ایک جاپانی عقیدہ مشہور ہے کہ جو کوئی بھی کاغذ کے ایک ہزار سارس(ایک پرندہ) بنائے گا (قینچی اور گوند استعمال کیے بغیر) وہ لمبی عمر پائے گا۔ اس توہماتی عقید ے نے ۱۹۵۵ میں ایک نئی شکل اختیار کرلی جب کہ ایک بار ہ سالہ بچی (ساڈاکو ساساکی) کا انتقال ہوا۔یہ بچی ۱۹۴۳ میں ہیروشیما میں پیدا ہوئی ۔ اور جب امریکا نے ۱۹۴۵ میں جاپان پر ایٹمی حملہ کیا تو اس وقت ا س کی عمر صرف دو سال تھی۔ یہ ایٹم بم کابراہ راست شکار ہونے سے تو بچ رہی لیکن اس کے مابعداثر ات سے نہ بچ سکی۔ یہ بچی بہت صحت مند ، خوش باش اور اتھلیٹکس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھی۔ یہ ایک بڑی دوڑ میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی تھی کہ یکدم اس پرآشکار ہوا کہ وہ تو ایٹمی حملے سے پیداہونے والی بیماری ‘لوکومیا’ یعنی خون کے کینسر کا شکار ہو چکی ہے ۔اس کو ہسپتال میں داخل کر وا دیا گیا مگر اس کاحوصلہ کم نہ ہوا۔ اب بھی اسے امید تھی کہ وہ صحت یاب ہو جائے گی اور دوڑ میں حصہ لے گی۔اس کی دوستوں نے اسے سارس بنانے والے توہماتی عقیدے کے بارے میں بتایا کہ اگر وہ یہ کوشش کرے تو صحت یاب ہوجائے گی۔ا س نے ایک امید کے ساتھ کاغذ کے سارس فولڈ کرنے شروع کردیے ۔ اس کے بستر کے آس پاس اسی مرض کے شکار لوگ دن رات مر رہے تھے مگر یہ پھر بھی پرامید تھی کہ جوں ہی مطلوبہ تعداد میں سارس بن چکیں گے وہ صحت مند ہوجائے گی اور دوڑ میں حصہ لے گی۔مگر سارس بناتے بناتے اس کی آرزو تبدیل ہو گئی ۔ اب صحت مند ہونے سے زیادہ اس کی خواہش یہ تھی کہ دنیامیں نہ کہیں جنگ ہو اور نہ کہیں بم برسیں۔جوں جوں وہ سارس فولڈ کرتی گئی ا س کی یہ خواہش بھی جوان ہوتی گئی کہ کاش دنیامیں امن ہوجائے تا کہ کہیں کوئی بچہ، کوئی بڑا لوکومیا کا شکار ہو کر نہ مرے۔ اب اس کی ہر دوست کو یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ‘ ساڈاکو’ سارس اس لیے بنا رہی ہے کہ دنیامیں امن ہو جائے ۔
۲۵، اکتوبر ۱۹۵۵ کو ساڈاکو اس وقت انتقا ل کر گئی جب کہ وہ چھ سو چوالیسواں (۶۴۴) سارس فولڈ کر رہی تھی۔اس کی دوستوں ، کلاس فیلوز ، اور خاندان والوں نے باقی ۳۵۶ سارس فولڈ کیے تا کہ پورے ایک ہزار اس کے ساتھ دفن کیے جا سکیں۔لیکن‘ ساڈاکو’ کی امن کی یہ خواہش اس کے ساتھ ہی دفن نہ ہوئی بلکہ امید کی ایک کرن بن کر پورے جاپانی معاشرے میں پھیل گئی۔جس کو بھی یہ معلوم ہوا کہ اس بچی نے بیماری کی حالت میں بھی امن کے لیے اس قدر محنت کی کہ ۶۴۴سارس فولڈ کر دیے مگر امید نہ ہاری تو وہ سب بھی اس بچی کی خواہش میں شریک ہو گئے ۔امن کی آشاپورے جاپان کے بچوں اور جوانوں کی آرزو بن گئی۔ سب نے ایک معقول رقم جمع کی اور ۱۹۵۸ میں انہوں نے ‘ساڈاکو’ کا ایک یادگاری مجسمہ بنایا جس نے سونے کا سارس پکڑاہو اہے ۔اور اس مجسمے کے نیچے لکھا ہوا ہے‘‘ پوری دنیا کے لیے امن، یہ ہی ہماری خواہش ہے اور یہ ہی ہماری دعا ہے’’۔ آج دنیا میں کاغذ کے فولڈ کیے ہوئے سارس امن کی آرزو کی علامت بن چکے ہیں۔اور یہ صلہ ہے اس چھوٹی سی بچی کی محنت ، کوشش اورلگن کا جس کی امید مرتے مرتے بھی نہ ٹوٹی۔
یہی حال ہونا چاہیے ایک مومن کا کہ وہ نہ تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو اور نہ کبھی اس کی امید ٹوٹے بلکہ اس کی رحمت کو لینے کے لیے ہر آن ،ہر لمحے اورہر وقت کوشش میں لگا رہے اور یہ کوشش وہ مرتے مرتے بھی کرے اور کرتے کرتے ہی مرے ۔ اس لیے کہ کرتے کرتے مرنا اورمرتے مرتے بھی کرنا ہر اُس مومن کا وصف ہے جسے یہ یقین ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔و ہ دنیا سے جاتے جاتے بھی کوئی لمحہ ضائع نہ کرنا چاہے گا کیونکہ اسے معلوم ہو تا ہے کہ یہ آخری لمحہ بھی آخرت میں اس کے درجات بلند کر سکتا ہے اور کم بھی۔ مزیدبر آں اس بارہ سالہ بچی کی ان تھک محنت اور امید میں ہر سیکھنے والے کے لیے یہ سبق بھی پوشیدہ ہے کہ کوشش بھی وہی پھل لاتی ہے جو پوری تن دہی سے ہو اور امید بھی وہی پھلتی پھولتی اور پھیلتی ہے جس کے ساتھ محنت ، کوشش اور لگن بھی ہو ۔ کوشش کے بغیر امید ایسے ہی ہے جیسے بغیر شادی کے بچے پیدا ہونے کی خواہش اورامید کے بغیر کوشش ایسے ہی ہے جیسے ریت سے محل بنانے کی محنت۔