‘‘اِس سورہ کا نام پندرھویں رکوع کی آیت ھل یستطیع ربک ان ینزل علینا مآئدہ من السمآء کے لفظ ‘‘مائدہ’’ سے ماخوذ ہے۔ قرآن کی بیشتر سورتوں کے ناموں کی طرح اس نام کو بھی سورۃ کے موضوع سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ محض دوسری سورتوں سے ممیّز کرنے کے لیے اسے علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۴۳۴، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
زمانہ نزول
‘‘زمانہ ٔ نزول:سورۃ کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے اور روایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے بعد ۶ ہجری کے اواخر یا ۷ہجری کے اوائل میں نازل ہوئی ہے۔ ذی القعدہ ۶ ہجری کا واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے۔ مگر کفارِ قریش نے عداوت کے جوش میں عرب کی قدیم ترین مذہبی روایات کے خلاف آپ کو عمرہ نہ کرنے دیا اور بڑی ردّ و کد کے بعد یہ بات قبول کی کہ آیندہ سال آپ زیارت کے لیے آ سکتے ہیں۔ اس موقع پر ضرورت پیش آئی کہ مسلمانوں کو ایک طرف تو زیارتِ کعبہ کے لیے سفر کے آداب بتائے جائیں تاکہ آیندہ سال عمرے کا سفر پوری اسلامی شان کے ساتھ ہو سکے، اور دُوسری طرف انھیں تاکید کی جائے کہ دشمن کافروں نے ان کو عمرہ سے روک کر جو زیادتی کی ہے اس کے جواب میں وہ خود کوئی ناروا زیادتی نہ کریں، اس لیے کہ بہت سے کافر قبیلوں کے حج کا راستہ اسلامی مقبوضات سے گزرتا تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ ممکن تھا کہ جس طرح انھیں زیارت کعبہ سے روکا گیا ہے اسی طرح وہ بھی ان کو روک دیں۔ یہی تقریب ہے اُس تمہیدی تقریر کی جس سے اس سورہ کا آغاز ہوا ہے۔ آگے چل کر تیرھویں رکوع میں پھر اسی مسئلہ کو چھیڑا گیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے رکوع سے چودھویں رکوع تک ایک ہی سلسلۂ تقریر چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ جو دُوسرے مضامین اس سورہ میں ہم کو ملتے ہیں وہ بھی سب کے سب اسی دَور کے معلوم ہوتے ہیں۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۴۳۵، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
‘‘ مختلف روایات میں غوروفکر کرنے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اس کا نزول صلح حدیبیہ کے وقت سے شروع ہوا اور حجۃ الوداع کے موقع پر اِس کا اختتام ہوا۔’’ (ضیا القرآن ، ج۱ ، ص ۴۳۱، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
سورہ کا عمود
‘‘یہ سورہ، پہلے گروپ کی آخری سورہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ سے، آخری اُمت کی حیثیت سے، اپنی آخری اور کامل شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ قائم رہنے اور اس کو قائم کرنے کا عہد وپیمان لیا ہے۔ ’’ (تدبر قرآ ن ،ج۲، ص۴۴۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
سورہ کے مطالب کی نوعیت
‘‘سورہ کے موضوع کے تقاضے سے اس میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں ان پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی چند باتیں بالکل نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں:ایک یہ کہ اس میں جو احکام و قوانین بیان ہوئے ہیں وہ دعوتِ اسلامی کے اس دور سے تعلق رکھنے والے ہیں جب تکمیل دین اور اتمامِ نعمت الٰہی کا مرحلہ سامنے آچکا تھا۔ دوسری یہ کہ ان احکام میں امتحان و ابتلا کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت پر یہ فضل فرمایا کہ عہدوپیمان لیتے وقت ایسے احکام خاص طور پر سامنے کردیے تاکہ یہ اُمت پاؤں پھسلنے کے ان مقامات سے اچھی طرح ہوشیار رہے۔تیسری یہ کہ اس میں تفصیل کے ساتھ یہود و نصاریٰ کے نقضِ عہد کی تاریخ بھی بیان ہوئی ہے اور اس کے اسباب و محرکات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ یہ تاریخ اس اُمت کے لیے سبق آموز اور عبرت پذیری کا ذریعہ بن سکے۔چوتھی یہ کہ اس میں انفرادی و اجتماعی زندگی کے ان مخفی گوشوں کی خاص طور پر نشان دہی کی گئی ہے جہاں سے شیطان اور اُس کے ایجنٹوں کو در آنے کا موقع ملتا ہے اور پھر وہ فتنے سر اُٹھاتے ہیں جو روکے نہ جائیں تو پوری شریعت تاراج ہوکے رہ جاتی ہے۔پانچویں یہ کہ اس میں وہ اصول و ضوابط پوری طرح واضح کردیے گئے ہیں جن کا اہتمام عہدِ الٰہی پر قائم و استوار رہنے کے لیے ضروری ہے۔’’ (تدبر قرآ ن ،ج۲، ص۴۴۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
شان نزول
‘‘سورۂ آلِ عمران اور سورۂ نساء کے زمانۂ نزول سے اِس سورہ کے نزول تک پہنچتے پہنچتے حالات میں بہت تغیر واقع ہو چکا تھا۔ یا تو وہ وقت تھا کہ جنگ ِ اُحد کے صدمہ نے مسلمانوں کے لیے مدینہ کے قریبی ماحول کو بھی پُرخطر بنا دیا تھا، یا اب یہ وقت آگیا کہ عرب میں اسلام ایک ناقابل شکست طاقت نظر آنے لگا اور اسلامی ریاست ایک طرف نجد تک، دُوسری طرف حدودِ شام تک، تیسری طرف ساحلِ بحراحمر تک اور چوتھی طرف مکہ کے قریب تک پھیل گئی۔ اُحد میں جو زخم مسلمانوں نے کھایا تھا وہ ان کی ہمتیں توڑنے کے بجائے اُن کے عزم کے لیے ایک اور تازیانہ ثابت ہوا۔ مدینہ پر جو یہودی خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا تھا اس کا ہمیشہ کے لیے استیصال ہو گیا اور حجاز میں دُوسرے مقامات پر بھی جہاں جہاں یہودی آباد تھے، سب مدینہ کی حکومت کے باج گزار بن گئے۔ اسلام کو دبانے کے لیے قریش نے آخری کوشش غزوۂ خندق کے موقع پر کی اور اس میں وہ سخت ناکام ہوئے۔ اس کے بعد اہل عرب کو اس امر میں کچھ شک نہ رہا کہ اسلام کی یہ تحریک اب کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتی۔ اب اسلام محض ایک عقیدہ و مسلک ہی نہ تھا جس کی حکمرانی صف دلوں اور دماغوں تک محدود ہو، بلکہ وہ ایک ریاست بھی تھا جس کی حکمرانی عملاً اپنے حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کی زندگی پر محیط تھی۔پھر ان چند برسوں میں اسلامی اُصول اور نقطۂ نظر کے مطابق مسلمانوں کی اپنی ایک مستقل تہذیب بن چکی تھی جو زندگی کی تمام تفصیلات میں دُوسروں سے الگ اپنی ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔ اخلاق، معاشرت، تمدن، ہر چیز میں اب مسلمان غیر مسلموں سے بالکل ممیزتھے۔ اسلامی زندگی کی ایسی مکمل صورت گری ہو جانے کے بعد غیرمسلم دُنیا اس طرف سے قطعی مایوس ہو چکی تھی کہ یہ لوگ، جن کا اپنا ایک الگ تمدّن بن چکا ہے، پھر کبھی اُن میں آ ملیں گے۔صلح حدیبیہ سے پہلے تک مسلمانوں کے راستہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ وہ کفار قریش کے ساتھ ساتھ ایک مسلسل کشمکش میں اُلجھے ہوئے تھے اور انھیں اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرنے کی مُہلت نہ ملتی تھی۔ اِس رکاوٹ کو حدیبیہ کی ظاہری شکست اور حقیقی فتح نے دُور کر دیا۔ اس سے ان کو نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست کے حدود میں امن میسّرآگیا، بلکہ اتنی مُہلت بھی مل گئی کہ گردوپیش کے علاقوں میں اسلام کی دعوت کو لے کر پھیل جائیں۔ چنانچہ اس کا افتتاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایران، رُوم، مصر اور عرب کے بادشاہوں اور رئیسوں کو خطوط لکھ کر کیا اور اس کے ساتھ ہی قبیلوں اور قوموں میں مسلمانوں کے داعی خدا کے بندوں کو اس کے دین کی طرف بلانے کے لیے پھیل گئے۔یہ وہ حالات تھے جب یہ سورہ نازل ہوئی۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۳۵، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
سورت کا شانِ نزول اور خلاصہ مضامین
‘‘ سورۂ مائدہ بالاتفاق مدنی سورۃ ہے اور مدنی سورتوں میں بھی آخر کی سورت ہے، یہاں تک کہ بعض حضرات نے اس کو قرآن کی آخری سورت بھی کہا ہے۔ مسنداحمد میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرؓ اسماء بنت یزید منقول ہے کہ سورۂ مائدہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اُس وقت نازل ہوئی جبکہ آپ سفر میں عضبا نامی اُونٹنی پر سوار تھے۔ نزولِ وحی کے وقت جو غیرمعمولی ثقل اور بوجھ ہوا کرتا تھا۔ حسبِ دستور اُس وقت بھی ہوا۔ یہاں تک کہ اُونٹنی عاجز ہوگئی۔ تو آپ اس سے نیچے اُتر آئے۔ یہ سفر بظاہر حجۃ الوداع کا سفر ہے جیساکہ بعض روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ حجۃ الوداع ہجرت کے نویں سال میں ہوا، اور اس سے واپسی کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات تقریباً اسّی دن رہی۔ ابن حبان نے بحرمحیط میں فرمایا کہ سورۂ مائدہ کے بعض اجزاء سفرحدیبیہ میں اور بعض فتح مکہ کے سفر میں اور بعض حجۃ الوداع کے سفر میں نازل ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سورت نزولِ قرآن کے آخری مراحل میں نازل ہوئی ہے خواہ بالکل آخرؒی سورت نہ ہو۔ ابن کثیر نے مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت جبیر بن نفیرؓ سے نقل کی ہے کہ وہ حج کے بعد حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: جبیر تم سورۂ مائدہ پڑھتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: پڑھتا ہوں۔ صدیقہؓ نے فرمایا کہ یہ قرآن پاک کی آخری سورت ہے اس میں جو احکام حلال و حرام کے آئے ہیں وہ محکم ہیں۔ ان میں نسخ کا احتمال نہیں ہے۔ ان کا خاص اہتمام کرو۔ سورۂ مائدہ میں بھی سورۂ نساء کی طرح فروعی احکام، معاملات، معاہدات وغیرہ کے زیادہ بیان کیے گئے ہیں۔ اسی لیے روح المعانی نے فرمایا ہے کہ سورۂ بقر اور سورۂ آل عمران باعتبار مضامین کے متحد ہیں کیونکہ ان میں زیادہ تر احکام اصولِ عقائد، توحید، رسالت، قیامت وغیرہ کے آئے ہیں۔ فروعی احکام ضمنی ہیں اور سورۂ نساء اور مائدہ باعتبار مضامین کے متحد ہیں کہ ان دونوں میں بیشتر فروعی احکام کا بیان ہے، اصول کا بیان ضمنی ہے۔ ’’ (معارف القرآن ، ج۳، ص ۹ ، ادارۃ المعارف کراچی)
سورہ کے مباحث
‘‘ یہ سورہ حسب ذیل تین بڑے بڑے مضامین پر مشتمل ہے: (۱) مسلمانوں کی مذہبی، تمدنی اور سیاسی زندگی کے متعلق مزید احکام و ہدایات۔ سفرحج کے آداب ، شعائراللہ کے احترام اور زائرین کعبہ سے عدم تعرض کا حکم دیا گیا۔ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کے قطعی حدُود اور دورِ جاہلیت کی خودساختہ بندشوں کا خاتمہ، اہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت۔ وضو اور غسل اور تیمم کے قاعدے مقرر کیے گئے، بغاوت اور فساد اور سرقہ کی سزائیں معین کی گئیں، شراب اور جوئے کو قطعی حرام کردیا گیا، قسم توڑنے کا کفارہ مقرر کیا گیا، اور قانونِ شہادت میں مزید چند دفعات کا اضافہ کیا گیا۔ (۲) مسلمانوں کو نصیحت:کہ عدل پر قائم رہیں، اپنے پیش رو اہل کتاب کی روش سے بچیں، یہود و نصاریٰ کی طرح اللہ کے عہد کو توڑ کر اُس انجام سے دوچار نہ ہوں جس سے وہ دوچار ہوئے۔ اپنے جملہ معاملات کے فیصلوں میں کتابِ الٰہی کے پابند رہیں، اور منافقت کی روش سے اجتناب کریں۔ (۳) یہودیوں اور عیسائیوں کو نصیحت: ان کے غلط رویہ پر متنبہ کیا گیا ہے اور انھیں راہِ راست پر آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ نیز چونکہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے عرب اور متصل ممالک کی قوموں میں اسلام کی دعوت پھیلانے کا موقع نکل آیا تھا اس لیے عیسائیوں کو بھی تفصیل کے ساتھ خطاب کر کے ان کے عقائد کی غلطیاں بتائی گئی ہیں اور انھیں نبی عربی پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ہمسایہ ممالک میں سے جو قومیں بت پرست اور مجوسی تھیں ان کو براہِ راست خطاب نہیں کیا گیا، کیونکہ اُن کی ہدایت کے لیے وہ خطبات کافی تھے جو اُن کے ہم مسلک مشرکینِ عرب کو خطاب کرتے ہوئے مکہ میں نازل ہو چکے تھے۔’’ (تفہیم القرآن، جلد۱، ص ۴۳۶، مکتبہ تعمیرانسانیت لاہور)
آیات ۵۔۱
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ۵ط اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُم‘’ ط اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ ہ۱ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَلَا الشَّھْرَالْحَرَامَ وَلَا الْھَدْیَ وَلَا الْقَلََآئِدَ وَلَا ٓ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الَْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرِضْوَانًا ط وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ط وَلَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا م وَتَعَاوَنُوْاعَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ہالرّبع ۲ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَاذَکَّیْتُمْ قف وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ط ذٰلِکُمْ فِسْق‘’ ط اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْامِنْ دِیْنِکُمْ فَلاَ تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَمُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ لا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر‘’ رَّحِیْم‘’ ہ۳ یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَآ اُحِلَّ لَھُمْ ط قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ لا وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ ز فَکُلُوْامِمَّآاَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ ص وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ہ۴ اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ط وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ حِلّ‘’ لَّکُمْ صوَطَعَامُکُمْ حِلّ‘’ لَّھُمْ ز وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ ط وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ز وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ہع ۵
تراجم
۱۔ ۱۔ اے ایمان والو! پورا کرو قرار ، حلال ہوئے تم کو چو پائے مواشی ، سوا اس کے جو تم کو سنا دیں گے ، مگر حلال نہ جانو شکار کو اپنے احرام میں ، اللہ حکم کرتا ہے جو چاہے ۔۲۔ اے ایمان والو! حلال نہ سمجھو اللہ کے نام کی چیزیں ، اور نہ ادب والا مہینہ ، اور نہ نیاز کے جانور جو مکے کو جاویں ، اور نہ گلے میں لٹکن والیا، اور نہ آنے والوں کو ادب والے گھر کی طرف ، کہ ڈھونڈتے ہیں فضل اپنے رب کا ، اور خوشی۔ اور جب احرام سے نکلو ، تو شکار کرو ۔ اور باعث نہ ہو تم کو ایک قوم کی دشمنی کہ تم کو روکتے تھے ادب والی مسجد سے ، اس پر کہ زیادتی کرو۔ اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر ، اور پرہیز گاری پر ، اور مدد نہ کرو گناہ پر اور زیادتی پر ، اور ڈرتے رہو اللہ سے اللہ کا عذاب سخت ہے ۔ ۳۔ حرام ہوا تم پر ، مردہ ، اور لہو ، اور گوشت سؤر کا ، اور جس چیز پر نام پکارا اللہ کے سوا کا ، اور جو مر گیا گھٹ کر ، یا چوٹ سے ، یا گر کر ، یا سینگ مارے سے ، اور جس کو کھایا پھاڑنے والے نے ، مگر جو ذبح کر لیا۔ اور جو ذبح ہوا کسی تھان پر ، اور یہ کہ بانٹا کرو پانسے ڈال کر ۔ یہ گناہ کا کام ہے ۔ آج نا امید ہوئے کافر تمہارے دین سے ، سو ان سے مت ڈرو ، اور مجھ سے ڈرو ، آج میں پورا دے چکا تم کو دین تمہارا ، اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا، اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے دین مسلمانی ۔ پھر جو کوئی نا چار ہو گیا بھوک میں، کچھ گناہ پر نہیں ڈھلتا ، تو اللہ بخشنے والا ہے مہربان ۔ ۴۔ تجھ سے پوچھتے ہیں، کہ ان کو کیا حلال ہے ، تو کہہ تم کو حلال میں ستھری چیزیں ، اور جو سدھا ؤ شکاری جانور دوڑانے کو ، کہ ان کو سکھاتے ہو کچھ ایک ، جو اللہ نے تم کو سکھایا ہے ، سو کھا ؤ اس میں سے کہ رکھ چھوڑیں تمہارے واسطے ، اور اللہ کا نام لو اس پر ۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے ۔ اللہ شتاب لینے والا ہے حساب ۔ ۵۔ آج حلال ہوئیں تم کو سب چیزیں ستھری ۔ اور کتاب والوں کا کھانا تم کو حلال ہے ، اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے ، اور قید والی عورتیں مسلمان ، اور قید والی عورتیں کتاب والوں کی ، جب دو ان کو مہران کے ، قید میں لانے کو ، نہ مستی نکالنے کو ، اور نہ چھپی آشنائی کرنے کو ۔ اور جو کوئی منکر ہو ایمان سے ، اس کی محنت ضائع ہوئی ، اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں ہے ۔ ( شاہ عبدالقادرؒ)
۲۔ ۱۔اے ایمان والو! عہدوں کو پورا کرو ، تمہارے لیے تمام چوپائے جو مشابہ انعام (یعنی اونٹ ، بکری ، گائے) کے ہوں حلال کیے گئے ہیں، مگر جن کا ذکر آگے آتا ہے لیکن شکار کو حلال مت سمجھنا جس حالت میں کہ تم احرام میں ہو بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہیں حکم کریں۔ ۲۔ اے ایمان والو! بے حرمتی نہ کرو خدا تعالیٰ کی نشانیوں کی اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کی اور نہ ان جانوروں کی جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو کہ بیت الحرام کے قصد سے جا رہے ہوں اپنے رب کے فضل اور رضا مندی کے طالب ہوں، اور جس وقت تم احرام سے باہر آ جاؤ تو شکار کیا کرو اور ایسا نہ ہو کہ تم کو کسی قوم سے جو اسی سبب سے بغض ہے کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روک دیا تھا وہ تمہارے لیے اس کا باعث ہو جاوے کہ تم حد سے نکل جاؤ اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو بلا شبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔ ۳۔ تم پر حرام کیے گئے ہیں مردار ، اور خون اور خنزیر کا گوشت ، اور جو جانور کہ غیر اللہ کے نام پر زد کر دیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مر جاوے اور جو کسی ضرب سے مر جاوے اور جو اونچے سے گر کر مر جاوے اور جو کسی ٹکر سے مر جاوے اور جس کو کوئی دردندہ کھا نے لگے لیکن جس کو ذبح کر ڈالو ، اور جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جاوے ، اور یہ کہ تقسیم کرو بذریعہ قرعہ کے تیروں کے یہ سب گناہ ہیں، آج کے دن نا امید ہو گئے ، کافر لوگ تمہارے دین سے ، سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا ، آج کے دن تمہارے لیے تہمارے دین کو میں نے کامل کر دیا، اور میں نے تم پر اپنا انعام تام کر دیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لیے پسند کر لیا، پس جو شخص شدت کی بھوک میں ب یتاب ہو جاوے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو ، تو یقینا اللہ تعالیٰ معاف کر نے والے ہیں رحمت والے ہیں۔ ۴۔ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا کیا جانور ان کے لیے حلال کیے گئے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ تمہارے لیے کل جانور حلال کیے گئے ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تم تعلیم دو اور تم ان کو چھوڑو بھی اور ان کو اس طریقہ سے تعلیم دو جو تم کو اللہ تعالیٰ نے تعلیم دیا ہے تو ایسے شکاری جانور جس شکار کو تمہارے لیے پکڑیں اس کو کھاؤ اور اس پر اللہ کا نام بھی لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو بے شک اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والے ہیں۔ ۵۔ آج تمہارے لیے حلال چیزیں حلال کی گئیں اور جو لوگ کتاب دیئے گئے ہیں ان کا ذبیحہ تم کو حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کو حلال اور پارسا عورتیں بھی جو مسلمان ہوں اور پارسا عورتیں ان لوگوں میں سے بھی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں جب کہ تم ان کو ان کا معاوضہ دے دو ، اس طرح سے کہ تم بیوی بناؤ نہ تو علانیہ بدکاری کرو اور نہ خفیہ آشنائی کرو ، اور جو شخص ایمان کے ساتھ کفر کرے گا تو اس شخص کا عمل غارت جاوے گا اور وہ شخص آخرت میں بالکل زیاں کار ہو گا۔ (مولاناتھانویؒ)
