار کی نئی بیوی کی ہرانگلی میں ایک ایک ہیرا ہے۔ کبھی جانا اس کے پاس۔ کہنا ایک انگوٹھی دے دو۔ ابھی واپس کردوں گی بس وریام کو اسے ذرا سا چاٹنا ہے’’۔

دونوں بے اختیار ہنسنے لگے۔ وریام تو اس کے بعد سو گیا لیکن زینو جاگتی رہی۔ وہ ویسے بھی راتوں کو جاگتی رہتی تھی۔ اس کا سارا اثاثہ ختم ہوچکا تھا اور وہ جاگیردار اور دوسرے بڑے گھروں کی چکی پیس کر پانی بھر کر اور کپڑے دھو کر گھر بھر کا پیٹ پال رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے تھے۔ اس کے بال ہروقت اُجڑے رہتے تھے اور وہ سوتے میں کراہتی تھی۔ وہ بہرام کو ساتھ لے کرباہر چلی جاتی اور محنت مزدوری کرکے واپس آجاتی۔ اسے یقین تھا کہ وریام گھر سے نہیں نکلے گا کیونکہ جب وہ بیمار ہوتا تھا تو چارپائی سے گر کر زمین سے چمٹ جاتا تھا اور ہوش میں تو وہ بچوں تک سے نظریں ملانے سے کتراتا تھا اور اسی لیے گھر میں دبکا پڑا رہتا تھا۔

ایک دن زینو واپس گھر میں آئی تو اس کے سر پر ایک بڑا سا چمکتا ہوا برتن تھا اور بہرام نے بھی اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک پوٹلی سی رکھی تھی۔ وریام نے پلٹ کر دیکھا اور بولا: ‘‘آگئیں زینو؟’’‘‘ہاں’’ وہ بولی۔ ‘‘کیا کرتے رہے؟’’‘‘گنگناتا رہا’’۔ وریام بولا۔ ‘‘آج تو مجھے بڑے پرانے پرانے گیت یاد آتے رہے۔ وہ گیت بھی جو تم نے بیری پر چڑھی ہوئی سہیلیوں کے ساتھ مل کر گایا تھا اور جب میں نیچے سے گزرا تھا تو سہیلیوں نے تم سے کہا تھا۔ چپ کرری نیچے تیرا ہوتا سوتا جا رہا ہے۔ یاد ہے؟ ان دنوں ہماری تازہ تازہ منگنی ہوئی تھی اور میں کتنی بار جان بوجھ کر تمھارے پاس سے ہوکر گزرتا تھا یاد ہے نا؟’’

‘‘یاد ہے’’۔ زینو بولی۔ ‘‘یہی یادیں تو جینے کی مٹھاس ہیں’’۔وریام کے چہرے پر رونق آگئی۔ اس نے بہرام کو اپنے پاس بلا کر بٹھا لیا اور اسے کوئی کہانی سنانے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد زینو کھانا لے کر آئی اور وریام کے سامنے چُن دیا۔ وریام سب سے پہلے پلاؤ کھانے لگا۔ بہرام نے حلوے کی رکابی پر ہلہ بول دیا۔ زینو نیچے بیٹھی مکھیاں جھلتی رہی اور دونوں کو باری باری بڑے پیارے سے دیکھتی رہی۔ ایک بار اس نے بچے کو ڈانٹا۔ ‘‘ارے آرام سے کھا لڑکے۔ آدھا کھاتا ہے آدھا گراتا ہے۔ ایسا حلوہ روز روز تھوڑی ملے گا’’۔

