ج: اس کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ اس ضمن میں جو روایتیں بیان کی جاتی ہیں وہ بالکل ضعیف ہیں ، ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں ۔ قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں، وہ لیلتہ القدر کے بارے میں ہے ۔ اسلام میں فضیلت کی رات لیلتہ القدر ہے جو کہ رمضان میں ہوتی ہے ۔ شب برات کے بارے میں جتنی چیزیں ہیں وہ بہت کمزور ہیں اور زیادہ تر لوگوں نے ان کو تہوار بنانے کے لیے اہمیت دے ڈالی ہے ورنہ دین میں اس رات میں عبادت یا اس طرح کی چیز کا کسی مستند ذریعہ سے کوئی سراغ نہیں ملتا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس نوعیت کی تمام روایتیں ضعیف ہیں اور کسی ضعیف روایت پر انسان کو دین کی بنیاد نہیں رکھنی چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: شب برات کی فضیلت کے سلسلے میں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ہے، جسے صحیح قرار دیا جا سکے۔ البتہ چند احادیث کے بارے میں علماء حدیث نے کہا ہے کہ یہ صحیح تو نہیں ہیں البتہ حسن کے درجے میں ہیں۔ لیکن بعض علماء انھیں حسن بھی نہیں قرار دیتے۔ ان کے نزدیک شب برات کے سلسلے میں وارد تمام حدیثیں ضعیف ہیں۔بالفرض اگر ہم ان چند احادیث کو حسن بھی تسلیم کر لیں، تب بھی حضوؐر، صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒسے یہ روایت نہیں ملتی کہ انھوں نے شب برات کے موقع پر مسجدوں میں جمع ہو کر نمازوں اور دعاؤں کا اہتمام کیا ہو۔ جو کچھ ان روایتوں میں ہے، وہ یہ کہ حضوؐر نے اس رات دعا مانگی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ کوئی خاص اور متعین قسم کی دعا حضوؐر سے وارد نہیں ہے۔ لوگ اس رات کچھ خاص دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں بہت چھوٹا تھا تو لوگوں کی دیکھا دیکھی میں بھی اس رات نمازیں پڑھتا تھا اور دو رکعت درازی عمر کی نیت سے، دو رکعت لوگوں سے بے نیازی کی نیت سے نمازیں پڑھتا تھا، سورہ یٰسین کی قرأت کا خاص اہتمام کرتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ چیزیں ایسی ہیں کہ حضوؐر اور صحابہ کرامؓ کا ان پر عمل منقول نہیں ہے، عبادت کے معاملے میں یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ ہم اسی چیز پر توقف کریں جو حضوؐر سے منقول ہے۔ اپنی طرف سے کسی نئی چیز کی ایجاد کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے۔ علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبادات جنھیں اصطلاحاً امر تعبدی بھی کہتے ہیں ان کے ادا کرنے میں اسی وقت ثواب ہوتا ہے جب یہ عین خدا اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق ہوں نہ زیادہ نہ کم کیونکہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے اور یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے کہ وہ کس طرح اپنی عبادت کرائے۔ اس نے جس طرح عبادت کا حکم دے دیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اسی طریقے سے عبادت کریں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں ناراضی کا اظہار کرتا ہے، جو عبادات میں اپنی طرف سے نئی چیزیں ایجاد کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ام لھم شرکوا شرعوا الھم من الدین مالم یأذن م بہ اللہ.(شوریٰ:۲۱)
‘‘کیا انھوں نے لوگوں کے لیے دین میں ان چیزوں کو شریعت بنا لیا ہے جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا تھا۔’’ہمیں چاہیے کہ اس رات کو ہم صرف اتنا ہی کریں جتنا حضوؐر سے مروی ہے اور وہی دعائیں مانگیں جو حضورﷺ سے ماثور ہیں۔
(علامہ یوسف القرضاوی)