۳۔ ۱۔ اے ایمان والو اپنے قول پورے کرو ، تمہارے لیے حلال ہوئے بے زبان مویشی مگر وہ جو آگے سنایا جائے گا تم ، لیکن شکار حلال نہ سمجھو جب تم احرام میں ہو، بے شک اللہ حکم فرماتا ہے جو چاہے ۔ ۲۔ اے ایمان والو حلال نہ ٹھہرا لو اللہ کے نشان ، اور نہ ادب والے مہینے ، اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ ، جن کے گلے میں علامتیں آویزاں ، اور نہ ان کا مال و آبرو جو عزت والے گھر کا قصد کر کے آئیں ، اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی چاہتے اور جب احرام سے نکلو تو شکار کر سکتے ہو ، اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا زیادتی کرنے پر نہ ابھارے ، اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے ۔ ۳۔ تم پر حرام ہے ، مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور وہ جو گلا گھونٹنے سے مرے اور بے دھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھا گیا مگر جنہیں تم ذبح کر لو اور جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کام ہے آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس ٹوٹ گئی ، تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا ، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ، اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا ، تو جو بھوک پیاس کی شدت میں نا چار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے ، تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ ۴۔ اے محبوب تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال ہوا تم فرما دو کہ حلال کی گئیں تمہارے لیے پاک چیزیں ، اور جو شکاری جانور تم نے سدھا لیے ، انہیں شکار پر دوڑاتے جو علم تمہیں خدا نے دیا اس سے انہیں سکھاتے تو کھاؤ اس میں سے جو وہ مار کر تمہارے لیے رہنے دیں، اور اس پر اللہ کا نام لو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ کو حساب کرتے دیر نہیں لگتی۔ ۵۔ آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال ہوئیں اور کتابیوں کا کھانا تمہار ے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور پارسا عورتیں مسلمان ، اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے ، نہ مستی نکالتے اور نہ آشنا بناتے ، اور جو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت میں زیاں کار ہے ۔ (احمد رضا خانؒ)
۴۔ ۱۔ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو ، تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال کیے گئے ہیں، بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے ، مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا ، یقینا اللہ جو چاہے حکم کرتا ہے ۔ ۲۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی بے حرمتی نہ کرو ، نہ ادب والے مہینوں کی ، نہ حر م میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں، ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو ، اور جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ ، نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے و الا ہے ۔ ۳۔ تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مراہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی ٹکر سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں، اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو ، اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعہ فال گیری کرو ، یہ سب بد ترین گناہ ہیں آج کفار تمہارے دین سے نا امید ہو گئے خبردار ! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا، پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقینا اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بہت مہربان ہے ۔ ۴۔ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں، اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے ، پس جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کر لیا کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، یقینا اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے ۔ ۵۔ کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لیے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے ، اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے ، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں، جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کر دیا پوشیدہ بدکاری کرو ، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔ (مولاناجونا گڑھیؒ)
۵۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے ، سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے ۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کرلو ، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔ (۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو۔ نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کر لو ، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں، نہ ان لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جا رہے ہوں۔ ہاں جب احرام کی حالت ختم ہوجائے تو شکار تم کر سکتے ہو۔ اور دیکھو ، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو۔ نہیں! جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، س کی سزا بہت سخت ہے۔ (۲) تم پر حرام کیا گیا مردار ، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ، وہ جو گلا گھٹ کر ، یا چوٹ کھا کر ، یا بلندی سے گر کر ، یا ٹکر کھا کر مرا ہو ، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ۔ سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا ۔ اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو ۔ نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو ۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کی گئی ہیں ان کی پابندی کرو) ۔ البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھا لے ، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (۳) لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلا ل کیا گیا ہے ، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں ۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو۔ جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلم دیا کرتے ہو۔ وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھا سکتے ہو ، البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو، اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ (۴) آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلا ل کر دی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے ۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ، بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو۔ او رجو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہو گا۔ (۵) (مولانامودودیؒ )
۶۔ اے ایمان والو ! اپنے عہد و پیمان پورے کرو ۔تمھارے لیے انعام کی قسم کے تمام چو پائے حلال ٹھہرائے گئے بجزان کے جن کا حکم تم کو پڑھ کر سنایا جا رہا ہے ۔نہ جائز کرتے ہوئے شکار کو حالت ِ احرام میں ۔اللہ حکم دیتا ہے جو چاہتا ہے ۔(۱) اے ایمان والو ! شعائر الہٰی کی بے حرمتی نہ کی جیو ،نہ محترم مہینوں کی ،نہ قربانیوں کی ،نہ پٹے باندھے ہوئے نیاز کے جانوروں کی ،نہ بیت اللہ کے عازمین کی ،جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طالب بن کر نکلتے ہیں ۔اور جب تم حالت احرام سے باہر آجاؤ تو شکار کرو ۔اور کسی قوم کی دشمنی ،کہ اس نے تمھیں مسجد حرام سے روکا ہے تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم حدود سے تجاوز کرو ۔تم نیکی اور تقویٰ میں تعا ون کرو ،گناہ اور تعدی میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔اللہ سخت پاداش والاہے ۔(۲) تم پر مرد اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور حرام کیا گیا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو ،اور وہ جو گلا گٹھنے سے مرا ہو ،جو چوٹ سے مرا ہو ،جو اوپر سے گر کر مرا ہو ،جو سینگ لگ کر مرا ہو ،جس کو کسی درندے نے کھایا ہو بجز اس کے جس کو تم نے ذبح کر لیا ہو اور وہ جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ کہ تقسیم کرو تیروں کے ذریعے سے ۔یہ سب باتیں فسق ہیں ۔اب یہ کافر تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے تو ان سے نہ ڈرو ،مجھی سے ڈرو ،اب میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کا مل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا ۔پس جو بھوک میں مضطر ہو کر ،بغیر گناہ کی طرف مائل ہوئے ،کوئی حرام چیز کھا لے تو اللہ بخشنے والا مہر بان ہے ۔(۳) وہ پوچھتے ہیں ان کے لیے کیا چیز حلال ٹھہرائی گئی ہے ،کہو تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھہرائی گئی ہیں ۔اور شکاری جانور وں مین سے جن کو تم نے سدھایا ہے اس علم میں سے کچھ سکھا کر جو خدا نے تم کو سکھایا تو تم ان کے اس شکار میں سے کھاؤ جو وہ تمھارے لیے روک رکھیں اور ا ن پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ،اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے ۔(۴) اب تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور شریف عورتیں مسلمان عورتوں میں سے اور شریف عورتیں ان اہل کتاب میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی تمھارے لیے حلال ہیں بشرطیکہ ان کو قید نکاح میں لا کر ان کے مہر ان کو دو ،نہ کہ بد کاری کرتے ہوئے اور آشنائی گانٹھتے ہوئے ۔اور جو ایمان کے ساتھ سفر کرے گا تو اس کا عمل ڈھے جائے گا اور وہ آخرت میں نا مرادوں میں ہوگا ۔(۵) (مولاناامین احسن اصلاحیؒ)
۷۔ ایمان والو، (اپنے پروردگار سے باندھے ہوئے سب) عہد و پیمان پورے کرو۔ تمھارے لیے مویشی کی قسم کے تمام چوپائے حلال ٹھیرائے گئے ہیں، سوائے اُن کے جو تمھیں بتائے جا رہے ہیں۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو حلال نہ کر لو (یہ اللہ کا حکم ہے اور) اللہ جو چاہتا ہے، حکم دیتا ہے۔ (۱) ایمان والو، اللہ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو، نہ حرام مہینوں کی، نہ ہدی کے جانوروں کی، نہ (اُن میں سے بالخصوص) اُن جانوروں کی جن کے گلے میں نذر کے پٹے بندھے ہوئے ہوں، اور نہ بیت الحرام کے عازمین کی جو اپنے پروردگار کی عنایتوں اور اُس کی خوشنودی کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ہاں، جب احرام کی حالت ختم ہو جائے تو شکار کر سکتے ہو۔ تمھارے لیے مسجد حرام کا راستہ کچھ لوگوں نے بند کر دیا تھا تو (اُن کے اسلام قبول کر لینے کے بعد اب) اُن کے ساتھ اِس بنا پر تمھاری دشمنی بھی تمھیں ایسا مشتعل نہ کر دے کہ تم حدود سے تجاوز کرو ۔(نہیں، ہر حال میں حدود الٰہی کے پابند رہو) اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو، مگر گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اِس لیے کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (۲) تم پر مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور خدا کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا گیا ہے اور (اِسی کے تحت) وہ جانور بھی جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، جو چوٹ سے مرا ہو، جو ا وپر سے گر کر مرا ہو، جو سینگ لگ کر مرا ہو، جسے کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو، سوائے اُس کے جسے تم نے (زندہ پا کر) ذبح کر لیا۔(اِسی طرح) وہ (جانور بھی حرام ہیں) جو کسی آستانے پر ذبح کیے گئے ہوں اور یہ بھی کہ تم (اُن کا گوشت) جوے کے تیروں سے تقسیم کرو۔ (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) یہ سب خدا کی نافرمانی کے کام ہیں۔ یہ منکر اب تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے ہیں، ا ِس لیے (اِن حرمتوں کے معاملے میں) اِن سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو۔ تمھارے دین کو آج میں نے تمھارے لیے پورا کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند فرمایا ہے۔(سو میرے اِن احکام کی پابندی کرو)، پھر جو بھوک سے مجبور ہو کر اِن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اِس کے کہ وہ گناہ کا میلان رکھتا ہو تو اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے (۳) وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لیے کیا چیز حلال ٹھیرائی گئی ہے؟ کہہ دو: تمام پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جن کو اُس علم میں سے کچھ سکھا کر تم نے سدھا لیا ہے جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے، اُن کا کیا ہوا شکار بھی حلال ہے)۔ اِس لیے جو وہ تمھارے لیے روک رکھیں، اُس میں سے کھاؤ اور (جانور کو شکار پر چھوڑنے سے پہلے) اُس پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے۔ (۴) تمام پاکیزہ چیزیں اب تمھارے لیے حلال ٹھیرا دی گئی ہیں۔(چنانچہ) اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا اُن کے لیے حلال ہے۔ (اِسی طرح شرک و توحید کے حدود بھی واضح ہو گئے ہیں، لہٰذا) مسلمانوں کی پاک دامن عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں اور تم سے پہلے کے اہل کتاب کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں، جب تم اُن کے مہر اُنھیں ادا کر دیتے ہو، اِس شرط کے ساتھ کہ تم بھی پاک دامن رہنے والے ہو نہ بدکاری کرنے والے اور نہ چوری چھپے آشنائی کرنے والے۔ (اپنے ایمان کو، البتہ ہر حال میں خالص رکھو) اور (جانتے رہو کہ) جو ایمان کے منکر ہیں، اُن کی سب محنت ضائع ہو جائے گی اور قیامت کے دن وہ نامرادوں میں سے ہوں گے۔ (۵) (محترم جاوید احمد غامدی)
تفاسیر
یایھا الذین امنوااوفوا بالعقود۔۔۔۔۔۔۔۔۔یحکم ما یرید
‘‘ایمان شرعی دو چیزوں کا نام ہے صحیح معرفت اور تسلیم و انقیاد۔ یعنی خدا اور رسول کے جملہ ارشادات کو صحیح و صادق سمجھ کر تسلیم و قبول کے لیے اخلاص سے گردن جھکا دینا۔ اس تسلیمی جزء کے لحاظ سے ایمان فی الحقیقت تمام قوانین و احکامِ الٰہیہ کے ماننے اور جملہ حقوق ادا کرنے کا ایک مضبوط عہد و اقرار ہے گویا حق تعالیٰ کی ربوبیتِ کاملہ کا وہ اقرار جو عہدِ الست کے سلسلہ میں لیا گیا تھا جس کا نمایاں اثر انسان کی فطرت اور سرشت میں آج تک موجود ہے اسی کی تجدید و تریح ایمان شرعی سے ہوتی ہے۔ پھر ایمان شرعی میں جو کچھ اجمالی عہدوپیمان تھا اسی کی تفصیل پورے قرآن و سنت میں دکھلائی گئی ہے۔ اس صورت میں دعویٰ ایمان کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ تمام احکامِ الٰہیہ میں خواہ ان کا تعلق براہ راست خدا سے ہو یا بندوں سے، جسمانی تربیت سے ہو یا روحانی اصلاح سے، وہ دنیوی مفاد سے ہو یا اُخروی فلاح سے، شخصی زندگی سے ہو یا حیاتِ اجتماعی سے، صلح سے ہو یا جنگ سے، اس کا عہد کرتا ہے کہ ہرنہج سے اپنے مالک کا وفادار رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو عہدوپیمان اسلام، جہاد، سمع وطاعت، یا دوسرے عمدہ خصال اور امورخیر کے متعلق صحابہؓ سے بشکل بیعت لیتے تھے وہ اسی عہد ایمانی کی ایک مخصوص صورت تھی۔ اور چونکہ ایمان کے ضمن میں بندہ کو حق تعالیٰ کے جلال و جبروت کی صحیح معرفت اور اس کی شانِ انصاف و انتقام اور وعدوں کی سچائی کا پورا پورا یقین بھی حاصل ہوچکا ہے، اس کا مقتضا یہ ہے کہ وہ بدعہدی اور غداری کے مہلک عواقب سے ڈر کر اپنے تمام عہدوں کو جو خدا سے یا بندوں سے یا خود اپنے نفس سے کیے ہوں، اس طرح پورا کرے کہ مالکِ حقیقی کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔ اس تقریر کے موافق عقود (عہدوں) کی تفسیر میں جو مختلف چیزیں سلف سے منقول ہیں ان سب میں تطبیق ہوجاتی ہے اور آیت میں ‘‘ایمان والو’’ کے لفظ سے خطاب فرمانے کا لطف مزید حاصل ہوتا ہے۔’’ (تفسیر عثمانی ص ۱۳۹ ، پاک کمپنی لاہور)
لفظ ‘عقد’ کا مفہوم اور اس کی وسعت
‘‘اوفوا بالعقود ، عقد کا لفظ عہدومیثاق کے الفاظ کے مقابل میں عام ہے۔ اس میں قول قرار، قسم اور کسی معاملے میں گواہی کی ذمہ داری سے لے کر اس عہدومیثاق تک، جو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ہوا ہے، سب آگیا۔ چنانچہ اس سورہ میں میثاق شریعت کی پوری تاریخ بھی اس کے تمام نتائج و عواقب کے ساتھ بیان ہوئی ہے، قسم اور شہادت کی ذمہ داریاں بھی واضح کی گئی ہیں۔’’(تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۲،فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘لفظ عقود عقد کی جمع ہے جس کے لفظی معنی باندھنے کے ہیں اور جو معاہدہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں بندھ جائے اس کو بھی عقد کہا جاتا ہے اس لیے بمعنی عہود ہوگیا۔امام تفسیر ابن جریر نے مفسرین صحابہ و تابعین کا اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ہمارے عرف میں اسی کا نام معاہدہ ہے اسی لیے خلاصہ مضمون اس جملہ کا یہ ہوگیا کہ باہمی معاہدات کا پورا کرنا لازم و ضروری سمجھو۔امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ معاہدات کی جتنی قسمیں ہیں سب اس لفظ کے حکم میں داخل ہیں اور پھر فرمایا کہ اس کی ابتدائی تین قسمیں ہیں: ایک وہ معاہدہ جو انسان کا رب العالمین کے ساتھ ہے مثلاً ایمان، طاعت کا عہد یا حلال و حرام کی پابندی کا عہد۔ دوسرے وہ معاہدہ جو ایک انسان کا خود اپنے نفس کے ساتھ ہے، جیسے کسی چیز کی نذر اپنے ذمّہ مان لے، یا حلف کرکے کوئی چیز اپنے ذمہ لازم کرلے، تیسرے وہ معاہدہ جو ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ ہے۔ اور اس تیسری قسم میں وہ تمام معاہدات شامل ہیں جو دو شخصوں یا دو جماعتوں یا دو حکومتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔حکومتوں کے بین العالمی معاہدات یا باہمی سمجھوتے، جماعتوں کے باہمی عہدومیثاق اور دونوں انسانوں کے درمیان ہر طرح کے معاملات نکاح، تجارت، شرکت، اجارہ، ہبہ وغیرہ ان تمام معاہدات میں جو جائز شرطیں باہم طے ہوجائیں اس آیت کی رُو سے ان کی پابندی ہرفریق پر لازم و واجب ہے اور جائز کی قید اس لیے لگائی کہ خلافِ شرع شرط لگانا یا اس کا قبول کرنا کسی کے لیے جائز نہیں۔’’ (معارف القرآن ، ص ۱۰، ج۳، ادارۃ المعارف کراچی)