‘‘حلوہ بھی ہے؟’’ وریام نے حیران ہوکر پوچھا۔ پھر وہ مسکرا کر بولا: ‘‘آج تو زینونے گھر کو آگ لگا دی ہے۔ یہ پلاؤ تو بڑا ہی مزیدار ہے۔ کتنا اچھا پکایا ہے تم نے’’۔ ‘‘میں نے تو نہیں پکایا’’۔ زینو بولی۔‘‘تو پھر کس نے پکایا ہے؟’’ وریام نے ایک اور نوالہ بناتے ہوئے پوچھا۔‘‘جانے کس نے پکایا ہے’’۔ وہ بولی۔ ‘‘میں تو جاگیردار کے گھر سے لائی ہوں’’۔‘‘کیوں؟’’ وریام نے نوالہ رکابی ہی میں رکھ دیا۔‘‘آج اس کے بیٹے کا چالیسواں تھا’’۔‘‘چالیسواں چھوڑ پچاسواں ہو پر وہ لوگ ہمارے کیا لگتے ہیں؟’’‘‘کچھ نہیں’’۔‘‘تجھے کیوں دیا یہ پلاؤ اور یہ حلوہ؟’’‘‘بس دے دیا وریام۔ غصے نہ ہو’’۔ زینو نے التجا کی۔ ‘‘میں پوچھتا ہوں کیوں دیا؟’’ وریام نے پلنگ پر سے ٹانگیں لٹکا لیں اور بہرام نے رونے کی تیاری میں نچلا ہونٹ لٹکا لیا۔ ‘‘کیوں دیا؟ وریام گرجا’’۔‘‘بس غریب جان کے دے دیا’’۔ زینو نے آہستہ سے کہا۔‘‘مطلب یہ کہ جاگیردار نے خیرات دی؟’’‘‘ہاں’’۔ ‘‘اور تم نے لے لی؟’’زینو خاموش رہی۔‘‘اپنے بیٹے کی آنکھوں میں پیاس دیکھ رہی ہو؟’’زینو پھر بھی خاموش رہی۔

مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ ہم آج کل بھیک کھا رہے ہیں’’۔زینو اب تک اس لیے خاموش تھی کہ اسے وریام پر پاگل پن سوار ہونے کا یقین ہوگیا تھا مگر جب اس نے دیکھا کہ اس میں ایسے کوئی آثار پیدا نہیں ہو رہے تو وہ ٹوٹ کر رو دی اور بولی: ‘‘وریام پیارے، میرے پاس دست ِغیب تو نہیں ہے کہ ہر صبح کی نماز کے بعد مصلے کے نیچے سے پانچ روپے نکال لوں۔ آج ایک سال سے تمھاری پنشن کا بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور وریام میں نے تو وہ مراد آبادی برتن تک بیچ ڈالے ہیں جو تم نے بریلی سے خریدے تھے۔ ان میں سے ایک یہی گلاس باقی رہ گیا ہے جس میں ہم پانی بھی پیتے ہیں اور ایک دوسرے کے سر بھی پھوڑتے ہیں تو پھر بتاؤ وریام، میں اور کیا کروں؟ تمھیں پتہ نہیں پر میں نے چکی پیسی ہے۔ میں نے پانی بھرا ہے۔ میں نے کپڑے دھوئے ہیں تم نے مجھ سے یہ بھی کبھی نہیں پوچھا کہ باہر جاکر اتنی دیر کیا کرتی رہتی ہو۔ تم نے مجھ سے یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ اُجڑے بالوں میں کنگھی کرلو۔ میں نے محنت مزدوری کے بعد بدلے میں چٹکی بھر آٹا پایا ہے تو گھر آئی ہوں اور توے پر تمھارے اور بہرام کے لیے ایک روٹی ڈالی ہے اور خود بھوکی رہی ہوں۔ وہ تمھاری لائی ہوئی رنگون کی قمیص دس روپے میں بیچ کر میں نے سائیں سبزشاہ کے روضے پر کڑاہی چڑھائی تھی۔ اب کے عید میں جو تم نے نئی پگڑی باندھی ہے تو یہ میرے آخری کنگن کی قیمت تھی۔ بھلا بتاؤ تو میں نے جو یہ چادر اوڑھ رکھی ہے تو یہ کہاں سے آئی ہے؟ وریام کے جو کُرتے بنے ہیں تو وہ کہاں سے ملے؟یہ سب گاؤں کے خدا ترسوں کی مہربانی ہے ورنہ وریام آج میں اور تم اور بہرام سب ننگے نظر آتے اور ہم یہیں اس چھپر تلے مارے بھوک کے سوکھ کر مر جاتے’’۔

