جواب: اس دن روزہ رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہے جس کے کرنے کی ترغیب کسی حدیث میں موجود ہو۔ اس سلسلہ میں بعض حدیثوں کا تذکرہ آیا ہے۔ لیکن علماء حدیث کہتے ہیں کہ ساری حدیثیں ضعیف اور موضوع یعنی گھڑی ہوئی ہیں۔ اس دن اچھے کپڑے پہننا اچھے کھانے پکانا اور سرمہ لگانا دراصل ایک بدعت ہے، جو حضرت حسینؓ کے قتل کرنے والوں نے ایجاد کی ۔ بہتر ہو گا کہ اس بدعت کا مختصر تاریخی تعارف بھی قارئین کے لیے پیش کر دوں۔
اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اسی دسویں تاریخ کو حضرت حسینؓ شہید کیے گئے۔ چنانچہ حضرت حسینؓ کے متبعین اور چاہنے والوں نے اسی دن کو رنج و الم کا دن قرار دیا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس پورے مہینے کو ماہ ماتم بنا ڈالا۔ ہر قسم کی خوشیاں اورخوشیوں کی تقریبات اس مہینے میں اپنے اوپر حرام کر ڈالیں اور ایسے ایسے اقدامات و حرکات ایجاد کیے جو ان کے رنج وغم کو ظاہر کرسکیں۔
ان کے برعکس وہ گروہ جس نے حضرت حسینؓ کو شہید کیا تھا انھوں نے اس دن کو خوشی اور مسرت کا دن قرار دیا اور ایسی ایسی بدعتیں ایجاد کیں جن سے مسرت کا اظہار ہو سکے۔ مسرت کے اظہار کو انھوں نے اللہ سے تقرب کا ذریعہ قرار دے دیا۔
اس سلسلے میں انھوں نے اپنی طرف سے متعدد احادیث بھی گھڑ لیں۔
یہ دونوں گروہ غلو اور تعصب کا شکار ہیں۔ حق یہ ہے کہ ہم تعصب کا شکار ہو کر ایسے کام نہ کریں جن کی مثال حضوؐر اور ان کے صحابہ کرامؓ کے اعمال میں نہ ملتی ہو۔ ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم حضوؐر کی اتباع کریں اور ایسے کاموں کو رواج نہ دیں جن میں اسلامی روح اور اتباع رسول کا وصف مفقود ہو۔
انھیں غلط رواجوں میں ایک رواج یہ ہے کہ حزن و غم کے اظہار کے لیے لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ حالانکہ نہ کوئی حدیث ہے اور نہ حضوؐر اور صحابہؓ کا عمل کہ انھوں نے اس مہینے میں شادی سے منع کیا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس محرم کا مہینہ ان چار محترم مہینوں میں سے ایک ہے جن کی فضیلت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مہینہ شادی وغیرہ کے لیے زیادہ موزوں ہو۔ ویسے اسلام کی نظر میں شادی کے لیے تمام مہینے یکساں ہیں۔
(علامہ یوسف القرضاوی)