طاقت کا امتحان

مصنف : سعادت حسن منٹو

سلسلہ : ادب

شمارہ : جون 2017

 

 ’’کھیل خوب تھا، کاش تم بھی وہاں موجود ہوتے۔‘‘  ’’مجھے کل کچھ ضروری کام تھا مگر اس کھیل میں کونسی چیز ایسی قابلِ دید تھی جسکی تم اتنی تعریف کر رہے ہو؟‘‘ ’’ایک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکھلائے کہ ہوش گم ہو گیا۔‘‘ ’’مثلا۔‘‘   ’’مثلا کلائی پر ایک انچ موٹی آہنی سلاخ کو خم دینا۔‘‘   ’’یہ آجکل بچے بھی کر سکتے ہیں۔‘‘   ’’چھاتی پر چکی کا پتھر رکھوا کر آہنی ہتھوڑوں سے پاش پاش کرانا۔‘‘  ’’میں نے ایسے بیسیوں شخص دیکھے ہیں۔‘‘   ’’مگر وہ وزن جو اس نے دو ہاتھوں سے اٹھا کر ایک تنکے کی طرح پرے پھینک دیا کسی اور شخص کی بات نہیں، یہ تمھیں بھی ماننا پڑے گا۔‘‘   ’’بھلے آدمی یہ کونسا اہم کام ہے، وزن کتنا تھا آخر۔‘‘ ’’کوئی چار من کے قریب ہوگا، کیوں؟‘‘ ’’اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زدہ مزدور گھنٹوں پشت پر اٹھائے رہتا ہے۔‘‘  ’’بالکل غلط۔‘‘   ’’وہ کیوں؟‘‘

’’غلیظ ٹکڑوں پر پلے ہوئے مزدور میں اتنی قوت نہیں ہو سکتی۔ طاقت کے لئے اچھی غذا کا ہونا لازم ہے۔ شہر کا مزدور۔۔۔کسیی باتیں کر رہے ہو۔‘‘  ’’غذا والے معاملے کے متعلق میں تم سے متفق ہوں مگر یہ حقیقت ہے۔ یہاں ایسے بہتیرے مزدور ہیں جو دو پیسے کی خاطر چار من بلکہ اس سے کچھ زیادہ وزن اٹھا کر تمھارے گھر کی دوسری منزل پر چھوڑ آ سکتے ہیںکہو تو اسے ثابت کر دوں؟‘‘

یہ گفتگو دو نوجوان طلبہ میں ہو رہی تھی جو ایک پر تکلف کمرے کی گدی دار کرسیوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔’’میں اسے ہر گز نہیں مان سکتا اور باور آئے بھی کس طرح۔۔۔قاسم چوب فروش کے مزدور ہی کو لو۔ کمبخت سے ایک من لکڑیاں بھی تو اٹھائی نہیں جاتیں۔ ہزاروں میں ایک ایسا طاقتور ہو تو اچنبھا نہیں ہے۔‘‘  ’’چھوڑو یار اس قصے کو، بھاڑ میں جائیں یہ سب مزدور اور چولھے میں جائے انکی طاقت۔ سنا آج تاش کی بازی لگ رہی ہے؟‘‘

’’تاش کی بازیاں تو لگتی ہیں رہیں گی، پہلے اس بحث کا فیصلہ ہونا چاہیئے۔‘‘سامنے والی دیوار پر آویزاں کلاک ہر روز اسی قسم کی لا یعنی گفتگوں سے تنگ آ کر برابر اپنی ٹک ٹک کئے جا رہا تھا۔ سگریٹ کا دھواں انکے منہ سے آزاد ہو کر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کھڑکی کے راستے باہر نکل رہا تھا۔ دیواروں پر لٹکی ہوئی تصاویر کے چہروں پر بے فکری و بے اعتنائی کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ کمرے کا فرنیچر سالہا سال سے ایک ہی جگہ پر جما ہوا کسی تغیر سے نا امید ہو کر بے حس پڑا سوتا تھا۔ آتشدان کے طاق پر رکھا ہوا کسی یونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگین نگاہوں سے آدم کے ان دو فرزندوں کی بے معنی گفتگو سنکر تعجب سے اپنا سر کھجلا رہا تھا۔۔۔۔کمرے کی فضا ان بھدی اور فضول باتوں سے کثیف ہو رہی تھی۔