‘‘مر جاتے تو اچھا تھا’’۔ وریام بولا۔

پھر وہ اُٹھا اور آنگن میں ٹہلنے لگا۔ ‘‘جیئے تو کون سا تیر مار لائے۔ مرجاتے تو کیا بگڑ جاتا۔ تین نئے پتے شاخ پر پیدا ہوتے ہیں تو شاخ کے زیور نہیں سج جاتے اور جب یہ تین پتے ٹوٹ کر گر پڑتے ہیں تو درخت لُٹ نہیں جاتا۔ سمجھیں زینو؟ اور ہم نے تو خیر جو گزارنی تھی گزار لی۔ بہرام کو کبھی غور سے دیکھا ہے؟اور جانتی ہو یہ نئے زمانے کا بچہ ہے۔ اسے تو بڑا ہوکر بڑے بڑے کام کرنے ہیں۔ ہم نے تو نواز کی بوٹیوں کا ڈھیر دیکھا تو پاگل ہوگئے پر اس نئے زمانے کے تاج الملوک کو تو پگلی، خون پسینے کے کتنے سمندر کاٹ کر خوشیوں کی بکاؤلی کا پھول لانا ہے جانتی ہو نیا زمانہ کتنا سخت ہے؟’’‘‘میں کیا جانوں، میرے لیے تو ہر زمانہ نیا زمانہ ہے’’۔ زینو ناگواری سے بولی۔

وریام نے زینو کے لہجے کی تھکن محسوس کرلی۔ بولا: ‘بکاؤلی کی کہانی یاد ہے؟ نہیں! سناؤں؟ آؤ ادھر چارپائی پر آجاؤ۔ ڈرو نہیں۔ آج میں بالکل ٹھیک ہوں آخر ترتراتا پلاؤ کھایا ہے’’۔وہ دیر تک زینو کو بکاؤلی کی کہانی سناتا رہا۔ بہرام زینو کی گود میں سو گیا تھا اور سائے ڈھل کر لمبے ہو رہے تھے۔ جب کہانی ختم ہوگئی تو زینو بہرام کو ایک طرف لٹا کر اور وریام کے ماتھے پر ہلکا سا پیار کر کے مکان کے اندر دہلیز کے پاس برتنے دھونے بیٹھ گئی اور جب وہ برتن دھو چکی تو بولی: ‘‘وریام ! وعدہ کرتی ہوں اب خیرات نہیں لوں گی، خیرات لوں تو ہیرا چاٹوں’’۔

زینو نے مسکرا کر چھپر کی طرف دیکھا مگر وریام وہاں موجود نہ تھا۔ پھر اس نے وریام کو نہ جانے کیوں اس زور سے پکارا کہ بہرام چیخ کر جاگ اُٹھا۔ بہرام کو کولھے پر بٹھا کر وہ باہر بھاگی۔ وریام اپنے گھر اور اسٹیشن کے درمیان شاہ کیکر کے تنے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ زینو لپک کر اس کے پاس گئی تو وہ بولا: ‘‘کیوں زینو کیا بات ہے؟ تم تو بالکل چٹی دھجی ہورہی ہو’’۔زینو بولی: ‘‘تم یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو؟’’وریام نے مسکرا کر کہا: ‘‘کچھ نہیں بس ذرا ریل گاڑی کا انتظار کر رہا تھا وہ آئے تو اس کے آگے لیٹ جاؤں’’۔

