ٹورنٹو میں اثنا ISNA، اکنا ICNAاور انکے دوسرے ہم خیال لوگ اور جماعتیں روزے پر کلی متفق تھے ، جب کہ ہلال کمیٹی والوں کو کیلیفورنیا سے چاند کا انتظار تھا کیونکہ پورے امریکہ ، کینیڈا میں صرف کیلیفورنیا میں مطلع صاف تھا- اور غالبا ًانکے لحاظ سے چاند دکھائی نہ دیا- ہم اثنا کی انتہائی وسیع،شاندار اور خوبصورت باقاعدہ گنبد و مینار والی مسجد جو‘‘ اسلامک سنٹر آف کینیڈا’’ کہلاتی ہے اور مسی ساگا میں واقع ہے آدائیگی عشا و تراویح کے لئے گیے اور الحمد للہ ابھی تک باقاعدہ وہیں ادائیگی ہوتی تھی لیکن آج اپنے پرانے الفلاح اسلامک سنٹراوکول میں افطار کھانا عشا اور تراویح ادا کی۔ ایک وقفے کے بعد اپنی پرانی دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں، کیا گرمجوشی، چاہتیں اور محبتیں ، سبحان اللہ! ان میں ہر رنگ و نسل کی خواتین ہیں لیکن ایک ہی رشتے نے ہمیں جوڑ رکھا ہے ۔ان مساجد میں بہترین حفاظ قاریوں کی تلاوت جو کانوں میں رس گھولتی اور دلوں میں ایمان کو تازہ کرتی ہے وہ جو دوران تلاوت آیات وعید پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں، جہاں روزانہ بلا مبالغہ ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے وسیع و عریض مصلے اور جمنیزئم تک نمازیوں سے پر ہو جاتے ہیں اس ہجوم میں تیز چلتا ہوا ائر کنڈیشنراور پنکھے بھی نا کافی محسوس ہوتے ہیں (اسلئے کہ کہ آجکل کینیڈا میں موسم گرما ہے جسمیں قدرے حبس و گرمی ہے اور 32 سنٹی گریڈ میں بھی یخ بستہ ماحول کے عادی بلبلا اٹھتے ہیں اور پھر یہ سب ماحولیاتی تبدیلی اور اوزون کی تہ میں سوراخ کا کمال ہے ، ورنہ 35،30 سال پہلے یہاں کے عوام پنکھوں اور اے سی سے نابلد تھے)-ماشااللہ کیا روح پرور منظر ہوتا ہے اس خطہ زمین میں مسلمانوں کے اجتماعات کا سبحان اللہ !
مسلمان کو مسلمان کر دیا طوفان مغرب نے ان مسلمانوں میں ان کی اکثریت ہے جو اپنے ممالک میں آزاد خیال اور ماڈرن مشہور تھے اور مساجد سے دور بھاگتے تھے۔ یہاں کی بیباکی اور بے راہ روی دیکھ کر ان مساجد میں ہی انکو سکون ملتا ہے ۔میرا ایک عمومی تجزیہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ یہاں کی قوم کو مشرف بہ اسلام کردے تو یہ اسلام کا سنہرا ترین دور ہوگا کیونکہ اسقدر قانون کے، وقت کے ، وعدے کے پابند ہیں ، ہاں اپنی ذات کے لحاظ سے ہرالہامی قاعدہ قانون سے آزاد ہیں۔