‘‘العقود۔ عقد کا لفظ عام ہے، اور ہر عہدِ شرعی کو شامل، خواہ اس کا تعلق خالق سے ہو، خواہ مخلوق سے۔۔۔۔۔۔ بامحاورہ شُستہ اُردو میں اسی کو قول و قرار بھی کہا جاتا ہے۔عبادات کے علاوہ بھی جتنے عہدِسیاسیات، تجارت، معاشرت وغیرہ معاملات و اخلاقیات سے متعلق ہوسکتے ہیں، سب اس میں آگئے۔’’ (تفسیر ماجدی ، ج۱ ، ص ۸۴۵، لکھنو)
احلت لکم بھیمۃ ۔۔۔۔
‘انعام’ اور ‘بہیمۃ’ میں فرق
‘‘احلت لکم بھیمۃ الانعام،انعام کا لفظ عربی میں بھیڑبکری، اُونٹ اور گائے بیل کے لیے معروف ہے۔ اس کی تصریح خود قرآن نے سورۂ انعام کی آیات ۱۴۳، ۱۴۴ میں فرما دی ہے۔ ‘بہیمہ’ کا لفظ اس سے عام ہے۔ اس میں انعام کی نوع کے دوسرے چوپائے بھی داخل ہیں۔ انعام کی طرف اس کی اضافت سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ اُونٹ، گائے، بکری اور اس قبیل کے سارے ہی چوپائے، خواہ گھریلو ہوں یا وحشی، تمھارے لیے جائز ٹھہرائے گئے۔ ‘جائز ٹھہرائے گئے’ سے مطلب یہ ہے کہ وہ پابندیاں جو تم نے اپنے اوہام کی بنا پر عائد کی ہیں وہ بھی ختم اور جو پچھلے صحیفوں کی روایات کی بنا پر تھیں وہ بھی کالعدم۔الا ما یتلٰی علیکم یہ اشارہ ہے آگے آیت۳ میں بیان کردہ حرمتوں کی طرف’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۲،فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘لفظ بھیمۃ ان جانوروں کے لیے بولا جاتا ہے، جن کو عادۃً غیر ذوی العقول سمجھا جاتا ہے کیونکہ لوگ ان کی بولی کو عادۃً نہیں سمجھتے تو ان کی مراد مبہم رہتی ہے ۔امام شعرانی نے فرمایاکہ بہمیہ کو بہمیہ اس لیے نہیں کہتے کہ اس کی بے عقلی کے سبب معلومات اس پر مبہم رہتے ہیں بلکہ اس لیے کہ اس کی بولی لوگ نہیں سمجھتے۔ اس کا کلام لوگوں پر مبہم رہتا ہے۔ بہرحال لفظِ بہیمہ ہر جاندار کے لیے بولا جاتا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ چوپایہ جانداروں کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔اور لفظ انعام نعم کی جمع ہے۔ پالتو جانور جیسے اُونٹ، گائے، بھینس، بکری وغیرہ جن کی آٹھ قسمیں سورۂ انعام میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ان کو انعام کہا جاتا ہے۔ بہیمہ کا لفظ عام تھا۔ انعام کے لفظ نے اس کو خاص کردیا۔ مراد آیت کی یہ ہوگئی کہ گھریلو جانوروں کی آٹھ قسمیں تمہارے لیے حلال کردی گئیں۔’’ (معارف القرآن،ج۳ ، ص ۱۳ ، ادارۃ المعارف کراچی)
حالتِ احرام میں شکار کی ممانعت اور اس کی اہمیت
‘‘غیر محلی الصید وانتم حرم، یہ ان حرمتوں میں سے سب سے پہلی حُرمت کا ذکر ہے۔ یعنی تمہارے لیے انعام کے قسم کے تمام چوپائے خواہ پالتو ہوں یا وحشی جائز ہیں بایں پابندی کہ حالتِ احرام میں شکار کو جائز کرلینے والے نہ بن جانا۔ابتلا و امتحان کے زاویہ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ حالتِ احرام میں شکار کی ممانعت کا معاملہ بالکل اس حکم سے مشابہ ہے جو یہود کو سبت کے احترام سے متعلق دیا گیا تھا۔ ان کو سبت کے دن شکار کی ممانعت تھی لیکن وہ اس عہد کو نباہ نہ سکے بلکہ مختلف حیلے ایجاد کرکے انھوں نے اس کو جائز بنا لیا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کردی۔آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اے ایمان والو! اپنے رب سے اس کی شریعت کی پابندی کا جو عہدومیثاق تم نے کیا ہے، وہ پورا کرنا تمہارے لیے انعام کی قسم کے تمام چوپائے، بجز اُن کے جو آگے بیان کیے جارہے ہیں، اس پابندی کے ساتھ حلال ٹھہرا گئے کہ احرام کی حالت میں شکار نہ کرنا۔ آخر میں ان اللہ یحکم ما یرید، فرما کر اس حکم کے امتحانی پہلو کی طرف اشارہ فرما دیا کہ یہ حکم تمہاری وفاداری کی جانچ کے لیے ہے، اس میں مین میکھ نکالنے اور اس سے گریز و فرار کی راہیں نہ ڈھونڈنا۔ جو احکام امتحان کے مقصد سے ہوتے ہیں ان میں بندوں کی مصلحت کا پہلو مخفی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے جب تک یہ عقیدہ دل میں مضبوط نہ ہو کہ خدا کو حکم دینے کا اختیار مطلق حاصل ہے اور اس کا ہر حکم بندوں ہی کی مصلحت کے لیے ہوتا ہے۔ اس وقت تک سچی وفاداری کے ساتھ ان کی تعمیل نہیں ہوسکتی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘ ان اللّٰہ یحکم ما یُریدُ،یعنی اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے کسی کو حق نہیں کہ اس کے ماننے میں چون و چرا کرے۔ اس میں شاید اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کے لیے بعض جانوروں کو ذبح کرکے کھانے کی اجازت کوئی ظلم نہیں۔ جس مالک نے یہ سب جانیں بنائی ہیں اسی نے پوری حکمت و بصیرت کے ساتھ یہ قانون بھی بنایا ہے کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کے لیے غذا بنایا ہے، زمین کی مٹی درختوں کی غذا ہے اور درخت جانوروں کی غذا، اور جانور انسان کی غذا۔ انسان سے اعلیٰ کوئی مخلوق اس دنیا میں نہیں ہے اس لیے انسان کسی کی غذا نہیں بن سکتا۔’’(معارف القرآن، جلد ۳ ،ص ۱۴، ادارۃ المعارف کراچی)
‘‘یعنی اللہ حاکم مطلق ہے، اسے پورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اُس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں، لیکن بندۂ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی برمصلحت سمجھتا ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ قرآن پورے زور کے ساتھ یہ اُصول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حرمت و حلّت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۴۳۸، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
یایھا الذین امنوان لا تحلوا شعائر اللہ۔۔۔۔۔۔ شدید العقاب
آیت کا شان نزول
‘‘سورۂ مائدہ کی پہلی آیت میں معاہدات کے پورا کرنے کی تاکید تھی۔ اِن معاہدات میں سے ایک معاہدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حلال و حرام کی پابندی کی جائے۔ اس دوسری آیت میں اس معاہدہ کی دو اہم دفعات کا بیان ہے۔ ایک شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کی بے حُرمتی سے بچنے کی ہدایت، دوسرے اپنے اور غیر دوست اور دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ اور ظلم کا بدلہ ظلم سے لینے کی ممانعت۔اِس آیت کے نزول کا سبب چند واقعات ہیں۔ پہلے ان کو سن لیجیے تاکہ آیت کا مضمون پوری طرح دلنشین ہوسکے۔ ایک واقعہ حدیبیہ کا ہے جس کی تفصیل قرآن نے دوسری جگہ بیان فرمائی ہے۔ وہ یہ کہ ہجرت کے چھٹے سال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ارادہ کیا کہ عمرہ کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ساتھ احرام عمرہ باندھ کر بقصد مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ مکہ کے قریب مقام حدیبیہ میں پہنچ کر مکہ والوں کو اطلاع دی کہ ہم کسی جنگ یاجنگی مقصد کے لیے نہیں بلکہ صرف عمرہ کرنے کے لیے آرہے ہیں۔ ہمیں اس کی اجازت دو۔ مشرکینِ مکہ نے اجازت نہ دی اور بڑی سخت اور کڑی شرطوں کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اس وقت سب اپنے احرام کھول دیں اور واپس جائیں۔ آئندہ سال عمرہ کے لیے اس طرح آئیں کہ ہتھیار ساتھ نہ ہوں۔ صرف تین روز ٹھہریں اور عمرہ کرکے چلے جائیں۔ اور بھی بہت سی ایسی شرائط تھیں جن کا تسلیم کرلینا بظاہر مسلمانوں کے وقار و عزت کے منافی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سب مطمئن ہوکر واپس ہوگئے۔ پھر ۷ہجری میں دوبارہ ماہ ذی قعدہ میں انھیں شرائط کی پابندی کے ساتھ یہ عمرہ قضا کیا گیا۔ بہرحال واقعہ حدیبیہ اور ان توہین آمیز شرائط نے صحابہ کرام کے قلوب میں مشرکینِ مکہ کی طرف سے انتہائی نفرت و بُغض کا بیج بو دیا تھا، دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ مشرکینِ مکہ میں سے حطیم بن ہند اپنا مالِ تجارت لے کر مدینہ طیبہ آیا اور مال فروخت کرنے کے بعد اپنا سامان اور آدمی مدینہ سے باہر چھوڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور منافقانہ طور پر اپنا ارادہ اسلام لانے کا ظاہر کیا تاکہ مسلمان اس سے مطمئن ہوجائیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آنے سے پہلے ہی بذریعہ وحی خبر پاکر صحابہ کرام کو بتلا دیا تھا کہ ہمارے پاس ایک شخص آنے والا ہے جو شیطان کی زبان سے کلام کرے گا۔ اور جب یہ واپس گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ شخص کفر کے ساتھ آیا اور دھوکہ و غداری کے ساتھ لوٹا ہے۔ یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے نکل کر سیدھا مدینہ سے باہر پہنچا۔ جہاں اہلِ مدینہ کے جانورچَر رہے تھے۔ ان کو ہنکا کر ساتھ لے گیا۔ صحابہ کرام کو اس کی اطلاع کچھ دیر میں ہوئی۔ تعاقب کے لیے نکلے تو وہ ان کی زد سے باہر ہوچکا تھا۔ پھر جب ہجرت کے ساتویں سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ حدیبیہ کی قضا کے لیے جا رہے تھے تو دُور سے تلبیہ کی آواز سنی اور دیکھا کہ یہی حطیم بن ہند اہلِ مدینہ کے ان جانوروں کو جو مدینہ سے لایا تھا بطور قربانی کے اپنے ساتھ لیے ہوئے عمرہ کرنے جا رہا ہے۔ اس وقت صحابہ کرام کا قصد ہوا کہ اس پر حملہ کرکے اپنے جانور چھین لیں اور اس کو یہیں ختم کر دیں۔تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ ہجرت کے آٹھویں سال رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ فتح ہوا، اور تقریباً پورے عرب پر اسلامی قبضہ ہوگیا اور مشرکینِ مکہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی انتقام کے آزاد فرما دیا۔ وہ آزادی کے ساتھ اپنے سب کام کرتے رہے یہاں تک کہ اپنے جاہلانہ طرز پر حج و عمرہ کی رسوم بھی ادا کرتے رہے۔ اس وقت بعض صحابہ کرام کے دلوں واقعہ حدیبیہ کا انتقام لینے کا خیال آیا کہ انھوں نے ہمیں جائز اور حق طریق پر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ ہم ان کے ناجائز اور غلط طریق کے عمرہ و حج کو کیوں آزاد چھوڑ دیں، ان پر حملہ کریں، ان کے جانور چھین لیں اور ان کو ختم کر دیں۔یہ واقعات ابن جریر نے بروایت عکرمہ و سدّی نقل کیے ہیں۔ یہ چند واقعات تھے کہ جن کی بنا پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ شعائر اللہ کی تعظیم تمہارا اپنا فرض ہے۔ کسی دشمن کے بُغض و عداوت کی وجہ سے اس میں خلل ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں۔ اشہر حُرم میں قتل و قتال بھی جائز نہیں۔ قربانی کے جانوروں کو حرم تک جانے سے روکنا یا ان کا چھین لینا بھی جائز نہیں اور جو مشرکین احرام باندھ کر اپنے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل و رضا حاصل کرنے کے قصد سے چلے ہیں۔ (اگرچہ بوجہ کفر ان کا یہ خیال خام ہے تاہم) شعائر اللہ کی حفاظت و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔ نیز وہ لوگ جنھوں نے تمہیں عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ ان کے بُغض و عداوت کا انتقام اس طرح لینا جائز نہیں کہ مسلمان اُن کو مکہ میں داخل ہونے یا شعائر حج ادا کرنے سے روک دیں۔ کیونکہ یہ اُن کے ظلم کا بدلہ میں ہماری طرف سے ظلم ہوجائے گا، جو اسلام میں رَوا نہیں۔ ’’(معارف القرآن، جلد ۳ ، ص۱۵، ادارۃ المعارف کراچی)
شعائر کا احترام ظاہر و باطن دونوں پہلوؤں سے مطلوب ہے
‘‘لا تحلوا شعائر اللّٰہ، شعائر کسی اہم دینی و روحانی حقیقت کے مظہر اور پیکر ہیں۔ ان میں اصل مقصود کی حیثیت تو ان روحانی و معنوی حقائق کی ہے جو ان مظاہر کے اندر مضمر ہیں اس لیے کہ ان حقائق ہی کا احساس دلانے کے لیے ان کو بطور نشان اور علامت کے مقرر کیا گیا ہے لیکن یہ مقرر کردہ خدا کے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے ظاہر و باطن دونوں کا یکساں احترام مطلوب ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ ان کے احترام کے جو آداب و شرائط مقرر ہیں ان کی خلاف ورزی کرے یا جو چیزیں یا جو باتیں ان کے تعلق سے حرام ہیں ان کو جائز کرے۔ مثلاً چار محترم مہینوں--- ذی قعدہ، ذی الحجۃ، محرم اور رجب جو حج و عمرہ کے تعلق سے محترم مہینے قرار دیے گئے ہیں، ان میں لڑائی بھڑائی ممنوع ہے، اگر کوئی گروہ ان میں لڑائی چھیڑ دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے ان حرام مہینوں کو اپنے لیے جائز کرلیا اور ان کی بے حرمتی کی۔’’(تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘لفظ شعائر جس کا ترجمہ نشانیوں سے کیا گیا ہے۔ شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت، اسی لیے شعائر اور شعیرہ اس محسوس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی علامت ہو۔ شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جائے گا جو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس و مشاہد ہیں جیسے نماز، اذان، حج، ختنہ اور سنت کے موافق داڑھی وغیرہ۔ شعائر اللّٰہ کی تفسیر اس آیت میں مختلف الفاظ سے منقول ہے مگر صاف بات وہ ہے جو بحرمحیط اور روح المعانی میں حضرت حسن بصری اور عطاءؒ سے منقول ہے اور امام جصاص نے اس کو تمام اقوال کے لیے جامع فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ شعائر اللہ سے مراد تمام شرائع اور دین کے مقرر کردہ واجبات و فرائض اور ان کی حدود ہیں۔اس آیت میں لاتحلوا شعائر اللّٰہ کے ارشاد کا یہی حاصل ہے کہ اللہ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو اور شعائر اللہ کی بے حرمتی ایک تو یہ ہے کہ سرے سے ان احکام کو نظرانداز کردیا جائے۔ دوسرے یہ ہے کہ ان پر عمل تو کریں مگر ادھورا کریں۔ پورا نہ کریں۔ تیسرے یہ کہ مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرکے آگے بڑھنے لگیں۔ لاتحلوا شعائر اللّٰہ میں ان تینوں صورتوں سے منع فرمایاگیا ہے۔ ’’ (معارف القرآن ، ج۳، ص ۱۸ ، ادارۃ المعارف کراچی)
‘‘ ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرزِعمل یا کسی نظام کی نمایندگی کرتی ہو وہ اس کا ‘‘شعار’’ کہلائے گی، کیونکہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے۔ سرکاری جھنڈے، فوج اور پولیس وغیرہ کے یونیفارم، سکّے، نوٹ اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں اور وہ اپنے محکوموں سے، بلکہ جن جن پر ان کا زور چلے ، سب سے ان کے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں۔ گرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیت کے شعائر ہیں۔ چوٹی اور زنار اور مندر برہمنیت کے شعائر ہیں۔ کیس اور کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کا شعار ہے۔ سواستیکا آریہ نسل پرستی کا شعار ہے۔ یہ سب مسلک اپنے اپنے پیروں سے اپنے اِن شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی نظام کے شعائر میں سے کسی شعار کی توہین کرتا ہے تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ وہ دراصل اُس نظام کے خلاف دُشمنی رکھتا ہے، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اسی نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے ۔شعائر اللہ’’ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمایندگی کرتی ہوں۔ ایسی علامات جہاں جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پر مامور ہیں، بشرطیکہ ان کا نفسیاتی پس منظر خالص خدا پرستانہ ہو، کسی مشرکانہ یا کافرانہ تخیل کی آلودگی سے انھیں ناپاک نہ کر دیا گیا ہو۔ کوئی شخص خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، اگر اپنے عقیدہ و عمل میں خدائے واحد کی بندگی و عبادت کا کوئی جز رکھتا ہے، تو اس جز کی حد تک مسلمان اس سے موافقت کریں گے اور ان شعائر کا بھی پورا احترام کریں گے جو اس کے مذہب میں خالص خدا پرستی کی علامت ہوں۔ اس چیز میں ہمارے اور اس کے درمیان نزاع نہیں بلکہ موافقت ہے۔ نزاع اگر ہے تو اس امر میں نہیں کہ وہ خدا کی بندگی کیوں کرتا ہے، بلکہ اس امر میں ہے کہ وہ خدا کی بندگی کے ساتھ دُوسری بندگیوں کی آمیزش کیوں کرتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکین عرب کے درمیان جنگ برپا تھی، مکّہ پر مشرکین قابض تھے، عرب کے ہر حصے سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کے لیے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے۔ اس وقت حکم دیا گیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی، تمھارے اور ان کے درمیان جنگ ہی سہی، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انھیں نہ چھیڑو، حج کے مہینوں میں ان پر حملہ نہ کرو، خدا کے دربار میں نذر کرنے کے لیے جو جانور یہ لیے جا رہے ہوں اُن پر ہاتھ نہ ڈالو، کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصہ باقی ہے وہ بجائے خود احترام کا مستحق ہے نہ کہ بے احترامی کا۔’’ (تفہیم القرآن،ج۱ ،ص ۴۳۹، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
‘ہدی’ اور ‘قلائد’ کا مفہوم
‘‘ہدی’ قربانی کے جانوروں کو کہتے ہیں جو بطور ہدیہ خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے بیت اللہ لے جائے جاتے ہیں۔ قلائد قلادہ کی جمع ہے جس کے معنی پٹے کے ہیں۔ اس میں مضاف محذوف ہے یعنی ذوائد القلائد، یعنی قربانی اور نذرونیاز کے وہ جانور جن کو تخصیص کے طور پر پٹے باندھ دیے گئے ہیں کہ پہچانے جائیں، کوئی ان سے تعرض نہ کرے۔ ‘ہدی’ کے بعد ‘قلائد’ کا ذکر عام کے بعد خاص کے ذکر کی نوعیت رکھتا ہے اور مقصود اس سے تعرض کی سنگینی کو واضح کرنا ہے کہ ان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہونا خود خدا سے تعرض کرنے کے مترادف ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘مرشد تھانویؒ نے فرمایا کہ آیت (ولا الہدی ولاالقلائد) سے تبرکات کی تعظیم بہ وجہ تعلق ذات واجب التعظیم کے مفہوم ہوتی ہے۔ پھر چونکہ فضل و رضوان کا تعلق مشرکین سے ہے، اس لیے یہ مفہوم بھی ہوا کہ طالب رضائے حق قابلِ رعایت ہے، اگرچہ اخذ طریق میں اس نے غلطی کی ہو، اسی طرح ربھم سے اشارہ رحمتِ الٰہی کے عموم و وسعت کی جانب نکلتا ہے۔’’(تفسیر ماجدی ،ج۱ ، ص ۸۴۷، لکھنو)
دشمن کی دشنمنی بھی توہین شعائر کے لیے دلیل جواز نہیں ہے
‘‘ولایجرمنکم…… ان صدوکم الآیۃ،شنان کے معنی بُغض و عداوت کے ہیں اور لایجرمنکم کے معنی ہیں، تمہارے لیے سبب و محرک نہ بنے، تمھیں آمادہ نہ کرے۔ قوم سے مراد یہاں قریش ہیں اور ان صدوکم عن المجسدالحرام، اس بُغض و عداوت کے سبب کی تفصیل ہے۔ یعنی قریش نے تمہیں بیت اللہ سے روک کر ہرچند تمہارے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے لیکن اس چیز کا غم و غصہ بھی تمہیں اس بات پر نہ اُبھارے کہ تم شعائر الٰہی کے معاملے میں حدودِ الٰہی سے تجاوز کرو۔ ان کے عازمینِ حج کے قافلوں کو یا ان کے نذرونیاز کے جانوروں کو کوئی گزند نہ پہنچاؤ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘وتعاونوا علی البر والتقوی ۔۔۔
دوسروں کی انگیخت پر حدودِ الٰہی سے تجاوز تعاون علی الاثم ہے
