حسد ، ایک تربیتی مطالعہ

مصنف : پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2012

ہر اخلاقی برائی نقصان دہ ہے۔ کبھی یہ نقصان دنیا ہی میں نظر آجاتا ہے اور کبھی آخرت تک مؤخر ہوجاتا ہے۔ حسد بھی ایسی ہی ایک بیماری ہے جس کا شکار شخص دنیا ہی میں نفسیاتی اذیت اٹھاتا اور دل ہی دل میں گھٹ کر مختلف ذہنی و جسمانی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یعنی حاسد کی سزا کا عمل اس دنیا ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن میں حسد کرنے والے کے شر سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے کیونکہ وہ اِس باؤلے پن میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ۔ لہٰذا دنیا اور آخرت کے نقصانات سے بچنے کے لئے اس بیماری کو جاننا اور اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔

حسد کی حقیقت:

 حسد کی حقیقت کسی دوسرے شخص کو ملنے والی نعمت اور کامیابی کا ناگوار گزرنا اور یہ آرزو کرنا ہے کہ یہ سب کچھ اس سے چھن کر مجھے مل جائے یا اگر مجھے نہ بھی ملے تو کم از کم اس سے تو چھن ہی جائے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کے بھائی کے پاس کار آگئی ہے تو وہ آرزو کرتا ہے کہ کاش یہ کار اس سے چھن کر میرے پاس آجائے، یا کم از کم اس کے پاس بھی نہ رہے یا اس کی کار کو کوئی نقصان پہنچ جائے تاکہ اس حاسد کی راحت میں اضافہ ہو۔

حسد کے لوازمات:

 حسد ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل لوازمات کا پورا ہونا ضروری ہے:

۱۔ کسی کی ترقی سے دل میں گھٹن محسوس ہونا اور ناخوش ہونا۔

۲۔ اس کے نقصان کی تمنا کرنا یا نقصان ہوجانے پر خوش ہونا۔

۳۔ یہ آرزو کرنا کہ محسود (جس سے حسد کیا جائے) سے نعمت چھن کر مجھے مل جائے۔

پہلے ضروری چیز یہ معلوم کرنا ہے کہ آپ حسد کا شکار ہیں یا نہیں۔ اس کا ٹیسٹ یہ ہے کہ اگر آپ کو دوسروں کی تکلیف پر خوشی اور ان کی کامیابی پر دکھ ہوتا ہے یا آپ کسی کے نقصان کے متمنی اور اس کو ملنے والی نعمت چھننے کے منتظر رہتے ہیں تو آپ حسد میں مبتلا ہیں۔

حسد کیا نہیں ہے؟:

ایک اضافی بات کے طور پر یہ بھی سمجھ لیں کہ محض کسی کی کوئی چیز (مکان، کپڑے وغیرہ) اچھی لگنا حسد نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ اس شے کوجائز طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا بھی بذاتِ خود برا عمل نہیں بلکہ اس سے تو صحت مند مقابلے کی فضا پروان چڑھتی اور سماج میں ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی طرح وہ وسوسے بھی حسد کے زمرے میں نہیں آتے جو اچانک غیر ارادی طور پر آپ کے دل میں آجائیں۔ البتہ ان خیالات کو پختہ ارادے کے ساتھ پروان چڑھانا قابلِ نکیر ہے۔

 حسد کی مختلف شکلیں:

ہماری سوسائٹی میں حسد عام طور پر مندرجہ ذیل صورتوں میں پایا جاتا ہے:

۱۔ کسی کے اچھے کپڑوں یا زیورات سے حسد۔ (اس کا شکار عام طور پر خواتین ہوتی ہیں)

۲۔ کسی کی اچھی شکل و صورت یا پر اثر شخصیت سے حسد۔

۳۔ کسی کے کاروبار، تعلیم یا ملازمت میں ترقی سے حسد۔ (یہ عام طور پر مردوں میں ہوتا ہے)