تھوڑی دیر تک دونوں دوست تاش کی مختلف کھیلوں، برج کے اصولوں اور روپیہ جیتنے کے طریقوں پر اظہارِ خیالات کرتے رہے۔ دفعتاً ان میں وہ جسے مزدور کی طاقت کے متعلق پورا یقین تھا اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔ ’’باہر بازار میں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وہ تمھارے خیال میں کتنا وزن رکھتا ہوگا۔‘‘   ’’پھر وہی بحث۔‘‘  ’’تم بتا تو سہی‘‘   ’’پانچ چھ من کے قریب ہوگا۔‘‘  ’’یہ وزن تو تمھاری نظر میں کافی ہے نا؟‘‘  ’’یعنی تمھارا یہ مطلب ہے کہ لوہے کی یہ بھاری بھر کم لاٹھ تمھارا مزدور پہلوان اٹھائے گا۔۔۔۔گدھے والی گاڑی ضرور ہوگی اسکے ساتھ۔‘‘

’’یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔ گیہوں کی دو تین بوریاں اٹھانا تو انکے نزدیک معمولی کام ہے۔۔۔۔مگر تمھیں کیا پتہ ہو سکتا ہے۔ کہو تو، تمھارے کل والے کھیل سے کہیں حیرت انگیز اور بہت سستے داموں ایک نیا تماشا دکھاؤں۔‘‘   ’’اگر تمھارا مزدور لوہے کا وہ وزنی ٹکڑا اٹھائے گا تو میں تیار ہوں۔‘‘   ’’تمھاری آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی چالاکی کے۔‘‘

 دونوں دوست اپنے اپنے سگریٹ کی خاکدان میں گردن دبا کر اٹھے اور باہر بازار کی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان کرنے چل دیئے۔ کمرے کی تمام اشیا کسی گہری فکر میں غرق ہو گئیں، جیسے انہیں کسی غیر معمولی حادثے کا خوف ہو، کلاک اپنی انگلیوں پر کسی متعینہ وقت کی گھڑیاں شمار کرنے لگا۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔۔۔۔کمرے کی فضا خاموش آہیں بھرنے لگ گئی۔

لوہے کا وہ بھاری بھر کم ٹکڑا لاش کا سا سرد اور کسی وحشتناک خواب کی طرح تاریک، بازار کے ایک کونے میں بھیانک دیو کی مانند اکڑا ہوا تھا۔ دونوں دوست لوہے کے اس ٹکڑے کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور کسی مزدور کا انتظار کرنے لگے۔ بازار بارش کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت تھا، جو راہگزروں کے جوتوں کے ساتھ اچھل اچھل کر انکا مضحکہ اڑا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا گویا وہ اپنے روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اسی آب و گِل کی تخلیق ہیں جسے وہ اس وقت پاؤں سے گوندھ رہے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت سے غافل اپنے دنیاوی کام دھندوں کی دھن میں مصروف کیچڑ کے سینے کو مسلتے ہوئے ادھر ادھر جلد جلد قدم اٹھاتے ہوئے جا رہے تھے۔

کچھ دکاندار اپنے گاہکوں کے ساتھ سودا  طے کرنے میں مصروف تھے اور کچھ سجی ہوئی دکانوں میں تکیہ لگائے اپنے حریف ہم پیشہ دکانداروں کی طرف حاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اس وقت کے منتظر تھے کہ کوئی گاہک وہاں سے ہٹے اور وہ اسے کم قیمت کا جھانسا دیکر گھٹیا مال فروخت کر دیں۔ ان منیاری کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک دوا فروش اپنے مریض گاہکوں کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔بازار میں سب لوگ اپنے اپنے خیال میں مست تھے اور یہ دو دوست کسی دنیاوی فکر سے بے پروا ایک ایسے مزدور کی راہ دیکھ رہے تھے جو انکی دلچسپی کا سامان مہیا کر سکے۔

