شکاگو: مجھے یاد ہے کہ میں دس سال کی تھی جب پہلی بار میں نے رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی کوشش کی۔ میں نے سارا دن کچھ نہیں کھایا پیا اور کھانے کی میز پر بیٹھی اپنی امّی کو کھانا پکاتے دیکھتی رہی جیسے کھانا تیار ہوتا دیکھنے سے شاید وقت جادوئی طور پرتیزی سے گزر جائے گا۔ میں نے سوچا چْپ کرکے ایک آلو بھرا سموسہ اٹھا کر میز کے نیچے کرلوں اور اپنی بہترین سہیلی کو جھوٹ موٹ ایسا کرنے کا اشارہ بھی کیا۔ وہ سہیلی ایک کیتھولک عیسائی تھی اور میرا پہلا روزہ میرے ساتھ افطار کرنے آئی تھی۔
میں بڑی ہو رہی تھی لیکن میری سمجھ میں یہ کبھی نہیں آیا تھا کہ روزہ رکھنے کا کیا مقصد ہے۔ میں جانتی تھی کہ روزہ رکھ کر ہم خود کو غریبوں کی جگہ رکھ کر ان کی تکالیف سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہ روزے سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ دوسروں کو دینے کی کتنی اہمیت ہے۔ لیکن میرا سوال جوں کا توں تھا کہ آخر شکاگو میں پلی بڑھی مجھ جیسی نوجوان اور متجسّس مسلم لڑکی کے لئے ماہِ رمضان کی کیا اہمیت ہے۔
جب میں ذرا بڑی ہوئی تو میرے ذہن میں مزید بڑے سوالات سر اٹھانے لگے جن کا میرے والدین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں اپنے بچپن کے عقیدے سے دور ہٹ گئی۔ روزہ رکھنا جیسے ایک دنیاوی سا معمول بن گیا اور یہ میرا تیزی سے غائب ہوتے ہوئے اپنے مسلم تشخّص کے ساتھ واحد رابطہ تھا۔
کئی سال بعد جب میں کالج میں داخل ہوئی تو سالِ اوّل میں میری ملاقات ملیسا سے ہوئی۔ ملیسا نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا۔ مجھے جلد ہی یہ احساس ہوا کہ اسلام قبول کرنے کے محض دو ہفتے بعد ملیسا اسلام کے بارے میں اس سے بہت زیادہ جانتی ہے جتنا میں نے اٹھارہ سال میں سیکھا تھا۔ اگلے چند مہینوں میں مجھے ایک ایسا عقیدہ مل گیا جس نے مجھے ان تمام موضوعات کا جائزہ لینے میں مدد دی جن کے بارے میں مجھے ہمیشہ تجسّس رہتا تھا اور بلوغت کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں بھی میری رہنمائی کی۔
اسلام میں مجھے سماجی انصاف کے ساتھ اپنی محبت اور لگن اور تمام عقائد کو مزید گہرائی میں جاکر سمجھنے کی پیاس بجھانے کا راستہ بھی دکھائی دیا۔ دو سال بعد میں نے شکاگو میں مالی منفعت کے لالچ کے بغیر چلنے والے ادارے بین العقائد یوتھ کور کے ساتھ کام شروع کیا۔ یہ ادارہ نوجوان طبقے میں مذہب پر ایسی گفتگو کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس کا مقصد ایک عالمی کمیونٹی تشکیل دینے کے لئے تمام عقائد کے درمیان مشترکہ اقدار کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دینا ہے۔
انٹر فیتھ یوتھ کور کے ساتھ کام کرتے مجھے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ رمضان کی آمد سے قبل شکاگو میں نوجوانوں کے کچھ گروہوں سے مجھے اس مقدّس مہینے کی اہمیت پر بات کرنے کا موقع ملا۔ گفتگو کے دوران ان کے پْرجوش چہرے دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے میرا بچپن میرے سامنے آن کھڑا ہوا ہو۔ تجسّس سے بھرے ان کے سوالوں میں مجھے اپنا بچپن سنائی دے رہا تھا۔ میں انہی سوالوں کے جواب دے رہی تھی جو میں نے سموسوں کے ساتھ اپنا پہلا روزہ کھولتے ہوئے پوچھے تھے۔
لیکن ایک باعمل مسلمان کے طور پر اگلا ماہِ رمضان میرے لئے ایک چیلنج تھا۔ میں خوراک اور پانی سے پرہیز سے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن سمجھ نہ پارہی تھی کہ کیا کرنا چاہیے۔ میں نے اپنی اس پریشانی کا ذکر اپنی اسی بہترین سہیلی سے کیا جس کے ساتھ بیٹھ کرکئی سال پہلے میں نے اپنا پہلا روزہ کھْلنے کا انتظار کیا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا " یہ بتاؤ کہ محمدﷺ رمضان میں کیا کیا کرتے تھے؟" میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
تب میں نے نبی اکرم کے بارے میں پڑھنا شروع کیا اور ان کی حیاتِ طیّبہ کا مطالعہ کرکے اپنی تشنگی دور کرنے کا سامان کیا۔ مجھے پتہ چلا کہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کی مقدّس کتاب قرآن نازل کی گئی تھی۔ میں نے یہ بھی جانا کہ نبی اکرمﷺ رمضان المبارک میں سارا دن لوگوں کی خدمت اور رات عبادت میں گزارتے تھے۔ میں نے جانا کہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ ہدایت بھی کی تھی کہ وہ روزے کی حالت میں صرف کھانے پینے ہی سے نہیں بلکہ غصّے اور لڑائی جھگڑے سے بھی دور رہیں۔ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ اچھا میزبان کیسے بنا جاتا ہے، اپنے ارد گرد رہنے والوں کے ساتھ رحمدلی کا مظاہرہ کیسے کیا جاتا ہے اور بھلائی اور انصاف کے کاموں میں کس طرح شامل ہوا جاتا ہے۔
اگرچہ میرا سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوگا لیکن اس سال جب ایک بار پھر ہماری زندگیوں، گھروں اور مساجد کا مہمان، ماہِ رمضان اپنی نعمتیں لے کر آیا تو میں یہ جان چکی تھی کہ اپنی کیتھولک دوست سے لے کر اپنے یہودی رفقائے کار اور مسلمان بہنوں اور بھائیوں تک ساری کمیونٹی کے ساتھ مل کر خدمت، عبادت اور برتاؤ کے اعتبار سے اس مہینے کو کیسے منانا ہے۔
٭ جینان مہاجر بینالعقائد یوتھ کور میں آؤٹ ریچ ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام کی پروگرام ایسوسی ایٹ ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس ( سی جی نیوز) نے تقسیم کیا ہے۔