۴۔ کسی کی اولاد بالخصوص اولادِ نرینہ سے حسد۔

۵۔ کسی کے مکان، جائیداد، کار اور دیگر سامانِ آسائش سے حسد۔

۶۔ کسی کی شہرت، عزت، قابلیت یا عہدے سے حسد۔

۷۔ کسی کے تقویٰ اور عبادت گزاری سے حسد کہ یہ سب کچھ اس سے چھن جائے۔

۸۔ کسی کی صحت سے حسد۔

۹۔ اس کے علاوہ بھی حسد کرنے کی لامحدود صورتیں ہیں جو ایک حاسد انسان اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔

حسد کے اسباب اور ان کا تدارک:

 حسد کرنے کے عام طور پر مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں:

۱۔ محرومی یا احساسِ کمتری
۲۔ خدا کے فلسفہ آزمائش سے لاعلمی
۳۔ نفرت و کینہ
۴۔ غرور و تکبر
۵۔ منفی سوچ
۶۔ دیگر اسباب

۱۔ حسد کا بنیادی سبب تو یہی ہے کہ حاسد اس نعمت سے محروم ہوتا ہے جو دوسرے کو ملتی ہے (لیکن کبھی کبھی نعمت کی موجودگی میں بھی حسد ہوجاتا ہے)۔ مثال کے طور پر جب ایک بس کا مسافر ائیر کنڈیشن کار میں بیٹھے لوگوں کو دیکھتا ہے تو فطری طور پر اسے اپنی محرومی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اس احساس کا ہونا غیر اختیاری ہے لیکن کار والوں کی برائی چاہنا اختیاری اور گناہ کا عمل ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ حتی الامکان ان لوگوں کے بارے میں سوچنے سے گریز کریں جو آپ سے کسی معاملے میں بہتر پوزیشن میں ہیں اور اگر کوئی خیال آجائے تو اپنے سے نیچے کے لوگوں پر تفکر کریں۔ دوسرا تدارک یہ ہے کہ جب تک پختگی نہ آجائے اس وقت تک زیادہ وقت ان لوگوں میں گزاریں جو آپ جیسے ہیں۔ مزید یہ کہ خدا کی آزمائش کی اْس اسکیم پر غور کریں جس کا بیان آگے آرہا ہے۔

۲۔ فلسفہ آزمائش سے لاعلمی اور دنیاوی نعمتوں کو دائمی سمجھ لینا بھی حسد پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اللہ نے جو شکل و صورت، دولت، گاڑی، مکان، اولاد اور دیگر سامانِ زندگی عطا کیا ہے یا عطا نہیں کیا ہے اس کی اصل غرض انسانوں کی آزمائش ہے۔ وہ کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی سے لے کر۔ اس کے نزدیک اس دنیاوی ساز و سامان کی حیثیت ایک مردہ بکری کے بچے سے بھی کم ہے۔ ایک حاسد شخص ان نعمتوں کو حقیقی اور مقصود سمجھ کر ان کے حصول کو کامیابی اور ان سے محرومی کو ناکامی یقین کرلیتا ہے۔ وہ دنیا کی محبت اور حرص میں پاگل ہوجاتا اور دوسروں کی نعمتوں کو دیکھ کر جل اٹھتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو حسد کرنے والے کا عمل بالواسطہ طور پر خدا کی تقسیم اور اس کی حکمت پر اعتراض ہے۔ لیکن یہ شخص حسد کی آگ میں جلتے جلتے خدا کی مخالفت بھی گوارا کرلیتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ خدا کی آزمائشی اسکیم کو سمجھا جائے، دنیا کی حرص و محبت کو کم کیا جائے اور خدا کی حکمت اور تقسیم پر ہر حال میں راضی رہا جائے۔ کیونکہ یہاں کا ملنا اصل ملنا نہیں ہے اور نہ یہاں کی محرومی حقیقی محرومی ہے۔

۳۔ کسی کے خلاف نفرت بھی آپ کو مجبور کرسکتی ہے کہ آپ اس شخص کے نقصان کے متمنی ہوں۔ حسد نفرت کو اور نفرت حسد کو جنم دے سکتی ہے۔ چونکہ اس حسد کی بنیادی وجہ نفرت اور کینہ ہے لہٰذا نفرت کے اسباب جان کر ان کا تدارک اور علاج کیجیے۔ جب نفرت ختم ہوگی تو اس کی بنا پر پیدا ہونے والا حسد خود بخود دور ہوجائے گا۔

۴۔ بعض اوقات غرور اور تکبر بھی حسد کا سبب ہوتا ہے بالخصوص ان لوگوں کے لیے جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی کامیابیوں سے جلتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر نعمت اور کامیابی پر ان کی اجارہ داری اور ان کا حق ہے۔ اس طرح کے حسد سے نمٹنے کے لیے تکبر سے نجات ضروری ہے کیونکہ استکبار صرف اور صرف اللہ رب العزت کو زیبا ہے اور انسان کا تکبر اسے جہنم میں لے جاسکتا اور جنت کی ابدی نعمتوں سے محروم کرسکتا ہے۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ دنیاوی نعمتوں کی محرومی پر صبر کرلیا جائے۔ مزید یہ کہ تمام خزانوں کا مالک اللہ ہے۔ وہ جس کو چاہے اور جس طرح سے چاہے نوازے، اس پر کسی قسم کا اعتراض اور ناپسندیدگی براہِ راست خدا کی حکمت و تقسیم پر اعتراض کے مترادف ہے۔

۵۔ کچھ لوگوں کی سوچ منفی خیالات پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ یہ لوگ ہر مثبت یا نیوٹرل بات میں منفی پہلو نکالنے اور نکتہ چینی کے ماہر ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ کسی کی کامیابی پر ناخوش اور اس کو ملنے والی نعمتوں میں کیڑے نکالتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ زندگی کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کرکے لوگوں کی کامیابیوں کو سراہا جائے اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوکر اپنے حسد اور منفی طرزِ عمل کی تطہیر کی جائے۔

۶۔ اس کے علاوہ بھی حسد کے کئی دیگر اسباب ہوسکتے ہیں مثلاً کسی قدرتی آفت سے اپنی نعمتوں کا چھن جانا، استحقاق کے باوجود مادی کامیابیوں سے محروم رہنا، ہم عصروں کا کامیابی کے جھنڈے گاڑنا، کسی کا طنزیہ گفتگو سے محرومی کا احساس دلانا وغیرہ۔ ان تمام اسباب کا تدارک مندرجہ بالا بحث اور مندرجہ ذیل ہدایات میں موجود ہے۔

حسد سے گریز کے لیے عمومی ہدایات:

پہلے مرحلے میں آپ حسد کی نوعیت اور اس کا سبب معلوم کریں۔ پھر اس سبب کے مطابق اس کا تجویز کردہ علاج آزمائیں۔ اس کے ساتھ ہی ذیل میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔

۱۔ جن نعمتوں پر حسد ہے ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو بھی مل جائیں، اگر وہ اسباب و علل کے قانون کے تحت ممکن ہیں۔ کیونکہ ناممکن چیزوں کی خواہش سے ذہن مزید پراگندگی کا شکار ہوسکتا ہے۔

۲۔ وہ مادی چیزیں جو آپ کو حسد پر مجبور کرتی ہیں انہیں عارضی اور کمتر سمجھتے ہوئے جنت کی نعمتوں کو یاد کرتے اور ان کے بارے میں سوچتے رہا کریں۔

۳۔ نفس کو جبراً دوسروں کی نعمتوں کی جانب التفات سے روکیں اور اس سلسلے کے وسوسوں پر خاص نظر رکھیں۔

۴۔ محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو ان تمام امور میں مزید کامیابیاں اور برکتیں عطا کرے جن پر آپ کو حسد محسوس ہوتا ہے۔

۵۔ محسود سے محبت کا اظہار کیجیے اور اس سے مل کر اس کی کامیابیوں پر دل سے خوشی کا اظہار کریں۔

۶۔ ممکن ہو تو محسود کے لیے کچھ تحفے تحائف کا بندوبست بھی کریں۔

۷۔ اگر پھر بھی افاقہ اور بہتری نہ ہو تو محسود سے مل کر اپنی کیفیت کا کھل کر اظہار کردیں اور اس سے اپنے حق میں دعا کے لیے کہیں۔ لیکن اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ کوئی بدمزگی نہ ہو اور کہیں بات بگڑ نہ جائے۔

۸۔ اللہ کے ذکر کی کثرت کریں اور اس سے دعا کریں۔