دور بازار کے آخری سرے پر ایک مزدور کمر کے گرد رسی لپیٹے اور پشت پر ٹاٹ کا ایک موٹا سا ٹکڑا لٹکائے کیچڑ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔نانبائی کی دکان کے قریب پہنچ کر وہ دفعتاً ٹھٹکا، سالن کی دیگچیوں اور تنور سے تازہ نکلی ہوئی روٹیوں نے اسکے پیٹ میں نوکدار خنجروں کا کام کیا۔مزدور نے اپنی پھٹی ہوئی جیب کی طرف نگاہ کی اور گرسنہ دانتوں سے اپنے خشک لبوں کو کاٹ کر خاموش رہ گیا، سرد آہ بھری اور اسی رفتار سے چلنا شروع کر دیا۔ چلتے وقت اسکے کان بڑی بے صبری سے کسی کی دل خوش کن آواز ’’مزدور‘‘ کا انتظار کر رہے تھے مگر اس کے دل میں نہ معلوم کیا کیا خیالات چکر لگا رہے تھے۔

’’دو تین دن سے روٹی بمشکل نصیب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے ہیں مگر ایک کوڑی تک نہیں ملی۔۔۔۔کاش آج صرف ایک روٹی کے لئے ہی کچھ نصیب ہو جائے۔۔۔۔بھیک؟۔۔۔نہیںخداکارساز ہے۔’’بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کا خیال کیا مگر اسے ایک مزدور کی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے خدا کا دامن تھام لیا اور اس خیال سے مطمئن ہو کر جلدی جلدی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خیال سے کہ شاید دوسرے بازار میں اسے کچھ نصیب ہو جائے۔

دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک مزدور کو تیزی سے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا، مزدور دبلا پتلا نہ تھا چنانچہ انہوں نے فورا آواز دی۔ ’’مزدور۔‘‘

یہ سنتے ہی گویا مزدور کے سوکھے دھانوں میں پانی مل گیا، بھاگا ہوا آیا اور نہایت ادب سے پوچھنے لگا۔ ’’جی حضور۔‘‘ ’’دیکھو، لوہے کا یہ ٹکڑا اٹھا کر ہمارے ساتھ چلو، کتنے پیسے لو گے؟‘‘

 مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی اسکی آنکھوں کی وہ چمک جو ’’مزدور‘‘ کا لفظ سن کر پیدا ہوئی تھی، غائب ہو گئی۔ وزن بلا شک و شبہ زیادہ تھا مگر روٹی کے قحط اور پیٹ پوجا کے لئے سامان پیدا کرنے کا سوال اس سے کہیں وزنی تھا۔ مزدور نے ایک بار پھر اس آہنی لاٹھ کی طرف دیکھا اور دل میں عزم کرنے کے بعد کہ وہ اسے ضرور اٹھائے گا، ان سے بولا۔’’جو حضور فرمائیں۔‘‘

’’یعنی تم یہ وزن اکیلے اٹھا لو گے؟‘‘ ان دو لڑکوں میں سے اس نے مزدور کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو کل شب جسمانی کرتب دیکھ کر آیا تھا۔’’بولو کیا لو گے؟ یہ وزن بھلا کہاں سے زیادہ ہوا؟‘‘ دوسرے نے بات کا رخ پلٹ دیا۔ ‘‘کہاں تک جانا ہوگا حضور۔‘‘ ’’بہت قریب، دوسرے بازار کے نکڑ تک۔‘‘  ’’وزن زیادہ ہے، آپ تین آنے دیدیجئے۔‘‘

 ’’تین آنے۔‘‘   ’’جی ہاں، تین آنے کچھ زیادہ تو نہیں ہیں۔‘‘  ’’دو آنے مناسب ہے بھئی۔‘‘  دو آنے۔۔۔۔۔آٹھ پیسے، یعنی دو وقت کے لئے سامانِ خور و نوش، یہ سوچتے ہی مزدور راضی ہو گیا۔ اس نے اپنی کمر سے رسی اتاری اور اسے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا، دو تین جھٹکوں کے بعد وہ آہنی سلاخ اسکی کمر پر تھی۔ گو وزن واقعی ناقابلِ برداشت تھا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ملنے والی روٹی نے مزدور کے جسم میں عارضی طور پر ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دی تھی، اب ان کاندھوں میں جو بھوک کی وجہ سے مردہ ہو رہے تھے، روٹی کا نام سنکر طاقت عود کر آئی۔

گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر دیتا ہے، جب اسے اپنے پیٹ کے لئے کچھ سامان نظر آتا ہے۔ ’’آئیے۔‘‘ مزدور نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔ دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور زیرِ لب مسکرا دیئے، وہ بہت مسرور تھے۔ ’’چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑھا، ہمیں کچھ اور بھی کام کرنا ہے۔‘‘مزدور ان دو لڑکوں کے پیچھے ہو لیا، وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ موت اسکے کاندھوں پر سوار ہے۔

’’کیوں میاں، کہاں ہے وہ تمھارا کل والا سینڈو؟‘‘  ’’کمال کردیا ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔‘‘  ’’تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ٹکڑے کو تمھارے گھر کی بالائی چھت پر رکھوا دوں۔‘‘  ’’مگر سوال ہے کہ ہم لوگ اچھی غذا ملنے پر بھی اتنے طاقتور نہیں ہیں۔‘‘   ’’ہماری غذا تو کتابوں اور دیگر علمی چیزوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انھیں اس قسم کی سر دردی سے کیا تعلق؟ بے فکری، کھانا اور سو جانا۔‘‘  ’’واقعی درست ہے۔‘‘

لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجھ اور اسکی خمیدہ کمر سے غافل آپس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔  وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کیلے کے چھلکے میں چھپی ہوئی اپنے شکار کا انتظار کر رہی تھی۔ گو مزدور کیچڑ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا مگر تقدیر کے آگے تدبیر کی ایک بھی پیش نہ چلی۔ اسکا قدم چھلکے پر پڑا، پھسلا اور چشم زدن میں لوہے کی اس بھاری لاٹھ نے اسے کیچڑ میں پیوست کر دیا۔

مزدور نے مترحم نگاہوں سے کیچڑ اور لوہے کے سرد ٹکڑے کی طرف دیکھا، تڑپا اور ہمیشہ کیلئے بھوک کی گرفت سے آزاد ہو گیا۔ دھماکے کی آواز سن کر دونوں لڑکوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مزدور کا سر آہنی سلاخ کے نیچے کچلا ہوا تھا، آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہ معلوم کس سمت ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں۔ خون کی ایک موٹی سی تہہ کیچڑ کے ساتھ ہم آغوش ہو رہی تھی۔’’چلو آ چلیں، ہمیں خواہ مخواہ اس حادثے کا گواہ بننا پڑے گا۔‘‘ ’’میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ وزن اس سے نہیں اٹھایا جائے گا۔۔۔۔۔لالچ۔‘‘

یہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی لاش کے گرد جمع ہوتی ہوئی بھیڑ کو کاٹتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔ سامنے والی دکان پر ایک بڑی توند والا شخص ٹیلیفون کا چونگا ہاتھ میں لئے غالبا گندم کا بھا ؤطے کرنیوالا تھا کہ اس نے مزدور کو موت کا شکار ہوتے دیکھا اور اس حادثے کو منحوس خیال کرتے ہوئے بڑبڑا کر ٹیلیفون کا سلسلہ گفتگو منقطع کر لیا۔

’’کمبخت کو مرنا بھی تھا تو میری دکان کے سامنے۔۔۔بھلا ان لوگوں کو اس قدر وزن اٹھانے پر کون مجبور کرتا ہے۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی لاش اٹھا کر عملِ جراحی کیلئے ڈاکٹروں کے سپرد کر دی۔ دھندلے آسمان پر ابر کے ایک ٹکڑے نے مزدور کے خون کو کیچڑ میں ملتے ہوئے دیکھا، اسکی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔۔۔۔ان آنسوں نے سڑک کے سینے پر اس خون کے دھبوں کو دھو دیا۔ آہنی لاٹھ ابھی تک بازار کے ایک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدور کے خون کا صرف ایک قطرہ باقی ہے جو دیوار کے ساتھ چمٹا ہوا نہ معلوم کس چیز کا اپنی خونیں آنکھوں سے انتظار کر رہا ہے۔٭٭٭