‘‘ یہ اُوپر والی بات ہی کی ایک دوسرے پہلو سے تاکید ہے، یعنی جس گروہ کو اللہ نے دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم کرنے کے لیے پیدا کیا ہے، اس کے لیے پسندیدہ روش یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی زیادتیوں سے مشتعل ہوکر خود اسی طرح کی زیادتیاں کرنے لگے۔ وہ ایسا کرے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے گناہ اور زیادتی کے کام میں تعاون کیا ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘قرآن کریم نے یہ عنوان اختیار نہیں فرمایا کہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کرو اور غیروں کے ساتھ نہ کرو۔ بلکہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے کی جو اصل بنیاد ہے، یعنی نیکی اور خدا ترسی اسی کو تعاون کرنے کی بنیاد قرار دیا۔جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھائی بھی اگر حق کے خلاف یا ظلم و جور کی طرف چل رہا ہو تو ناحق اور ظلم پر اس کی بھی مدد نہ کرو۔ بلکہ اس کی کوشش کرو کہ ناحق اور ظلم سے اس کا ہاتھ روکو۔ کیونکہ درحقیقت یہی اس کی صحیح امداد ہے تاکہ ظلم و جور سے اس کی دنیا اور آخرت تباہ نہ ہو۔صحیح بخاری و مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصر اخاک ظالماً ومظلوماً۔ یعنی اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ کرامؓ جو قرآنی تعلیم میں رنگے جاچکے تھے، انھوں نے حیرت سے پوچھا کہ یارسول اللہ مظلوم بھائی کی امداد تو ہم سمجھ گئے مگر ظالم کی امداد کا کیا مطلب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو ظلم سے روکو، یہی اس کی امداد ہے’’۔(معارف القرآن، جلد سوم، ص ۲۴، ادارۃ المعارف کراچی)
‘‘بعض مفسرین نے فرمایا جس کا حکم دیا گیا اس کا بجا لانا بر اور جس سے منع فرمایا گیا اس کو ترک کرنا تقویٰ اور جس کا حکم دیا گیا اس کو نہ کرنا اثم (گناہ) اور جس سے منع کیا گیا اس کو کرنا عدوان (زیادتی) کہلاتا ہے’’(خزائن العرفان ، ص ۱۹۲، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
حرمت علیکم المیتۃ…… فان اللّٰہ غفور رحیم
‘میتۃ’ کی تفصیل
‘‘منخنقۃ، اس جانور کو کہتے ہیں جو گلا گھٹ کر مر جائے۔ موقُوذۃُ، جو چوٹ سے مر جائے، مثلاً کسی جانور پر دیوار گرپڑی یا وہ کسی ٹرک کے نیچے آگیا۔متردیۃ، جو اُوپر سے نیچے گر کر مر جائے۔
نطیحۃ، جو کسی جانور کی سینگ سے زخمی ہوکر مر جائے۔ما اکل السبع،جس کو کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو۔مذکورہ پانچوں چیزوں کا ذکر درحقیقت میتہ کی تفصیل کے طور پر ہوا ہے اور اس تفصیل سے گویا اس حکم کی تکمیل ہوگئی جو بقرہ اور اس سے پہلے انعام میں بیان ہوچکا ہے۔ اس تفصیل کی ضرورت اس لیے تھی کہ بعض ذہنوں میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ ایک مُردار میں جو طبعی موت مرا ہو اور اس جانور میں جو کسی چوٹ یا کسی حادثہ کا شکار ہوکر اچانک مر گیا ہو، کچھ فرق ہونا چاہیے۔ چنانچہ یہ شبہ اس زمانے میں بھی بعض لوگ پیش کرتے ہیں بلکہ بہت سے لوگ تو اسی کو بہانہ بناکر گردن مروڑی ہوئی مرغی بھی جائز کر بیٹھے۔ قرآن کی اس تفصیل نے اس شبہے کو صاف کر دیا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘یہ سورۂ مائدہ کی تیسری آیت ہے جس میں بہت سے اصول اور فروعی احکام و مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ پہلا مسئلہ حلال و حرام جانوروں کا ہے۔ جن جانوروں کا گوشت انسان کے لیے مضر ہے، خواہ جسمانی طور پر کہ اس سے انسان کے بدن میں بیماری کا خطرہ ہے، یا روحانی طور پر کہ اس سے انسان کے اخلاق اور قلبی کیفیات خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ ان کو قرآن نے خبائث قرار دیا اور حرام کر دیا، اور جن جانوروں میں کوئی جسمانی یا روحانی مضرت نہیں ہے، ان کو طیب اور حلال قرار دیا۔اس آیت میں فرمایا ہے کہ حرام کیے گئے تم پر مُردار جانور۔ مُردار سے مراد وہ جانور ہیں جو بغیر ذبح کے کسی بیماری کے سبب یا طبعی موت سے مرجائیں۔ ایسے مُردار جانور کا گوشت ‘طبی’ طور پر بھی انسان کے لیے سخت مضر ہے اور روحانی طور پر بھی۔البتہ حدیث شریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چیزوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ایک ‘مچھلی’ دوسرے ٹڈی۔ یہ حدیث مسنداحمد، ابن ماجہ، دارقطنی، بیہقی وغیرہ نے روایت کی ہے۔دوسری چیز جس کو اس آیت نے حرام قرار دیا ہے وہ خون ہے اور قرآن کریم کی دوسری آیت میں او دماً مسفوحا فرما کر یہ بتلا دیا کہ خون سے مراد بہنے والا خون ہے۔ اس لیے جگر اور تلی باوجود خون ہونے کے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ حدیث مذکور میں جہاں میتہ سے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ فرماا ہے۔ اسی میں جگر اور طحال کو خون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔تیسری چیز ‘‘لحم خنزیر’’ ہے جس کو حرام فرمایا ہے۔ لحم سے مراد اُس کا پورا بدن ہے جس میں چربی، پٹھے وغیرہ سب ہی داخل ہیں۔چوتھے وہ جانور جو غیراللہ کے لیے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر اگر ذبح کے وقت بھی اس پر غیراللہ کا نام لیا ہے تو وہ کھلا شرک ہے، اور یہ جانور باتفاق مُردار کے حکم میں ہے۔جیساکہ مشرکینِ عرب اپنے بتوں کے نام پر ذبح کیا کرتے تھے۔ یا بعض جاہل کسی پیرفقیر کے نام پر، اور اگر بوقتِ ذبح نام تو اللہ تعالیٰ کا لیا، مگر جانور کسی غیراللہ کے نام پر نذر کیا ہو اور اس کی رضامندی کے لیے قربان کیا ہے تو جمہور فقہاء نے اس کو بھی ما اھل بہ لغیراللّٰہ کے تحت حرام قرار دیا ہے۔پانچویں، منخنقۃ، یعنی وہ جانور حرام ہے جو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہو یا خود ہی کسی جال وغیرہ میں پھنس کر دم گھٹ گیا ہو۔ اگرچہ منخنقہ اور موقوذۃ بھی میتہ کے اندر داخل ہیں، مگر اہلِ جاہلیت ان کو جائز سمجھتے تھے، اس لیے خصوصی ذکر کیا گیا۔چھٹے، موقوذۃ، یعنی وہ جانور جو ضربِ شدید کے ذریعہ ہلاک ہوا ہو۔ جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے مارا گیا ہو اور جو تیر کسی شکار کو اس طرح قتل کر دے کہ دھارکی طرف سے نہ لگے ویسے ہی ضرب سے مرجائے وہ بھی موقوذۃ میں داخل ہوکر حرام ہے۔حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں بعض اوقات ‘‘معراض’’ تیر سے شکار کرتا ہوں۔ اگر شکار اس سے مر جائے تو کیا کھا سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر وہ جانور عرضِ تیر کی چوٹ سے مرا ہے تو وہ موقوذۃ میں داخل ہے اس کو مت کھا (اور اگر دھار کی طرف سے لگا ہے اور اس نے زخم کر دیا ہے تو کھا سکتے ہو۔ یہ روایت جصاص نے ‘‘احکام القرآن’’ میں اپنی اسناد سے نقل کی ہے۔ اس میں شرط یہ ہے کہ تیر پھینکنے کے وقت بسم اللہ کہہ کر پھینکا گیا ہو۔جو شکار بندوق کی گولی سے ہلاک ہوگیا اس کو بھی فقہاء نے موقوذۃ میں داخل اور حرام قراردیا ہے۔ امام جصاص نے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے: المقتولۃ بالبندقۃ تلک الموقوذہ، یعنی بندوق کے ذریعہ جو جانور قتل کیا گیا ہے وہ ہی ‘موقوذہ’ اس لیے حرام ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ، شافعی، مالک وغیرہ سب اس پر متفق ہیں۔ (قرطبی) ساتویں مُتردّیہ۔ یعنی وہ جانور جو کسی پہاڑ، ٹیلہ یا اُونچی عمارت یا کنوئیں وغیرہ میں گر کر مر جائے وہ بھی حرام ہے۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اگر کوئی شکار پہاڑ پر کھڑا ہے، اور تم نے تیر بسم اللہ پڑھ کر اس پر پھینکا اور وہ تیر کی زد سے نیچے گر کر مر گیا تو اس کو نہ کھاؤ۔کیونکہ اس میں بھی احتمال ہے کہ اُس کی موت تیر کی زد سے نہ ہو گرنے کے صدمہ سے ہو تووہ مُتردّیہ میں داخل ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی پرندہ پر تیر پھینکا، وہ پانی میں گر گیا تو اس کے کھانے کو بھی اسی بنا پر منع فرمایا ہے کہ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کی موت ڈوبنے سے واقع ہوئی ہو۔اور حضرت عدی بن حاتمؓ نے یہی مضمون رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت فرمایا ہے۔ آٹھویں، نطیحہ، یعنی وہ جانور جو کسی ٹکر اور تصادم سے ہلاک ہوگیا ہو۔ جیسے ریل، موٹر وغیرہ کی زد میں آکر مرجائے یا کسی دوسرے جانور کی ٹکر سے مر جائے۔نویں، وہ جانور جس کو کسی درندہ جانور نے پھاڑ دیا ہو اُس سے مر گیا ہو۔ان نو اقسام کی حُرمت بیان فرمانے کے بعد ایک استثناء ذکر کیا گیا۔ فرمایا: الا ما ذکیتم، یعنی اگر ان جانوروں میں سے تم نے کسی کو زندہ پا لیا اور ذبح کر لیا تو وہ حلال ہوگیا۔ اس کا کھانا جائز ہے۔یہ استثناء شروع کی چار قسموں سے متعلق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ میتہ، اور دَم میں تو اس کا امکان ہی نہیں۔ اور خنزیر اور ما اھل لغیراللّٰہ، اپنی ذات سے حرام ہیں، ذبح کرنا نہ کرنا اُن میں برابر ہے۔ اسی لیے حضرت علیؓ، ابن عباسؓ، حسن بصری، قتادہ وغیرہ سلف صالحین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ استثناء ابتدائی چار کے بعد، یعنی منخنقہ، اور اس کے مابعد سے متعلق ہے۔ اس لیے مطلب اس کا یہ ہوگیا کہ ان تمام صورتوں میں اگر جانور زندہ پایا گیا، زندگی کی علامتیں محسوس کی گئیں اور اسی حالت میں اس کو اللہ کے نام پر ذبح کر دیا گیا تو وہ حلال ہے۔ خواہ وہ منخنقۃ ہو، یا موقوذہ یا متردّیہ، اور نطیحہ یا جس کو درندہ نے پھاڑ ڈالا ہے۔ ان میں سے جس کو بھی آثارِ زندگی محسوس کرتے ہوئے ذبح کرلیا وہ حلال ہوگیا۔ دسویں، وہ جانور حرام ہے جو نصُب پر ذبح کیا گیا ہو۔ نصُب وہ پتھر ہیں جو کعبہ کے گرد کھڑے کیے ہوئے تھے اور اہلِ جاہلیت ان کی پرستش کرتے اور ان کے پاس لاکر جانوروں کی قربانی ان کے لیے کرتے تھے اور اس کو عبادت سمجھتے تھے۔’’ (معارف القرآن ،ج۳ ، ص ۲۹، ادارۃ المعارف کراچی)
ذبح اور ذکاۃ
‘‘ذبح’’ اور ‘‘ذکاۃ’’ اسلام کے اصطلاحی لفظ ہیں۔ ان سے مراد حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے جس سے جسم کا خون اچھی طرح خارج ہو جائے۔ جھٹکا کرنے یا گلا گھونٹنے یا کسی اور تدبیر سے جانور کو ہلاک کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خون کا بیشتر حصہ جسم کے اندر ہی رُک کر رہ جاتا ہے۔ اور وہ جگہ جگہ جم کر گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔ برعکس اِس کے ذبح کرنے کی صورت میں دماغ کے ساتھ جسم کا تعلق دیر تک باقی رہتا ہے جس کی وجہ سے رگ رگ کا خون کھنچ کر باہر آجاتا ہے اور اس طرح پورے جسم کا گوشت خون سے صاف ہو جاتا ہے۔ خون کے متعلق ابھی اُوپر ہی یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ حرام ہے، لہٰذا گوشت کے پاک اور حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خون اس سے جدا ہو جائے۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۴۰، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
‘‘اصل میں ‘اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ’ کے الفاظ آئے ہیں۔ ‘مَیْتَۃٌ’ کی تفصیل کے بعد اِن الفاظ سے واضح ہے کہ یہ صرف تذکیہ ہی ہے جس سے کسی جانور کی موت اگر واقع ہو تو وہ مردار نہیں ہوتا۔ تذکیہ انبیا علیہم السلام کی قائم کردہ سنت ہے اور بطور اصطلاح جس مفہوم کے لیے بولا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے جانور کو زخمی کر کے اُس کا خون اِس طرح بہا دیا جائے کہ اُس کی موت خون بہ جانے کے باعث ہی واقع ہو۔ جانور کو مارنے کی یہی صورت ہے جس میں اُس کا گوشت خون کی نجاست سے پوری طرح پاک ہو جاتا ہے۔ اِس کا اصل طریقہ ذبح یا نحر ہے۔ ذبح گائے، بکری اور اُن کے مانند جانوروں کے لیے خاص ہے اور نحر اونٹ اور اُس کے مانند جانوروں کے لیے۔ ذبح سے مراد یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے حلقوم اور مری (غذا کی نالی) یا حلقوم اور ودجین (گردن کی رگوں) کو کاٹ دیا جائے اور نحر یہ ہے کہ جانور کے حلقوم میں نیزے جیسی کوئی تیز چیز اِس طرح چبھوئی جائے’’(البیان )
استقسام بالازلام
‘‘گیارھویں چیز جس کو اس آیت میں حرام قرار دیا ہے۔ وہ استقسام بالازلام ہے۔ ازلام، زلم کی جمع ہے۔ زلم اس تیر کو کہتے ہیں جو جاہلیت عرب میں اس کام کے لیے مقرر تھا کہ اس کے ذریعہ قسمت آزمائی کی جاتی تھی، اور یہ سات تیر تھے جن میں سے ایک پر نعم ایک پر لاء اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ لکھے ہوتے تھے۔ اور یہ تیر بیت اللہ کے خادم کے پاس رہتے تھے۔جب کسی شخص کو اپنی قسمت یا آئندہ کسی کام کا مفید ہونا یا مضر ہونا معلوم کرنا ہوتا، تو خادمِ کعبہ کے پاس جاتے اور سو روپے اس کو نذرانہ دیتے۔ وہ اِن تیروں کو ترکش سے ایک ایک کر کے نکالتا۔ اگر اس پر لفظ نعم نکل آیا تو سمجھتے تھے کہ یہ کام مفید ہے، اور اگر لاء نکل آیا تو سمجھتے تھے کہ یہ کام نہ کرنا چاہیے۔ حرام جانوروں کے سلسلہ میں اس کا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عرب کی یہ بھی عادت تھی کہ چند آدمی شریک ہوکر کوئی اُونٹ ذبح کرتے مگر گوشت کی تقسیم ہر ایک کے حصہ شرکت کے مطابق کرنے کے بجائے ان جوئے کے تیروں سے کرتے تھے۔ جس میں کوئی بالکل محروم رہتا، کسی کو بہت زیادہ، کسی کو حق سے کم ملتا تھا۔ اس لیے جانوروں کی حرمت کے ساتھ اس طریقۂ کار کی حُرمت کا بیان کردیا گیا۔علماء نے فرمایاکہ آئندہ کے حالات اور غیب کی چیزیں معلوم کرنے کے جتنے طریقے رائج ہیں، خواہ اہلِ جفر کے ذریعہ یا ہاتھ کے نقوش دیکھ کر یا فال وغیرہ نکال کر یہ سب طریقے استقسام بالازلام کے حکم میں ہیں۔اور استقسام بالازلام کا لفظ کبھی قمار یعنی جوئے کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ جس میں قرعہ اندازی یا لاٹری کے طریقوں سے حقوق کی تعین کی جائے۔ یہ بھی بنص قرآن حرام ہے جس کو قرآن کریم نے میسر کے نام سے ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی لیے حضرت سعید بن جبیر، مجاہد اور شعبی نے فرمایا کہ جس طرح عرب ازلام کے ذریعے حصے نکالتے اسی طرح فارس و روم میں شطرنج، چوسر وغیرہ کے مہروں سے یہ کام لیا جاتا ہے۔ وہ ازلام کے حکم میں ہیں۔’’ (معارف القرآن ،ج۳ ،ص۳۱، ادارۃ المعارف کراچی)
وما ذبح علی النصب
نصب
مزاروں پر کیے گئی قربانیاں بھی نصب میں داخل ہیں
‘‘نصب، تھان اور استھان کو کہتے ہیں۔ عرب میں ایسے تھان اور استھان بے شمار تھے جہاں دیویوں، دیوتاؤں، بھوتوں،جنوں کی خوشنودی کے لیے قربانیاں کی جاتی تھیں۔ قرآن نے اس قسم کے ذبیحے بھی حرام قرار دیے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ ان کے اندر حرمت مجرد بارادۂ تقرب و خوشنودی، استھانوں پر ذبح کیے جانے ہی سے پیدا ہوجاتی ہے، اس سے بحث نہیں کہ ان پر نام اللہ کا لیا گیا ہے یا کسی غیراللہ کا۔ اگر غیراللہ کا نام لینے کے سبب سے ان کو حرمت لاحق ہوتی تو ان کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اُوپر وما اھل لغیراللّٰہ بہٖ کا ذکر گزر چکا ہے، وہ کافی تھا۔ ہمارے نزدیک اسی حکم میں وہ قربانیاں بھی داخل ہیں جو مزاروں اور قبروں پر پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں بھی صاحب ِ مزار اور صاحب ِ قبر کی خوشنودی مدنظر ہوتی ہے۔ ذبح کے وقت نام چاہے اللہ کا لیا جائے یا صاحبِ قبر ومزار کا۔ ان کی حُرمت میں دخل نام کو نہیں بلکہ مقام کو حاصل ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘اصل میں لفظ ‘‘نُصُب’’ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ سب مقامات ہیں جن کو غیراللہ کی نذر و نیاز چڑھانے کے لیے لوگوں نے مخصوص کر رکھا ہو، خواہ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مورُت ہو یا نہ ہو۔ ہماری زبان میں اس کا ہم معنی لفظ آستانہ یا استھان ہے جو کسی بزرگ یا دیوتا سے، یا کسی خاص مشرکانہ اعتقاد سے وابستہ ہو۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۴۴۱، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
‘‘ اوپر خدا کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا گیا ہے۔ سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۶ میں قرآن نے واضح فرمایا ہے کہ اُس کی حرمت کا باعث خود جانور کا ‘رِجْس’، یعنی ظاہری نجاست نہیں، بلکہ ذبح کرنے والے کا ‘فِسْق’ ہے۔ خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کرنا چونکہ ایک مشرکانہ فعل ہے، اِس لیے اُسے ‘فِسْق’ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ علم و عقیدہ کی نجاست ہے۔ اِس طرح کی نجاست جس چیز کو بھی لاحق ہو جائے، عقل کا تقاضا ہے کہ اُس کا حکم یہی سمجھا جائے۔ قرآن نے یہ دونوں چیزیں اِسی اصول کے تحت ممنوع قرار دی ہیں’’ (البیان)
‘‘ مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کرکے ایک خاص جگہ، بناتے تھے، جسے نصب (تھان یا آستانہ) کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ وما اُھل بہ لغیراللّٰہ ہی کی ایک شکل تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر، جہاں لوگ طلب حاجات کے لیے جاتے ہیں، اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لیے جانور (مرغا، بکرا وغیرہ) ذبح کرتے ہیں، یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے، یہ ماذبح علی النصب میں داخل ہیں۔’’(احسن البیان ، ص ۱۳۸ ، مکتبہ دارالسلام لاہور)
‘‘ جس جانور کو ذبح تو صرف اللہ کے نام پر کیا گیا ہو مگر دوسرے اوقات میں وہ غیرخدا کی طرف سے منسوب رہا ہو وہ حام نہیں جیسے کہ عبداللہ کی گائے عقیقے کا بکرا ولیمہ کا جانور یا وہ جانور جن سے اولیاء کی ارواح کو ثواب پہنچانا منظور ہو، ان کو غیر وقت ذبح میں اولیاء کے ناموں کے ساتھ نامزد کیا جائے مگر ذبح ان کا فقط اللہ کے نام پر ہو اس وقت کسی دوسرے کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیب ہیں۔ اس آیت میں صرف اسی کو حرام فرمایا گیا ہے جس کو ذبح کرتے وقت غیرخدا کا نام نہ لیا گیا ہو وہابی جو ذبح کی قید نہیں لگاتے وہ آیت کے معنی میں غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول تمام تفاسیرمعتبرہ کے خلاف ہے اور خود آیت ان کے معنی کو بننے نہیں دیتی کیونکہ ما اُھل بہ کو اگر وقت ذبح کے ساتھ مقید نہ کریں تو الا ما ذکیتم کا استثنا اس کو لاحق ہوگا اور وہ جانور جو غیروقت ذبح میں غیرخدا کے نام سے موسوم رہا وہ الا ما ذکیتم سے حلال ہوگا۔ غرض وہابی کو آیت سے سند لانے کی کوئی سبیل نہیں’’ (خزائن العرفان ، ص۱۹۲، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
کھانے پینے کی اشیا میں حلال وحرام کا قاعدہ
