نوجوان بیوہ

مصنف : دلشاد نسیم

سلسلہ : ادب

شمارہ : مارچ 2012

 

کتنا پیارا مکھڑا تھا ۔۔کتنی پیاری آنکھیں اْس کی
گالوں پہ حیا کی لالی ۔۔عمر کوئی بیس کی ہو گی
سرخ لبوں سے۔۔ جب ہنستی تھی
موتیوں کی مالا جیسے اپنے آپ ہی بنتی تھی
سجاکے پھول وہ بالوں میں۔۔آدھا سر ہی ڈھکتی تھی
سرخ ،نارنجی اورسنہرا۔۔بس انہی کواْوڑھا کرتی تھی
اک دن اچانک چلتے چلتے ۔میں نے جس کو دیکھا تھا
یہ وہ تو نہیں کہ جس کی آنکھیں
تا ریکیوں کوروشن کر تی تھیں
یہ وہ لب تو نہیں کہ جب ہنس دیں 
کلیاں آپوں آپ چٹکتی تھیں 
وہ سرخ، نارنجی اور سنہرے رنگ سارے کیا ہوئے؟
میرے گلے سے لگ کر اْس نے ۔مجھ کو خوب رْلایا پھر
کہنے لگی میں بھول رہی تھی ۔۔تم نے یاد دلایا پھر 
اپنے حصے کی ساری خوشیاں میں تو جی چکی 
تم کو خبر ہے اپنا شوہر میں تو کھو چکی 
جتنے رنگ تھے اچھے سارے۔۔ جتنے دن تھے اچھے سارے ۔۔مٹی میں چھوڑ آئی ہوں
اپنے شوہر کے ساتھ خود کو سَتی میں کر آئی ہوں
جوان ہو تم اور یہ پہاڑ سی زندگی۔۔ کیسے جی پاؤ گی؟ (میں دکھ سے بولی)آہ بھری اور کہنے لگی۔ 
بے رنگی جب مقدر ہو۔سانس لینا بھی جب کہ دْوبھر ہو۔۔موت سے بد تر جوگزر رہی ہو
ایسی جوانی دِکھے گی کس کو۔ ایسے جینے کی آرزو کس کو