پارکنگ لاٹ میں ہزارہا کاریں اور جب مسجد کی پارکنگ پر ہو جائے تو پھر پڑوسیوں سے مستعار لیا جاتا ہے ماشا اللہ ان ایمان والوں میں اکثریت انکی ہے جو اگلی صبح کاموں پر جاتے ہیں- پوری 20 تراویح کی ادائیگی ہوتے ہوتے اور گھر پہنچتے پہنچتے رات کا ایک بج جاتا ہے اور ساڑھے 3 بجے سحری کا وقت ہو چکتا ہے ۔ اکثریت 8 رکعت کے بعد جاچکتی ہے ۔لیکن بعد میں بھی کافی رکے ہوتے ہیں ۔باہر لابی میں کئی دکانیں سجی ہوئیں ۔خواتین کے پردے کے لحاظ سے ،عبایا، قسم قسم کے حجاب،دیگر لوازمات، ٹوپیاں،دینی کتب، قرآن پاک ، سی ڈیز،کھجوریں، شہد، طغرے اور اسلامی تہذیب و اقدار سے ہم آہنگ دیگر سجاوٹ کی اشیابرائے فروخت ہیں ۔مختلف لوگ اپنے کاروباروں کے پرچے تقسیم کر رہے ہیں وہ نوجواں نسل جو یہاں پل بڑھ کر جوان ہوئی اور جن کے ماں باپ نے مغرب کی بے راہ روی دیکھ کر مساجد میں پناہ کو غنیمت جانا۔ انکے اپس میں ملنے کے مواقع بھی میسرہیں۔ ایک اسلامی ماحول اور ثقافت جس سے بیشتر ہمارے جیسے مسلمان ممالک سے آنے والے بھی ناآشنا ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں تو بیشتر مساجد میں خواتین کا داخلہ ہی ممنوع ہوتا ہے۔ پچھلے سال لاہور میں بیڈن روڈ پر مسجد شہدا میں جب نمازیں قضا ہورہی تھیں تو بھائی کے ہمراہ گئی اسکا خیال تھا کہ یہاں خواتین کے لئے کمرہ ہے وضو خانے کی طرف جاتے ہوئے ایک محترم راستہ روک کر کھڑے ہوئے ‘‘ بی بی یہ مردوں کا وضو خانہ ہے‘‘" اور خواتین کا؟‘ وہ اوپر کمرہ ہے ’’ اوپر کمرے میں یوں لگا جیسے مدتوں سے اس کمرے میں کوئی داخل ہی نہیں ہوا ایک دو دروازوں کو دیکھا تو تالے پڑے تھے ۔ تیمم کرکے قصر ادا کئے ۔اب تو الحمدللہ موٹر وے پر مصلے اور خواتین کے وضو خانوں کا رواج ہو گیا ہے ۔ان ممالک میں ہر مسجد میں خواتین کے لئے بہترین بیت الخلا اور وضو خانوں کا اہتمام ہوتا ہے۔
افطار کے لئے جمعہ، ہفتہ ، اتوار کمیونٹی افطار کا اہتمام ہے جسمیں ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔ کھجور اور پانی کے افطار اور نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد کھانے کا سلسلہ ہوتا ہے جو عام طور پر لنچ باکس کی صورت میں ہوتا ہے۔ان سات روزوں میں ہم نے ایک افطار گھر پر کیا ہے ورنہ کسی نہ کسی تنظیم کی طرف سے اہتمام ہوتا ہے ۔مرسی مشن مدینہ کینیڈا جو نو مسلموں کو کافی تقویت اور امداد فراہم کر رہی ہے انکے جانب سے ایک پر تکلف افطار کا اہتمام تھا- نو مسلموں اور جوانوں کی گرمجوشی قابل دید تھی۔یہاں کی عمومی زبان انگریزی ہے اس لئے جو عالم یہاں کے لہجے میں انگریزی بولتا ہے اور یہیں کا پلا بڑھا یا پڑھا لکھا ہو تو نوجوانون اور دیگر زبان بولنے والوں میں کافی مقبول ہوتا ہے ۔اردو کا تعلق صرف اردو دانوں تک رہ جاتاہے ۔اس بڑھتے ہوئے مذہبی جوش و خروش سے حکومت کینیڈا ہر گز غافل نہیں ہے اور ہر مسجد میں مانیٹرنگ کے آلات لگائے گئے ہیں بلکہ مختلف سراغ رسان، جاسوس بھی چھوڑ رکھے ہیں۔