‘‘اس مقام پر یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کی جو قیود شریعت کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں اُن کی اصل بنیاد اُن اشیاء کے طبی فوائد یا نقصانات نہیں ہوتے، بلکہ اُن کے اخلاقی فوائد و نقصانات ہوتے ہیں۔ جہاں تک طبیعی اُمور کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اُن کو انسان کی اپنی سعی و جستجو اور کاوش و تحقیق پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ دریافت کرنا انسان کا اپنا کام ہے کہ مادّی اشیاء میں سے کیا چیزیں اس کے جسم کو غذائے صالح بہم پہنچانے والی ہیں اور کیا چیزیں تغذیہ کے لیے غیر مفید یا نقصان دہ ہیں۔ شریعت اِن اُمور میں اس کی رہنمائی کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لیتی۔ اگر یہ کام اس نے اپنے ذمہ لیا ہوتا تو سب سے پہلے سنکھیا کو حرام کیا ہوتا۔ لیکن آپ دیکھتے ہی ہیں کہ قرآن و حدیث میں اُس کا، یا اُن دوسرے مفردات و مرکبات کا، جو انسان کے لیے سخت مہلک ہیں، سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ شریعت غذا کے معاملہ میں جس چیز پر روشنی ڈالتی ہے وہ دراصل اُس کا یہ پہلو ہے کہ کس غذا کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر ہوتا ہے، اور کون سی غذائیں طہارتِ نفس کے لحاظ سے کیسی ہیں، اور غذا حاصل کرنے کے طریقوں میں سے کون سے طریقے اعتقادی و نظری حیثیت سے صحیح یا غلط ہیں۔ چونکہ اس کی تحقیق کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے، اور اسے دریافت کرنے کے ذرائع انسان کو میسر ہی نہیں ہیں اور اسی بنا پر انسان نے اکثر ان اُمور میں غلطیاں کی ہیں، اس لیے شریعت صرف اِنھی اُمور میں، اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے انھیں اس وجہ سے حرام کیا ہے کہ یا تو اخلاق پر ان کا برا اثر پڑتا ہے، یا وہ طہارت کے خلاف ہیں، یا ان کا تعلق کسی فاسد عقیدہ سے ہے۔ برعکس اس کے جن چیزوں کو اس نے حلال کیا ہے ان کی حلّت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان برائیوں میں سے کوئی برائی اپنے اندر نہیں رکھتیں۔’’(تفہیم القرآن،، جلد۱، ص۴۴۱، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
‘استقسام بالازلام’ کی نوعیت
‘‘وان تستقسموا بالازلام، استقسام کے معنی ہیں حصہ یا قسمت یا تقدیر معلوم کرنا۔ ازلام، جوئے یا فال کے تیروں کو کہتے ہیں۔ عرب میں فال کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ اپنے زعم کے مطابق غیب کے فیصلے معلوم کرتے تھے اور جوئے کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ گوشت یا کسی چیز کے حصے حاصل کرتے تھے۔ ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ‘خمیرومیسر’ کے تحت بیان کر آئے ہیں کہ عرب شراب نوشی کی مجلسیں منعقد کرتے، شراب کے نشے میں جس کا اُونٹ چاہتے، ذبح کردیتے۔ مالک کو منہ مانگے دام دے کر راضی کرلیتے۔ پھر اس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ گوشت کی جو ڈھیریاں جیتتے جاتے ان کو بھونتے، کھاتے، کھلاتے اور شرابیں پیتے اور بسااوقات اسی شغل بدمستی میں ایسے ایسے جھگڑے کھڑے کر لیتے کہ قبیلے کے قبیلے برسوں کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہوجاتے اور سینکڑوں جانیں اس کی نذر ہوجاتیں۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہاں استقسام بالازلام سے یہی دوسری صورت مراد ہے۔ذٰلکم فسقٌ، ذٰلِکم کا اشارہ اُوپر ذکر کی ہوئی تمام چیزوں کی طرف ہے اور فسق کا لفظ یہاں عام فقہی مفہوم میں نہیں ہے بلکہ قرآنی مفہوم میں ہے۔ قرآن میں یہ لفظ کھلی ہوئی نافرمانی، سرکشی، کفر اور شرک سب کی تعبیر کے لیے آیا ہے۔ ابلیس کے متعلق ہے: ففسق عن امر ربہ۔’’(تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘ تستقسموا بالازلام کے دو معنی کیے گئے ہیں: ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا، پہلے معنی کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لیے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا، دوسرے معنی کے رُو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے مراد تیر ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انھوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھے تھے۔ ایک افعل (کر) دوسرے میں لاتفعل (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔افعل والا تیر نکل آتا تو وہ کام کر لیا جاتا، لاتفعل نکلتا تو نہ کرتے۔ اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور استمداد لغیراللہ کی شکل ہے، اس لیے اسے بھی حرام کر دیا گیا۔ استقسام کے معنی ہی طلبِ قسمت ہیں۔ یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔’’ (احسن البیان ، ص ۱۳۸ ، مکتبہ دارالسلام لاہور)
‘‘ اِس آیت میں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے اس کی تین بڑی قسمیں دُنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حکم ان تینوں پر حاوی ہے:(۱) مشرکانہ فال گیری، جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پوچھا جاتا ہے، یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے، یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ مشرکین مکّہ نے اِس غرض کے لیے کعبہ کے اندر ہُبل دیوتا کے بت ُ کو مخصوص کر رکھا تھا۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ اور فقرے کندہ تھے۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو، یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پوچھنا ہو، یا خونُ کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو، غرض کوئی کام بھی ہو، اس کے لیے ہُبل کے پانسہ دار (صاحب القداح) کے پاس پہنچ جاتے، اس کا نذرانہ پیش خطاب کرتے اور ہُبل سے دُعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پھر پانسہ دار اِن تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتا، اور جو تیر بھی فال میں نکل آتا اس پر لکھے ہوئے لفظ کو ہُبل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔(۲) توہم پرستانہ فال گیری، جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کے بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلہء علم غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل، نجوم، جفر، مختلف قسم کے شگون اور نچھتر، اور فال گیری کے بے شمار طریقے اس صنف میں داخل ہیں۔(۳) جوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نکل آیا ہے لہٰذا ہزارہا آدمیوں کی جیب سے نکلا ہوا روپیہ اُس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمّہ کے بہت سے حل صحیح ہیں، مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اُس حل کے مطابق نکل آیا ہو جو صاحب معمّہ کے صندوق میں بند ہے۔ اِن تین اقسام کو حرام کر دینے کے بعد قرعہُ اندازی کی صرف وہ سادہ صورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے،اور فیصلہ کرنے والے کے لیے ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے، اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس صورت میں ان کی رضامندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جا سکتا ہے یا مثلاً دو کام یکساں دُرست ہیں، اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہو گیا ہے کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے۔ اس صورت میں ضرورت ہو تو قرعہُ اندازی کی جا سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم ایسے مواقع پر یہ طریقہ اختیار فرماتے تھے جبکہ دو برابر کے حق داروں کے درمیان ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آجاتی تھی اور آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ خود ایک کو ترجیح دیں گے تو دُوسرے کو ملال ہوگا۔’’(تفہیم القرآن،ج۱ ،ص ۴۴۲، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
‘‘الیوم یئس الذین کفروا من دینکم ۔۔۔۔
کفار سے معاشرتی انقطاع کا اعلان
‘‘الیوم سے مراد کوئی معین دن نہیں ہے بلکہ وہ زمانہ ہے جس میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ کفار کے اس دین سے مایوس ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اب تک تو وہ اس طمع خام میں مبتلا رہے ہیں کہ وہ اس کو یا تو مغلوب کرلیں گے یا ‘کچھ لو اور کچھ دو’ کے اصول پر کوئی ایسا سمجھوتہ کرلیں گے کہ دونوں کا نباہ ہوسکے۔ لیکن اب ان کی اس طمع خام کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے اشتراک کو معاشرتی ارتباط میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ اگر صورت یہ پیدا ہوجائے کہ ایک کے ہاں جو چیزیں حلال و طیب ہوں، دوسرے کے ہاں وہ خبیث و حرام قرار دے دی جائیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ دونوں میں مکمل معاشرتی انقطاع کا اعلان ہوگیا اور اب ان دونوں کے مل بیٹھنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے۔ قدرتی طور پر اس چیز نے ان کو اسلام اور مسلمانوں سے آخری درجے میں مایوس کردیا۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی……
تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت
‘‘ تکمیل دین سے مراد اصل دین کی تکمیل ہے اور اتمامِ نعمت سے مراد اس آخری شریعت کا اتمام ہے۔ جہاں تک اصل دین کا تعلق ہے اس کا آغاز تو حضرت آدم ؑ سے ہوا ہے۔ زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ، حالات اور حکمتِ الٰہی کے تقاضوں کے مطابق، مختلف انبیا و رسل پر یہ اترتا رہا یہاں تک کہ خاتم الانبیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کامل ہوگیا۔ اس سے پہلے جو دین آئے وہ اسی دین کے اجزا تھے۔ ان کی حیثیت پورے دین کی نہیں تھی۔ پورے دین کی حیثیت صرف اسی دین کو حاصل ہے۔جہاں تک اس آخری اُمت پر اللہ کی نعمت کا تعلق ہے اس کا آغاز غارِحرا کی پہلی وحی سے ہوا اور درجہ بدرجہ ۲۳سال کی مدت میں اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا اتمام فرمایا۔ ورضیت لکم الاسلام دیناً میں اس دین کے لیے اللہ تعالیٰ کی اس پسندیدگی اور انتخاب کا اظہار ہے۔ اس پسندیدگی کے اظہار سے بالواسطہ یہودیت اور نصرانیت کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار بھی ہوگیا کہ وہ اللہ کے دین نہیں بلکہ دین سے انحراف کی مختلف شکلیں ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پہلی وحی سے جو دین تمھیں دینا شروع کیا تھا، اُسے آج پورا کر دیا ہے۔ یعنی یہودیت اور نصرانیت کو نہیں، بلکہ اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ اِس لیے کہ وہ اللہ کا دین نہیں، بلکہ دین سے انحراف کی مختلف صورتیں ہیں۔’’( البیان)
‘‘الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون یعنی آج کے دن کفار تمھارے دین پر غالب آنے سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اس لیے اب تم اُن سے کوئی خوف نہ رکھو البتہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔یہ آیت ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع کے یومِ عرفاہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی جبکہ مکہ اور تقریباً سارا عرب فتح ہوچکا تھا۔ پورے جزیرۃ العرب پر اسلامی قانون جاری تھا۔ اس پر فرمایا کہ اب سے پہلے جو کفار یہ منصوبے بنایا کرتے تھے کہ مسلمانوں کی جماعت ہمارے مقابلہ میں کم بھی ہے اور کمزور بھی ان کو ختم کر دیا جائے۔اب نہ اُن میں یہ حوصلے باقی رہے، نہ ان کی وہ طاقت رہی۔ اس لیے مسلمان اُن سے مطمئن ہوکر اپنے رب کی اطاعت و عبادت میں لگ جائیں۔’’ (معارف القرآن ، ج۳ ، ص ۳۲، ادارۃ المعارف کراچی)
ختم نبوت کی دلیل اور عقید ہ امامت کا رد
‘‘اکملت لیکم دینکم، یہ اکمالِ دین بہ لحاظ قوت بھی ہے، اور بہ لحاظ احکام و قواعد بھی۔
اتممت علیکم نعمتی، یہ اتمامِ نعمت اسی دین کی تکمیل سے ہوا، اس اکمالِ دین و اتمامِ نعمت کے بعد ظاہر ہے کہ اب دین میں کسی ترمیم، اضافہ، تصرف کی گنجائش نہ رہی، نہ کسی اور نبی کی بعثت کی حاجت، ختم نبوت پر اگر کوئی دلیل صریح و مستقل نہ موجود ہوتی تو خود یہی آیت بھی کافی ہوسکتی تھی، عقیدۂ امامت کا، جو درحقیقت اجرائے نبوت ہی کی ایک شکل ہے، رد بھی یہیں سے نکل آتا ہے۔’’ (تفسیر ماجدی ، ج۱ ،ص ۸۵۱، لکھنو)
الیوم اکملت ……………… لکم الاسلام دیناً
‘‘اس آیت کے نزول کی خاص شان ہے، عرفہ کا دن ہے جو تمام سال کے دنوں میں سیدالایام ہے اور اتفاق سے یہ عرفہ جمعہ کے دن واقع ہوا۔ جس کے فضائل معروف ہیں۔ مقام میدانِ عرفات کا جبل رحمت کے قریب ہے، جو عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزولِ رحمت کا خاص مقام ہے۔ وقت عصر کے بعد کا ہے، جو عام دنوں میں بھی مبارک وقت ہے اور خصوصاً یومِ جمعہ میں کہ قبولیت دعا کی گھڑی بہت سی روایات کے مطابق اسی وقت آتی ہے اور عرفہ کے روز اور زیادہ خصوصیت کے ساتھ دعائیں قبول ہونے کا خاص وقت ہے۔حج کے لیے مسلمانوں کا سب سے بڑا پہلا عظیم اجتماع ہے جس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرامؓ شریک ہیں۔ رحمۃ للعالمینؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ جبلِ رحمت کے نیچے اپنی ‘‘ناقۂ عضباء’’ پر سوار ہیں اور حج کے اب بڑے رکن یعنی وقوف عرفات میں مشغول ہیں۔ان فضائل و برکات اور رحمتوں کے سایہ میں یہ آیت کریمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی ہے۔ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ جب آپ پر یہ آیت بذریعہ وحی نازل ہوئی تو حسبِ دستور وحی کا ثقل اور بوجھ اتنا محسوس ہوا کہ اُونٹنی اس سے دبی جارہی تھی یہاں تک کہ مجبور ہوکر بیٹھ گئی۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تقریباً قرآن کی آخری آیت ہے۔ اس کے بعد کوئی آیت احکام سے متعلق نازل نہیں ہوئی۔ صرف ترغیب و ترہیب کی چند آیتیں ہیں جن کا نزول اس آیت کے بعد بتلایا گیا ہے۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں صرف اکیاسی روز بقیدِ حیات رہے، کیونکہ ۱۰ہجری کی نویں ذی الحجہ میں یہ آیت نازل ہوئی اور ۱۱ہجری کی بارھویں ربیع الاول کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔یہ آیت جو اس خاص شان اور اہتمام سے نازل ہوئی اس کا مفہوم بھی ملّت اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری اور بھاری انعام اور اسلام کا طغریٰ امتیاز ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دین حق اور اور نعمتِ الٰہی کا انتہائی معیار جو اس عالم میں بنی نوع انسان کو عطا ہونے والا تھا، آج وہ مکمل کر دیا گیا۔ گویا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے جو دین حق اور نعمتِ الٰہیہ کا نزول اور ترویج شروع کی گئی تھی اور ہر زمانہ اور ہر خطہ کے مناسبِ حال اس نعمت کا ایک حصہ اولادِ آدم کو عطا ہوتا رہا۔ آج وہ دین اور نعمت مکمل صورت میں خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت کو عطا کردی گئی۔اس میں تمام انبیاء و رُسل کے زمرہ میں سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت اور امتیازی شان کا تو اظہار ہے ہی اس کے ساتھ تمام اُمتوں کے مقابلہ میں اُمت مرحومہ کی بھی ایک خاص امتیازی شان کا واضح ثبوت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ چند علماء یہود، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ تمہارے قرآن میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر یہود پر نازل ہوتی تو وہ اس کے نزول کا ایک جشن عید مناتے۔ فاروق اعظمؓ نے سوال کیا کہ وہ کون سی آیت ہے۔ انھوں نے یہی آیت الیوم اکملت لیکم دینکم پڑھ دی۔حضرت فاروق اعظمؓ نے اُن کے جواب میں فرمایا کہ ہاں ہم جانتے ہیں کہ یہ آیت کس جگہ اور کس دن نازل ہوئی۔ اشارہ اسی بات کی طرف تھا کہ وہ دن ہمارے لیے دوہری عید کا دن تھا ایک عرفہ دوسرے جمعہ۔’’ (معارف القرآن ،ج۳ ، ص ۳۳، ادارۃ المعارف کراچی)
عید اور تہوار منانے کا اسلامی اصول
‘‘فاروق اعظمؓ کے اس جواب میں ایک اسلامی اصول کی طرف بھی اشارہ ہے جو تمام دنیا کی اقوام و مذاہب میں صرف اسلام ہی کا طغریٰ امتیاز ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں ہرقوم اور ہرمذہب و ملّت کے لوگ اپنے اپنے حالات و خصوصیات کے ماتحت اپنے خاص خاص تاریخی واقعات کے دنوں کی یادگاریں مناتے ہیں، اور ان ایام کو اُن کے یہاں ایک عید یا تہوار کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔کہیں قوم کے بڑے آدمی کی پیدائش یا موت کا یا تخت نشینی کا دن منایا جاتا ہے اور کہیں کسی خاص ملک یا شہر کی فتح یا اور کسی عظیم تاریخی واقعہ کا جس کا حاصل اشخاص خاص کی عزت افزائی کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام اشخاص پرستی کا قائل نہیں ہے۔ اس نے ان تمام رسومِ جاہلیت اور شخصی یادگاروں کو چھوڑ کر اصول اور مقاصد کی یادگاریں قائم کرنے کا اصول بنا دیا۔حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ‘‘خلیل اللہ’’ کا خطاب دیا گیا اور قرآن کریم میں ان کے امتحانات اور ان سب میں مکمل کامیابی کو سراہا گیا۔ واذ ابتلٰی ابراھیم ربہ بکلماتٍ فاتمّھن،کا یہی مفہوم ہے لیکن نہ ان کی پیدائش یا موت کا دن منایا گیا نہ ان کے صاحبزادے اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کی پیدائش و موت یا دوسرے حالات کی کوئی یادگار قائم کی گئی۔ہاں اُن کے اعمال میں جو چیزیں مقاصدِ دین سے متعلق تھیں ، ان کی یادگاروں کو نہ صرف محفوظ رکھا گیا، بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے دین و مذہب کا جُز اور فرض و واجب قرار دے دیا گیا۔ قربانی، ختنہ، صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا، منیٰ میں تین جگہ کنکرئیں مارنا۔ یہ سب انھی بزرگوں کے ایسے افعال کی یادگار ہیں جو انھوں نے اپنے نفسانی جذبات اور انسان کے طبعی تقاضوں کو اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے مقابلے میں کچلتے ہوئے ادا کیے اور جن میں ہر قرن اور ہر زمانے کے لوگوں کو اس کا سبق ملتا ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اپنی محبوب سے محبوب چیز کو قربان کردینا چاہیے۔اسی طرح اسلام میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کی موت و حیات یا شخصی حالات کا کوئی دن منانے کے بجائے ان کے اعمال کے دن منائے گئے۔ جو کسی خاص عبادت سے متعلق ہیں جیسے شبِ برأت، رمضان المبارک، شب قدر، یومِ عرفہ، یومِ عاشورہ وغیرہ۔ عیدیں صرف دو رکھی گئیں، وہ بھی خالص دینی لحاظ سے۔ پہلی عید رمضان المبارک کے اختتام اور اشہرحج کے شروع ہونے پر رکھی گئی اور دوسری عید عبادتِ حج سے فراغت کے بعد رکھی گئی۔خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ کے اس جواب نے یہ بتلا دیا کہ یہود و نصاریٰ کی طرح ہمیں عیدیں تاریخی وقائع کے تابع نہیں کہ جس تاریخ میں کوئی اہم واقعہ پیش آگیا اس کو عید مناویں۔ جیساکہ جاہلیت اولیٰ کی رسم تھی اور آج کل کی جاہلیت جدیدہ نے تو اس کو بہت ہی پھیلا دیا ہے۔ یہاں تک کہ دوسری قوموں کی نقل کرکے مسلمان بھی اُس میں مبتلا ہونے لگے۔عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ پیدائش کی عید میلاد منائی۔ ان کو دیکھ کر کچھ مسلمانوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر عید میلادالنبیؐ کے نام سے ایک عید بنا دی۔ اسی روز بازاروں میں جلوس نکالنے اور اس میں طرح طرح کی خرافات کو اور رات میں چراغاں کو عبادت سمجھ کر کرنے لگے۔ جس کی کوئی اصل صحابہؓ و تابعینؓ اور اسلافِ اُمت کے عمل میں نہیں ملتی۔اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دن منانے کا طریقہ اُن قوموں میں تو چل سکتا ہے کہ جو باکمال افراد اور ان کے حیرت انگیز کارناموں کے لحاظ سے مفلس ہیں۔ دو چار شخصیتیں کل قوم میں اس قابل ہوتی ہیں، اور اُن کے بھی کچھ مخصوص کام ایسے ہوتے ہیں، جن کی یادگار منانے کو قومی فخر سمجھتے ہیں۔اسلام میں یہ دن منانے کی رسم چلے تو ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد تو انبیائے علیہم السلام ہیں جن میں سے ہر ایک کی نہ صرف پیدائش بلکہ ان کے حیرت انگیز کارناموں کی طویل فہرست ہے جن کے دن منانے چاہئیں۔ انبیاء کے بعد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو دیکھا جائے--- تو آپ کی زندگی کا شاید کوئی دن بھی ایسے کارناموں سے خالی نہیں ۔۔کا دن منانا چاہیے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک کے وہ کمالات جنھوں نے پورے عرب میں آپ کو امین کا لقب دیا تھا۔ کیا وہ ایسے نہیں ہیں کہ مسلمان ان کی یادگار منائیں۔ پھر نزولِ قرآن، ہجرت، غزوۂ بدر، اُحد، خندق، فتح مکہ، حنین اور تبوک اور تمام غزوات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ایک بھی ایسا نہیں کہ جس کی یادگار نہ منائی جائے۔ اسی طرح آپ کے ہزاروں معجزات یادگار منانے کی چیزیں ہیں، اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ کی حیاتِ طیبہ کا ہر دن نہیں ہر گھنٹہ ایک یادگار منانے کا داعیہ رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرامؓ وہ ہیں جن میں سے ہر ایک درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ معجزہ ہے کیا یہ--- بے انصافی نہیں ہوگی کہ ان کی یادگاریں نہ منائی جائیں اور یہ رسم چل پڑے تو پھر صحابہ کرام کے اُمت کے اکابر، اولیاء اللہ اور علما و مشائخ پر نظر ڈالو، جو کروڑوں کی تعداد میں ہوں گے۔ اگر یادگاری دن منائے جائیں تو اُن کو چھوڑ دینا کیا ان کے حق میں بے انصافی اور قدر ناشناسی نہیں ہوگی۔ اور اگر یہ طے کرلیا جائے کہ سبھی کے یادگاری دن منائے جائیں تو سال بھر میں ایک دن بھی ہمارا یادگار منانے سے خالی نہیں رہے۔ بلکہ ہر دن کے ہر گھنٹہ میں کئی کئی یادگاریں اور کئی کئی عیدیں منانی پڑیں گی۔یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے اِس رسم کو جاہلیت کی رسم قرار دے کر نظرانداز کیا ہے۔ حضرت فاروق اعظمؓ کے اس فرمان میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔’’ (معارف القرآن ،ج۳ ، ص ۳۳، ادارۃ المعارف کراچی)