زینو وریام کی شگفتگی کے باوجود سناٹے میں آگئی۔ پھر اس نے وریام کا بازو پکڑ کر اسے گھر کی طرف کھینچنا شروع کیا۔ ‘‘ایسی باتیں نہ بکاکرو’’۔‘‘تم ہیرا لا کے تو دیتی ہی نہیں’’۔ وریام اسی لہجے میں بولا اور زینو کے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور پھر اس نے بہرام کو اس کے بازوؤں سے لے کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور جب گھر میں داخل ہوا تو بہرام کو اُتار کر بولا۔ ‘‘آج سے میں کام کروں گا زینو۔ چاہے مجھے سائیسی ہی کیوں نہ کرنی پڑے، پر زینو اور بہرام کو حلال کی کمائی کھلاؤں گا۔ میں تمھیں یوں گلیوں میں___’’اچانک دروازہ کھلا اور ایک میراثن اندر آئی، بولی: ‘‘ملکانی کہہ رہی ہیں بہت سا گوشت بھی بچ گیا ہے آ کے لے جاؤ’’۔وریام تڑپ کر بولا: ‘‘ملکانی سے کہو کتوں کے آگے ڈال دیں’’۔میراثن تڑ سے بولی: ‘‘ہم بھی تو کتے ہیں وریام خاں، غریب آدمی بھی تو گلی کا آوارہ کتا ہی ہوتا ہے’’۔وریام جیسا بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا۔زینو نے میراثن کو اشارہ کیا اور اسے مکان کے اندر لے گئی۔ اس سے دیر تک کچھ باتیں کرتی رہی۔ پھر دونوں وہیں بیٹھ کر جاگیردار کے دھلے ہوئے برتنوں کو کپڑے سے رگڑ رگڑ چمکانے لگیں اور بچہ ان کے پاس بیٹھا مٹی کھاتا رہا۔

میراثن کو برتن دے کر زینو بولی: ‘‘چپکے سے نکل جا، وریام کچھ بولے بھی تو کچھ نہ کہنا۔ پہلے بھی آتے ہی تم نے اتنی بڑی بات بک دی۔ اسے کچھ ہوجاتا تو؟ جب وہ سو جائے گا تو میں___ ٹھہر جا میں دیکھ تو لوں وریام کس طرف دیکھ رہا ہے’’۔

اس نے باہر جھانکا اور بولی: ‘‘نکل چل، اس وقت نہیں ہے’’۔میراثن جھینپ سے باہر نکل گئی۔ بہرام کے مٹی بھرے منہ کو صاف کر کے زینو نے اسے اُٹھایا اور باہر آگئی۔ آنگن میں اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر ایک دم اس زور سے بھاگ نکلی کہ بہرام اس کے کولھے پر ہرقدم پر اُچھل اُچھل جاتا تھا۔ وہ شاہ کیکر کے پاس سے بھی نکل گئی۔ ادھر سے بہت سے لوگ آرہے تھے۔ جب وہ ان کے پاس پہنچی تو رُکی نہیں۔ صرف اتنا پوچھ لیا۔ ‘‘ادھر کہیں وریام تو___’’

پھر وہ انھی قدموں پر رُک گئی اور لوگوں کے چہروں پر نظریں گاڑے کھڑی رہی۔ اچانک وہ بہرام کو سینے سے چمٹا کر ڈراؤنی چیخیں مارتی ہوئی بھاگی مگر وہ پلیٹ فارم پر دیر سے پہنچی تھی۔ اس وقت قلی گاڑی کے پہیوں سے وریام کے چمڑے کو الگ کر کے بیلچوں کے سہارے کھڑے چپ چاپ رو رہے تھے اور اسٹیشن ماسٹر مولوی عبدالرب انجن ڈرائیور سے کہہ رہے تھے:‘‘مرنے کے لیے بھی ایک سلیقہ چاہیے، یہ نہیں کہ___’’

٭٭٭