روزہ اور قرآن

مصنف : احمد علی بخاری

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : جولائی 2013

روزہ اسی طرح فرض ہے جس طرح پہلی امتوں پرفرض تھا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

روزہ کا مقصد تقوی پیداکرنا ہے

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

روزہ گنتی کے چند دنوں میں ہے

 اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ

گنتی کے دن ہیں۔

 مریض اور مسافر کاروزہ

 فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃ‘’ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر

اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔

فدیہ

وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃ‘’ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ

اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔

مریض اورمسافرکوروزہ کی تاخیرکی کیوں مہلت دی گئی

 یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰئکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن

 اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اْس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔

روزہ رکھنا بہر حال بہتر ہے

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْر‘’ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن

لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔

رمضان کی فضیلت کہ اس میں قرآن نازل کیاگیا۔

 شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ

رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔

جوماہِ رمضان پائے وہ روزہ رکھے

 فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ

 لہٰذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے، اْس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے

روزوں کی راتوں میں عورتوں کے پاس جانااورکھاناپیناصبح صادق تک درست ہے۔

 اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ط ھُنَّ لِبَاس‘’ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاس‘’ لَّھُنَّ ط عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ ج فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ص

‘‘تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اْن کے لیے۔ اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اْ س نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اْسے حاصل کرو۔’’

اعتکاف میں عورتوں کے پاس نہ جاؤ

 وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ لا فِی الْمَسٰجِدِ ط تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْھَا (بقرۃ ۱۸۷)

اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔

لیلۃ القدر

اِنَّآاَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِہجصلے ۱ وَمَآاَدْرٰ ئکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِہط ۲ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۵لا خَیْر‘’ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍہ۳ط ؔ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ج مِنْ کُلِّ اَمْرٍ-03۴ سَلٰم‘’-03 ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِہعالثلٰثۃ۵

ببے شک ہم نے اسے قدر والی رات میں نازل کیااور تم کیا جانو قدر والی رات کیا ہے یہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں ہر ایک کام میں اس میں سلامتی ہے طلوع فجر تک۔