عید میلاد مناناجائز ہے
‘‘بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نزول کو عید مناتے۔ فرمایا کون آیت اس نے یہی آیت الیوم اکملت لکم پڑھی۔ آپ نے فرمایا: میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔ آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لیے وہ دن عید ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا۔ آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ مسئلہ اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کامیابی کے دن کو خوشی کا دن منانا جائز اور صحابہ سے ثابت ہے ورنہ حضرت عمرو ابن عباس رضی اللہ عنہم صاف فرما دیتے کہ جس دن کوئی خوشی کا واقعہ ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانس ہم بدعت جانتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ عید میلاد منانا جائز ہے کیونکہ وہ اعظم نعم الٰہیہ کی یادگار و شکرگزاری ہے’’۔ (خزائن العرفان،ص ۱۹۳، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
امت مسلمہ کے لیے تین انعامات ، اکمال دین ، اتمام نعمت ، شریعت اسلام
‘‘اس آیت میں حق تعالیٰ شانہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمتِ مرحومہ کو تین خصوصی انعام عطا فرمانے کی بشارت دی ہے۔ ایک اکمالِ دین، دوسرے اتمامِ نعمت، تیسرے شریعتِ اسلام کا اس اُمت کے لیے انتخاب۔اکمالِ دین کے معنی ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ نے یہ بیان فرمائے ہیں کہ دین کے تمام احکام کو مکمل کردیا گیا۔ اب نہ اس میں کسی زیادتی کی ضرورت باقی ہے، نہ منسوخ ہوکر کمی کا احتمال، کیونکہ اس کے بعد ہی متصل سلسلۂ وحی وفات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منقطع ہونے والا تھا اور بغیر وحی الٰہی کے قرآن کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا اور جو بظاہر زیادتی احکام کی اصولِ اجتہاد کے تحت فقہا و مجتہدین کی طرف سے ہوئی۔ وہ درحقیقت زیادتی نہیں بلکہ احکامِ قرانی کی توضیح و بیان ہے۔اور اتمامِ نعمت سے مراد مسلمانوں کا غلبہ اور عروج اور ان کے مخالفین کا مغلوب و مفتوح ہونا ہے، جس کا ظہو ر مکہ مکرمہ کی فتح اور رسومِ جاہلیت کے مٹانے سے اوراس سال حج میں کسی مشرک کے شریک نہ ہونے کے ذریعہ ہوا۔یہاں الفاظ قرآن میں یہ بات بھی قابلِ نظر ہے کہ دین کے ساتھ لفظِ اکمال استعمال فرمایا گیا اور نعمت کے ساتھ لفظِ اتمام، حالانکہ یہ دونوں لفظ بظاہر ایک دوسرے کے ہم معنی اور مُرادف سمجھے جاتے ہیں۔لیکن درحقیقت ان دونوں کے مفہوم میں ایک فرق ہے جس کو مفردات القرآن میں امام راغب اصفہانیؒ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ کسی چیز کا ‘‘اکمال اور تکمیل’’ اس کو کہتے ہیں کہ اُس چیز سے جو غرض اور مقصود تھا وہ پورا ہوگیا۔ اور لفظِ اتمام کے معنی یہ ہیں کہ اب دوسری چیز کی ضرورت اور حاجت نہیں رہی۔ اس لیے ‘‘اکمالِ دین’’ کا حاصل یہ ہوا کہ قانونِ الٰہی اور احکامِ دین کے اس دنیا میں بھیجنے کا جو مقصد تھا وہ آج پورا کر دیا گیااور اتمامِ نعمت کا مطلب یہ ہوا کہ اب مسلمان کسی کے محتاج نہیں۔ ان کو خود حق تعالیٰ جل شانہ نے غلبہ، قوت اور اقتدار عطا فرما دیا جس کے ذریعہ وہ اس دین حق کے احکام کو جاری اور نافذ کر سکیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس آیت میں دین کی نسبت تو مسلمانوں کی طرف فرمائی گئی ہے اور نعمت کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف، وجہ یہ ہے کہ دین کا ظہور اُن اعمال و افعال کے ذریعہ ہوتا ہے جو اُمت کے افراد کرتے ہیں اور نعمت کی تکمیل براہِ راست حق تعالیٰ کی طرف سے ہے (ابن قیم، تفسیر القیم)اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اکمالِ دین آج ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کا دین ناقص تھا۔ بلکہ جیسا تفسیر بحرمحیط میں بحوالہ قفال مروزی رحمۃ اللہ علیہ نقل کیا ہے کہ دین تو ہر نبی و رسول کا اُس کے زمانہ کے اعتبار سے کامل و مکمل تھا، یعنی جس زمانہ میں جس پیغمبر پر کوئی شریعت و دین اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا اُس زمانہ اور اُس قوم کے لحاظ سے وہی کامل و مکمل تھا۔ لیکن اللہ جل شانہ کے علم میں یہ تفصیل پہلے سے تھی کہ جو دین اس زمانہ اور اس قوم کے لیے مکمل ہے وہ اگلے زمانہ اور آنے والی قوموں کے لیے مکمل نہ ہوگا، بلکہ اس کو منسوخ کرکے دوسرا دین و شریعت نافذ کی جائے گی۔ بخلاف شریعت اسلام کے جو سب سے آخر میں نازل کی گئی کہ وہ ہر جہت اور ہرلحاظ سے کامل و مکمل ہے۔ نہ وہ کسی خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ کسی خاص خطہ، ملک یا قوم کے ساتھ بلکہ قیامت تک ہرزمانہ اور ہرخطہ اور ہر قوم کے لیے یہ شریعت کامل و مکمل ہے۔تیسرا انعام جو اس اُمت مرحومہ کے لیے اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس اُمت کے لیے اللہ جل شانہ نے اپنے تکوینی انتخاب کے ذریعہ دین اسلام کو منتخب فرمایا جو ہرحیثیت سے کامل و مکمل ہے اور جس پر نجات کا انحصار ہے۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس آیت نے یہ بتلا دیا کہ اُمت مرحومہ کے لیے دین اسلام ایک بڑی نعمت ہے جو ان کو بخشی گئی ہے اور یہی دین ہے جو ہر حیثیت اور جہت سے کامل و مکمل ہے، نہ اس کے بعد کوئی نیا دین آئے گا اور نہ اس میں کوئی کمی بیشی کی جائے گی۔یہی وجہ تھی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عام مسلمان اس کو سن کر خوش ہو رہے تھے مگر حضرت فاروق رضی اللہ عنہ پر گریہ طاری تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے رونے کی وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ اس آیت سے اس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ کا قیام اس دنیا میں بہت کم ہے کیونکہ تکمیل کے ساتھ ارسال رسول کی ضرورت بھی پوری ہوچکی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی۔ (تفسیر ابن کثیر و بحرمحیط وغیرہ)۔ چنانچہ آنے والے وقت نے بتلا دیا کہ اس کے صرف اکیاسی روز بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔’’ (معارف القرآن ،ج۳، ص ۳۶، ادارۃ المعارف کراچی)
اکمال دین سے مراد
‘‘ دین کو مکمل کر دینے سے مُراد اُس کو ایک مستقل نظامِ فکروعمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اُصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ نعمت تمام کرنے سے مراد نعمت ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو، اس لیے میں نے اسے درجۂ قبولیت عطا فرماتا ہے اور تمھیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کا جواُ تمھاری گردنوں پر باقی نہیں رہا۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبوری تمھیں لاحق نہیں رہی ہے۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے مگر اندازِ کلام سے خود بخود یہ بات نکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہیں تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حدُود پرقائم رہنے میں تمھاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۴۴، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
الیو م اکملت ۔۔۔اس آیت کا نزول
‘‘بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ الیوم اکملت لکم ۔۔۔،حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ نازل تو اسی سلسلے میں حجۃ الوداع سے پہلے ہوئی ہے لیکن اس بشارت کا اعلانِ عام چونکہ حجۃ الوداع ہی کے موقع پر ہوا اس وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہوا کہ اس کا نزول اسی موقع پر ہوا ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۵۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن جس سلسلۂ کلام میں یہ واقع ہوئی ہے وہ صلح حدیبیہ سے متصل زمانہ ( ۶ھ ) کا ہے اور سیاقِ عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلۂ کلام اِن فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انھیں یہاں لا کر نصب کر دیا گیا۔ میرا قیاس یہ ہے، والعلم عنداللہ کہ ابتداًء یہ آیت اِسی سیاقِ کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۴۴۴، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
فمن اضطر فی مخمصۃ غیر متجانفٍ لاثمٍ
اضطرار کی شرعی حد
‘‘ مخمصۃ کے معنی بھوک کے ہیں۔ بھوک سے مضطر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی بھوک کی ایسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے کہ موت یا حرام میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے سوا کوئی اور راہ بظاہر کھلی ہوئی بات ہی نہ رہ جائے۔ ایسی حالت میں اس کو اجازت ہے کہ حرام چیزوں میں سے بھی کسی چیز سے فائدہ اُٹاھ کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ غیرمتجانف کی قید اسی مضمون کو ظاہر کر رہی ہے جو دوسرے مقام میں غیرباغٍ ولا عادٍ سے ادا ہوا ہے، یعنی نہ تو دل سے چاہنے والا بنے اور نہ سدّرمق کی حد سے آگے بڑھنے والا۔ مخمصۃ کی قید سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ جہاں دوسرے غذائی بدل موجود ہوں وہاں مجرد اس عذر پر کہ شرعی ذبیحہ کا گوشت میسر نہیں آتا، جیساکہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ملکوں کاحال ہے، ناجائز کو جائز بنا لینے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ گوشت زندگی کے بقا کے لیے ناگزیرنہیں ہے۔ دوسری غذاؤں سے نہ صرف زندگی بلکہ صحت بھی نہایت اعلیٰ معیار پر قائم رکھی جاسکتی ہے۔ غیر متجانفٍ لاثمٍ کی قید اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ رخصت بہرحال رخصت ہے اور حرام بہرشکل حرام ہے۔ نہ کوئی حرام چیز شیرمادر بن سکتی ہے نہ رخصت کوئی ابدی پرواز ہے۔ اس وجہ سے یہ بات کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ رفع اضطرار کی حدسے آگے بڑھے ۔اگر ان پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شخص کسی حرام سے اپنی زندگی بچا لے گا تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اگر اس اجازت سے فائدہ اُٹھا کر اپنے حظ نفس کی راہیں کھولے گا تو اس کی ذمہ داری خود اس پر ہے، یہ اجازت اس کے لیے قیامت کے دن عذر خواہ نہیں بنے گی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۴۵۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
یسئلونک ماذا اُحل…… سریع الحساب
سدھائے ہوئے جانوروں کے پکڑے ہوئے شکار کا حکم
‘‘یسئلونک ماذا اُحل لھم،سوال قرآن کے معروف اسلوبِ بیان کے مطابق اختصار کے ساتھ نقل ہوا ہے لیکن جواب بتا رہا ہے کہ سوال سدھائے اور سکھلائے ہوئے جانوروں کے پکڑے ہوئے شکار سے متعلق ہے کہ اگر وہ شکار پکڑیں اور شکار ذبح کی نوبت آنے سے پہلے ہی دم توڑ دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوا ہوگا کہ اُوپر والی آیت میں درندے کے پھاڑے ہوئے جانور کو صرف اس صورت میں جائز بتایا ہے جب اس کو زندہ حالت میں ذبح کرلیا جائے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
تحریم و تحلیل کے باب میں ایک کلیہ
‘‘قل احل لکم الطیبت،یہ جواب کا صرف ایک حصہ ہے جو ایک کلیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کا یہ بھی ایک اسلوب ہے کہ وہ کسی سوال کا جواب دیتا ہے تو اس کا آغاز بالعموم جامع بات سے کرتا ہے کہ جواب صرف سوال ہی تک محدود نہ رہ جائے بلکہ ایک وسیع دائرے میں سائل کی رہنمائی کرے۔ چنانچہ پہلے فرمایا کہ تمہارے لیے ‘طیبات’ حلال ہیں۔ ‘طیبات’ کا لفظ خبائث کا ضد ہے۔ ‘طیبات’ اچھی ،ستھری اور پاکیزہ چیزوں کو کہتے ہیں۔ سوال چونکہ جانوروں سے متعلق ہے اس وجہ سے اس سے مراد وہ جانور ہوں گے جو اوّل تو خود اپنے مزاج، اپنی سرشت اور انسان کے لیے اپنی افادیت اور اپنے اثرات کے لحاظ سے اچھے اور پاکیزہ ہوں۔ ثانیاً ان کو اللہ کے نام پر ذبح کرلیا گیا ہو۔ اس طرح اس سے وہ تمام جانور نکل جائیں گے جو اپنے مزاج اور سرشت کے اعتبار سے انسان کے صالح مزاج سے مناسبت رکھنے والے نہ ہوں۔ مثلاً خنزیر، کتے، بندر، درندے اور شکاری پرندے وغیرہ۔ یا مزاج سے مناسبت رکھنے والے تو ہوں لیکن کسی خارجی سبب سے ان کے اندر خبث و فساد پیدا ہوگیا ہو۔ مثلاً جانور مرگیا یا غیراللہ کے نام پر کسی استھان پر اس کو ذبح کیا گیا ہو۔ یہ خبائث میں داخل ہیں۔ قرآن کے اس جواب سے یہ رہنمائی ملی کہ شکار کیے ہوئے جانوروں میں بھی حلال صرف طیبات ہیں، خبائث اس حلت سے خارج ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘یسئلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطیبت۔۔۔ اس جواب میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ مذہبی طرزِ خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیت کے شکار ہوتے رہے ہیں کہ دُنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے۔ اس ذہنیت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلّط ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلال اشیاء اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اورہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنوع تو نہیں۔ یہاں قرآن اسی ذہنیت کی اصلاح کرتا ہے۔ پوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انھیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلال ہیں۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل اُلٹ گیا۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہے بجز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اُصول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اُس کے جس کی حُرمت کی تصریح کر دی جائے۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کر کے دُنیا کی وسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا۔ پہلے حلّت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دُنیا اس کے لیے حرام تھی۔ اب حُرمت کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کر کے ساری دُنیا اس کے لیے حلال ہو گئی۔
حلال کے لیے ‘‘پاک’’ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیاء کے ‘‘پاک’’ ہونے کا تعین کس طرح ہوگا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیزیں اُصول شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں، یا جن چیزوں سے ذوقِ سلیم کراہت کرے، یا جنھیں مہذب انسان نے بالعموم اپنے فطری احساسِ نظافت کے خلاف پایا ہو، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص۴۴۴، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمونھن مما علمکم اللّٰہ،
‘‘جوارح، شکاری جانوروں کو کہتے ہیں۔ عام اس سے کہ وہ درندوں میں سے ہوں مثلاً کتے، شیر، چیتے وغیرہ یا پرندوں میں سے مثلاً باز اور شکرے وغیرہ۔‘کلب’ کتے کو کہتے ہیں۔ اسی سے ‘تکلیب’ بنا لیا ہے جس کے معنی کتے کو شکار کی ٹریننگ دینے کے ہیں۔ ابتداء ً تو یہ لفظ اسی معنی کے لیے استعمال ہوا لیکن پھر اس کا استعمال شکاری جانوروں کی تربیت کے لیے عام ہوگیا، خواہ کتاہو یا شکاری درندوں اور پرندوں میں سے کوئی اور جانور۔ تعلمونھن مما علمکم اللّٰہ سے اس تربیت اور ٹریننگ کی نوعیت کا اظہار ہورہا ہے کہ تم نے اس سلیقہ میں سے ان کو کچھ بتایا اور سکھایا ہو جو اللہ نے تم کو سکھایا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر تربیت میں مربی کے ذوق، اس کی پسند وناپسند اور اس کے مقصدِ تربیت کی جھلک ہوتی ہے اور اس چیز کو جس طرح زیرتربیت انسان اپناتا ہے اسی طرح اپنی جبلی استعداد کے حد تک حیوانات بھی اپناتے ہیں۔ یہ چیز سدھائے ہوئے جانوروں کو دوسرے جانوروں سے بالکل الگ کردیتی ہے اس وجہ سے ایک عام کتے کے شکار اور ایک سدھائے ہوئے کتے کے شکار میں فرق ایک امرفطری ہے، بلکہ ایک مسلمان کے تربیت کردہ کتے اور ایک عیسائی کے تربیت کردہ کتے کے میلان اور سلیقہ میں بھی فرق ہوجائے گا۔ میرے نزدیک تعلمونھن مما علمکم اللّٰہ کے الفاظ سے اسی خاص سلیقہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے جو کسی سدھائے ہوئے جانور کو اس کے مسلمان مربی سے ملتا ہے۔ اپنے اس سلیقہ کی وجہ سے یہ جانور اپنے مربی کا آلہ اور جارحہ بن جاتا ہے اور اس کا کیا ہوا شکار اس کے لیے اسی طرح طیب بن جاتا ہے جس طرح اس کے اپنے ہاتھ کا ذبیحہ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
تربیت یافتہ جانور کی علامت
‘‘فکلوا مما امسکن علیکم، امساک کے معنی روکنے اور تھامنے کے ہیں۔ جب اس کے
