جواب: صحیح احادیث میں اس مہینے کی فضیلت سے متعلق جو کچھ آیا ہے وہ یہ کہ یہ مہینہ چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے۔ چار حرام مہینے یہ ہیں: رجب، ذوالقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ اور بے شبہ یہ چاروں مہینے اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں۔ کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ہے جس میں خاص طور پر صرف ماہ رجب کی فضیلت بیان کی گئی ہو۔ رہی وہ حدیث جس کا تذکرہ آپ نے کیا ہے یعنی ‘‘رجب اللہ کا مہینہ ہے۔ شعبان میرا مہینہ اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے’’۔ تو یہ حدیث نہ صرف ضعیف ہے بلکہ علماء حدیث نے اسے موضوع یعنی گھڑی ہوئی قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہر وہ حدیث جو اس مہینے کی فضیلت کے سلسلے میں مروی ہے کہ جس نے اس مہینے میں نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا استغفار کیا تو اسے یہ اجر ملے گا اور وہ اجر ملے گا، یہ سب گھڑی ہوئی احادیث ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ ان احادیث کے بے سند ہونے کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ ان میں مبالغے کی حد تک ثواب یا عذاب کا وعدہ ہوتا ہے۔ علماء کرام کہتے ہیں کہ اگر کسی چھوٹی نیکی پر عظیم اجر کا وعدہ ہو یا کسی چھوٹے گناہ پر بڑے عذاب کی دھمکی ہو تو یہ علامت ہے اس بات کی کہ یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے۔ ماہ رجب سے متعلق وارد احادیث بھی اسی قبیل سے ہیں۔
امت مسلمہ کی یہ بد قسمتی ہے کہ ضعیف اور موضوع احادیث کے سہارے بہت ساری ایسی روایات ہماری ثقافت کا حصہ بن گئی ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مزید مصیبت کی بات یہ ہے کہ یہی غلط روایات اہم تر ہو کر لوگوں کی توجہ اور اہتمام کا مرکز بن گئی ہیں۔ اور جو بنیادی اسلامی تعلیمات و روایات ہیں انھیں یا تو لوگوں نے بھلا رکھا ہے یا پھر انھیں ثانوی حیثیت عطا کر رکھی ہے۔ ہماری بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ ہم رسولؐ اور ان کے صحابہ کرامؓ کا اتباع کریں اور جو باتیں بعد کے زمانوں میں غلط طور پر ترویج پا چکی ہیں ان سے اپنے دامن کو بچائے رکھیں۔
رہی بات اسی مہینے میں روزہ رکھنے کی تو کوئی ایسی روایت نہیں ہے کہ حضوؐر نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں۔ بعض لوگ پورے رجب، شعبان اور رمضان اور اس کے علاوہ شوال کے چھ دن روزے رکھتے ہیں۔ اس طرح کا روزہ رکھنا حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ جو شخص نیکی اور اجر کا طالب ہے اسے چاہیے کہ رسوم کو چھوڑ کر حضوؐر کا اتباع کرے۔ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)