ٹورنٹو اور اسکے گرد و نواح میں لگ بھگ دو سو مساجد ہیں ، ایک اندازے کے مطابق جنوبی اونٹاریو میں لگ بھگ چھ لاکھ مسلمان ہیں جن میں سے اکثرئت ٹورنٹو اور گرد و نواح میں آباد ہیں۔یہاں کی چند دیگر بڑی مساجد جن میں میں جا چکی ہوں الفلاح اسلامک سنٹر اوک ویل‘ ھملٹن اسلامک سنٹر، اناتولیہ اسلامک سنٹر، فاونڈیشن مسجد آف کینیڈا سکار بورو جو نگٹ مسجد کے نام سے معروف ہے ، الھدی اسلامک سنٹر، جامعہ اسلامیہ، دعوہ سنٹر ، جامعی سنٹر، نیو مارکیٹ کی مسجد،ہالٹن اسلامک سنٹر، مسجد رحمت اللعالمین، نور الحرم مسجد ، مسجد الفاروق، ابوبکر مسجد ، ملٹن اسلامک سنٹراور بے شماردیگرچھوٹے بڑے مصلے ہیں جو مختلف عمارتوں میں قائم ہیں۔سب سے بڑی خوبی ان تمام مساجد کی یہ ہے کہ خواتین کے لئے برابر کے مواقع میئسر ہیں اور وہ برابر کی تعداد میں آتی ہیں اس وجہ سے بر صغیر کی وہ تمام خواتین جو مساجد اور انکے اداب سے نابلد ہوتی ہیں وہ ان مساجد میں جاکر دین سے کافی قریب آ جاتی ہیں اور دیں کو صحیح طور پر سمجھنے لگتی ہیں علاوہ ازیں پورے خاندان کے لئے باہمی میل جول کا ایک بہترین موقع میسر آتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو بھاگ دوڑ کے ایک وسیع جگہ جب کہ نوجوانوں کو آپس میں گپ شپ کے لئے ایک عمدہ پلیٹ فارم مل جاتا ہے ۔ اکثر رشتے بھی یہیں جڑجاتے ہیں۔ ان تمام مساجد اور اداروں کی رشتے طے کرنے کی سہولیات بھی ہیں اور مختلف مواقع پر باہمی مختصر ملاقات کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں ۔
رمضان میں ہی کافی فلاحی ادارے اپنے چندے کی مانگ کی مہم چلاتے ہیں انکو فنڈ ریزنگ ڈنرزFund raising dinners کہا جاتا ہے ان میں ٹکٹ کے علاوہ شرکا کو انفاق فی سبیل اللہ پر اکسایا جاتا ہے اکثر لوگ کافی بڑی رقوم ہدیہ کر دیتے ہیں اسکے کافی ماہر قسم کے مقرر ہیں ایک مقبول ماہر برادر احمد شہاب ہیں جو عربی نژاد ہیں اور قرآن ، احادیث اور سیرہ کے لحاظ سے انگریزی میں کافی بااثر تقریر کرتے ہیں شرکا بہت کچھ ہدیہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ہزاروں ڈالر کے عطیات کا اعلان ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اکنا ریلیف کینیڈا اور اسلامک ریلیف کا دعوت نامہ آچکا ہے۔ اسکے علاوہ مساجد اپنی چندے کی مہم عموما ختم قرآن والی رات کو کرتی ہیں ۔ یہ طریقہ مجھے سب سے اچھا لگا کہ آڈیٹر ان تمام آمدنیوں کا آڈٹ کرتے ہیں اور اکثر بد عنوانیا ں بھی سامنے آتی ہیں۔ بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے- اسوقت ہم ماہ رمضان کی برکات سے مستفید ہورہے ہیں اور ہونا چاہتے ہیں۔
٭٭٭