ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول فطرت کا بہترین نمونہ ہوتاہے لیکن طبعی طور پر چیزوں کے بارے میں اس کی بھی پسند ناپسند ہوتی ہے مثلاً حضورﷺ ایک مرتبہ کہیں گئے تو انہوں نے گو کاگوشت پکایاہوا تھا، حضورﷺ نے کہا میں اسے پسند نہیں کرتا تو آپ نے نہیں کھائی ۔ آپ کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کھالیا۔ اس کا تعلق اصل میں طبعی مزاج سے ہے۔حرام کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے کوئی شرعاً حرام کر لیا تھا ۔مطلب یہ ہے کہ وہ کھاتے نہیں تھے ، یہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے رسالت مآبﷺ نے کسی بیوی کے لیے کہہ دیا تھا کہ اچھا میں اب شہد نہیں کھایا کروں گاتو اللہ تعالی نے کہا کہ آپ پیغمبر ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے معاملے میں وہی ہو جائے جو حضرت یعقوبؑ کے معاملے میں ہوا تھا۔اس لیے ایسا نہ کریں۔یعنی حضرت یعقوبؑ نے حرام نہیں کیا تھا ، بنی اسرائیل نے بعد میں اس کو حرام کر لیا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ ہر چیز پر تنبیہہ نہیں کرتے ، وہ انسانوں کو رائے قائم کرنے کا موقع دیتے ہیں اور جب انسان پے در پے غلطی کرتے ہیں تو پھر اللہ تنبیہہ کرتے ہیں ۔ اگر اللہ پہلے ہی تنبیہات کردیں تو پھر انسان کے اندر سوچنے کا جذبہ اور آزادی فطرت ختم ہوجائے ، اللہ کا طریقہ یہی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)