ساتھ علیٰ آئے جیساکہ امسک علیک وزوجک میں ہے تو اس کے اندر اختصاص کا مضمون بھی پیدا ہوجاتا ہے یعنی کسی شے کو کسی خاص کے لیے روک یا سینت رکھنا۔ اب یہ سوال کا اصل جواب ہے۔ فرمایا کہ اگر مذکورہ شرائط کے مطابق تربیت کیا ہوا جانور ہو تو اس کے کیے ہوئے شکاروں میں سے وہ شکار تمھارے لیے جائز ہوگا جو وہ خاص تمھارے لیے روک رکھے۔ چونکہ یہاں اختصاص کا مضمون پایا جاتا ہے اس وجہ سے میں اُن لوگوں کے مذہب کو زیادہ قوی سمجھتا ہوں جو کہتے ہیں کہ شکاری جانور شکار میں سے کچھ کھا لے تو وہ شکار جائز نہ ہوگا۔ یہی بات بعض احادیث سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ میرے نزدیک اس معاملے میں درندے اور پرندے کے شکار کے درمیان فرق کرنے کی بھی کوئی قوی بنیاد نہیں ہے۔ اس حد تک تربیت جس طرح درندے قبول کرلیتے ہیں، تجربہ کار بتاتے ہیں کہ باز، عقاب،شاہین بھی قبول کرلیتے ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
واذکروا اسم اللہ علیہ کا مفہوم
‘‘واذکروا اسم اللّٰہِ علیہ میں ضمیر مجرور کے مرجع سے متعلق سلف سے تین قول منقول ہیں: ایک یہ کہ شکاری جانور کو چھوڑتے وقت اس پر بسم اللہ پڑھ لیا کرو، اس قول کے قائلین کے نزدیک مرجع وما علمتم ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر شکار زندہ ہاتھ آگیا ہو تو اس کو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرلو۔ اس گروہ کے نزدیک مرجع ما امسکن ہے۔تیسرا یہ کہ اس شکار کو کھاتے وقت اس پر بسم اللہ پڑھ لیا کرو۔ ان لوگوں کے نزدیک اس کا تعلق فکلوا سے ہے۔ان میں سے پہلے قول کی تائید میں ایک حدیث ہے جو بخاری میں عدی بن حاتم سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑوں اور کوئی دوسرا کتا بھی اس میں شریک بن جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام اپنے کتے پر لیا ہے، دوسرے کتے پر نہیں ہے۔دوسرے قول میں یہ ضعف ہے کہ جب اُوپر یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ درندے کا کھایا ہوا شکار اگر زندہ ہاتھ آجائے تو اس کو ذبح کرکے کھا سکتے ہو تو تربیت یافتہ جانور کے شکار سے متعلق بعینہٖ اسی حکم کا اعادہ ایک بالکل غیرضروری بات کا اعادہ ہے۔تیسرے قول میں اس طرح کا کوئی ضعف یا اشکال اگرچہ نہیں ہے لیکن یہ بات عام آداب طعام سے تعلق رکھنے والی بات ہے۔ یہاں اس کا محل سمجھ میں نہیں آتا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
شکار بادیہ نشین قوموں کی ایک معاشی ضرورت ہے
‘‘اس سوال اور اس کے جواب کی یہ اہمیت ملحوظ رہے کہ شکار عرب میں محض ایک شوقیہ تفریح نہیں تھا بلکہ ان کے ہاں اس کو معاش کے ایک اہم ذریعے کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کی معاش کا انحصار تین چیزوں پر تھا۔ گلہ بانی، تجارت، شکار۔ اس معاشی اہمیت کے سبب سے ان کے ہاں شکاری جانوروں کی تربیت کا فن بھی کافی ترقی کر گیا تھا۔ امراء القیس جب اپنے شعروں میں اپنی کتیا کا ذکر کرتا ہے تو آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کیسی کتیا کا ذکر ہے یا کسی شعلہ صفت پُرفن قتالہ کا۔ اوریہ چیزکچھ عربوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کی تمام بادیہ نشین قوموں کی یہ مشترک خصوصیت ہے۔ اس وجہ سے حلت و حُرمت کی اس بحث میں یہ سوال پیدا ہوا اور قرآن نے اس کا جواب دیا اور اس جواب سے یہ حقیقت نہایت واضح طور پر سامنے آجاتی ہے کہ حلت و حُرمت اور پاکی و ناپاکی کے حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے شکار، فن شکار اور شکاری جانور ہرچیز کی اسلام نے عزت بڑھائی ہے۔ ایک تربیت پائے ہوئے درندے کی یہ عزت بڑھائی کہ اس کا پکڑا ہوا شکار اگر ذبح سے پہلے ہی دم توڑ دے جب بھی طیب ہے، اس فنِ تربیت کی عزت یہ بڑھائی کہ اس کو تعلیم الٰہی کا ایک جزو قرار دیا، اور یہ رہنمائی دی کہ کتوں اور درندوں کی تربیت کے معاملے میں بھی ایک مسلمان کو اپنے مخصوص اسلامی نقطۂ نظر کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔ گویا اسلام میں فنِ شکار بھی دوسروں کے فنِ شکار سے مختلف مزاج رکھتا ہے۔آخر میں واتقوا اللّٰہ ان اللّٰہ سریع الحساب، فرما کر اللہ کے مقرر کردہ حدود اور اس کے عہدوپیمان کے احترام کی یاد دہانی یہاں بھی فرما دی کہ شکار کی حرص و ہوس میں خدا کے حدود حلت و حرمت کو نہ بھول جانا ورنہ روزِ حساب بہت دُور نہیں ہے۔ یہ یاد دہانی اس پہلو سے بھی بہت ضروری تھی کہ جب شکار معاشی ضرورت ہو تو اس میں بے احتیاطی کے بڑے امکانات ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
شکاری کتے اور باز وغیرہ کے ذریعہ شکار حلال ہونے کے لیے چار شرطیں
‘‘پہلی آیت میں حلال و حرام جانوروں کا ذکر تھا۔ اس آیت میں اسی معاملہ کے متعلق ایک سوال کا جواب ہے۔ بعض صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکاری کتے اور باز سے شکار کرنے کا حکم دریافت کیا تھا، اس آیت میں اس کا جواب مذکور ہے۔مذکور الصدر جواب و سوال میں شکاری کتے اور باز وغیرہ کے ذریعہ شکار حلال ہونے کے لیے چار شرطیں ذکر کی گئی ہیں: اوّل یہ کہ کتا یا باز سکھایا اور سدھایا ہوا ہو اور سکھانے سدھانے کا یہ اصول قرار دیا ہے کہ جب تم کتے کو شکار پر چھوڑ دو تو وہ شکار پکڑ کر تمہارے پاس لے آئے۔ خود اُس کو کھانے نہ لگے۔ اور باز کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ جب تم اس کو واپس بلاؤ تو وہ فوراً آجائے۔ اگرچہ وہ شکار کے پیچھے جا رہا ہو۔ جب یہ شکاری جانور ایسے سدھ جائیں تو اس سے ثابت ہوگا کہ وہ جو شکار کرتے ہیں تمہارے لیے کرتے ہیں اپنے لیے نہیں، اب ان شکاری جانوروں کا شکار خود تمہارا شکار سمجھا جائے گااور اگر کسی وقت وہ اس تعلیم کے خلاف کریں مثلاً کتا خود شکار کو کھانے لگے یا باز تمہارے بلانے پر واپس نہ آئے تو یہ شکار تمہارا نہیں رہا۔اس لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔دوسری شرط یہ ہے کہ تم فوراً اپنے ارادہ سے کتے کو یا باز کو شکار کے پیچھے چھوڑ دو۔ یہ نہ ہو کہ وہ خود بخود کسی شکار کے پیچھے دوڑ کر اس کو شکار کرلیں۔ آیت مذکور میں اِس شرط کا بیان لفظ مکلبین سے کیا گیا ہے۔ یہ لفظ دراصل تکلیب سے مشتق ہے، جس کے اصلی معنی کتوں کو سکھلانے کے ہیں۔ پھر عام شکاری جانوروں کو سکھلانے کے شکار پر چھوڑنے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ صاحبِ جلالین اس جگہ مکلبین کی تفسیر ارسال سے کرتے ہیں جس کے معنی ہیں: شکار پر چھوڑنا اور تفسیر قرطبی میں بھی یہ قول نقل کیا گیا ہے۔تیسری شرط یہ ہے کہ شکاری جانور شکار کو خود نہ کھانے لگیں بلکہ تمہارے پاس لے آئیں۔ اس شرط کا بیان مما امسکن علیکم سے ہوا ہے۔چوتھی شرط یہ ہے کہ جب شکاری کتے یا باز کو شکار پر چھوڑو تو بسم اللہ کہہ کر چھوڑو۔ جب یہ چاروں شرطیں پوری ہوں تو اگر جانور تمہارے پاس آنے تک دم توڑ چکا ہو تو بھی حلال ہے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ ورنہ بغیر ذبح کے تمہارے لیے حلال نہ ہوگا۔امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک ایک پانچویں شرط یہ بھی ہے کہ یہ شکاری جانور شکار کو زخمی بھی کردے۔ اس شرط کی طرف لفظ جوارح میں اشارہ موجود ہے۔مسئلہ، یہ حکم اُن وحشی جانوروں کا ہے جو اپنے قبضہ میں نہ ہوں، اور اگر کسی وحشی جانور کو اپنے قابومیں کرلیاگیاہے تو وہ بغیر باقاعدہ ذبح کے حلال نہیں ہوگا۔آخر آیت میں یہ ہدایت بھی کردی گئی ہے کہ شکاری جانور کے ذریعہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے حلال تو کر دیا ہے، مگر شکار کے پیچھے لگ کر نماز اور ضروری احکامِ شریعہ سے غفلت برتنا جائز نہیں۔’’(معارف القرآن، جلد سوم، ص ۴۰ ادارۃ المعارف کراچی)
‘‘شکاری جانوروں سے مراد کتے، چیتے، باز ، شکرے اور تمام وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کی خدمت لیتا ہے۔ سدھائے ہوئے جانور کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کا شکار کرتا ہے اُسے عام درندوں کی طرح پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے عام درندوں کا پھاڑا ہوا جانور حرام ہے اور سدھائے ہوئے درندوں کا شکار حلال۔اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر شکاری جانور نے، خواہ وہ درندہ ہو یا پرندہ، شکار میں سے کچھ کھا لیا تو وہ حرام ہوگا کیونکہ اس کا کھا لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے شکار کو مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا۔ یہی مسلک امام شافعی کا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تب بھی وہ حرام نہیں ہوتا، حتیٰ کہ اگر ایک تہائی حصہ بھی وہ کھا لے تو بقیہ دو تہائی حلال ہے، اور اس معاملے میں درندے اور پرندے کے درمیان کچھ فرق نہیں۔یہ مسلک امام مالک کا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ شکاری درندے نے اگر شکار میں سے کھا لیا ہو تو وہ حرام ہوگا، لیکن اگر شکاری پرندے نے کھایا ہو تو حرام نہ ہوگا۔ کیونکہ شکاری درندے کو ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑ رکھے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ شکاری پرندہ ایسی تعلیم قبول نہیں کرتا۔ یہ مسلک امام ابوحنیفہ اور اُن کے اصحاب کا ہے۔ اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شکاری پرندے کا شکار سرے سے جائز ہی نہیں ہے، کیونکہ اسے تعلیم سے یہ بات نہیں سکھائی جا سکتی کہ شکار کو خود نہ کھائے بلکہ مالک کے لیے پکڑ رکھے۔یعنی شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیا میں کتّے کے ذریعہ سے شکار کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا کہ ‘‘اگر اس کو چھوڑتے ہوئے تم نے اللہ کا نام لیا ہو تو کھاؤ ورنہ نہیں۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاؤ کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا’’۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ اگر میں شکار پر اپنا کتا چھوڑوں اور بعد میں دیکھوں کہ کوئی اور کتا وہاں موجود ہے؟ آپ نے جواب دیا ‘‘اس شکار کو نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے خدا کا نام اپنے کتے پر لیا تھا نہ کہ دوسرے کتے پر’’۔اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے خدا کا نام لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر شکار زندہ ملے تو پھر خدا کا نام لے کر اسے ذبح کر لینا چاہیے اور اگر زندہ نہ ملے تو اس کے بغیر ہی وہ حلال ہوگا، کیونکہ ابتداًء شکاری جانور کو اس پر چھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا چکا تھا۔ یہی حکم تیر کا بھی ہے۔’’(تفہیم القرآن، جلد۱، ص ۴۴۶،مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
الیوم اُحل ککم الطیبت………… من الخاسرین
‘‘یہ آیت اس انعام عام کا اعلان ہے جو خاتم الانبیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعے سے تمام دنیا پر عموماً اور اہلِ کتاب پر خصوصاً ہونے والا تھا۔ پچھلے صحیفوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے متعلق جو پیشین گوئیاں وارد ہیں، ان میں یہ تصریح موجود ہے کہ جب آخری نبی آئیں گے تو اہلِ کتاب کو طیبات و خبائث سے متعلق خدا کے امرونہی سے آگاہ کریں گے اور حلال و حرام کے باب میں ان تمام پابندیوں اور بیڑیوں سے ان کو آزاد کریں گے جو انھوں نے اپنے اُوپر یا تو ازخود عائد کر رکھی ہیں یا ان کی سرکشی کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کردی ہیں۔ قرآن مجید نے ان تمام پیشین گوئیوں کا حوالہ سورۂ اعراف میں میں دیا ہے: آپ نے تمام طیب اور پاکیزہ چیزیں جائز کر دیں جن میں بعض یہود کے ہاں حرام تھیں۔ تمام خبیث چیزیں حرام ٹھہرائیں جن میں سے بعض یہود و نصاریٰ نے جائز بنا لی تھیں اور وہ تمام پابندیاں اور بیڑیاں ختم کر دیں جو انھوں نے یا تو ازخود اپنے اُوپر لادی تھیں یا ان کی ضد، سرکشی، اور کٹ حجتی کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد کر دی گئی تھیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
ایک سوال اور اس کا جواب
‘‘ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہود منتظر کب تھے کہ قرآن ان کے لیے مسلمانوں کے کھانے کے جائز ہونے کا اعلان کرے، پھر اس کا فائدہ کیا، یہ تو مفت کرم داشتن کے قسم کی بات ہوئی، اس کا جواب یہ ہے کہ یہود منتظر تو تھے اور منتظر ہوتے کیوں نہ جب کہ ان کے اپنے صحیفوں میں آخری نبی کی پیشین گوئی اس تصریح کے ساتھ موجود تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو تمام اصرواغلال سے نجات دیں گے، لیکن اس نبی کی بعثت چونکہ ان کے حریفوں یعنی بنی اسماعیل کے اندر ہوئی۔ اس وجہ سے جان بوجھ کروہ اس کی مخالفت کے درپے ہوگئے اور حسد میں انھوں نے اپنے آپ کو ان تمام رحمتوں اور برکتوں سے محروم کر لیا جن کے سب سے پہلے حقدار وہی تھے اگر وہ نبی اُمی پر ایمان لاتے۔پھر فرض کیجیے، بنی اسرائیل اس کے منتظر نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ ان سے فرمایا تھا اس کو تو پورا ہونا تھا۔ ان سے جب یہ وعدہ تھا کہ آخری نبی کے ذریعے سے کھانے پینے کے معاملے میں وہ تمام پابندیاں ان سے اُٹھا لی جائیں گی جو ان کی سرکشی کے سبب سے عائد ہوئی ہیں تو جب اس وعدے کے پورا کرنے کا وقت آیا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا کھانا ان کے لیے جائز کرکے یہ وعدہ پورا کردیا۔ رہی یہ بات کہ انھوں نے اس کی قدر نہیں کی تویہ ان کی اپنی محرومی ہے۔ ان کی نالائقی کی وجہ سے آخر خدا اپنے وعدے کو کیوں فراموش کرتا؟’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
خبیث او رطیب
‘‘حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں بیان فرمایا ہے کہ جتنے جانور شریعتِ اسلام نے حرام قرار دیئے ہیں، ان سب پر غور کیا جائے تو سمٹ کر یہ سب دو اُصولوں کے تحت آجاتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی جانور اپنی فطرت و طبیعت کے اعتبار سے خبیث ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کے ذبح کا طریقہ غلط ہو، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ذبیحہ کے بجائے میتہ یعنی مُردار قرار دیا جائے گا۔سورۂ مائدہ کی تیسری آیت میں نو چیزوں کو حرام بتلایا ہے۔ ان میں خنزیر قسم اوّل میں داخل ہے۔ باقی آٹھ قسم دوم میں، قرآن کریم نے ویحرم علیھم الخبائث فرما کر اجمالی طور پر تمام خبیث جانوروں کے حرام ہونے کا حکم دیا اور اس کی تفصیل میں سے چند چیزیں قرآن نے صراحتاً بیان فرما دیں۔ جیسے لحم خنزیر اور دم مسفوحٍ وغیرہ۔ باقی چیزوں کا بیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جانور کے خبیث ہونے کی ایک علامت یہ بتلائی کہ کسی قوم کو بطور عذاب کے جس جانور کی شکل میں مسخ و تبدیل یا گیا ہو توی ہ علامت اس کی ہے کہ یہ جانور طبعاً خبیث ہے کہ جن لوگوں پر حق تعالیٰ کا غضب نازل ہوا، ان کو اس جانور کی شکل دی گئی۔ مثلاً قرآن کریم میں ہے: وجعل منھم القردۃ والخنازیر،یعنی بعض قوموں کو خنزیر اور بندر کی شکل میں بطور عذاب کے مسخ کیا گیا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ جانوروں کی یہ دونوں قسمیں بالطبع خبائث میں داخل ہیں۔ ان کو باقاعدہ ذبح بھی کردیاجائے تو بھی حلال نہیں ہوسکتے اور بہت سے جانور ایسے بھی ہیں کہ افعال و آثار اُن کا خبیث ہونا عام طبائع خود بھی محسوس کرلیتی ہیں، مثلاً درندے جانور، جن کا کام ہی دوسرے جانوروں کو زخمی کرنا، پھاڑنا کھانا ہے اور سخت دلی ہے۔اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھیڑیئے کے متعلق کسی نے دریافت کیا تو فرمایا کہ کیا کوئی انسان اس کو کھا سکتا ہے۔ اسی طرح بہت سے ایسے جانور ہیں جن کی خصلت ایذا رسانی، چیزوں کو اُچک لینا ہے جیسے سانپ، بچھو، چھپکلی، مکھی یا چیل اور باز وغیرہ۔اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضابطہ کے طور پر بیان فرمایا کہ ہر درندہ جانور جو دانتوں سے پھاڑ سکتا ہے جیسے شیر، بھیڑیا وغیرہ۔ اور پرندوں میں وہ جانور جو اپنے پنجے سے شکار کرتے ہیں، جیسے باز، شکرہ وغیرہ یہ سب حرام ہیں۔ یا ایسے جانور جن کی طبیعت میں خسّت اور ذلت یا نجاسات کے ساتھ ملوث ہونا ہے، جیسے چوہا یا مُردار خور جانور یاگدھا وغیرہ، یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ان جانوروں کے طبعی خواص اور ان کا مضر ہونا ہر انسان جو معمولی سلامت طبع رکھتا ہو، محسوس کرتا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ جن جانوروں کو شریعت اسلام نے حرام قرار دیا ہے ان میں سے ایک قسم تو وہ ہے جن میں ذاتی طور پر خبث پایا جاتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے کہ ان کی ذات میں کوئی خبث نہیں۔ مگر جانوروں کے ذبح کرنے کا جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اس طریقہ پر اس کو ذبح نہیں کیا گیا، خواہ سرے سے ذبح ہی نہیں کیا گیا ہو۔ جیسے جھٹکا کرکے مارا ہو یا چوٹ کے ذریعہ مارا ہوا جانور یا ذبح تو کیا مگر اس پر اللہ کے نام کے بجائے کسی غیراللہ کا نام لیا یا کسی کا بھی نہ لیا اور جان بوجھ کر اللہ کے نام کو بوقت ذبح چھوڑ دیا تو یہ ذبح بھی شرعاً معتبر نہیں بلکہ ایسا ہی ہے جیسے کسی جانور کو بغیر ذبح کے ہلاک کر دیا ہو۔یہاں ایک بات خاص طور سے قابلِ غور ہے کہ انسان جو کچھ کھاتا پیتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں مگر جانوروں کے سوا اور کسی چیز کے کھانے پکانے پر یہ پابندی نہیں ہے کہ اللہ اکبر یا بسم اللہ کہہ کر ہی کھایا پکایا جائے اس کے بغیر وہ حلال ہی نہ ہو۔، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ہرچیز کھانے پینے کے وقت بسم اللہ کہنا مستحب قرار دیا جاتا ہے۔ بخلاف جانوروں کے ان کے ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا واجب قرار دیا گیا اور جان بوجھ کر کوئی اس وقت اللہ کا نام ترک کر دے تو جانوروں کو مُردار اور حرام قرار دیا گیا اس میں حکمت کیا ہے۔غور کیا جائے تو فرق واضح ہے کہ جانداروں کی جانیں ایک حیثیت سے سب برابر ہیں۔ اس لیے ایک جاندار کے لیے دوسرے جاندار کو فنا کرنا اور ذبح کرکے کھا لینا بظاہر جائز نہ ہونا چاہیے۔ اب جن کے لیے یہ جائز کیا گیا تو اُن پر اللہ تعالیٰ کا ایک بھاری انعام ہے۔ اس لیے جانور کو ذبح کرنے کے وقت اس نعمتِ الٰہیہ کا استحضار اور ادائے شکر ضروری قرار دیا گیا۔ بخلاف غلّہ، دانہ، پھل وغیرہ کہ ان کی پیدائش ہی اس لیے ہے کہ انسان اُن کو فنا کر کے اپنی ضروریات پوری کرے۔ اس لیے ان پر صرف بسم اللہ کہنا مستحب کے درجہ میں رکھا گیا ہے، واجب اور ضروری نہیں کیا گیا۔’’(معارف القرآن، جلد سوم، ص ۴۴ ، ادارۃ المعارف کراچی)
اہل کتاب سے مراد
