روزے کی حکمت

مصنف : محمد عارف علوی

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : جولائی 2013

Click here to read in English

صوم یا صیام کے معنی ہیں کسی چیز سے رک جانا، اس سے مراد کھانے پینے سے رکناہے۔ عرب میں لوگ اپنے گھوڑوں کو روزہ رکھواتے تھے تاکہ گھوڑے کو لمبے سفر اور ناموافق حالات کا عادی بنایا جائے۔

قرآن مجید میں 23ویں رکوع تک روزے کا حکم ہے اور 24ویں رکوع سے جنگ کے احکامات شروع ہوجاتے ہیں۔ گویا کہ انسانوں کے لیے بھی یہ مناسبت ہے کہ روزہ رکھو تاکہ جنگ و جدل کے ناموافق حالات میں مومنین پریشان نہ ہوجائیں اور ان حالات کے عادی ہوں۔

روزہ ضبطِ نفس کی مشق ہے۔ ضبط نفس اور نفسانی خواہشات کو کچلنے میں فرق ہے۔ یہ نہ ہو کہ آپ نفس کے غلام ہوجائیں اور یہ بھی نہ ہو کہ آپ نفس کو سرے سے کچل دیں۔نفس کو کچلنا رہبانیت کا طریقہ ہے۔ اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ لا رہبانیت فی الاسلام یعنی اسلام میں رہبانیت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ضبط نفس کے معنی ہیں کہ نفس کو اللہ اور رسول کے احکامات کا مطیع بناؤ، جو نفسانی خواہشات ہیں، اس کا نفاذ جائز طریقے سے کرو۔ نفس نام ہے اصل میں انسان کے حیوانی تقاضوں کا۔ یہ حیوانی تقاضے یا جبلی تقاضے اندھے بہرے ہیں، انہیں اس سے غرض نہیں کہ یہ تقاضے حلال سے پورے کیے جائیں یا حرام سے۔ یہ تقاضے تو صرف اپنی تسکین چاہتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس نفس کو کنٹرول کون کرتا ہے۔ یہ ہے انا یا خودی، میں یا Self یا فرائڈ کی اصطلاح میں Ego۔

نفس گھوڑا ہے اور خودی یا انا گھوڑ سوار۔ یہ خودی نفس کو قابو میں رکھتی ہے۔ اگر سوار کمزور ہے یعنی خودی تو نفس جدھر چاہے گا ادھر جائے گا اور اگر سوار یعنی خودی یا انا طاقتور ہے تو نفس کو جدھر چاہے گی لے جائے گی۔ مطلب ہے کہ نفس کی سواری پر تم اس طرح سوار ہوجاؤ کہ نفس تمہارے کنٹرول میں آجائے۔

تیسرے درجہ پر روح ہے جو سارے معاملے کو اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتی ہے، جس کوفرائڈنے سپر ایگوکہا ہے۔

جان اور روح الگ الگ شے ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ چالیس دن کی تین Stagesیعنی نطفہ، علقۃ، مضغۃ تینوں چالیس دن کی Stagesہیں جو رحم مادر میں بچہ ٹھہرنے کے بعد ہوتی ہیں، ان تینوں Stagesکے بعد یعنی 120دن یا چار مہینہ کے بعد فرشتہ آتا ہے اور بچے میں روح پھونکتا ہے۔ رحم مادر میں بچے میں جان تو پہلے دن سے ہی ہوتی ہے، لیکن روح چار مہینے بعد پھونکی جاتی ہے۔

فرائڈ نے انسان کے اندر کی باطنی شخصیت کے تین درجوں کو سمجھا ہے، یہ اس کی ذہانت ہے۔فرائڈ نے ان تین درجوں کی جو تعبیر کی ہے، وہ اسلامی تعبیر سے الگ ہے، لیکن ان تینوں درجوں کا Identification بالکل قرآنی طریقہ پر ہے۔

روح کا تقاضا ہے کہ انسانی جسم پر اس کا تسلط ہو، ایسا نہ ہو کہ نفس اس جسم کا استعمال کرے اور روح کی نورانیت پر غالب آجائے۔ اس روح کا بڑا گہرا تعلق ہے اللہ تعالیٰ سے۔ جس طرح سورج کی کرن سورج سے چلتی ہے اور یہاں پہنچ جاتی ہے، اسی طرح روح من جانب اللہ ہے اور اس کا تعلق ذات باری تعالیٰ سے منقطع نہیں ہوتا۔ انسان کے اندر روح ایک ذات باری تعالیٰ کا ایک مظہر ہے۔اللہ نے فرمایا روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں خود دوں گا یا میں خود اس کا بدلہ ہوں۔ اور یہ جزا صرف اسی کو ملے گی جو اپنی روح کو روز ے کے ذریعے اتنا لطیف کر لے گا کہ وہ اللہ کریم کے انوارات کا تحمل کرسکے ۔

٭٭٭