‘‘اس جگہ چند مسائل قابلِ غور ہیں۔ اوّل یہ کہ اہلِ کتاب قرآن و سنت کی اصطلاح میں کون لوگ ہیں۔ کتاب سے کیا مراد ہے؟ اور کیا اہلِ کتاب ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لوگ اپنی کتاب پر صحیح طور سے ایمان و عمل رکھتے ہوں۔ باتفاق اُمت کتاب سے مراد وہ آسمانی کتاب ہے جس کا کتاب اللہ ہونا بتصدیق قرآن یقینی ہو۔ جیسے تورات، انجیل، زبور، صحفِ موسٰی و ابراہیم وغیرہ۔ اس لیے وہ قومیں جو کسی ایسی کتاب پر ایمان رکھتی اور اس کو وحی الٰہی قرار دیتی ہوں جس کا کتاب اللہ ہونا قرآن و سنت کے یقینی ذرائع سے ثابت نہیں۔ وہ قومیں اہلِ کتاب میں داخل نہیں ہوں گی۔ جیسے مشرکین مکہ، مجوس، بت پرست، ہندو، بدھ، آریہ، سکھ وغیرہ۔اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جو تورات و انجیل پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ باصطلاح قرآن اہلِ کتاب میں داخل ہیں۔ بہرحال یقینی طور پر جن کو باتفاق اہلِ کتاب کہا جاتا ہے وہ یہود و نصاریٰ ہیں۔اب رہا یہ معاملہ کہ یہود و نصاریٰ کو اہلِ کتاب کہنے اور سمجھنے کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ وہ صحیح طور پر اصلی تورات و انجیل پر عمل رکھتے ہوں۔ یا محرف تورات اور انجیل کا اتباع کرنے والے اور عیسیٰ ومریم علیہما السلام کو خدا کا شریک قرار دینے والے بھی اہلِ کتاب میں داخل ہوں۔ سو قرآن کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعویدار ہوں۔ خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گمراہیوں میں جا پڑے ہوں۔قرآن کریم نے جن کو اہلِ کتاب کا لقب دیا۔ انھی کے بارے میں یہ بھی جابجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔ یحرفون الکلم عن مواضعہ۔اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو۔ قالت الیھود عزیر بن اللہ وقالت انصاری المسیح ابن اللہ۔ان حالات و صفات کے باوجود جب قرآن نے اُن کو اہلِ کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑ دیں وہ اہلِ کتاب میں داخل ہیں خواہ وہ کتنے ہی عقائد فاسدہ اور اعمالِ سیہ میں مبتلا ہوں۔امام جصاص نے احکام القرآن میں نقل کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ کے عہدِخلافت میں آپ کے کسی عامل یا گورنر نے ایک خط لکھ کر یہ دریافت کیا کہ یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تورات پڑھتے ہیں اور یوم السبت یعنی ہفتہ کے دن کی تعظیم بھی یہود کی طرح کرتے ہیں۔ مگر قیامت پر ان کا ایمان نہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے تحریر فرمایا کہ وہ اہل کتاب ہی کا ایک فرقہ سمجھے جائیں گے۔آج کل یورپ کے عیسائی اور یہودیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبار سے یہودی یا نصرانی کہلاتے ہیں مگر درحقیقت وہ خدا کے وجود اور کسی مذہب ہی کے قائل نہیں۔ نہ تورات و انجیل کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور نہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا نبی و پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ شخص مردم شماری کے نام کی وجہ سے اہلِ کتاب کے حکم میں داخل نہیں ہوسکتے۔نصاریٰ کے بارے میں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ان کا ذبیحہ حلال نہیں، اس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ لوگ دین نصرانیت میں سے بجز شراب نوشی کے اور کسی چیز کے قائل نہیں۔ابن جوزی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت علیؓ کایہ قول نقل کیا ہے کہ نصاریٰ بنی تغلب کے ذبائح کونہ کھاؤ کیونکہ انھوں نے مذہب نصرانیت میں سے شراب نوشی کے سوا کچھ نہیں لیا۔ امام شافعی نے بھی سند صحیح کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بنی تغلب کے متعلق یہی معلومات تھیں کہ وہ بے دین ہیں نصرانی نہیں۔ اگرچہ نصرانی کہلاتے ہیں۔ اس لیے ان کے ذبیحہ سے منع فرمایا۔ جمہور صحابہ و تابعین کی تحقیق یہ تھی کہ یہ بھی عام نصرانیوں کی طرح ہیں۔
بالکل دین کے منکر نہیں اس لیے انھوں نے ان کا ذبیحہ بھی حلال قرار دیا۔خلاصہ یہ ہے کہ جن نصرانیوں کے متعلق یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ خدا کے وجود ہی کو نہیں مانتے یا حضرت موسیٰ و عیسٰی علیہما السلام کو اللہ کا نبی نہیں مانتے۔ وہ اہلِ کتاب کے حکم میں نہیں۔’’ (معارف القرآن ،ج۳ ، ص۴۷، ادارۃ المعارف کراچی)
طعام اہلِ کتاب سے کیا مراد ہے؟
‘‘طعام کے لغوی معنی کھانے کی چیز کے ہیں جس میں ازروئے لغت عربی ہرقسم کی کھانے کی چیزیں داخل ہیں لیکن جمہور اُمت کے نزدیک اس جگہ طعام سے مراد صرف اہلِ کتاب کے ذبائح کا گوشت ہے۔ کیونکہ گوشت کے سوا دوسری اشیا خوردنی میں اہلِ کتاب اور دوسرے کفر میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں۔ کھانے پینے کی خشک چیزیں، گیہوں، چنا، چاول اور پھل وغیرہ ہر کافر کے ہاتھ کا حلال و جائز ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں اور جس کھانے میں انسانی صنعت کو دخل ہے اس میں چونکہ کفار کے برتنوں اور ہاتھوں کی طہارت کا کوئی بھروسہ نہیں اس لیے احتیاط اس میں ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ بلاضرورت شدید استعمال نہ کریں۔ آیتِ مذکورہ میں باتفاق اُمت طعام اہلِ کتاب سے مراد ان کے ذبائح ہیں۔ امام قرطبی نے لکھا کہ علماء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ چیزیں جن میں ذکاۃ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مثلاً وہ کھانا جس میں تصرف نہیں کرنا پڑتا جیسے میوہ اور گندم وغیرہ اس کا کھانا جائز ہے۔ اس لیے کہ اس میں کسی کا مالک بننا چنداں مضر نہیں ہے۔ البتہ وہ کھانا جس میں انسان کو کچھ عمل کرنا پڑتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جس میں کوئی ایسا کام کرنا پڑے جس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو، مثلاً آٹے سے روٹی بنانا، زیتون سے تیل نکالنا وغیرہ تو کافر ذمی کی ایسی چیزوں سے اگر کوئی بچنا چاہے تو وہ محض طبعی کراہت کی بنا پر ہوگا اور دوسری قسم وہ ہے جس میں عمل ذبح کرنا پڑتا ہے جس کے لیے دین اور نیت کی ضرورت ہے۔ تو اگرچہ قیاس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ کافر کی نماز اور عبادتوں کی طرح اس کا عمل ذبح بھی قبول نہ ہونا چاہیے تھا، لیکن اللہ نے اس اُمت کے لیے خاص طور پر ان کے ذبائح حلال کر دیئے اور حضرت ابن عباسؓ کی نص نے اس مسئلہ کو خلافِ قیاس ثابت کیا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ طعام اہلِ کتاب سے مراد اس آیت میں باتفاق علماء تفسیر وہ طعام ہے جس کی حلّت مذہب اور عقیدہ پر موقوف ہے۔ یعنی ذبیحہ اسی لیے اس طعام میں اہلِ کتاب کے ساتھ امتیازی معاملہ کیا گیا کیونکہ وہ بھی اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان کے مدعی ہیں۔ اگرچہ ان کی تحریفات نے ان کے دعویٰ کو مجروح کر دیا۔ یہاں تک کہ شرک و کفر میں مبتلا ہوگئے۔ بخلاف بت پرست مشرکین کے وہ کسی آسمانی کتاب یا نبی یا رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی نہیں رکھتے۔ اور جن کتابوں یا شخصیتوں پر ان کا ایمان ہے۔ وہ نہ اللہ کی بھیجی ہوئی کتابیں ہیں اور نہ ان کا رسول و نبی ہونا اللہ کے کسی کلام سے ثابت ہے۔’’ (معارف القرآن ،ج۳، ص ۴۹ ، ادارۃ المعارف کراچی)
اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہونے کی حکمت اور وجہ
‘‘ اس کا جواب اکثر صحابہ و تابعین اور آئمہ تفسیر کی طرف سے یہ ہے کہ تمام کفار میں سے اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح حلال قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے دین میں سینکڑوں تحریفات ہونے کے باوجود ان دو مسئلوں میں ان کا مذہب بھی اسلام کے بالکل مطابق ہے۔ یعنی وہ ذبیحہ پر اللہ کا نام لینا عقیدۃً ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے بغیر جانور کو مُردار میتہ اور ناپاک و حرام قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح مسئلہ نکاح میں جن عورتوں سے اسلام میں نکاح حرام ہے ان کے مذہب میں بھی حرام ہے، اور جس طرح اسلام میں نکاح کا اعلان اور گواہوں کے سامنے ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح ان کے موجودہ مذہب میں بھی یہی احکام ہیں۔’’ (معارف القرآن ،ج۳ ، ص ۵۱ ، ادارۃ المعارف کراچی)
اہلِ کتاب کا کھانا اسلامی حدودِ حلت و حرمت کی پابندی کے ساتھ جائز ہے
‘‘اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مسلمانوں کو اہلِ کتاب کے کھانے پینے کی چیزوں سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت جو دی گئی ہے وہ اس وقت دی گئی ہے۔ جب ان کو اس باب کی آخری ہدایات سے آگاہ کیا جاچکا ہے۔ جب حلال و حرام دونوں اچھی طرح واضح کر دیے گئے ہیں، جب اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں کی بدعات کی تفصیل ان کو سنا دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سارے اہتمام کا مقصد مسلمانوں کو یہ بتانا تھا کہ تم دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ معاشرتی تعلقات رکھو لیکن حلّت و حُرمت کے ان حدود کی پابندی کے ساتھ جو تمہارے لیے قائم کر دیے گئے ہیں۔ اس آیت میں ‘الیوم’ کا لفظ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اب تمہیں خبیث و طیب کا پورا امتیاز حاصل ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے تمہیں یہ اجازت دی جارہی ہے۔ یہ خطرہ نہیں رہا کہ تم ان کے دسترخوان پر بیٹھ کر کسی حرام یا مشتبہ میں مبتلا ہوجاؤ گے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘ اہل کتاب کے کھانے میں اُن کا ذبیحہ بھی شامل ہے۔ ہمارے لیے اُن کا اور اُن کے لیے ہمارا کھانا حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور اُن کے درمیان کھانے پینے میں کوئی رکاوٹ اور کوئی چھوت چھات نہیں ہے۔ ہم اُن کے ساتھ کھا سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ۔ لیکن یہ عام اجازت دینے سے پہلے اس فقرے کا اعادہ فرمایا گیا ہے کہ ‘‘تمھارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں’’۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب اگر پاکی و طہارت کے اُن قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطہء نظر سے ضروری ہیں، یا اگر اُن کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ خدا کا نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کریں، یا اس پر خدا کے سوا کسی اَور کا نام لیں، تو اُسے کھانا ہمارے لیے جائز نہیں۔ اِسی طرح اگر اُن کے دسترخوان پر شراب یا سورُ یا کوئی اور حرام چیز ہو تو ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے۔اہل کتاب کے سوا دُوسرے غیرمسلموں کا بھی یہی حکم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ذبیحہ اہل کتاب ہی کا جائز ہے جبکہ اُنھوں نے خدا کا نام اس پر لیا ہو، رہے غیر اہل کتاب، تو ان کے ہلاک کیے ہوئے جانور کو ہم نہیں کھا سکتے۔’’(تفہیم القرآن،ج۱ ،ص ۴۴۶، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور)
اہل کتاب کا ذبیحہ کب جائز نہیں
‘‘ اہلِ کتاب کے ذبائحہ جن پر قصداً اللہ کا نام لینا چھوڑ دیا ہو، یا غیراللہ کے نام پر ذبح کیے گئے ہوں۔ وہ حلال نہیں، اگر یقینی طور پر اس کا علم ہوجائے کہ اس پر اللہ کا نام نہیں لیا، یا غیراللہ کا لیا ہے، یا اہلِ کتاب کی عام عادت یہ ہوجائے تو بھی جائز نہیں۔پس یہی حکم عجمی نصاریٰ کا بھی ہے کہ اگر ان کی عادت یہی ہوجائے کہ عام طور پر غیراللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں، تو ان کا ذبیحہ کھاناجائز نہیں اور اس میں شک نہیں کہ آج کل کے نصاریٰ تو ذبح ہی نہیں کرتے بلکہ عام طور پر چوٹ مار کر ہلاک کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔’’ (معارف القرآن ،ج۳ ، ص۵۷، ادارۃ المعارف کراچی)
کتابیات سے جوازِ نکاح کی شرط
‘‘اس کے بعد فرمایا کہ جس طرح تمہارے لیے شریف اور پاک دامن عورتوں سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح شریف اور پاک دامن کتابیات سے بھی نکاح جائز ہے۔ یہاں لفظ محصنات استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں تین معنوں میں آیا ہے اور ہم اس کے تینوں معنوں کی وضاحت دوسرے مقام میں کرچکے ہیں۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد باعزت، شریف اوراچھے اخلاق کی عورتیں ہیں۔ یعنی یہ اجازت مشروط ہے اس شرط کے ساتھ کہ یہ عورتیں بدچلن، پیشہ ور، آوارہ اور بدقوارہ نہ ہوں۔ جس طرح تمہارے لیے ان کے دسترخوان کی صرف طیبات جائز ہیں۔ اسی طرح ان کی عورتوں میں سے صرف محصنات جائز ہیں۔ہمارے سلف صالحین میں سے ایک گروہ نے دارالحرب اور دارالکفر میں کتابیات سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کے جواز کے لیے دارالاسلام ہونا بھی ایک شرط ہے۔ مجھے یہ قول بہت ہی قوی معلوم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات انھوں نے فحوائے کلام سے مستنبط کی ہے۔ میں اس کے ماخذ کے لیے لفظ ‘الیوم’ کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی دخل ہے۔ جب مسلمانوں کو یہ اجازت دی گئی تو کفار کا دبدبہ ختم ہوچکا تھا اور مسلمان ایک ناقابلِ شکست طاقت بن چکے تھے۔ یہ اندیشہ نہیں تھا کہ ان کو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی تو وہ کسی احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر تہذیب اور معاشرت اور اعمال و اخلاق میں ان سے متاثر ہوں گے۔ بلکہ توقع تھی کہ مسلمان ان سے نکاح کریں گے تو ان کو متاثر کریں گے اور اس راہ سے ان کتابیات کے عقائد و اعمال میں خوشگوار تبدیلی ہوگی اور عجب نہیں کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہوجائیں۔علاوہ ازیں یہ پہلو بھی قابلِ لحاظ ہے کہ کتابیات سے نکاح کی اجازت بہرحال علی سبیل التنزل دی گئی ہے۔ اس میں آدمی کے خود اپنے اور اس کے آل و اولاد اور خاندان کے دین و ایمان کے لیے جو خطرہ ہے، وہ مخفی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مردوں کو تو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی لیکن مسلمان عورت کو کسی صورت میں بھی کسی غیرمسلم سے نکاح کی اجازت نہیں دی گئی خواہ کتابی ہو یا غیرکتابی۔ یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اجازت صرف ایک اجازت ہے۔ یہ کوئی مستحسن چیز نہیں ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘ نکاح کرنے میں عورت کی پارسائی کا لحاظ مستحب ہے لیکن صحت نکاح کے لیے شرط نہیں۔’’ (خزائن العرفان ، ص ۱۹۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
‘‘ کسی عورت کا صرف یہودی یا نصرانی ہونا اس کی حُرمت کا باعث نہیں۔ لیکن اگر اس کی وجہ سے اور خرابیاں رُوپذیر ہوتی ہوں تو پھر حُرمت لغیرہ ثابت ہوجائے گی۔ یہ عام طور پردیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں نے ایسی عورتوں سے شادی کی۔ ان کے گھروں میں وہی طرزِ معاشرت داخل ہوگئی۔ وہی بے پردگی، وہی غیرمردوں سے عام اختلاط، اسلامی عبادات سے بے رغبتی اور اخلاق و آداب سے بے رُخی۔ اور پھر یہی اثر ان کی اولاد میں بھی چلا جاتا ہے۔ تاریخ میں ایسی مثالیں بکثرت ملتی ہیں کہ یہودی و نصرانی عورتوں نے مسلمانوں کے ایسے ایسے راز اپنی قوم تک پہنچائے جس سے مسلمانوں کو سخت نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ اس لیے اگر ان وجوہات کے باعث ایسی عورتوں سے نکاح کرنے پر پابندی لگا دی جائے تو عین حکمت ہے’’(ضیا القرآن ،ج۱ ، ص۴۴۳ ، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
‘‘سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۱ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسلمان نہ مشرک عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں اور نہ اپنی عورتیں مشرکین کے نکاح میں دے سکتے ہیں۔ یہ حکم جس طرح مشرکین عرب سے متعلق تھا، اِسی طرح اشتراک علت کی بنا پر یہود و نصاریٰ سے بھی متعلق ہو سکتا تھا، کیونکہ علم و عمل، دونوں میں وہ بھی شرک جیسی نجاست سے پوری طرح آلودہ تھے، تاہم اصلاً چونکہ توحید ہی کے ماننے والے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے رعایت فرمائی اور اُن کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی ہے۔ آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اُس وقت دی گئی، جب حلال و حرام اور شرک و توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ اِس کے لیے آیت کے شروع میں لفظ ‘اَلْیَوْمَ’ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اجازت میں شرک و توحید کے وضوح اور شرک پر توحید کے غلبے کو بھی یقینا دخل تھا۔ لہٰذا اِس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان اِن عورتوں سے نکاح کریں گے تو یہ اُن سے لازماً متاثر ہوں گی اور شرک و توحید کے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہوگا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ اُن میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ یہ چیز اِس اجازت سے فائدہ اٹھاتے وقت اِس زمانے میں بھی ملحوظ رہنی چاہیے۔’’ (البیان)
‘‘مگر یہ یاد رہے کہ ہمارے زمانہ کے ‘‘نصاریٰ’’ عموماً برائے نام نصاریٰ ہیں۔ ان میں بکثرت وہ ہیں جو نہ کسی کتاب آسمانی کے قائل ہیں نہ مذہب کے نہ خدا کے، ان پر اہلِ کتاب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ان کے ذبیحہ اور نساء کا حکم اہلِ کتاب کا سا نہ ہوگا، نیزیہ ملحوظ رہے کہ کسی چیز کے حلال ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں فی حد ذاتہ کوئی وجہ تحریم کی نہیں۔ لیکن اگر خارجی اثرات و حالات ایسے ہوں کہ اس حلال سے منتفع ہونے میں بہت سے حرام کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے بلکہ کفر میں مبتلا ہونے کا احتمال ہو تو ایسے حلال سے انتفاع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ موجودہ زمانہ میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ کھانا پینا، بے ضرورت اختلاط کرنا، ان کی عورتوں کے جال میں پھنسنا، یہ چیزیں جو خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں وہ مخفی نہیں۔ لہٰذا بدی اور بددینی کے اسباب و ذرائع سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۳۸ )
ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ۔۔۔
‘کفربالایمان’ کا مطلب
‘‘کفربالایمان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا اور رسول کو ماننے کا دعویٰ بھی کرے اور ساتھ ہی خدا اور رسولؐ کے احکام کے صریح خلاف محض اپنی خواہشات کی اتباع میں قانون و شریعت ایجاد کرکے اس پر عمل پیرا بھی ہو۔ یہ وہی ایمان ہے جس کو قرآن نے نومن ببعضٍ وتکفزُ ببعضٍ سے تعبیر کیا ہے۔ کفروایمان دونوں کے اس ملغوبہ کی خدا کے ہاں کوئی پوچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان صرف وہ معتبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے شرائط پر ہے۔ جو لوگ اپنے شرائط پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان ان مدعیانِ ایمان کے منہ پر پھینک مارا جائے گا اور اس قسم کے ایمان کے تحت کیے ہوئے سارے اعمال خدا کے ہاں ڈھے جائیں گے۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘یعنی ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے اپنے علم و عمل میں کفروشرک اختیار کرتے یا اُن کے ساتھ مصالحت روا رکھتے ہیں۔ ’’ (البیان)
مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ، ۵۔ سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی
تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ؒ ، ۳۔ خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیاء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی،۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی